ریتا اَکّا کا ہر ایک کام اُس چیز کو ظاہر کرتا ہے، جو زندگی ہمیں سکھانے کی کوشش کرتی ہے – کہ اس کا ایک مقصد ہے۔ گویائی اور سماعت سے معذور اور صفائی کا کام کرنے والی وہ ایک بیوہ ہیں۔ ان کی ۱۷ سال کی بیٹی اپنی دادی کے ساتھ رہنے کے لیے گھر چھوڑ کر جا چکی ہے۔ اس ۴۲ سالہ خاتون کی تنہائی ان کی زندگی سے بڑی ہے، لیکن اس کے سامنے انہوں نے خود سپردگی نہیں کی ہے۔
ریتا اَکّا (بڑی بہن) – جیسا کہ وہ اپنے پڑوس میں جانی جاتی ہیں (حالانکہ کچھ لوگ انہیں اوماچی کہتے ہیں، جو گونگے کے لیے بے عزتی بھرا لفظ ہے) – ہر صبح بیدار ہونے کے بعد چنئی میونسپل کارپوریشن کے لیے محنت سے اپنے کچرا اٹھانے کے کام پر نکل جاتی ہیں۔ حالانکہ کبھی کبھی، مشقت بھرے دن کے آخر میں جسم میں درد کی شکایت کرتی ہیں۔ کچرا لے جانے کے لیے وہ جس سائیکل رکشہ ٹرالی کا استعمال کرتی ہیں، اس کے کناروں کو دیکھ کر آپ ان کے عزم کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ریتا نے اس کے اوپر الگ الگ رنگوں میں اپنا نام تین بار لکھوا رکھا ہے۔ دن کے آخر میں، وہ شہر کے کوٹّور پورم علاقے میں واقع ہاؤسنگ بورڈ کوارٹر کے اپنے چھوٹے، تنہا گھر میں واپس چلی جاتی ہیں۔
جانوروں کے ساتھ وقت گزارنے سے پہلے ریتا روزانہ دو جگہوں پر رکتی ہیں- کتّے کے لیے بسکٹ خریدنے کے لیے ایک چھوٹی سی دکان پر، اور بلیوں کے لیے چکن خریدنے کے لیے گوشت کی دکان پر
لیکن، اس کے درمیان، انہوں نے اپنا بھی ایک مقصد تلاش کر لیا ہے۔ اپنے کام کے بعد اور اپنے گھر کی سُستی میں ڈوبنے سے پہلے، ریتا اپنے ارد گرد آوارہ کتوں اور بلیوں کو جمع کر لیتی ہیں، اور انہیں کھلانے اور ان سے بات کرنے میں کافی وقت گزارتی ہیں۔ کوٹورپورم کی سڑکوں پر ہر شام کو کتنے صبروتحمل کے ساتھ، اپنا کام ختم کرکے ریتا کے آنے کا انتظار کرتے ہیں۔
وہ بنیادی طور پر تیروونّا ملائی کے ایک قصبہ سے ہیں (مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق، اُس ضلع میں دیہی آبادی تقریباً ۸۰ فیصد تھی)۔ ریتا دو دہائی پہلے، اپنے والدین کے ساتھ کام کی تلاش میں چنئی آئی تھیں۔ ان کو واضح طور پر تاریخ یاد نہیں ہے، لیکن وہ تصدیق کرتی ہیں کہ اتنے برسوں کے دوران، انہوں نے زیادہ تر وقت کئی گھروں میں کام کیا جس کے انہیں بہت کم پیسے ملتے تھے۔ تقریباً سات سال پہلے، وہ ایک ٹھیکہ مزدور کے طور پر چنئی کارپوریشن (اب گریٹر چنئی کارپوریشن) میں شامل ہو گئیں۔ ایک دن کے مشکل سے ۱۰۰ روپے سے شروعات کرکے، آج وہ ۸ ہزار روپے ماہانہ کماتی ہیں۔
ریتا بلیچنگ پاؤڈر، جھاڑو اور کچرے کی بالٹی کا استعمال کرتے ہوئے کوٹورپورم کی کم از کم چھ سڑکوں پر جھاڑو لگاتی اور صفائی کرتی ہیں۔ یہ کام وہ بغیر کسی دستانے، جوتے یا حفاظتی آلات کے کرتی ہیں۔ وہ جو کچرا اور کوڑا جمع کرتی ہیں، اسے سڑکوں پر لگے کارپوریشن کے ڈبّے میں جمع کیا جاتا ہے۔ یہاں سے کارپوریشن کی گاڑیاں اور لاری اسے ری سائیکلنگ کے لیے اکٹھا کرتی ہیں۔ ریتا صبح ۸ بجے کے آس پاس کام کرنا شروع کرتی ہیں اور دوپہر تک صفائی ختم کر لیتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ سڑکوں پر صفائی کرتے وقت ایک حادثہ میں ان کی ایک آنکھ کی بینائی متاثر ہوئی تھی۔ اور ننگے پیر چلنے سے ان کے پیروں میں آبلے پڑ گئے ہیں۔ اس کو چھوڑ کر، وہ زور دیکر کہتی ہیں، ان کی صحت اچھی ہے اور انہیں کوئی بڑی شکایت نہیں ہے۔
ان کا کمائی کا ایک بڑا حصہ کتوں اور بلیوں کے لیے کھانا خریدنے پر خرچ ہوتا ہے۔ پڑوسیوں کا ماننا ہے کہ وہ ان کے اوپر دن میں تقریباً ۳۰ روپے خرچ کرتی ہیں، حالانکہ وہ خود اس کے بارے میں کچھ نہیں کہیں گی۔
جانوروں کے ساتھ وقت گزارنے سے پہلے ریتا روزانہ دو جگہوں پر رکتی ہیں- کتوں کے لیے بسکٹ خریدنے کے لیے ایک چھوٹی سی دکان پر، اور بلیوں کے لیے چکن کے بقیہ حصے خریدنے کے لیے گوشت کی دکان پر۔ چکن کے بقیہ حصے، جسے کوژی سِلرا کہتے ہیں – چکن کو صاف کرنے اور فروخت کر دینے کے بعد بچا ہوا حصہ – ان کے جیسے گاہکوں کو ۱۰ روپے میں ملتے ہیں۔
ریتا کو کتوں اور بلیوں کے ساتھ وقت گزارنے میں جو خوشی ملتی ہے، وہ ان کے ذریعے خرچ کیے گئے پیسے سے کہیں زیادہ ہے۔
ان کے شوہر کا کئی سال پہلے انتقال ہو گیا تھا – ریتا کو یا تو یاد نہیں ہے کہ ان کی موت کب ہوئی تھی یا وہ اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی ہیں – اور تب سے وہ تقریباً ہمیشہ ہی اپنے دَم پر زندگی بسر کر رہی ہیں۔ حالانکہ، پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ وہ شرابی تھے۔ ان کی بیٹی ان سے ملنے آتی ہے، لیکن اکثر نہیں۔
پھر بھی، ریتا کا برتاؤ ہنس مکھ بنا ہوا ہے – اور جب وہ اپنے کتوں کے درمیان ہوتی ہیں، تو ان کی مسکراہٹ دو گنی ہو جاتی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز