زمین سے 25 فٹ اوپر مچان کے اوپر بیٹھی ہوئی سنگیتا کماری ساہو کا دایاں ہاتھ دھیرے دھیرے لگاتار چل رہا ہے۔ وہ برسوں سے اندیکھی کی شکار اس عمارت کو کھرچ رہی ہیں، جس کی مرمت صحیح طریقے سے نہیں کی گئی ہے۔ ’’میں کوئی عام مزدور نہیں ہوں، بلکہ ایک آرٹسٹ ہوں،‘‘ وہ اپنا کام روک کر اعلان کرتی ہیں، جب میں ان سے دوپٹہ ہٹانے کے لیے کہتی ہوں، جسے انھوں نے دھول سے بچنے کے لیے اپنے چہرے پر لپیٹ رکھا ہے۔
چھتیس گڑھ کے دُرگ ضلع کے بیمیتارا بلاک کے اپنے بہیرا گاؤں سے تقریباً 800 کلومیٹر دور، 19 سالہ سنگیتا اور 45 سالہ ان کی ماں نیرا، کھرچنے کا کام کرتی ہیں۔ وہ سنتھیٹک بالوں سے بنے چھ اِنچ کے آرٹ برش سے سیمنٹ اور پینٹ کی تہوں کو احتیاط سے ہٹاتی ہیں۔ ان کے پاس مختلف قسم کے برش ہیں، جن کے بالوں کی لمبائی 0.7 انچ سے 4 انچ تک ہے، اور جس کا استعمال کام کی نزاکت کے حساب سے ہوتا ہے۔ یہاں پر ان کا کام لکھنؤ کی سب سے مشہور پہچان – کانسٹینٹیا کی اصلی بناوٹ کے نقوش کو ابھارنا ہے۔ اس محل کو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنگال آرمی کے میجر جنرل کلاڈ مارٹن نے بنوایا تھا، لڑکوں کا لا مارٹنیئر کالج اسی عمارت کے اندر واقع ہے۔
سنگیتا کی اعلیٰ درجے کی مہارت اس کام کی وجہ سے ہونے والی جسمانی تکلیف کو نہیں روک پاتی۔ ’زیادہ تر دنوں میں، میں بھوت جیسی نظر آتی ہوں‘، اپنے کپڑوں پر جمی دھول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں۔
کسی بھی عمارت کو اس کی اصلی شکل میں بحال کرنے کا پہلا قدم ہے اسے کھرچنا۔ پچاس سالہ انصارالدین امان، جو سال 2013 سے ہی اس پروجیکٹ کی قیادت کر رہے ہیں، اسے ایک ’نازک کام‘ بتاتے ہیں۔ امان نے اپنے کام کی شروعات ایک سائن بورڈ پینٹر کے طور پر کی تھی۔ ان کے شاندار کام کو دیکھتے ہوئے فرانسیسی حکومت نے انھیں 2016 میں اعزاز سے نوازا۔ وہ کہتے ہیں، ’’احتیاط سے کھرچے بغیر، بحالی کا کوئی بھی کام ممکن نہیں ہے۔‘‘
کانسٹینٹیا فرانسیسی بروق اسٹائل میں تعمیر کی گئی 200 سال سے زیادہ پرانی عمارت ہے، جس کی دیواروں اور اندرونی چھتوں پر مختلف قسم کے نقش و نگار بنے ہوئے ہیں۔ تاہم، ان دونوں ماں بیٹی کا بنیادی کام ہے ’’پھول، پتی، چہرے‘‘ کو ابھارنا۔ بعض دفعہ کھرچنے کے بعد جو اصلی صورت نمودار ہوتی ہے، وہ انھیں حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ ’’جیسے کہ نومولود بچہ پر پہلی نظر پڑنا – اتنی ہی خوشی مجھے اسے دیکھ کر ہوتی ہے،‘‘ سنگیتا ہنستے ہوئے کہتی ہیں۔ اور بعض دفعہ، گہری اُداسی چھا جاتی ہے۔ ’’ایسا بغیر چہرے والی تصویر کو دیکھ کر ہوتا ہے، میں سوچنے لگتی ہوں کہ یہ تصویر کیسی رہی ہوگی،‘‘ وہ ہلکی آواز میں کہتی ہیں، گویا کہ ان کا ذاتی نقصان ہو گیا ہو۔
اپنی حقیقی زندگی میں یہ دونوں کانسٹینٹیا جیسی عمارت میں نہ تو کبھی رہی ہیں اور نہ ہی ایسی عمارت انھوں نے کہیں اور دیکھی ہے۔ سنگیتا اپنے والدین، اپنے بڑے بھائی شیامو، اور چھوٹی بہن آرتی کے ساتھ رہتی ہیں۔ وہ لکھنؤ کے جس علاقے میں رہتی ہیں، وہ جگہ تھوڑی اونچی ضرور ہے، لیکن اس فیملی کا ایک کمرہ والا گھر چال جیسا ہے، جو مشکل سے چھ فٹ چوڑا اور آٹھ فٹ لمبا ہے۔ کمرہ کی دیواریں تیز گلابی رنگ کی ہیں، جس کے دو سائڈ ہندو دیوتاؤں کی تصویروں سے پلاسٹر کیے گئے ہیں۔ چمکیلے دیوتاؤں کے نیچے ترتیب سے کپڑے ٹنگے ہوئے ہیں۔ ایک دیوار کے ساتھ جو چھجا بنا ہوا ہے، اس پر ٹن کے بکسے، فیملی کی تصویریں اور بہت سے گھریلو سامان رکھے ہوئے ہیں۔ اسی کے نیچے ایک ٹیلی ویژن ہے، جس میں بقول سنگیتا، وہ ’’فیملی ڈراما اور پیار بھری کہانیاں‘‘ دیکھتی ہیں۔ فرنیچر کے نام پر واحد شے لکڑی کی ایک چارپائی ہے، جب کہ نائیلون سے بنی دوسری چارپائی موڑ کر دیوار کے ساتھ کھڑی کی ہوئی ہے۔ کمرہ کے باہر اسی کے سائز جتنی کھلی جگہ ہے، جسے کھانا پکانے اور سونے کے لیے اضافی جگہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
حالانکہ یہ کمرہ (اور اسی کی طرح دوسرے بہت سے کمرے 600 روپے ماہانہ کرایے پر دیے گئے ہیں) تقریباً 20000 مربع فٹ سائز کے پلاٹ پر بنا ہوا ہے، لیکن مکان مالک (جو کہ ایک ٹیچر ہے) اپنی زمین پر کرایہ داروں کا گھومنا پسند نہیں کرتا۔
اور سنگیتا کی ہمت اتنی نہیں ہے کہ وہ گھر سے باہر نکل سکیں، سوائے اس کے جب وہ سائیکل سے (اپنی ماں کو پیچھے بیٹھا کر) صبح میں 8.15 بجے کام کرنے کی جگہ پر جاتی ہیں اور وہاں سے واپس گھر کے لیے شام کو 5.30 بجے نکلتی ہیں۔ ’’میں سنتی ہوں کہ لکھنؤ محفوظ جگہ نہیں ہے۔ یہ لڑکیوں کے لیے صحیح جگہ نہیں ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ بہیرا میں، وہ دوستوں کے ساتھ راز کی باتیں کرتے اور مسکراتے ہوئے کھیتوں سے ہوکر گزرتی ہیں اور پورے گاؤں میں گھومتی ہیں۔
بہیرا سے بڑے پیمانے پر لوگ ہجرت کر رہے ہیں، ان میں سے زیادہ تر تعمیراتی جگہوں پر کام کرنے جاتے ہیں۔ اس فیملی کے پاس زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے – ایک ایکڑ سے بھی کم۔ ’’ہم جب دوسروں کے کھیتوں پر کام کرتے ہیں، تو ایک دن میں صرف 100 روپے ہی کما پاتے ہیں،‘‘ نیرا بتاتی ہیں۔ کھیت بٹائی پر دے دیا جاتا ہے اور بٹائی دار زمین کے مالک کو ہر سال 20-10 بورے چاول یا گیہوں دیتا ہے، جو اس بات پر منحصر ہے کہ فصل کتنی اچھی ہو رہی ہے۔ لکھنؤ میں چار سال تک مزدوری کرنے کے بعد ان کے پاس اتنے پیسے آگئے کہ انھوں نے گاؤں میں اینٹ کے تین کمرے بنالیے ہیں۔ آگے، یہ اس گھر میں ایک ٹوائلیٹ بنانا اور اینٹ کی سبھی دیواروں پر پلاسٹر کروانا چاہتی ہیں۔
سنگیتا اور نیرا روزانہ جو ساڑھے سات گھنٹے تک اتنا اہم کام کرتی ہیں، اس کے بدلے ان میں سے ہر ایک کو 350 روپے ملتے ہیں – جتنا کہ مزدوروں کو ملتے ہیں۔ کبھی چھٹی نہیں ہوتی، اور جس دن یہ چھٹی لیتی ہیں، اس دن کے پیسے نہیں ملتے۔ سنگیتا کے والد، سالک رام، اسی جگہ پر راج گیر مستری کا کام کرکے روزانہ 550 روپے کماتے ہیں۔ شیامو کو مزدور اور راج گیر مستری کے بیچ کا پیسہ ملتا ہے اور وہ روزانہ 400 روپے کما لیتے ہیں۔ سب سے چھوٹی بہن آرتی، مکان مالک کے یہاں کھانا پکاتی ہے، جس کے بدلے اسے ماہانہ 600 روپے ملتے ہیں۔ فیملی یہ سب جوڑ کر بتاتی ہے کہ ان پانچوں کی کمائی سے وہ ہر مہینے 10 ہزار روپے بچا لیتے ہیں۔
یہاں عمارتوں کی تعمیر کے زیادہ تر مقامات پر، عورتیں مزدور کے طور پر کام کرتی ہیں، جس میں انھیں اپنی پیٹھوں اور سروں پر ریت اور سیمنٹ کی آمیزش سے بنے گارے کے 50 کلوگرام کے تھیلے اٹھانے پڑتے ہیں۔ سنگیتا کی بڑی بہن سنتوشی کا معاملہ سب سے الگ ہے۔ اس کے تحمل اور آنکھوں کی تیز روشنی کی وجہ سے انصارالدین نے اسے کھرچنے کی ٹریننگ دی۔ ’’وہ تقریباً 70 فیصد مستری تھی۔ لیکن تبھی اس کی شادی ہو گئی،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ سنتوشی اب پُنے میں اپنے شوہر کے ساتھ ایک عام مزدور کی طرح کام کرتی ہے، نہ کہ مستری کے طور پر جو کہ وہ بن سکتی تھی۔
انصارالدین کو سنتوشی کے چلے جانے سے جو نقصان ہوا، اس کی بھرپائی وہ سالک رام کو کھرچنے کی ٹریننگ دے کر کرنا چاہتے تھے۔ ’’اس طرح، جب انھیں مرمت کی جگہ کوئی کام مل جاتا، تو سنگیتا کے ہنر کو اچھی طرح استعمال کیا جا سکتا تھا۔‘‘ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ 20 سال تک کام کرنے کے دوران انھیں ایسا کوئی نہیں ملا، جس کے اندر سنگیتا جیسی قدرتی صلاحیت ہو۔ لیکن سالک رام نے زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی، اسی لیے سنگیتا کے مستقبل سے سمجھوتہ کرنا پڑا، جس کے بارے میں خود انھیں کچھ نہیں معلوم۔
سنگیتا کی اعلیٰ درجے کی صلاحیت اس کام سے ہونے والی جسمانی تکلیف کو روک نہیں پاتی۔ ’’میری آنکھوں اور کندھوں میں درد ہونے لگتا ہے۔ زیادہ تر دنوں میں، میں بھوت جیسی نظر آتی ہوں،‘‘ وہ پینٹ اور سیمنٹ کی وجہ سے اپنے کپڑوں پر جمی دھول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ ان کے دن کی شروعات صبح میں 6 بجے ہوتی ہے اور اس وقت ان کا پہلا کام ہوتا ہے ہینڈ پمپ سے 20-15 بالٹی پانی بھرنا، جو کہ فیملی کے رہنے کی جگہ سے 20 فٹ دور نیچے ہے۔ اس کے بعد وہ کپڑے دھوتی اور نہاتی ہیں، جب کہ آرتی صبح کا ناشتہ اور دوپہر کا کھانا پکاتی ہیں۔ کام کے بعد، وہ دوبارہ 5-4 بالٹی پانی بھرتی ہیں اور رات کا کھانا پکاتی ہیں – نوڈلس، چکن اور مچھلی انھیں بے حد پسند ہے۔ گھر کے مرد باہر جاکر یا تو روزمرہ استعمال کی چیزیں خرید کر لاتے ہیں یا پھر آرام کرتے ہیں۔ شیامو نے ایک بار کیٹرر کے ساتھ کام کیا تھا، اور بعض دفعہ وہ کچھ برتن بھی دھو دیتے ہیں۔ لیکن، وہ بھی ’’زیادہ تر صرف اپنے لیے،‘‘ سنگیتا کہتی ہیں۔ بہنوں نے کبھی اس پر سوال کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔
اپنے کام کی نوعیت کے باوجود، حالانکہ انھوں نے کچھ حدیں بھی پار کی ہیں، سنگیتا کی دلی خواہش ہے شادی کرنا۔ ’’کاش، مجھے اس تھکا دینے والے کام سے چھٹکارہ مل جاتا۔ میں سفر کرتی اور اپنی پسند کے کھانے کھاتی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ نیرا ناپسندیدگی سے دیکھتی ہیں۔ ’’اس کے شاہانہ خواب ہیں۔ جب کہ اسے حقیقت سے جڑنا چاہیے۔‘‘
سنگیتا، پورے سکون کے ساتھ اپنی شادی میں جہیز کے لیے ضروری سامانوں کی لسٹ من ہی من تیار کرتی ہیں۔ (’’عورت چاہے جتنی بھی خوبصورت ہو، جہیز چاہیے ہی چاہیے،‘‘ وہ بڑبڑاتی ہیں)۔ لہٰذا، اس لسٹ میں ایک ٹیلی ویژن، ایک ریفرجریٹر، اسٹیل کی ایک الماری اور کپڑے دھونے کی ایک مشین ہے۔ ’’اور ہاں، چاندی کے پازیب اور چمکیلے، خوبصورت رنگ کے کپڑے،‘‘ قہقہہ لگاتے ہوئے وہ کہتی ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)