’’لاک ڈاؤن نے ہمیں تباہ کر دیا،‘‘ عبدالماجد بھٹ کہتے ہیں۔ ’’آخری سیاح میری دکان پر مارچ میں آیا تھا۔‘‘
سرینگر کی ڈل جھیل میں بھٹ کی تین دکانیں ہیں، جن پر وہ چمڑے کے سامان اور مقامی دستکاری سے تیار مال فروخت کرتے ہیں، لیکن جون میں لاک ڈاؤن میں رعایت کے باوجود ان کی دکان پر کوئی خریدار نہیں آیا ہے۔ اور اب اس قسم کے حالات کی مدت ایک سال سے بھی زیادہ ہو چکی ہے، جس کی شروعات ۵ اگست، ۲۰۱۹ کو کشمیر میں دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی سے ہوئی تھی۔
ان دونوں کا سیاحت پر تباہ کن اثر ہوا ہے، جب کہ عبدالماجد جیسے بہت سے لوگ سیاحت پر ہی منحصر ہیں۔
’’اُس ۶-۷ مہینے کی تالا بندی کے بعد جب سیاحوں کی آمد کا موسم شروع ہونے ہی والا تھا کہ یہ کورونا لاک ڈاؤن شروع ہو گیا،‘‘ ۶۲ سالہ عبدالماجد بھٹ کہتے ہیں، جو ڈل جھیل کے بٹ پورہ کلاں علاقہ کے رہنے والے، اور ایک محترم بزرگ ہیں۔ وہ ’لیک سائڈ ٹورسٹ ٹریڈرز ایسوسی ایشن‘ کے صدر بھی ہیں، جس کے بقول ان کے، تقریباً ۷۰ رکن ہیں۔
جھیل کی سیاحت پر مبنی اقتصادیات پر انحصار کرنے والے سرینگر کے متعدد لوگ – شکارا چلانے والے، پھیری لگانے والے، دکاندار – بھی اسی قسم کی باتیں کرتے ہیں، جن کے لیے پچھلے ۱۲ مہینے سیاحتی کتابچہ کے لیے ڈل کی خوبصورت تصویر سے زیادہ کچھ نہیں رہے۔ (دیکھیں سرینگر کے شکارے: پانی جتنا ہی گہرا ہے نقصان )
انہی میں سے ایک نہرو پارک کی ۲۷ سالہ حفصہ بھٹ ہیں، جنہوں نے کورونا وائرس لاک ڈاؤن شروع ہونے سے پہلے، گھر سے ہی ایک چھوٹا کاروبار شروع کیا تھا۔ جموں اینڈ کشمیر آنٹے پرینئرشپ ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ سے ۲۴ روزہ تربیتی کورس مکمل کرنے کے بعد حفصہ، جو سرینگر میں ایک اسکول ٹیچر بھی ہیں، کو انسٹی ٹیوٹ سے کم سود پر ۴ لاکھ روپے کا ایک لون (قرض) ملا تھا۔ ’’میں نے ملبوسات اور کپڑوں کا اسٹاک خریدا تھا۔ میں نے اس اسٹاک میں سے ابھی ۱۰-۲۰ فیصد ہی فروخت کیے تھے کہ لاک ڈاؤن کا اعلان ہو گیا۔ اب مجھے اس کی قسط ادا کرنے میں پریشانی ہو رہی ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
نہرو پارک – ۱۸ مربع کلومیٹر کی ڈل جھیل کے اندر متعدد جزیروں میں سے ایک – کے اسی علاقہ میں ۷۰ سالہ عبدالرزاق ڈار بھی رہتے ہیں۔ وہ سرینگر کی بولیوارڈ روڈ سے منسلک ایک گھاٹ سے شکارا چلاتے ہیں۔ ’’اتنی خراب حالت نہیں دیکھی آج تک،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
’’سیاحت کے کاروبار میں جو کچھ بھی بچا ہوا تھا، اسے کورونا لاک ڈاؤن نے تباہ کر دیا،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔ ’’ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔ پچھلے سال جو ہماری حالت تھی، اب اس سے بھی بدتر ہے۔ میرے گھر میں چار افراد ہیں جو اس شکارا پر منحصر ہیں۔ ہم تباہی کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم جو کچھ ایک وقت میں کھاتے تھے، اسی کو اب تین وقت کھاتے ہیں۔ شکارا والے جب تک کھائیں گے نہیں تب تک شکارا چلے گا کیسے؟‘‘
ان کے بغل میں بیٹھے، نہرو پارک کے آبی کرپورہ محلہ کے ۶۰ سالہ ولی محمد بھٹ کہتے ہیں، ’’پچھلا ایک سال ہم سبھی کے لیے پریشانیوں بھرا گزرا ہے۔ پچھلے سال دفعہ ۳۷۰ کو منسوخ کرنے سے قبل ایڈوائزری جاری کرکے، انہوں نے تمام سیاحوں کو باہر نکال دیا اور سب کچھ بند کردیا۔ اور پھر کورونا وائرس لاک ڈاؤن آگیا، جس نے ہمیں برباد کر دیا۔‘‘ ولی محمد ’آل جموں اینڈ کشمیر ٹیکسی شکارا اونرز ایسوسی ایشن‘ کے صدر ہیں، جو بقول ان کے، ڈل اورنِگین جھیلوں کے ۳۵ چھوٹے بڑے گھاٹوں کا احاطہ کرتی ہے، اور اس تنظیم میں ۴ ہزار رجسٹرڈ شکارا والے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کا مجموعی طور پر کروڑوں کا نقصان ہوا ہے۔ ولی محمد کے مطابق، سیاحتی موسم میں ان کی تنظیم کا ہر رکن ایک دن میں کم از کم ۱۵۰۰-۲۰۰۰ روپے کما لیتا تھا۔ ’’شکارا والے چار مہینے [اپریل- مئی سے اگست- ستمبر تک] کے اس موسم میں اتنا کما لیتے تھے کہ اس سے ان کا سال بھر کا کام چل جاتا تھا، لیکن کورونا وائرس لاک ڈاؤن نے اسے چھین لیا۔ شادی بیاہ سے لیکر دیگر اخراجات تک، سب کچھ اسی [سیاحتی] موسم کے دوران کمائے گئے پیسے پر منحصر ہوتا تھا۔‘‘
ان مہینوں کے نقصان کی بھرپائی کرنے کے لیے، شکارا والے کچھ کنبوں نے یومیہ مزدوری کرنا شروع کر دیا ہے، جیسا کہ ۴۰ سال کی عمر میں چل رہے عبدالرزاق کے دو بیٹے کر رہے ہیں۔ ’’وہ بھی شکارا والے کے طور پر کام کرتے تھے، لیکن حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے ان سے کہا کہ وہ گھاس پھوس کی صفائی کے پروجیکٹ میں شامل ہو جائیں،‘‘ عبدالرزاق ڈار کہتے ہیں۔
ان کا اشارہ جموں و کشمیر کی جھیلوں اور آبی گزرگاہوں کی ترقی کے محکمہ کے ذریعے کیے جا رہے کاموں کی طرف ہے۔ گھاس پھوس کی صفائی کا کام موسم کے حساب سے دستیاب ہوتا ہے، جب پانی میں چاروں طرف شکارے کے نہیں چلنے سے گھاس پھوس اُگ آتے ہیں۔ انہیں نکالنے کے لیے مشینوں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے، اور بعض دفعہ مقامی ٹھیکہ داروں کے ذریعے مزدوروں کو کام پر لگایا جاتا ہے۔
ڈل جھیل کے نہرو پارک سے تعلق رکھنے والے ۳۲ سالہ شبیر احمد بھٹ بھی وسط جولائی سے یہی کام کر رہے ہیں۔ وہ گرمیوں میں چار مہینے، لداخ میں اپنی دکان پر شال اور کشمیری دستکاری کے دیگر سامان فروخت کیا کرتے تھے، جس سے ان کی ماہانہ کمائی تقریباً ۳۰ ہزار روپے ہو جایا کرتی تھی۔ سردیوں میں انہی سامانوں کو بیچنے کے لیے وہ گوا اور کیرالہ جایا کرتے تھے۔ جب ۲۲ مارچ کو لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا، تو انہیں گھر واپس لوٹنا پڑا۔ اس کے بعد کئی مہینوں تک جب انہیں کوئی کام نہیں ملا، تو انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی، ۲۸ سالہ شوکت احمد کے ساتھ جھیل سے گھاس پھوس نکالنے کا کام شروع کردیا۔
’’ہم ڈل جھیل میں چار چناری کے قریب گھاس پھوس نکالتے ہیں اور انہیں سڑک کے کنارے تک پہنچاتے ہیں، جہاں سے انہیں ٹرکوں میں لاد کر دور لے جایا جاتا ہے،‘‘ شبیر بتاتے ہیں۔ ’’ہر چکّر کے لیے ہم دو لوگوں کو ۶۰۰ روپے ملتے ہیں، جس میں سے ۲۰۰ روپے اس بڑی کشتی کا کرایہ ہے جسے ہم چلاتے ہیں۔ یہ ہمارے اوپر ہے کہ گھاس پھوس ڈھونے میں ہم کتنے چکّر لگا سکتے ہیں، لیکن اکثر صرف دو چکّر لگانا ہی ممکن ہے۔ گھاس پھوس کو پانی سے باہر نکالنا کافی محنت والا کام ہے۔ ہم گھر سے صبح میں تقریباً ۶ بجے نکلتے ہیں، اور دوپہر کو ۱ بجے واپس لوٹتے ہیں۔ ہم دو چکّر لگانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ کچھ پیسے بنا سکیں۔‘‘
شبیر کہتے ہیں کہ اس سے پہلے انہوں نے اتنی جسمانی محنت والا کام کبھی نہیں کیا تھا۔ جھیل کے جزیروں پر ان کی فیملی کی زمین کے کچھ ٹکڑے ہیں، جو الگ الگ جگہوں پر پھیلے ہوئے ہیں، لیکن اس پر ان کے والد، والدہ اور ان کا ایک بھائی ہی کچھ فصلیں اگاتے ہیں۔
’’لاک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد، ہم نے کافی وقت تک کوئی کام نہیں کیا،‘‘ شبیر کہتے ہیں۔ ’’جب معاش حاصل کرنے کا کوئی متبادل نہیں تھا، تو میں نے ڈل سے گھاس پھوس نکالنے کا یہ کام شروع کیا۔ ہم اس جسمانی محنت کے اوپر اپنے سیاحتی کاروبارکو ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ ہم نے عمر بھر یہی کام کیا ہے۔ لیکن اس وقت چونکہ کوئی سیاحت نہیں ہے، اس لیے ہمارے پاس زندہ رہنے کے لیے یہی ایک متبادل تھا۔ اب اگر ہم اپنی فیملی کا خرچ نکال لیتے ہیں، تو یہی ہماری سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔‘‘
شبیر بتاتے ہیں کہ ان کی فیملی کو اپنے گھر کے خرچ میں نصف کی کٹوتی کرنی پڑی ہے۔ ’’ہم اپنا اسٹاک [شال، چمڑے کے بیگ اور جیکٹ، زیبائشی زیورات اور دیگر سامان] استعمال نہیں کر سکتے – انہیں کوئی بھی ہم سے نہیں خریدے گا، اور فی الحال یہ کسی کام کے نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ، ہمارے اوپر کافی قرض ہے [خاص کر اسٹاک کے لیے جسے اُدھار خریدا گیا ہے]۔‘‘
شبیر چاہتے ہیں کہ حکومت اس جدوجہد کو سمجھے، جو ڈل کے جزیروں پر رہنے والے لوگوں کو کرنی پڑ رہی ہے۔ ’’اگر وہ یہاں آکر سروے کریں، تو یہاں کی مشکلوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے بہت سے کنبے ہیں، جن کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کے اہل خانہ بیمار ہیں یا گھر میں کمانے والا کوئی نہیں ہے۔ اگر حکومت یہاں آئے اور ایسے لوگوں کو کچھ رقم مہیا کر سکے، تو یہ بڑی راحت کی بات ہوگی۔‘‘
وہ جھیل میں رہنے والے لوگوں اور سرینگر شہر میں رہنے والوں کے درمیان فرق کو بتاتے ہیں، جہاں متبادل اتنے محدود نہیں ہیں۔ ’’ڈل میں، ہم سیاحت کے علاوہ زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔ زیادہ سے زیادہ ہم سبزیاں فروخت کر سکتے ہیں [کشتیوں میں، جزیرہ کے ایک محلہ سے دوسرے محلہ تک]۔ ہم وہ کام نہیں کر سکتے جو شہر میں رہنے والے لوگ کر سکتے ہیں، یا سامان بیچنے کے لیے ٹھیلے نہیں لگا سکتے۔ اگر سیاحت دوبارہ شروع ہوتی ہے، تو ہمارے پاس کام ہوگا، لیکن فی الحال ہم جدوجہد کر رہے ہیں۔‘‘
کشتیوں پر سبزیاں بیچنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بٹ پورہ کلاں کی بی اے کی ایک طالبہ، ۲۱ سالہ عندلیب فیاض بابا کہتی ہیں، ’’میرے والد ایک کاشتکار ہیں۔ وہ کئی مہینے تک کچھ نہیں کما سکے کیوں کہ وہ گھر سے باہر جانے کے قابل نہیں تھے۔ تمام سبزیاں سڑ گئیں، وہ اپنے گاہکوں کو بہت تھوڑی سبزیاں پہنچا سکے۔ اس نے ہماری فیملی کو بری طرح متاثر کیا ہے، میرے والد گھر کے واحد کمانے والے رکن ہیں۔‘‘ عندلیب کا چھوٹا بھائی اور دو بہنیں، سبھی طالب علم ہیں، ان کی ماں ایک خاتونِ خانہ ہیں۔ ’’ہمیں اسکول کی مکمل فیس، اور ساتھ ہی میرے کالج کی فیس بھی ادا کرنی تھی۔ اور ناگہانی کی حالت میں، ہمیں کنارے [سرینگر] جانے کے لیے جھیل کو پار کرنا پڑتا ہے۔‘‘
ایسے لوگ جو شہر میں رہتے ہیں لیکن جھیل کی سیاحت پر منحصر ہیں، انہیں بھی کئی مہینوں تک مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انہی میں سے ایک، سرینگر کے شالیمار علاقہ کے محمد شفیع شاہ ہیں۔ وہ گھاٹ سے تقریباً ۱۰ کلومیٹر دور، گزشتہ ۱۶ برسوں سے سیاحتی موسم میں شکارا چلاتے ہیں، اور اچھے دنوں میں تقریباً ۱۰۰۰-۱۵۰۰ روپے کما لیتے ہیں۔ لیکن پچھلے ایک سال سے ان کے شکارے کی سواری کرنے زیادہ سیاح نہیں آئے ہیں۔ ’’انہوں نے جب سے دفعہ ۳۷۰ کو ہٹایا ہے، ہم بیکار بیٹھے ہوئے ہیں، اور کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے بعد حالت مزید خراب ہو چکی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
’’میں جھیل میں رہا کرتا تھا، لیکن حکومت نے ہمیں باہر نکال دیا،‘‘ وہ دوسری جگہوں پر منتقلی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’میں یہاں شالیمار سے [کسی کی گاڑی سے مدد مانگ کر] روزانہ آتا ہوں۔ سردیوں میں کام کے لیے میں باہر جاتا تھا [گوا، ساحلوں پر دستکاری کے سامان بیچنے کے لیے] لیکن لاک ڈاؤن کے بعد ۵۰ دنوں تک پھنسا رہا اور کاروبار ختم ہو گیا۔ میں مئی کے آخر میں واپس آیا اور ایک ہفتہ تک کوارنٹائن میں رہا...‘‘
ڈل جھیل میں، شکارا والے ہر گھاٹ پر یونین بنا لیتے ہیں – یہ تمام آلل جموں اینڈ کشمیر ٹیکسی شکارا اونرز یونین کے تحت آتے ہیں – اور ہر ایک شکارا سے کمائے گئے پیسے کو جمع کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنے ممبران کے درمیان پیسے برابر برابر تقسیم کرتے ہیں۔ جس گھاٹ پر شفیع کام کرتے ہیں، وہاں پر تقریباً ۱۵ شکارے ہیں۔
’’اگر کوئی مقامی شخص آتا ہے، جو کبھی کبھار ہی ہوتا ہے، تو ہم انہیں شکارا پر لے جاتے ہیں اور ۴۰۰-۵۰۰ روپے کماتے ہیں، جسے اس ٹیکسی اسٹینڈ کے ۱۰-۱۵ لوگوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، اور تب یہ فی کس ۵۰ روپے ہو جاتا ہے۔ مجھے اس سے کیا حاصل ہوگا؟ اس شکارا کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ میرا گھر کیسے چلے گا؟ کیا وہ تباہ نہیں ہو جائے گا؟‘‘
شفیع بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی شکارا ٹیکسی کا لائسنس محکمہ سیاحت کو جمع کر دیا تھا کیوں کہ انہوں نے سنا تھا کہ حکومت تین مہینے تک ہر شکارا والے کو ماہانہ ۱۰۰۰ روپے دے گی، لیکن انہیں کچھ بھی نہیں ملا۔
بولیوارڈ روڈ کے اُس پار، جھیل کے اندر، ۵۰ سالہ عبدالرشید بڈیاری، اپنے خالی ہاؤس بوٹ، ’ایکروپولس‘ کے سامنے والے برآمدہ میں تکیہ سے ٹیک لگاکر بیٹھے ہوئے ہیں – اس کی ہاتھ سے بنی لکڑی کی دیواریں ہیں، مہنگے صوفے رکھے ہوئے ہیں اور چھت پر روایتی، مرصع ختم بند اسٹائل میں کشیدہ کاری کی گئی ہے۔ لیکن ایک سال سے یہاں کوئی گاہک نہیں آیا ہے۔
’’میں جب سے بالغ ہوا، تبھی سے ہاؤس بوٹ چلا رہا ہوں۔ مجھ سے پہلے، میرے والد اور دادا بھی یہی کام کرتے تھے اور یہ کشتی مجھے انہیں سے وراثت میں ملی ہے،‘‘ بڈیاری کہتے ہیں۔ ’’لیکن ہمارے لیے سب کچھ بند ہے، دو لاک ڈاؤن کے بعد سے ہمارے پاس کوئی گاہک نہیں آیا ہے۔ میرا آخری گاہک دفعہ ۳۷۰ سے پہلے آیا تھا۔ کورونا وائرس لاک ڈاؤن نے میرے اوپر زیادہ اثر نہیں ڈالا کیوں کہ یہاں پر پہلے سے ہی کوئی سیاح نہیں تھا۔ سب کچھ نقصان میں چل رہا ہے، پراپرٹی بھی سڑ رہی ہے۔‘‘
بڈیاری کی پانچ رکنی فیملی کا گزر بسر ہاؤس بوٹ میں رکنے والے سیاحوں کی بدولت ہی چلتا تھا۔ ’’میں ایک رات کے قیام کے لیے ۳ ہزار روپے لیتا تھا۔ سیزن کے مہینوں میں میری بوٹ (کشتی) بھری رہتی تھی۔ پھیری لگانے والے اور دیگر کاروباری بھی میرے ہاؤس بوٹ میں قیام پذیر سیاحوں کو سامان فروخت کرتے تھے، اور شکارا والے میرے گاہکوں کو جھیل کی سیر کراکر پیسے کماتے تھے۔ اب سبھی لوگوں کا کام بند ہو گیا ہے۔ میرے پاس جتنی بھی بچت تھی، میں اسی سے اپنا خرچ چلا رہا ہوں، اور میں نے قرض بھی لیا ہے۔‘‘ بڈیاری نے ایک ملازم رکھا ہوا تھا، جو ہاؤس بوٹ کی دیکھ بھال کرتا تھا، لیکن اسے تنخواہ دینے میں ناکام رہنے کے سبب انہوں نے اسے چلے جانے کو کہہ دیا۔ ’’مستقبل پرامید نہیں دکھائی دے رہا ہے، میں نہیں چاہتا کہ میرا بیٹا بھی یہی کام کرے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
ان مہینوں کے دوران، چند لوگوں نے پریشان کا سامنا کر رہے شکارا والوں اور تاجروں کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے؛ ان میں سے ایک عبدالماجد بھٹ (لیک سائڈ ٹورسٹ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر) ہیں۔ ’’ہمارے پاس ایمرجنسی میں اپنی ایسوسی ایشن کے ممبران کی مدد کے لیے تقریباً ۶ لاکھ روپے کا ٹرسٹ تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’ہم یہ پیسے ان لوگوں کو دے دیے، جو سب سے زیادہ کمزور تھے، تاکہ وہ اپنا گھر چلا سکیں۔‘‘
عبدالماجد بھٹ ہر موسم میں ۱۰ لوگوں کو روزگار دیتے تھے، وہ بتاتے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک کو ۱۰-۱۵ ہزار روپے تنخواہ دیتے تھے۔ ’’مجھے ان میں سے زیادہ تر کو چلے جانے کو کہہ دیا تھا کیوں کہ میرے پاس انہیں دینے کے لیے پیسے نہیں تھے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اپنی فیملی سے مشورہ کرنے کے بعد میں نے ان میں سے کچھ کو، جو بہت ہی غریب تھے، اپنے پاس ہی رکھا۔ ہم جو کچھ کھاتے ہیں، اسی میں سے انہیں بھی کھلاتے ہیں۔ ورنہ، میں کسی ملازم کو نہیں رکھ سکتا۔ گزشتہ پانچ مہینوں میں، میں نے چند مقامی گاہکوں کو ۴ ہزار روپے سے بھی کم کے سامان بیچے ہیں۔‘‘
عبدالماجد کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی فیملی کا خرچ چلانے اور قرض ادا کرنے کے لیے بینک سے لون لیا ہے۔ ’’مجھے اس پر بھی سود دینا پڑتا ہے۔ میرے دو بیٹے اور تین بھتیجے میرے ساتھ کام کرتے ہیں [ان کی دو بیٹیاں ہیں؛ ان میں سے ایک خاتون خانہ ہے، دوسری گھر کے کام میں مدد کرتی ہے]۔ میرا بیٹا بی کام گریجویٹ ہے اور میری انا نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ میں اسے جسمانی مزدوری کرنے کے لیے بھیجوں، لیکن اب حالت کچھ ایسی ہو چکی ہے کہ اسے بھی جانا ہوگا۔‘‘
عبدالماجد کہتے ہیں کہ حکومت ڈل جھیل کے دکانداروں اور شکارا والوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔ ’’کوئی بھی آدمی ہمارے نقصانوں کا اندازہ لگانے کے لیے نہیں آیا۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کو اب چونکہ ختم کر دیا گیا ہے، اس لیے مقامی لوگ عام طور سے شہر کی دکانوں پر آتے ہیں۔ ’’لیکن کوئی بھی مقامی باشندہ ڈل میں کشمیری آرٹ کی دکانوں پر نہیں آ رہا ہے۔ ڈل جھیل کا دکاندار ۱۰۰ فیصد خسارے میں ہے۔‘‘
عبدالماجد بتاتے ہیں کہ جولائی میں ڈائریکٹوریٹ آف ہینڈی کرافٹس کے ایک اہلکار نے مالی مدد حاصل کرنے کے لیے ان سے اپنا رجسٹریشن آن لائن جمع کرنے کے لیے کہا تھا، لیکن کچھ نہیں ہوا۔ ’’تب سے، ہمیں کوئی امید نہیں، نہ تو ریاست سے اور نہ ہی مرکزی حکومت سے۔‘‘ طویل عرصے سے ہڑتال اور کرفیو کی وجہ سے غیر یقینیت بڑھتی جا رہی ہے، عبدالماجد کہتے ہیں۔ ’’میں نے اپنے بچوں سے کہا کہ ڈل جھیل اور ہمارے لیے مستقبل مایوس کن نظر آ رہا ہے...‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز