صدیوں سے، راجستھان کے پالی ضلع کے سادڑی گاؤں میں رائیکا برادری کے لوگ اونٹ پالنے کا کام کرتے چلے آ رہے ہیں۔ میں پھویا رام رائیکا کے ساتھ چڈیے (جب جانوروں کو چرانے کے لیے باہر لے جایا جاتا ہے) کے وقت ساتھ گئی۔ عام طور پر جانوروں کو چرانے میں پورا دن لگ جاتا ہے۔ پھویا رام جی پگڑی میں چائے بنانے کا سامان اور روٹیاں باندھ کر صبح نکلتے ہیں اور دیر شام لوٹتے ہیں۔ راجستھان کی شدید گرمی اور ۲۰ اونٹوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کے باوجود انہوں نے میرے ساتھ اپنی چائے شیئر کی۔
پھویا رام جی اس بات کو جان چکے ہیں کہ ان کی فیملی کا کوئی بھی رکن ان کے نقش قدم پر چلنے والا نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے بچے اس کام کو نہیں کریں گے۔ اب زمین کے ایسے کچھ ہی ٹکڑے بچے ہیں، جن کا استعمال مویشی پرور کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ٹکڑے سے جب ہم گزر رہے تھے، تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک دور تھا، جب رائیکا برادری کے لوگ سادڑی گاؤں کے جنگلوں اور کھیتوں میں آزادی کے ساتھ گھومتے پھرتے تھے، اور راستے میں ملنے والے لوگوں کے ساتھ زندگی بھر کا رشتہ قائم کر لیتے تھے۔
حالانکہ، اب چیزیں بدل گئی ہیں۔ اب مویشیوں کے چرنے کے لیے اتنی زمین نہیں بچی ہے، کیوں کہ زمین کا زیادہ تر حصہ نجی ملکیت میں تبدیل ہو چکا ہے یا حکومت کے پاس چلا گیا ہے۔ روایتی گلہ بانوں کے پاس چراگاہوں کی کمی ہوتی جا رہی ہے، اور طویل عرصے سے تال میل بیٹھاتے چلے آ رہے چرواہوں اور کسانوں کے رشتوں میں دراڑ پڑ گئی ہے۔
میں نے پھویا رام جی سے گزارش کی کہ وہ مجھے وہ کہانیاں سنائیں جو انہوں نے بچپن میں سنی تھی۔ انہوں نے مجھے وہاں کی ایک زبانی کہانی سنائی، جو ایک بھائی اور بہن، دو غیبی شکلوں، قسمت اور لکشمی کی کہانی ہے۔ یہ پیسے کے پیچھے بھاگنے والوں کو ہوشیار کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: راجستھان کے رائیکا
مترجم: محمد قمر تبریز