’’کیا حال ہے؟ تم کیا کر رہے ہو؟ یہ کتنے دنوں تک چلے گا؟‘‘ چینا کونڈا بالا سامی اپنے بیٹے سے فون پر پوچھتے ہیں۔ ’’کیا یہ عروج پر پہنچ گیا ہے؟ وہاں پر پولس تعینات ہے کیا؟ لوگ [زرعی مزدور] کام کے لیے باہر جا رہے ہیں؟‘‘
بالا سامی چار دیگر چرواہوں کے ساتھ، تلنگانہ کے ون پارتھی ضلع میں واقع اپنے گاؤں، کیٹھے پلّے سے دیوالی کے بعد، نومبر میں روانہ ہوئے تھے۔ وہ تقریباً ۱۰۰۰ بکریوں اور بھیڑوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں (لیکن ان میں سے کوئی بھی ان کی اپنی نہیں ہے)، اور ان جانوروں کے لیے چارے کی تلاش میں تبھی سے سفر کر رہے ہیں۔
وہ اور دیگر چرواہے – جن میں سے سبھی کا تعلق تلنگانہ میں او بی سی کے طور پر درج فہرست چرواہا برادری، یادو سے ہے – ملک میں کووِڈ- ۱۹ کو پھیلنے سے روکنے کے لیے لاک ڈاؤن (تالا بندی) کا اعلان ہونے سے دو دن پہلے، ۲۳ مارچ کو کیٹھے پلّے سے تقریباً ۱۶۰ کلومیٹر دور، کوپّولے گاؤں پہنچے تھے۔
لاک ڈاؤن کے بعد، نل گونڈا ضلع کے گرّوم پوڈے بلاک کے گاؤں، کوپولے میں ان کے لیے چاول، دال، سبزی، تیل اور دیگر اشیائے ضروریہ کو خریدنا مشکل ہو گیا ہے، جسے وہ عام طور پر ہر دو چار دنوں میں تھوڑا تھوڑا خریدتے ہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے بند ہو جانے اور لاک ڈاؤن کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کے سبب، چرواہوں کے لیے اپنے مویشیوں کے لیے دوائیں خریدنا، کبھی کبھی اپنے گاؤوں جانا اور اہل خانہ سے ملنا (جیسا کہ وہ عام طور پر کرتے ہیں)، موبائل رِچارج کرانا اور بھیڑ بکریوں کے لیے نئے چراگاہوں کا پتہ لگانا مشکل ہو رہا ہے – بلکہ تقریباً ناممکن ہو گیا ہے، جیسا کہ وہ بتاتے ہیں۔
’’گاؤں کے لوگ تو ایسا [الگ تھلگ رہنا] کر سکتے ہیں۔ ہمارے جیسے خانہ بدوش لوگ اس صورتحال سے کیسے نمٹ سکتے ہیں؟‘‘ شاید ۴۰ سال کی عمر کے بالا سامی سوال کرتے ہیں۔
’’ہمیں سبزی خریدنے کے لیے گاؤں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے،‘‘ ایک دوسرے چرواہے، اور بالا سامی کے بھائی، چینا کونڈا تروپتیہ کہتے ہیں۔
خوش قسمتی سے، جس کھیت میں ان کے جانور چر رہے ہیں اور جہاں وہ انتظار کر رہے ہیں، اس کا مالک انہیں چاول، دال اور کچھ سبزیاں پہنچا رہا ہے۔
لیکن انہیں جلد ہی کوئی دوسری چراگاہ ڈھونڈنی پڑے گی۔ ’’ہم یہاں چار دن پہلے آ گئے تھے،‘‘ تروپتیہ کہتے ہیں۔ ’’یہاں زیادہ چارہ نہیں ہے۔ ہمیں نئی جگہ تلاش کرنی ہوگی۔‘‘
مویشیوں کا پیدل سفر ہمیشہ لمبا اور مشکل ہوتا ہے – اور اب تو اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔ موزوں چراگاہ کی تلاش میں وہ کئی کلومیٹر تک چلتے رہتے ہیں، اور پھر زمیندار کے ساتھ سودا کرتے ہیں۔ یہ محدود کھلے میدان میدان والے علاقے میں ایک مشکل کام ہوتا ہے، جہاں کے کسان اپنی بکریوں اور بھیڑوں کے لیے زمین کو محفوظ کر سکتے ہیں۔ اب، جب کہ ٹرانسپورٹ بند ہے اور سفر کرنے پر پابندی لگی ہوئی ہے، چرواہوں کے لیے چارے کی تلاش اور بھی مشکل کام ہو گیا ہے۔
’’ہم موٹر سائیکل پر بھی نہیں جا سکتے،‘‘ بالا سامی کہتے ہیں۔ کبھی کبھی، ان کے گاؤں کے لوگ اپنی موٹر سائیکل سے اس جگہ آتے ہیں جہاں چرواہے ہوتے ہیں، اور انہیں اپنی بائک پر بیٹھا کر گاؤوں کی طرف واپس یا آگے کچھ کلومیٹر دور تک لے جاتے ہیں، تاکہ وہ نئے چراگاہ ڈھونڈ سکیں۔ ’’ایسا لگتا ہے کہ [موٹر سائیکل پر سوار لوگوں کو] وہ [پولس والے] بری طرح پیٹ رہے ہیں،‘‘ بالا سامی کہتے ہیں، اس ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے جسے انہوں نے اپنے موبائل فون پر دیکھا ہے۔
بالا سامی اس ہفتہ پنگل بلاک کے اپنے گاؤں، کیٹھے پلّے جانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ ایک چرواہے کی شکل میں اپنے کام کے لیے وہ جانوروں کے مالکوں سے ۱۲۰۰۰۰ روپے سالانہ تنخواہ پاتے ہیں۔ گھر واپس لوٹنا نہ صرف اپنی فیملی سے ملنے کے لیے، بلکہ اپنی تنخواہ کا ایک حصہ پانے کے لیے بھی ضروری ہے۔ اب واپس نہ لوٹ پانے کے سبب، بالا سامی اور دیگر چرواہوں کا پیسہ جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ ’’میں اپنی بیوی، بچوں اور ماں سے کیسے مل سکتا ہوں؟ میں اُپّو [نمک] اور پپّو [دال] کیسے خرید سکتا ہوں؟‘‘ بالا سامی پوچھتے ہیں۔ ’’بسیں دوبارہ کب شروع ہوں گی، آپ کو کیا لگتا ہے؟‘‘
چرواہے کبھی کبھی نقدی کے لیے ایک دو بکریاں یا بھیڑ فروخت کر دیتے ہیں، لیکن لاک ڈاؤن کے سبب پچھلے ایک ہفتہ سے کسی نے بھی ان سے رابطہ نہیں کیا ہے۔
چرواہے عام طور پر اپنے گاؤوں لوٹنے سے پہلے مِریالا گُڈا شہر پہنچتے ہیں، کوپولے گاؤں کے پاس وہ لوگ جس جگہ پر ٹھہرے ہوئے ہیں، وہاں سے تقریباً ۶۰ کلومیٹر دور۔ اپریل میں دھان کی کٹائی کے دوران شہر کے آس پاس کے گاؤوں میں کافی چارہ ہوتا ہے۔ کھانے کے بنا اور سفر پر پابندی کی وجہ سے، چرواہوں کے راستے پر آخری پڑاؤ کا سفر اب مایوس کن لگتا ہے۔
اور چونکہ جانوروں کو کھلانا ہی ہے، اس لیے چارے کی تلاش رک نہیں سکتی۔ جون میں مانسون شروع ہونے سے پہلے اپنے گاؤوں لوٹنا بھی کوئی متبادل نہیں ہے، کیوں کہ وہاں پر جانوروں کے چرنے کے لیے میدان بہت کم ہیں۔ ’’ہمارے علاقے میں چھوٹے چھوٹے کئی پہاڑ ہیں [جو اکتوبر کے آخر تک خشک ہو جاتے ہیں]،‘‘ تروپتیہ کہتے ہیں۔ ’’اور جانور بھی بہت سارے ہیں – خود ہمارے اپنے گاؤں میں تقریباً ۲۰ ہزار بکریاں اور بھیڑیں ہیں۔ اس لیے ہم اس سفر سے بچ نہیں سکتے۔‘‘
بالا سامی اپنی فیملی کو یہ خبر دینے کی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ وہ لوگ ٹھیک ہیں۔ ’’کیا وہ فون [موبائل سروِس] کو بھی بند کرنے جا رہے ہیں؟‘‘ وہ پوچھتے ہیں۔ ’’تب تو ہم یہ بھی نہیں جان پائیں گے کہ لوگ زندہ ہیں یا مر گئے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ [لاک ڈاؤن] اور تین مہینے تک چلے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو لاک ڈاؤن خود حقیقی بیماری سے زیادہ لوگوں کی جان لے لے گا۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)