بہار کے ویشالی ضلع کے رسول پور سوہوان گاؤں کی ایک بستی میں رہنے والے سُداما پنڈت کہتے ہیں، ’’مٹی کے برتن بنانا صرف چاک گُھمانا نہیں ہے۔ جس طرح آپ ایک بچے کی پرورش کرتے ہیں، ٹھیک اسی طرح آپ جو کچھ بھی بنا رہے ہیں، اسے بڑے پیار سے ایک سانچے میں ڈھالنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے، آپ مٹی کو دھیان سے گوندھیں، اسے ایک شکل دیں اور پھر اسے مضبوط ہونے کے لیے بھٹی میں پکائیں۔‘‘
۵۴ سالہ سُداما نے ۱۵ سال کی عمر میں مٹی سے برتن بنانے کا ہنر سیکھا تھا۔ ’’میرے دادا ایک نہایت ماہر کاریگر تھے، لیکن میرے والد مٹی کے سامان بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے میرے دادا نے مجھے اس ہنر سے واقف کرایا، اور گاؤں کے لوگ مجھے اس کا حقیقی وارث – یا سُداما کنبھار [کمہار] – کہتے ہیں،‘‘ وہ یہ بات بڑے فخر سے بتاتے ہیں۔
سُداما کا دن صبح سویرے پرندوں کے چہچہانے سے شروع ہوتا ہے۔ ان کی بیوی سنیتا دیوی اپنے گھر کے سامنے واقع کام کرنے کی جگہ کو صاف کرتی ہیں اور پہیہ و دیگر اوزاروں پر لگی پچھلے دن کی خشک مٹی کو ہٹاتی ہیں۔ ’’صبح سویرے شروعات کرنا بہتر ہے – جو میں بناتا ہوں اسے خشک ہونے کے لیے پورا وقت ملنا چاہیے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
سُداما جس مٹی کا استعمال کرتے ہیں، اسے وہ تقریباً ۲۵ کلومیٹر دور، پڑوسی مظفرپور ضلع کے کُرہانی بلاک کے ترکی گاؤں سے خریدتے ہیں۔ سُداما کا کہنا ہے، ’’میرے دادا کے زمانے میں ہم اچھے معیار کی مٹی پانے کے لیے، اپنے گھر کے ارد گرد ہی، ۳۰ فٹ تک کھودتے تھے۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ پہلے زمانے میں چونکہ مٹی کا برتن بنانا خاندانی پیشہ تھا، اس لیے کئی لوگ مل کر کام کرتے تھے۔ اب وہ کھدائی میں پورا دن لگانے کا جوکھم نہیں اٹھا سکتے۔ اس کے علاوہ، وہ کہتے ہیں، کھدائی کرنا بہت محنت کا کام ہے، اور مٹی خریدنا آسان متبادل بن گیا ہے: ’’اب کھدائی کرنے کے لیے مشینیں ہیں اور مٹی کے لیے ہمیں پیسہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس میں بہت سارے کنکڑ ہوتے ہیں، جنہیں ہٹانے میں بہت وقت لگتا ہے۔‘‘
یہ بتاتے ہوئے، سُداما ۱۰ کلو مٹی کا گولا اپنے چاک پر رکھتے ہیں اور اسے گھماتے ہوئے مٹی کو تیزی سے ایک شکل دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’یہ سب ہاتھ کا کمال ہے جو بیکار مٹی کو شکل عطا کرتا ہے۔‘‘ ان کی برادری کی زبان بجیکا ہے، لیکن ہم ہندی میں بات کر رہے ہیں۔ پہیہ ایک چھوٹے پتھر پر گھومتا ہے، ایک لٹو کی طرح پتلا ہوتا ہے اور ایک بار میں تقریباً ۱۰ منٹ تک گھومتا ہے۔
اور اس سے تمام قسم کے سامان نکلتے ہیں – جیسے کولھڑ (چائے کے لیے)، مٹھائی کے لیے کنٹینر، دیپک، مقامی مشروب کے لیے گبنی، کُلیا۔چُکیا (رسوئی سیٹ کا کھلونا)، شادی کے موقع پر استعمال ہونے والے سامان اور دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں۔
میں بھگوان پور گاؤں میں، سُداما کے ذریعہ بنائی گئی کُلیا۔چُکیا کے ساتھ کھیلتے ہوئے بڑی ہوئی۔ یہ گاؤں بلاک ہیڈکوارٹر، رسول پور سوہوان سے تقریباً دو کلومیٹر دور ہے۔ روایتی طور پر، ہر ایک کمہار کے حصے میں کچھ ایسے گھر آتے تھے، جہاں وہ فیملی کے لیے ضروری مٹی سے بنے سامان سپلائی کرتے تھے۔ ضرورت پڑنے پر وہ گھر کی پوتائی بھی کرتے تھے۔ سُداما کی فیملی نے ہمارے گھر میں مٹی کے سبھی سامانوں کی سپلائی کی تھی۔
سُداما جب گیلی مٹی کو ایک شکل دے دیتے ہیں اور برتن تیار ہو جاتا ہے، تب وہ دھوپ میں اسے سُکھاتے ہیں۔ جب یہ خشک ہو جاتا ہے، تو وہ پھر سے اس پر کام کرتے ہیں۔ برتن کو صحیح شکل دینے کے لیے وہ اس کے نچلے حصہ کو پیٹن سے دھیرے دھیرے پیٹتے ہیں۔ ’’اصلی امتحان تب ہوتا ہے، جب دھوپ میں خشک کی گئی مٹی کے سامانوں کو بھٹی میں پکایا جاتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ اس کے لیے، گیلی مٹی کی ایک پرت سے ڈھکی تاڑ یا آم کی لکڑیوں سے چولہا بنا کر اس میں گوبر کے اُپلوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس اہم مرحلہ میں، صرف اعلیٰ معیار والے سامان ہی بچ پاتے ہیں۔
دریں اثنا، سنیتا دیوی کھیتوں سے خشک پتیوں اور لکڑیوں کو جمع کرکے گھر لوٹتی ہیں۔ وہ برتن بنانے کے عمل کا ایک اٹوٹ حصہ ہیں، لیکن وہ اسے اس طرح سے نہیں دیکھتی ہیں۔ وہ سوال کرتی ہیں، ’’اگر میں برتن بنانا شروع کر دوں، تو سماج کیا کہے گا؟ میرے پاس گھر کے کام ہیں، لیکن جب بھی ضرورت پڑتی ہے میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہوں۔ میں گوئینٹھا [گوبر کے اُپلے] بناتی ہوں، مٹی کے برتنوں کو پکانے کے لیے ضروری جلاوَن [گھاس اور لکڑیاں] اکٹھا کرتی ہوں۔ لیکن یہ کبھی بھی کافی نہیں ہوتا – ہفتہ میں دو بار ہمیں ۱۰۰۰-۱۲۰۰ روپے کی لکڑیاں خریدنی پڑتی ہیں۔‘‘
برتن کو آگ میں پکاتے وقت سنیتا اس کی نگرانی کرتی ہیں اور اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ برتنوں کو مناسب دھوپ ملتی رہے۔ ’’جس دن ہم برتنوں کو پکاتے ہیں، اس وقت ایک منٹ کی بھی دیری انھیں فروخت کرنا ناممکن بنا سکتی ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ وہ مقامی بازار سے خریدے گئے رنگوں سے برتنوں کو سجاتی بھی ہیں۔ ’’یہاں بہت سارے چھوٹے موٹے مکان ہیں – میں کبھی نہیں بیٹھتی، میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہوں۔‘‘
سُداما اور سنیتا چاک سے غیر مسلسل آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ سداما کہتے ہیں، ’’میں ہر ماہ تقریباً ۱۰ ہزار روپے کے سامان بیچتا ہوں – اس میں سے تقریباً ۴ ہزار روپے منافع ہوتا ہے۔ لیکن برسات کے دنوں اور دسمبر۔جنوری کے نہایت ٹھنڈے مہینوں کے دوران کام متاثر ہوتا ہے، جب مٹی کے برتنوں کو خشک کرنے کے لیے معقول دھوپ نہیں ہوتی۔‘‘ تہواروں اور شادی کے موسم میں – وسط جنوری سے وسط فروری تک اور وسط مئی سے وسط جون تک – یہ دونوں میاں بیوی ماہانہ ۳۰۰۰-۴۰۰۰ روپے اضافی رقم کما لیتے ہیں۔ کبھی کبھی سداما کو برتنوں کے لیے تھوک آرڈر ملتے ہیں اور اس سے بھی ان کی آمدنی میں تھوڑا بہت اضافہ ہو جاتا ہے۔
غیر مستحکم کمائی کی وجہ سے سداما کے دو چھوٹے بھائیوں، مَلّو اور گَبّڈ نے اس پیشہ کو نہیں اپنایا، وہ راج مستری کا کام کرتے ہیں۔ چوتھا بھائی، کرشن، جو کہ سداما سے بھی چھوٹا ہے، اور جو ہماری گفتگو میں شریک ہے، وہ ایک عارضی کمہار کے طور پر کام کرتا ہے، لیکن اسے یومیہ مزدوری کا کام پسند ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’میں اس پیشہ کے اتار چڑھاؤ کا جوکھم نہیں اٹھا سکتا؛ اس میں معقول آمدنی نہیں ہے۔ میرے بھائی زیادہ ماہر ہیں اور ان کے پاس گاہکوں کا ایک نیٹ ورک ہے، اس لیے وہ اس پیشہ کے ساتھ گزارہ کر سکتے ہیں۔‘‘
سداما اور سنیتا کے بیٹے بھی شاید کوئی اور پیشہ اپنائیں گے۔ ان کی دو بیٹیاں شادی شدہ ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا سنتوش (۲۶)، بینک کی نوکری پانے کے لیے دہلی میں تیاری کر رہا ہے، جب کہ چھوٹا بیٹا سنیل (۲۴)، بھگوان پور میں بی ایس سی کی ڈگری کے لیے پڑھائی کر رہا ہے اور ساتھ ہی میتھ (حسابیات) کی کوچنگ کلاس بھی چلاتا ہے۔
سداما کا کہنا ہے، ’’میرے بعد، اس وراثت کو آگے بڑھانے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘ اسی لیے، وہ موٹر سے چلنے والا پہیہ نہیں خریدنا چاہتے، جو تیزی سے گھومے گا۔ لاگت کے علاوہ (وہ پراعتماد نہیں ہیں کہ کتنا)، چونکہ ان کی فیملی میں کوئی بھی یہ کام نہیں کرے گا، لہٰذا ان کے ذریعہ لگایا گیا پیسہ برباد ہو جائے گا، ایسا وہ کہتے ہیں۔
اس کے علاوہ، یہ پیشہ خود ہی زوال پذیر ہے۔ ’’المونیم، پلاسٹک اور اسٹیل کے سامانوں کے بڑھتے استعمال کی وجہ سے مٹی کے سامانوں کا استعمال کرنے کی روایت ختم ہوتی جا رہی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’وہ اب پروگراموں تک ہی محدود ہیں اور صرف خاص پکوانوں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں [روزمرہ کے کھانا پکانے میں نہیں]۔‘‘
ان وجوہات نے سداما کے گاؤں کے کئی کمہاروں کو یہ پیشہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ’’تقریباً ۱۵ سال پہلے، چھت کے لیے اسبسطوس کا استعمال عام ہو گیا تھا۔ پہلے، کھپڑا [چھت کی ٹائلیں]، بنانا ہمارے لیے آمدنی کا منافع بخش ذریعہ تھا،‘‘ سداما کہتے ہیں۔ ’’کمہار ٹولی میں کاریگروں کے تقریباً ۱۲۰ گھر تھے، لیکن اب یہ تعداد گھٹ کر آٹھ ہو گئی ہے۔‘‘
حالانکہ یہ بات سداما کو صدمہ میں مبتلا کرتی ہے، لیکن ان کا حوصلہ کم نہیں ہوا ہے۔ وہ عملی آدمی ہیں اور انھوں نے نیا ہنر سیکھنے کی کوشش کی ہے۔ سال ۲۰۱۴ میں، انھوں نے اترپردیش کے مرزاپور کے پاس واقع چُنا شہر کا دورہ کیا تھا، جو پلاسٹر آف پیرس اور سیمنٹ کے ساتھ کام کرنے والے اپنے ماہر کاریگروں کے سبب جانا جاتا ہے۔ یہاں، انھوں نے سیکھا کہ ان اشیاء کی مورتیاں کیسے بناتے ہیں، جو اَب بازاروں میں بھری پڑی ہیں اور مشینوں کے ذریعہ بڑے پیمانے پر تیار کی جا سکتی ہیں، جو زیادہ پیچیدہ ڈیزائنوں کو نکال سکتی ہیں۔ سداما نے بھی اپنے گھر پر سیمنٹ کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا ہے، سیمنٹ سے مورتیاں بنا کر وہ ایک اچھی قیمت پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کے اور سنیتا کے گھر کے روزمرہ کے معمول بھی بدل گئے ہیں۔ ’’ہم بھی کھانا بنانے کے لیے مٹی کے برتنوں کا استعمال نہیں کرتے، بلکہ المونیم کے برتنوں میں پکاتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہم کم لاگت والی تھوک میں تعمیر کردہ اشیاء کے ساتھ مقابلہ آرائی نہیں کر سکتے۔ اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے بچے کمہار بنیں۔ شہر میں دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)