یہ ۱۹۹۷ کی بات ہے۔

مغربی بنگال اور منی پور کی ٹیمیں، سینئر ویمنز نیشنل فٹ بال چمپئن شپ کے فائنل میچ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھیں۔ بنگال اِس سالانہ بین ریاستی ٹورنامنٹ کے گزشتہ تین فائنل میں منی پور سے ہار چکا تھا، لیکن اس بار کے فائنل میں اس کی ٹیم زرد اور قرمزی رنگ میں پوری طاقت سے میدان میں کھڑی تھی۔ فٹ بال کھلاڑی بندنا پال، مغربی بنگال کے ہلدیا شہر میں واقع دُرگا چک اسٹیڈیم میں اپنے گھریلو میدان پر کھیل رہی تھیں۔

سیٹی بجی اور میچ شروع ہو گیا۔

اس سے پہلے، ۱۶ سالہ اس اسٹرائکر نے چمپئن شپ کے کوارٹر فائنل میچ میں تین گول داغ کر ہیٹ ٹرک بنائے تھے۔ اُس میچ میں مغربی بنگال نے گوا کو ہرایا تھا، لیکن پال کا بایاں ٹخنہ زخمی ہو گیا تھا: ’’تب بھی میں نے سیمی فائنل [پنجاب کے خلاف] کھیلا، لیکن مجھے درد ہوتا رہا۔ اُس دن جب ہم لوگ فائنل میں پہنچے، تو میں کھڑا بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔‘‘

مغربی بنگال کی سب سے چھوٹے کھلاڑی، پال نے بینچ پر بیٹھ کر اس چمپئن شپ کا فائنل دیکھا۔ میچ ختم ہونے میں کچھ ہی منٹ باقی بچے تھے اور تب تک کسی بھی ٹیم نے گول نہیں کیا تھا۔ مغربی بنگال کی کوچ، شانتی ملک، ظاہر ہے اس کارکردگی سے خوش نہیں تھیں۔ اس کے علاوہ، ان کے ذہنی تناؤ کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اُس دن ۱۲ ہزار سیٹوں والے اس اسٹیڈیم میں ناظرین کے درمیان خود ریاست کے وزیر اعلیٰ اور کھیل کے وزیر بھی موجود تھے۔ آخر میں، کوچ ملک نے پال سے تیار ہونے کے لیے کہا۔ پال بتاتے ہیں، ’’’میری حالت تو دیکھیں‘، میں نے ان سے کہا۔ لیکن کوچ نے کہا، ’اگر تم کھڑی ہو جاؤ، تو گول ہو جائے گا۔ میرا دل یہی کہہ رہا ہے‘۔‘‘

لہٰذا، درد کو دور کرنے والے دو انجیکشن فوری طور پر لگانے، اور زخم کی جگہ پر دو پٹّی کس کر باندھنے کے بعد، پال کھڑے ہو کر انتظار کرنے لگے۔ میچ برابری پر ختم ہوا اور گولڈن گول کے لیے اضافی وقت دیا گیا – یعنی جو بھی ٹیم سب سے پہلے گول مارے گی، اسے چمپئن شپ کا فاتح قرار دیا جائے گا۔

’’میں نے کراس بار (گول کے لوہے والے ڈنڈے) پر نشانہ لگایا، اور گیند دائیں جانب کو تیزی سے گئی۔ گول کیپر نے چھلانگ لگائی۔ لیکن گیند اسے پار کرتے ہوئے جال (نیٹ) سے ٹکرائی۔‘‘

PHOTO • Riya Behl
PHOTO • Riya Behl

بائیں: بندنا پال کے طور پر فٹ بال کھیل رہے بونی پال کی پہلی تصویروں میں سے ایک، جو آنند بازار پتریکا کے کھیلوں والے صفحہ پر ۲ دسمبر، ۲۰۱۲ کو شائع ہوئی تھی۔ دائیں: اے آئی ایف ایف کا سرٹیفکیٹ جس میں ۱۹۹۸ کی ویمنز نیشنل فٹ بال چمپئن شپ میں شرکت کرنے پر بندنا کی تعریف کی گئی ہے

اتنا کہنے کے بعد پال ایک ماہر داستان گو کی طرح تھوڑی دیر کے لیے رکتے ہیں۔ اس کے بعد مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں نے وہ شاٹ اپنے زخمی پیر سے ماری تھی۔ گول کیپر چاہے کتنا بھی لمبا کیوں نہ ہو، کراس بار پر ماری گئی شاٹ کو روک پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ میں نے گولڈن گول مارا تھا۔‘‘

اُس میچ کو ختم ہوئے اب ایک چوتھائی صدی گزر چکی ہے، لیکن ۴۱ سالہ پال آج بھی اسے اتنے ہی فخر سے بیان کرتے ہیں۔ ایک سال بعد، پال کو نیشنل ٹیم میں جگہ مل گئی، جسے جلد ہی بنکاک کے ۱۹۹۸ کے ایشیائی کھیلوں میں کھیلنے کے لیے جانا تھا۔

مغربی بنگال کے شمالی ۲۴ پرگنہ ضلع کے اچھاپور گاؤں سے تعلق رکھنے والے اس فٹ بال کھلاڑی کا خواب اسی منزل تک پہنچنے کا تھا: ’’میری دادی ریڈیو پر [فائنل کی] کمنٹری سن رہی تھیں۔ میری فیملی میں سے کوئی بھی، فٹ بال کے اس لیول تک پہلے کبھی نہیں پہنچا تھا۔ اُن سبھی کو میرے اوپر ناز تھا۔‘‘

پال جب چھوٹے تھے، تو ان کی سات رکنی فیملی گائی گھاٹا بلاک کے اِچھّاپور میں واقع اپنے گھر میں رہتی تھی۔ وہاں ان کے پاس دو ایکڑ زمین تھی، جس پر وہ اپنے روزمرہ استعمال کے لیے چاول، سرسوں، مٹر، دالیں اور گندم اُگایا کرتے تھے۔ اب اس زمین کے کچھ حصے فروخت ہو چکے ہیں، اور باقی زمین فیملی میں تقسیم ہو چکی ہے۔

اپنے پانچ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے، پال کہتے ہیں، ’’میرے والد درزی کا کام کرتے تھے اور ماں سلائی اور کڑھائی میں ان کی مدد کرتی تھیں۔ وہ پگڑی، راکھی اور دیگر چیزیں بھی بناتی تھیں۔ ہم بچپن سے ہی اپنی زمین پر کام کرتے تھے۔‘‘ بچوں کی ڈیوٹی میں شامل تھا کہ وہ تقریباً ۷۰ مرغیوں اور ۱۵ بکریوں کا خیال رکھیں – جن کے لیے اسکول جانے سے پہلے اور اسکول سے آنے کے بعد چارہ کاٹ کر لانا پڑتا تھا۔

پال نے اچھاپور ہائی اسکول سے ۱۰ویں کلاس تک کی پڑھائی مکمل کی۔ سابق فٹ بال کھلاڑی، پال مزید بتاتے ہیں، ’’لڑکیوں کی کوئی فٹ بال ٹیم نہیں تھی، اس لیے اسکول کے بعد میں لڑکوں کے ساتھ کھیلتا تھا۔‘‘ اس کے بعد وہ کمرے سے باہر جاتے ہیں اور ایک چکوترا (نارنجی جیسا پھل) لے کر لوٹتے ہیں۔ ’’ہم لوگ اسے باتابی یا جمبورا کہتے ہیں۔ ہمارے پاس فٹ بال خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے، اس لیے ہم لوگ درخت سے اس پھل کو توڑ لیتے اور اس کے ساتھ کھیلتے تھے۔ میں نے اسی طرح شروعات کی۔‘‘

PHOTO • Riya Behl
PHOTO • Riya Behl

بائیں: بونی اُس کمرے میں بیٹھے ہوئے ہیں، جو اُن کی فیملی کے گھر میں پہلی منزل پر ہے، جس میں وہ سواتی کے ساتھ رہتے ہیں۔ دائیں: دو چکوترے (بائیں)، جس کے ساتھ بونی کھیلا کرتے تھے کیوں کہ ان کی فیملی کے پاس فٹ بال خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ تصویر میں دائیں طرف ان کے کوچنگ والے جوتے دیکھے جا سکتے ہیں

اسی طرح کے ایک دن، اچھاپور میں بوچو دا (بڑے بھائی) کے نام سے مشہور سدناتھ داس نے ۱۲ سالہ پال کو فٹ بال کھیلتے ہوئے دیکھا۔ بوچو دا نے پال کو بتایا کہ پاس کے باراسات ٹاؤن میں فٹ بال کا ٹرائل چل رہا ہے، جس میں انہوں نے حصہ لیا اور آخر کار باراسات یووک سنگھ کلب ٹیم میں اُن کا انتخاب ہو گیا۔ ان کے ساتھ پہلے سیزن میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد، کولکاتا کے اتیکا میموریل کلب نے پال کو اپنی ٹیم میں شامل کر لیا۔ پھر پال نے پیچھے مڑ کر کبھی نہیں دیکھا۔

پال کا انتخاب ۱۹۹۸ کے ایشیائی گیمز میں کھیلنے کے لیے نیشنل ٹیم میں ہو گیا، اور پھر آناً فاناً میں ان کا پاسپورٹ اور ویزا بنوایا گیا۔ سابق فٹ بال کھلاڑی، پال اُن دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’ہم لوگ ایئرپورٹ پر پہنچ چکے تھے، اور روانہ ہونے ہی والے تھے کہ انہوں نے مجھے وہاں سے واپس گھر بھیج دیا۔‘‘

ایشیائی کھیلوں کے لیے ایک ساتھ ٹریننگ کے دوران منی پور، پنجاب، کیرالہ اور اوڈیشہ کی کھلاڑیوں نے پال کی کارکردگی دیکھی تھی۔ انہیں پال کی صنف پر شک ہو گیا، جس کے بعد انہوں نے کوچ کو اس کی اطلاع دی۔ معاملہ جلد ہی کھیلوں کی گورننگ باڈی، آل انڈیا فٹ بال فیڈریشن (اے آئی ایف ایف) کے پاس پہنچ گیا۔

پال بتاتے ہیں، ’’مجھ سے کروموزوم ٹیسٹ کرانے کے لیے کہا گیا۔ اُس وقت، میں یہ ٹیسٹ صرف بامبے یا بنگلور میں ہی کرا سکتا تھا۔‘‘ کولکاتا میں اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا (ایس اے آئی) کی ڈاکٹر لیلا داس نے پال کے خون کا نمونہ ممبئی بھیجا۔ پال بتاتے ہیں، ’’ڈیڑھ مہینے کے بعد، رپورٹ میں کیریوٹائپ ٹیسٹ کا حوالہ دیا گیا جس کا نتیجہ ’ 46 XY‘ کی شکل میں سامنے آیا۔ عورتوں کے لیے یہ  ’ 46 XX‘ ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر نے مجھ سے کہا کہ میں [باقاعدہ طور پر] کھیل نہیں سکتا۔‘‘

اُس وقت ابھرتے ہوئے اس فٹ بال کھلاڑی کی عمر صرف ۱۷ سال تھی، لیکن اب ان کے کھیل کا مستقبل مشکوک ہو گیا۔

PHOTO • Riya Behl

آج کال سلی گوڑی میں ۱۹ جولائی، ۲۰۱۲ کو شائع ہونے والی بونی کی ایک تصویر، جس میں وہ سلی گوڑی سب ڈویژن اسپورٹس کونسل کے سکریٹری کو اپنا بایو ڈیٹا سونپ رہے ہیں

بین صنفی افراد، یا بین صنفی تغیرات والے افراد میں فطری جنسی خصوصیات ہوتی ہیں، جو عورت یا مرد کے جسموں کے لیے طبی یا سماجی اصولوں کے مطابق نہیں ہوتیں۔ یہ تغیرات باہری یا اندرونی تولیدی اعضاء، کروموزوم کے پیٹرن یا ہارمون سے متعلق پیٹرن میں ہو سکتے ہیں۔ یہ پیدائش کے وقت یا بعد میں کبھی بھی ظاہر ہو سکتے ہیں

***

سابق فٹ بالر کہتے ہیں، ’’میرے اندر بچہ دانی، بیضہ دانی اور اس کے اندر عضو تناسل تھا۔ میرے پاس دونوں ’سائڈ‘ [تولیدی اعضاء] تھے۔‘‘ راتوں رات فٹ بال کمیونٹی، میڈیا اور پال کی فیملی نے اس ایتھلیٹ کی شناخت پر سوال کھڑے کرنے شروع کر دیے۔

سابق فٹ بال کھلاڑی کہتے ہیں، ’’اُس وقت، نہ تو کوئی اس کے بارے میں جانتا تھا اور نہ ہی سمجھتا تھا۔ اب جا کر لوگ اس کے بارے میں بولنے لگے ہیں اور ایل جی بی ٹی کیو کا ایشو اٹھایا جا رہا ہے۔‘‘

بونی بین صنفی خصوصیات کے حامل شخص ہیں – یعنی ایل جی بی ٹی کیو آئی اے میں ’آئی‘ + کمیونٹی – اور اب بونی پال کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ خود کو مرد بتانے والے بونی کہتے ہیں، ’’میرے جیسا جسم صرف ہندوستان میں ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا میں موجود ہے۔ ایتھلیٹ، ٹینس کھیلنے والے، فٹ بالر، اور نہ جانے کتنے کھلاڑی میرے جیسے ہیں۔‘‘ وہ میڈیکل کمیونٹی کے ممبران سمیت مختلف قسم کے سامعین کو اپنی جنسی شناخت، جنسی اظہار، جنسیت اور جنسی رجحان کے بارے میں بتاتے ہیں۔

PHOTO • Riya Behl
PHOTO • Riya Behl

بائیں: ٹائمز آف انڈیا کے سٹی سپلیمنٹ میں شائع بونی پر ایک مضمون۔ دائیں: بونی پال کا آدھار کارڈ، جس میں ان کی صنف بطور ’مرد‘ درج ہے

بین صنفی افراد ، یا بین صنفی تغیرات والے افراد میں فطری جنسی خصوصیات ہوتی ہیں، جو عورت یا مرد کے جسموں کے لیے طبی یا سماجی اصولوں کے مطابق نہیں ہوتیں۔ یہ تغیرات باہری یا اندرونی تولیدی اعضاء، کروموزوم کے پیٹرن یا ہارمون سے متعلق پیٹرن میں ہو سکتے ہیں۔ یہ پیدائش کے وقت یا بعد کی زندگی میں کبھی بھی ظاہر ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر، بین صنفی تغیرات والے افراد کے لیے ڈی ایس ڈی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں – جس کا مطلب ہے جنس کی نشو و نما میں فرق/خرابیاں۔

یونیورسٹی کالج آف میڈیکل سائنسز ، دہلی میں فزیولوجی (جسمانیات) کے پروفیسر، ڈاکٹر ستیندر سنگھ کا کہنا ہے، ’’طبی برادری کے بہت سے لوگ ڈی ایس ڈی کو اکثر غلط طریقے سے ’جنس کی نشو و نما میں خرابی‘ قرار دیتے ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ بین صنفی لوگوں کی صحت سے متعلق لا علمی اور الجھن کی وجہ سے یہ معلوم نہیں ہے کہ بین صنفی افراد کی حقیقی تعداد کتنی ہے۔

خواجہ سراؤں سے متعلق سماجی انصاف اور تفویض اختیار کی وزارت کے ذریعے شائع کردہ ۲۰۱۴ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر ۲ ہزار بچوں میں کم از کم ایک بچہ ایسے جنسی اعضاء (ایناٹومی) کے ساتھ پیدا ہوتا ہے ’’جسے عورت یا مرد کے زمرے میں رکھنا کسی ماہر کے لیے بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ ان بچوں میں عورت اور مرد کی خصوصیات اس طرح سے ملی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں کسی زمرے میں رکھنا مشکل ہوتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر ستیندر سنگھ حقوق انسانی کارکن اور جسمانی طور سے معذور افراد کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے شخص بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس حقیقت کے باوجود نصابی کتابوں (ہندوستان کے طبی نصاب) میں ابھی بھی ’ہیرمے فروڈائٹ‘، ’غیر واضح تولیدی اعضاء‘، اور ’خرابی‘ جیسے ہتک آمیز الفاظ کا ذکر ملتا ہے۔‘‘

خواتین کی فٹ بال ٹیم سے نکالے جانے کے بعد، بونی نے کولکاتا کے اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا (ایس اے آئی) کی اجازت سے اپنی جسمانی جانچ کروائی۔ اس جانچ کے بعد انہیں کسی بھی خواتین فٹ بال ٹیم میں کھیلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ بونی کہتے ہیں، ’’جب فٹ بال چھوٹ گیا، تو مجھے لگا کہ جیسے میری زندگی ختم ہو گئی ہے۔ میرے ساتھ نا انصافی کی گئی۔

PHOTO • Riya Behl
PHOTO • Riya Behl

بائیں: بونی، باتابی یا جمبورہ (چکوترا) پھل پکڑے ہوئے۔ جب انہوں نے کھیلنا شروع کیا تھا، تو موٹے چھلکے والایہ پھل فٹ بال کا اچھا متبادل ہوا کرتا تھا۔ دائیں: وہ اس الماری کے سامنے بیٹھے ہیں، جس میں ان کی ٹرافی اور سرٹیفکیٹ رکھے ہوئے ہیں

ان کا کہنا ہے کہ سال ۲۰۱۴ میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے انہیں امید دی تھی، جس میں کہا گیا کہ ’’کسی کی جنسی شناخت، باعزت زندگی بسر کرنے کے بنیادی حق کے مرکز میں ہوتی ہے۔ جنس کسی شخص کے وجود کی بنیاد کے ساتھ ساتھ، کسی فرد کی شناخت کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ اس لیے، جنسی شناخت کی قانونی منظوری ہمارے آئین کے تحت وقار اور آزادی کے حق کا حصہ ہے۔‘‘ ٹرانس جینڈر (خواجہ سرا) کے طور پر اپنی شناخت بتانے والے افراد کی قانونی منظوری کے لیے نیشنل لیگل سروسز اتھارٹی اور پوجیہ ماتا نصیب کور جی ویمن ویلفیئر سوسائٹی کے ذریعے دائر عرضیوں کے جواب میں یہ فیصلہ دیا گیا۔ اس تاریخی فیصلہ میں جنسی شناخت پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ یہ فیصلہ اپنے آپ میں پہلا قدم تھا، جس نے نان بائنری جنسی شناخت کو قانونی طور پر پہچاننے اور ہندوستان میں ٹرانس جینڈر افراد کے بنیادی حقوق کو یقینی بنایا۔

اس فیصلہ نے بونی کی حالت کو قبولیت کا درجہ عطا کرنے کا کام کیا۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے لگتا تھا کہ میں خواتین کی ٹیم میں جگہ رکھتا ہوں۔ لیکن جب میں نے اے آئی ایف ایف سے پوچھا کہ میں کیوں نہیں کھیل سکتا، تو انہوں نے کہا کہ یہ آپ کے جسم اور کروموزوم کی وجہ سے ہے۔‘‘

بین صنفی تغیرات والے کھلاڑیوں کے لیے سیکس اور جنسی جانچ کی پالیسیوں کے طریقہ کار کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے کولکاتا کے ایس اے آئی نیتا جی سبھاش ایسٹرن سینٹر اور آل انڈیا فٹ بال فیڈریشن کو کئی بار میسج بھیجے گئے، لیکن ان کی طرف سے رپورٹر کو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

***

اپریل ۲۰۱۹ میں تبدیلی لانے کے لیے عزم مصمم کے ساتھ بونی انٹر سیکس ہیومن رائٹس انڈیا (آئی ایچ آر ای) کے بانی رکن بن گئے، جو بین صنفی افراد اور ان کے حامیوں کا ایک کل ہند نیٹ ورک ہے۔ یہ گروپ بین صنفی افراد کے حقوق کو فروغ دیتا ہے، کاؤنسلنگ کے پروگرام منعقد کرتا ہے، اور ان کے چیلنجز اور ضروریات کو سامنے لاتا ہے۔

بونی اس نیٹ ورک میں بین صنفی تغیرات والے اکیلے شخص ہیں، جو پوری سرگرمی سے بچوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ آئی ایچ آر ای کی حامی اور رکن پُشپا اچنتا کہتی ہیں، ’’مغربی بنگال میں سرکاری طبی اور نگہداشت اطفال کے اداروں کے ذریعے بونی کی صحیح وقت پر کی گئی مداخلت نے کئی نوجوانوں کو ان کے جسم اور سیکس اور جنسی شناخت کو سمجھنے اور قبول کرنے میں مدد کی ہے، اور ان کے سرپرستوں کو ضروری اور امکانی امداد فراہم کرنے میں مدد کی ہے۔‘‘

PHOTO • Riya Behl
PHOTO • Riya Behl

بائیں: سواتی (بائیں) بونی کو کوچ کے طور پر ان کے مثالی کام کے لیے سال ۲۰۲۱ میں مغربی بنگال کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال سے ملے سند توصیف کو پڑھتے ہوئے دیکھ رہی ہیں۔ دائیں: ایبیلا میں ۹ اکتوبر، ۲۰۱۷ کو شائع ایک مضمون، جس میں سالٹ لیک میں کیشالیہ ٹیم کے ایک فٹ بال میچ جیتنے پر بونی کی کوچنگ کی تعریف کی گئی تھی

ایتھلیٹوں کے حقوق کی ایک کارکن، ڈاکٹر پایوشنی مشترا کہتی ہیں، ’’نوجوان ایتھلیٹوں میں ان کی جسمانی خود مختاری سے متعلق بیداری میں اضافہ ہوا ہے۔ بونی کے زمانے میں ایسا نہیں تھا۔‘‘ سوئٹزرلینڈ کے لوسانے میں گلوبل آبزرویٹری فار ویمن، اسپورٹس، فزیکل ایجوکیشن اینڈ فزیکل ایکٹویٹی میں سی ای او کے طور پر، ڈاکٹر مترا نے ایشیا اور افریقہ میں خواتین ایتھلیٹوں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے، تاکہ وہ کھیل میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بات کر سکیں۔

بونی یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’جب میں (ہوائی اڈے سے) واپس آیا، تو مقامی اخباروں نے مجھے ہراساں کیا۔ ’خواتین کی ٹیم میں ایک مرد کھیل رہا ہے‘، اس قسم کی سرخیاں اخباروں میں تھیں۔‘‘ بونی، اچھاپور لوٹنے کے تکلیف دہ تجربے کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں، ’’میرے والدین، بھائی بہن، سب ڈر گئے تھے۔ میری دو بہنوں اور ان کے سسرال والوں کو ذلت محسوس ہوئی۔ میں صبح گھر واپس آ گیا، لیکن شام تک وہاں سے بھاگنا پڑا۔‘‘

تقریباً دو ہزار روپے کے ساتھ بونی بھاگ گئے۔ انہیں یاد ہے کہ جس دن وہ گھر سے نکلے تھے، اُس دن انہوں نے جینس پہن رکھی تھی اور چھوٹے بال رکھے ہوئے تھے۔ وہ ایک ایسی جگہ جانا چاہتے تھے، جہاں کوئی انہیں نہ جانتا ہو۔

پال برادری سے تعلق رکھنے والے بونی کہتے ہیں، ’’میں مورتیاں بنانا جانتا ہوں، اس لیے میں اس کام کو کرنے کے لیے کرشن نگر بھاگ آیا۔ ہم مورتی ساز ہیں۔‘‘ اچھاپور گاؤں میں بونی کے انکل مورتی بناتے تھے، جہاں وہ بڑے ہوئے۔ مورتی کے کام میں انکل کی مدد کرنے کے تجربے نے، بونی کو مٹی کی مورتیوں اور گڑیوں کے لیے مشہور کرشن نگر شہر میں نوکری دلانے میں مدد کی۔ ان کے کام کو چیک کرنے کے لیے انہیں چاول اور جوٹ کی رسیوں کے سوکھے ڈنٹھل سے ایک مورتی بنانے کے لیے کہا گیا۔ بونی کو ۲۰۰ روپے یومیہ کی نوکری مل گئی اور اس طرح انہوں نے چھپ کر زندگی بسر کرنا شروع کر دیا۔

PHOTO • Riya Behl
PHOTO • Riya Behl

بائیں: اچھاپور میں اُس جگہ پر بونی کھڑے ہیں جہاں مورتیاں بنائی جاتی ہیں۔ یہیں وہ بڑے ہوئے اور انہوں نے اس کام میں مدد کرتے کرتے اس ہنر کو پوری طرح سیکھ لیا۔ دائیں: بھوسے اور جوٹ سے بنی ایک مورتی کا ڈھانچہ۔ بونی کو کچھ ایسا ہی بنانے کے لیے کہا گیا تھا، جب کرشن نگر میں نوکری دینے سے پہلے ان کا ٹیسٹ لیا گیا تھا

اچھاپور میں بونی کے والدین، ادھیر اور نیوا اپنی سب سے بڑی بیٹی، شنکری اور بیٹے، بھولا کے ساتھ رہ رہے تھے۔ بونی کو اکیلے رہتے ہوئے تین سال ہو گئے تھے۔ بونی یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ ایک سرد صبح تھی، جب انہوں نے گھر جانے کا فیصلہ کیا: ’’انہوں نے (مقامی لوگوں نے) شام کو مجھ پر حملہ کیا۔ میں تیزی سے بھاگنے میں کامیاب رہا، لیکن مجھے جاتے دیکھ میری ماں رو رہی تھی۔‘‘

یہ نہ تو پہلی بار تھا اور نہ آخری بار، جب انہیں جسمانی طور پر اپنا دفاع کرنا پڑا تھا، لیکن اُس دن انہوں نے خود سے ایک وعدہ کیا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں سبھی کو دکھانے جا رہا تھا کہ میں اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکتا ہوں۔ میں نے طے کیا کہ میرے جسم میں جو بھی مسائل ہیں، میں انہیں ٹھیک کر دوں گا۔‘‘ بونی نے سرجری کی مدد لینے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے ایسے ڈاکٹروں کی تلاش کی، جو ان کے تولیدی اعضاء کا آپریشن کر سکیں اور آخرکار کولکاتا کے سالٹ لیک میں ایک ڈاکٹر ملا، جہاں پہنچنے میں ٹرین سے چار گھنٹے لگتے تھے۔ بونی بتاتے ہیں، ’’ہر سنیچر (ہفتہ) کو ڈاکٹر بی این چکرورتی تقریباً ۱۰ سے ۱۵ ڈاکٹروں کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ ان سبھی نے میری جانچ کی۔‘‘ انہوں نے کئی مہینوں میں کئی بار ٹیسٹ کیے۔ بونی کہتے ہیں، ’’میرے ڈاکٹر نے بنگلہ دیش کے لوگوں پر اسی طرح کے تین آپریشن کیے تھے اور وہ کامیاب رہے تھے۔‘‘ لیکن ان کا کہنا تھا کہ سب کے جسم الگ الگ ہوتے ہیں، اور اس پروسیس کے ساتھ آگے بڑھنے سے پہلے انہیں اپنے ڈاکٹر کے ساتھ کئی بار بات چیت کرنی پڑی۔

سرجری میں تقریباً ۲ لاکھ روپے کا خرچ آنا تھا، لیکن بونی ٹھان چکے تھے۔ سال ۲۰۰۳ میں، بونی نے ہارمون ری پلیسمنٹ تھیراپی (ایچ آر ٹی) شروع کی اور ہر مہینے ٹیسٹوسٹیرون بڑھانے کے لیے ۲۵۰ ملی گرام ٹیسٹوویرون نام کے انجیکشن خریدنے کے لیے ۱۰۰ روپے خرچ کیے۔ دواؤں، ڈاکٹروں کی فیس اور سرجری کے لیے پیسہ جمع کرنے کے لیے، بونی نے کولکاتا اور اس کے آس پاس پینٹنگ کے کام جیسی دہاڑی مزدوری کی طرف رخ کیا۔ یہ کام کرشن نگر میں ان کے مورتی بنانے کے کام سے الگ تھا۔

بونی کہتے ہیں، ’’سورت کی ایک فیکٹری میں مورتیاں بنا رہے ایک آدمی کو میں جانتا تھا، اس لیے میں اس کے ساتھ وہاں چلا گیا۔‘‘ انہوں نے وہاں ہفتے میں چھ دن کام کیا اور گنیش چترتھی، جنماشٹمی، اور دوسرے تہواروں کے لیے مورتیاں بنا کر روزانہ ایک ہزار روپے کمائے۔

وہ درگا پوجا اور جگدھاتری پوجا کے لیے ہر سال کرشن نگر لوٹتے تھے، جو عام طور پر اکتوبر-نومبر میں منایا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ ۲۰۰۶ تک ایسے ہی چلتا رہا، جب بونی نے کرشن نگر میں ٹھیکہ پر مورتیوں کا آرڈر لینا شروع کیا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’سورت میں، میں نے سیکھا کہ ۲۰۰-۱۵۰ فٹ لمبی مورتیاں کیسے بنائی جاتی ہیں اور اس طرح کی مورتیاں یہاں ڈیمانڈ میں تھیں۔ میں ایک ورکر کو کام پر رکھتا تھا اور ہم نے اگست اور نومبر کے درمیان تہوار کے موسم میں خوب پیسے کمائے۔‘‘

PHOTO • Riya Behl
PHOTO • Riya Behl

بائیں: بونی اور سواتی۔ دائیں: اچھاپور گاؤں میں واقع خاندانی گھر میں اپنی ماں نیوا کے ساتھ

اسی زمانے میں، بونی کو کرشن نگر کی مورتی بنانے والی سواتی سرکار سے پیار ہو گیا۔ سواتی نے اسکول چھوڑ دیا تھا، اور گزر بسر کے لیے ماں اور چار بہنوں کے ساتھ مورتیاں سجانے کا کام کرتی تھیں۔ بونی کے لیے یہ ایک مشکل وقت تھا۔ بونی یاد کرتے ہیں، ’’مجھے اس کو اپنے بارے میں بتانے کی ضرورت تھی۔ میرے پاس ڈاکٹر کا اعتماد تھا (میری سرجری کی کامیابی کے بارے میں)، اس لیے میں نے اسے بتانے کا فیصلہ کیا۔‘‘

سواتی اور ان کی ماں نے ان کا ساتھ دیا، اور سواتی نے سال ۲۰۰۶ میں بونی کی سرجری کے لیے رضامندی کے فارم پر دستخط بھی کیے۔ تین سال بعد، ۲۹ جولائی ۲۰۰۹ کو سواتی اور بونی کی شادی ہوئی۔

سواتی کو اُس رات کی بات یاد ہے، جب ان کی ماں نے بونی سے کہا تھا، ’’میری بیٹی نے تمہارے جسم کے مسئلہ کو سمجھ لیا ہے۔ اس نے تب بھی تم سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تو میں کیا کہہ سکتی ہوں؟ تمی شات دیبا، تمی تھاکبا (تم اس کا ساتھ دوگے، اس کے ساتھ رہوگے)۔‘‘

***

بونی اور سواتی کی شادی شدہ زندگی نقل مکانی کے بعد شروع ہوئی۔ کرشن نگر میں لوگ گندی باتیں کرنے لگے، اس لیے دونوں نے ۵۰۰ کلومیٹر شمال کی طرف دارجلنگ ضلع کے ماٹی گاڑا میں جانے کا فیصلہ کیا، جہاں کوئی انہیں پہچانتا نہیں تھا۔ بونی نے پاس میں ہی مورتی بنانے والی فیکٹری میں کام تلاش کیا۔ بونی بتاتے ہیں، ’’انہوں نے میرا کام دیکھا اور مجھے ۶۰۰ روپے یومیہ مزدوری کی پیشکش کی۔ میں نے ہاں کر دی۔ ماٹی گاڑا کے لوگوں نے مجھے بہت پیار دیا۔‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کیسے ان کے ساتھ کام کرنے والے آدمیوں نے انہیں اپنا ہی سمجھا۔ وہ شام کو چائے کی دکانوں پر ساتھ ساتھ گھومتے تھے۔

PHOTO • Riya Behl
PHOTO • Riya Behl

بائیں: گاؤں میں ایک چائے کی دکان پر بیٹھے بونی۔ دائیں: لکڑی کے تاجر پشپ ناتھ دیوناتھ (بائیں)، اور ناریل پانی بیچنے والے گورانگ مشرا (دائیں) کے ساتھ بیٹھے ہوئے

لیکن دونوں اچھاپور نہیں لوٹ سکے، کیوں کہ بونی کی فیملی انہیں اپنانے کو تیار نہیں تھی۔ جب بونی کے والد کا انتقال ہو گیا، تو انہیں آخری رسومات میں شامل نہیں ہونے دیا گیا۔ بونی بتاتے ہیں، ’’صرف کھلاڑی ہی نہیں، میرے جیسے اور بھی کئی لوگ ہیں جو سماج کے ڈر سے اپنا گھر نہیں چھوڑتے ہیں۔‘‘

دونوں نے محسوس کیا کہ ان کی جدوجہد کو تب مقبولیت ملی، جب بونی کی زندگی پر بنی ایک ڈاکیومنٹری، ’آئی ایم بونی‘ نے سال ۲۰۱۶ میں کولکاتا بین الاقوامی فلم فیسٹول میں بہترین فلم کا ایوارڈ جیتا۔ اس کے فوراً بعد، بونی کو کیشالیہ چلڈرن ہوم میں فٹ بال کوچ کی نوکری کی پیشکش کی گئی۔ کیشالیہ ہوم بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا ایک سرکاری ادارہ ہے، جو باراسات شہر میں ہے اور مغربی بنگال  کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال (ڈبلیو بی سی پی سی آر) کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ ڈبلیو بی سی پی سی آر کی چیئرپرسن اننیہ چکرورتی چٹرجی کہتی ہیں، ’’ہمیں لگا کہ وہ بچوں کے لیے مثالی ثابت ہو سکتے ہیں۔ جب ہم نے بونی کو کوچ کے طور پر مقرر کیا، تو ہم جانتے تھے کہ وہ ایک بہت اچھے فٹ بالر ہیں، جس نے ریاست کے لیے کئی انعامات جیتے ہیں۔ لیکن اُس وقت ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا۔ اس لیے ہم نے محسوس کیا کہ خود کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ وہ کتنے اچھے کھلاڑی تھے۔‘‘

بونی اپریل ۲۰۱۷ سے وہاں کوچنگ کر رہے ہیں اور وہ پینٹنگ اور مورتی بنانا بھی سکھاتے ہیں۔ وہ اپنی پہچان کے بارے میں بچوں سے کھل کر بات کرتے ہیں اور کئی لوگوں کے معتمد ہیں۔ پھر بھی انہیں اپنے مستقبل کی فکر ستاتی رہتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میرے پاس کوئی مستقل نوکری نہیں ہے۔ مجھے صرف ان دنوں کے لیے پیسے دیے جاتے ہیں، جب مجھے کام پر بلایا جاتا ہے۔‘‘ وہ عام طور پر تقریباً ۱۴ ہزار روپے ماہانہ کماتے ہیں، لیکن ۲۰۲۰ میں کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے بعد ان کے پاس چار مہینے تک کوئی آمدنی نہیں تھی۔

فروری ۲۰۲۰ میں، بونی نے اچھاپور میں اپنی ماں کے گھر سے کچھ ہی قدم کی دوری پر ایک گھر بنانے کے لیے پانچ سال کا قرض لیا، جہاں اب وہ سواتی اور اپنے بھائی، ماں اور بہن کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ وہ گھر ہے، جس سے بونی کو زندگی بھر بھاگنا پڑا۔ ایک فٹ بالر کے طور پر بونی کی کمائی اس گھر کو بنانے میں خرچ کی گئی، جہاں وہ اور سواتی اب ایک چھوٹے سے بیڈ روم میں رہتے ہیں۔ فیملی پوری طرح سے ابھی بھی انہیں قبول نہیں کرتی ہے۔ وہ کمرے کے باہر ایک چھوٹی سی جگہ میں گیس اسٹوو پر اپنا کھانا پکاتے ہیں۔

PHOTO • Riya Behl
PHOTO • Riya Behl

بائیں: سواتی اور بونی اچھاپور میں اپنے زیر تعمیر گھر کے باہر کھڑے ہیں۔ دائیں: اس جوڑے کو امید ہے کہ پورا گھر بن جانے کے بعد، ان کے چھوٹے سے بیڈ روم میں پڑی ٹرافیوں کی الماری کو ایک مستقل ٹھکانہ مل جائے گا

بونی کو ۳ لاکھ ۴۵ ہزار کا چھوٹا ہوم لون اُس پیسے سے چکانے کی امید تھی، جو ان کی اپنی زندگی پر بنی ایک فلم کے کاپی رائٹ بیچ کر ملنے والے تھے۔ لیکن ممبئی کے فلم ساز، فلم کو بیچ نہیں پائے اور اس لیے بونی کا قرض ابھی بقایا ہے۔

سرٹیفکیٹ اور چمچماتی ٹرافیوں سے بھری الماری کے سامنے بیٹھے بونی ایک بین صنفی شخص کے طور پر اپنی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ غیر یقینیت سے بھری زندگی کے باوجود، انہوں نے اور سواتی نے اخبارات کی کترن، تصویریں، اور یادگار چیزوں کو ایک سرخ سوٹ کیس میں بہت احتیاط سے رکھا ہوا ہے، جسے اس الماری کے اوپر رکھا گیا ہے۔ انہیں امید ہے کہ دو سال پہلے انہوں نے جس گھر کو بنانے کا کام شروع کیا تھا اس میں اس الماری کے لیے ایک مستقل جگہ ہوگی۔

بونی کہتے ہیں، ’’کبھی کبھی، میں اب بھی اپنے گاؤں میں ۱۵ اگست (یوم آزادی) پر کلبوں کے ساتھ دوستانہ میچ کھیلتا ہوں، لیکن مجھے ہندوستان کے لیے دوبارہ کھیلنے کا موقع کبھی نہیں ملا۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Riya Behl

रिया बहल बहुमाध्यमी पत्रकार असून लिंगभाव व शिक्षण या विषयी ती लिहिते. रियाने पारीसोबत वरिष्ठ सहाय्यक संपादक म्हणून काम केलं असून शाळा-महाविद्यालयांमधील विद्यार्थ्यांना पारीसोबत जोडून घेण्याचं कामही तिने केलं आहे.

यांचे इतर लिखाण Riya Behl
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पारीचे ऊर्दू अनुवादक आहेत. ते दिल्ली स्थित पत्रकार आहेत.

यांचे इतर लिखाण Qamar Siddique