مضبوط چہرے والی ایک لمبی اور دبلی پتلی ماہی گیر خاتون سندر بن کے جنگلات میں واقع ایک جزیرہ، کُلتالی کے ساکت پانی میں ڈوبتے ہوئے شام کے سورج کو غور سے دیکھ رہی ہیں؛ انیما منڈل ناراض ہیں۔ انہوں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے۔
وہ یہاں ایک میٹنگ کے لیے آئی تھیں جو کُلتالی فاریسٹ رینج کے بیٹ افسر کے ذریعہ ۱۴ فروری ۲۰۱۵ کو دوپہر ۲ بجے، ندی کے اُس پار، کُلتالی کے ایک کونے میں فاریسٹ رینج کے احاطہ میں طے کی گئی تھی۔ اس اہم میٹنگ کے لیے تقریباً ۵۰ عورتیں، اور چند مرد وہاں پہنچے تھے تاکہ اپنے دو ضروری مطالبات سامنے رکھ سکیں – ان سے ضبط کی گئی مچھلی پکڑنے کی کشتیاں (ڈونگا) انہیں لوٹائی جائیں اور عورتوں کو روایتی چھوٹے پیمانہ کی ماہی گیر کارکن تسلیم کرتے ہوئے انہیں اپنے معاش کے لیے مچھلی پکڑنے کا حق دیا جائے۔
کلتالی مہیلا ڈونگا متسیہ جیبی سمیتی کے ذریعہ منظم کی گئی یہ عورتیں اس میٹنگ میں شامل ہونے کے لیے وسط گُرگُریا گاؤں سے پیدل، سائیکل اور کشتیوں کے ذریعہ لمبی دوری طے کرکے وہاں پہنچی تھیں۔
شام کے ۵ بج چکے تھے۔ کئی عورتوں نے گھر کی طرف جانے والی چھوٹی کشتیوں کی جانب تیزی سے قدم بڑھانا شروع کر دیا تھا: کچھ کو اپنے بچوں کو کھلانا تھا اور ان کی دیکھ بھال کرنی تھی، جنہیں وہ گھر پر چھوڑ آئی تھیں اور دیگر عورتیں اس لیے جلد بازی میں تھیں کیوں کہ انہیں ڈر تھا کہ ان کے شوہر تشدد پر آمادہ ہو سکتے تھے۔ انیما اور چند دیگر عورتوں نے کلتالی میں ہی رکنے اور اپنے گروپ کی نمائندگی کرنے کا فیصلہ کیا، وہ کسی بھی حال میں محکمہ جنگلات سے جواب حاصل کرنا چاہتی تھیں۔
وہ احاطہ کے چاروں طرف گھومتے ہوئے ایک سبز تالاب کے کنارے پہنچتی ہیں، جہاں ان سے ضبط کی گئی کھجور کے تنے سے بنی کشتیاں پڑی ہوئی ہیں۔ خواتین حیرت زدہ ہیں؛ کشتیوں سے لکڑیوں کے ٹکڑے جھڑ کر پانی میں ملنے لگے ہیں۔ ’’ہماری کشتیوں کو توڑ کر پانی میں پھینک دیا گیا ہے۔ اس دریا میں شاید لاکھوں روپے (تیر رہے) ہوں گے،‘‘ گیتا ساہو نام کی ایک ماہی گیر خاتون نرم لہجہ میں کہتی ہیں۔ تاہم، وہاں اب بھی انتظار کر رہی دیگر عورتوں میں بھی ان کے جیسا غصہ صاف دکھائی دے رہا ہے۔
واحد ذریعہ معاش
انتظار کر رہے مجمع کی بات چیت کا موضوع کشتی بنانے کی لاگت کی طرف مڑ جاتا ہے: کھجور کے تنوں کی قیمت جس سے کشتیاں بنائی جاتی ہیں، انہیں چھیلنے والے مزدوروں کی اجرت، اور رکھ رکھاؤ کے لیے تارکول لگانے پر آنے والا خرچ، ان تمام چیزوں پر کل خرچ تقریباً ۵ ہزار روپے آتا ہے۔ جب بھی ان کی کشتی کو ضبط کیا جاتا ہے، تو انہیں پھر سے ایک نئی کشتی بنانے کے لیے اپنی جیب سے ہر بار اتنا ہی خرچ کرنا پڑتا ہے۔ ’’اتنا پیسہ جمع کرنے میں دو سے تین مہینے لگ سکتے ہیں۔ محکمہ جنگلات کی طرف سے لکڑی کی جن کشتیوں کی اجازت ہے، وہ کافی مہنگی ہیں، جنہیں ہم خرید نہیں سکتے،‘‘ ایک ماہی گیر خاتون، بینا باگ کہتی ہیں۔
وہ کچھ دور آگے چلتی ہیں، جہاں ان کی نظر ضبط شدہ ڈنگھیوں (چھوٹی کشتیوں) پر پڑتی ہے، جو اب بھی مضبوط ہیں اور درختوں کے ایک جھنڈ سے جھانکتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ یہ چھوٹی کشتیاں ماہی گیر خواتین کے لیے معاش کا واحد ذریعہ ہیں، جن کی مدد سے وہ کیکڑے اور مچھلیاں پکڑتی ہیں۔ اب انیما کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ چکا ہے: ’’ہماری کشتیاں کیوں ضبط کی جاتی ہیں اور ہمیں پیٹ پر کیوں مارا جاتا ہے؟ ہمیں تنخواہ نہیں ملتی ہے۔ یہ کلکتہ شہر نہیں ہے، جہاں لوگ ہر مہینے کچھ نہ کچھ کماتے ہیں اور بینک میں جمع کرتے ہیں۔ کوئی بھی ہمیں پکانے کے لیے سبزیوں بھرا تھیلا نہیں دینے والا ہے۔ یہاں کی زندگی مختلف ہے۔‘‘
مختلف زندگی
دراصل، سندربن میں زندگی بالکل مختلف ہے۔ انیما، اور ان کے جیسی دیگر ماہی گیر خواتین کے لیے، دن کی شروعات رات میں ۳ بجے ہوتی ہے۔ گھر کام کام نمٹانے کے بعد، وہ اپنی کشتیاں ندیوں میں لے جاتی ہیں۔ مچھلی پکڑنے کے لیے وہ سینہ تک گہرے، ٹھنڈے پانی میں داخل ہوتی ہیں۔ مچھلی پکڑنے کے بعد، وہ کھانا پکانے اور اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے گھر لوٹتی ہیں۔ اس کے بعد کیکڑے اور مچھلی کے ڈپو پر جاتی ہیں۔ عورتیں یہاں امید کے ساتھ اپنے ذریعہ پکڑی گئی مچھلیاں فروخت کرنے آتی ہیں اور اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی کہ وہ کچھ پیسے کما ہی لیں گی۔ کسی کسی دن کمائی ہو جاتی ہے، لیکن وہ پیسے فوراً ہی گھر کے اخراجات، ماہی گیری سے متعلق لاگت (اگر کوئی ہے) پر خرچ ہو جاتے ہیں، یا اگر زیادہ خوش قسمت رہے تو ہفتہ میں کچھ بچت ہو جاتی ہے۔ یہاں کی بہت سی برادریاں دو یا تین نسلوں سے ماہی گیری کر رہی ہیں اور ان کے پاس کوئی زمین نہیں ہے، وہ اپنی گزر بسر کے لیے پوری طرح سے ماہی گیری پر منحصر ہیں۔ لہٰذا، وہ جو کچھ کمائیں گے اسی پر اس بات کا انحصار ہوگا کہ وہ بازار سے کیا خریدیں گے۔
کوئی راستہ نہیں
انیما کی شادی ۱۰ یا ۱۲ سال کی عمر میں ہی ہو گئی تھی۔ حال ہی میں دل کا دورہ پڑنے سے ان کے شوہر کی موت ہو گئی۔ ’’یہاں پر کوئی اچھا اسپتال نہیں ہے۔ ہر حاملہ خاتون کو دو گھنٹے کا سفر کرکے جوئے نگر جانا پڑتا ہے، جہاں پر اسپتال ہیں،‘‘ وہ افسردگی سے کہتی ہیں۔ وقت کے ساتھ سندر بن میں مردوں کی تعداد گھٹی ہے، خاص کر بہتر معاش کے لیے مہاجرت کرنے کی وجہ سے؛ ان میں سے زیادہ تر تعمیراتی مقامات پر کام کرنے کے لیے شہروں کا رخ کرتے ہیں یا منافع کمانے کے لیے چیتے کا شکار کرتے ہیں۔
عورتیں اس لیے بھی ناراض ہیں کیوں کہ سندربن کے مجوزہ سیاحتی پروجیکٹوں میں ان کی کوئی حصہ داری نہیں ہے۔ ’’وہ ہمیں سیاحتی پروجیکٹوں میں شامل کیوں نہیں کرتے؟ اس سے ہمیں بہتر نوکری اور بہتر معیارِ زندگی حاصل ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی ہمارے ساتھ (مثبت طریقے سے) بات چیت نہیں کرنا چاہتا۔ مثال کے طور پر، بڑی کشتیاں ہماری طرح ہی مچھلیاں اور کیکڑے پکڑتی ہیں، لیکن محکمہ جنگلات صرف ہمارا پیچھا کرتا ہے۔‘‘
مچھلی پکڑنے کی منظوری
اگر زندگی زیادہ مشکل نہیں ہے، تو محکمہ جنگلات کے ذریعہ ان کی کشتیوں کو ضبط کرنا اسے مزید مشکل بنا دیتا ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ چھوٹی کشتیوں کو چونکہ محکمہ جنگلات کی طرف سے بوٹ لائسنس سرٹیفکیٹ (بی ایل سی) نہیں دیا گیا ہے، اس لیے انہیں سندربن میں چلانے کا اختیار نہیں ہے؛ کُلتالی سندربن کے جنگلات کے محفوظ علاقہ کا حصہ ہے، اس لیے ماہی گیروں کے پاس جب تک کہ بی ایل سی نہ ہو، انہیں خود اپنی زمین پر کیکڑے پکڑنے سے روکا جاتا ہے۔
بی ایل سی نظام میں کئی خامیاں ہیں جیسے کہ اسے کسی اور کو منتقل نہیں کیا جا سکتا، ان لوگوں کے پاس بی ایل سی کا ہونا جو ماہی گیر نہیں ہیں، تیزی سے بڑھتی ہوئی کالا بازاری، اور نئے لائسنس جاری نہیں کرنا۔ ’ماہی گیروں کی حمایت میں بین الاقوامی جماعت‘ (آئی سی ایس ایف) کے ذریعہ سندربن کے ماہی گیروں پر کیے گئے مطالعہ میں ان مسائل کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ماہی گیروں کو روکنے کے لیے محکمہ جنگلات مختلف طریقے استعمال کرتا ہے جیسے مچھلی پکڑنے والے جال کو ضبط کر لینا؛ عورتوں نے شکایت کی کہ انہیں دھمکی دی جاتی ہے کہ انہیں مچھلی پکڑنے کے لیے جانے سے روکنے کے لیے ندی کے کنارے موجود ریت میں شیشے کے ٹکڑے ملا دیے جائیں گے (کیوں کہ وہ ننگے پیر چل کر جاتی ہیں)۔
’’جنگل پر منحصر ماہی گیروں کو جنگل کے پانی میں مچھلی پکڑنے سے روکنا ایف آر اے کی خلاف ورزی ہے،‘‘ دکشن بنگا متسیہ جیبی فورم کے صدر، پردیپ چٹرجی کہتے ہیں۔ حقوق جنگلات قانون (ایف آر اے) کا مطلب ہے جنگل میں رہنے والے لوگوں کی رسائی کے حقوق کو محفوظ کرنا، جس میں ان کے گھریلو میدانوں کی حیاتیاتی تنوع کا مسلسل استعمال اور تحفظ شامل ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ بار بار کہنے کے باوجود، مغربی بنگال کی حکومت نے اب تک شمالی اور جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلعوں میں ایف آر اے کو نوٹیفائی نہیں کیا ہے: ’’قانون کو نوٹیفائی نہیں کرنے سے ماہی گیروں، جنگل سے شہد، خشک لکڑی اور چھلکا (وغیرہ) اکٹھا کرنے والوں سمیت جنگل پر منحصر لوگوں کے معاش کے حقوق دینے سے انکار کر دیا گیا ہے، جو محکمہ جنگلات کے ساتھ تنازعات کا سبب ہے۔‘‘ ایف آر اے کے نفاذ سے ماہی گیروں کو بی ایل سی کے بغیر کیکڑے پکڑنے کی اجازت مل جائے گی۔
امید اور فتح
بیٹ افسر شام ۶ بجے کے بعد منظرنامہ پر نمودار ہوتا ہے۔ وہ مہیلا ڈونگا سمیتی کی خواتین اور دکشن متسیہ جیبی فورم کے ممبران سے بات کرتا ہے۔ افسر کہتا ہے کہ ان چھوٹی کشتیوں کو اس لیے ضبط کیا گیا کیوں کہ غیر قانونی شکار میں مبینہ طور پر ان کا استعمال کیا جا رہا تھا۔ جب کہ عورتیں کہتی ہیں کہ غیر قانونی شکار میں چھوٹی کشتیوں کا استعمال کبھی کبھار ہی ہوتا ہے اور اس کے لیے پوری ماہی گیر برادری کو سزا نہیں دی جانی چاہیے۔
وہ غیر قانونی شکار کے دوران محکمہ جنگلات کے لیے بطور مخبر کام کرنے کا وعدہ کرتی ہیں، لیکن ماہی گیری کے لیے اپنی کشتیوں کو استعمال کرنے کے حق کو جاری رکھنے پر زور دیتی ہیں۔ بیٹ افسر اس بات کے لیے راضی ہو جاتا ہے کہ وہ اگلے تین مہینے تک ان کی کشتیاں ضبط نہیں کرے گا، لیکن اس دوران ان کی کشتیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے گی۔ وہ جنگل پر منحصر ماہی گیر برادریوں کے حقوق کی بات کو اعلیٰ حکام تک پہنچانے کے لیے بھی راضی ہو جاتا ہے۔
وہ جب اس بات کی شکایت کرتا ہے کہ شیروں کے علاقے میں گھومنے کے دوران ماہی گیروں کی ہلاکت پر حکومت کو معاوضہ دینا پڑتا ہے، تو اسے یاد دلایا جاتا ہے کہ ماہی گیر اپنی مرضی سے شیروں کے علاقے میں نہیں گھومتے ہیں، بلکہ یہ ان کے معاش کا سوال ہے۔
بات چیت ختم ہوتے ہوتے رات ہو جاتی ہے۔ عورتیں خوش ہیں کہ انہیں فتح حاصل ہوئی ہے، بھلے ہی یہ عارضی طور پر ہی سہی۔ وہ ایک ڈنگھی (چھوٹی کشتی) میں سوار ہو جاتی ہیں جو انہیں سندربن کے سیاہ پانی میں لیکر روانہ ہو جاتی ہے۔ انیما ٹھہرے ہوئے پانی اور گھر کی طرف دیکھتی ہیں۔
تصویر بشکریہ: دکشن بنگا متسیہ جیبی فورم
مترجم: محمد قمر تبریز