’’[سپریم کورٹ کا] یہ فیصلہ ہمارے خلاف ہونے والے جرائم کو مزید بڑھائے گا!‘‘
سروجا سوامی کو سنیں۔ ان کے بیان میں ۲ اپریل کو ممبئی میں دلتوں اور آدیواسیوں کے احتجاج میں اکٹھا ہوئے مظاہرین اور ملک بھر کے کروڑوں لوگوں کے غصے کی جھلک ملتی ہے۔
سوامی، جو کہ ۵۸ سال کی سیاسی کارکن ہیں، مظاہرین کے ساتھ دادر کے کوتوال اُدیان سے چیتیہ بھومی (شیواجی پارک کے پاس) کی طرف چلتے چلتے کہتی ہیں، ’’ہم آج بھی ایک ایسے معاشرہ میں رہتے ہیں جہاں کسی دلت لڑکے کو صرف اس لیے مار دیا جاتا ہے، کیوں کہ وہ گھوڑے کی سواری کرتا ہے۔‘‘
مظاہرین سپریم کورٹ کے ۲۰ مارچ کے اُس فیصلہ سے ناراض تھے جو درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے خلاف مظالم کی روک تھام کا قانون، ۱۹۸۶ کے کچھ التزامات کو چوٹ پہنچانے والا تھا۔ عدالت عظمی کے فیصلہ میں کہا گیا کہ دلتوں یا آدیواسیوں کے ساتھ تفریق کرنے کے ملزم سرکاری ملازمین پر ان کے آجروں کی سابقہ منظوری کے بعد ہی مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو ایسے معاملوں کی ایک ابتدائی جانچ بھی کرنی ہوگی کہ معاملہ صحیح ہے یا فرضی۔ مرکزی حکومت نے اس فیصلہ کو چیلنج کرنے کے لیے ایک ریویو پٹیشن دائر کی ہے۔ کورٹ نے اس معاملے پر فوری سماعت کے لیے حامی بھر دی ہے۔
این سی آر بی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایس سی اور ایس ٹی برادریوں کے خلاف مظالم کے معاملوں میں سال ۲۰۱۵ کے مقابلے ۲۰۱۶ میں تقریباً ۵ فیصد کا اضافہ ہوا۔ جرم ثابت ہونے کی شرح ۳-۲ فیصد کے ساتھ مایوس کن ہی بنی رہی
سوامی پوچھتی ہیں، ’’آج کے مشکل دور میں، اس قسم کے فیصلے کہاں تک جائز ہیں؟ عورتوں کی صرف اس لیے عصمت دری کی جاتی ہے کیوں کہ وہ دلت ہیں، ہمیں ہماری ذات کی وجہ سے نوکری نہیں دی جاتی۔ گاؤں میں عوامی کنویں سے پانی نہ بھرنے دیے جانے جیسی روزانہ کی تفریق کی تو بات ہی چھوڑ دیجئے۔‘‘
سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف ناراضگی کی ایک بڑی وجہ دلتوں اور آدیواسیوں پر بڑھ رہے مظالم بھی ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (این سی آر بی) کے مطابق، درج فہرست ذات کے خلاف جرم/مظالم کے معاملے سال ۲۰۱۵ کے ۳۸۶۷۰ سے ۵ء۵ فیصد بڑھ کر ۲۰۱۶ میں ۴۰۸۰۱ ہو گئے۔ وہیں درج فہرست قبائل کے خلاف ہوئے مجرمانہ معاملوں میں ۷ء۴ فیصد کا اضافہ ہوا۔
مظالم کے ان معاملوں میں جرم ثابت ہونے کی شرح ۳-۲ فیصد کے ساتھ مایوس کن ہی بنی رہی، جو دلتوں اور آدیواسیوں کے درمیان نا انصافی کے ایک حقیقی اور خطرناک جذبے کو مزید گہرا کرتی ہے۔
اکتوبر ۲۰۱۶ میں وزیر اعظم کو کافی مجبوری میں کہنا پڑا تھا، ’’ہمارے دلت بھائیوں پر ہو رہے ظلم کے معاملوں‘‘ کی وجہ سے ’’ان کا سر آج شرم سے جھک گیا ہے۔‘‘ پھر بھی ایسے واقعات ان کی حکومت میں بڑھ ہی رہے ہیں۔
سروجا، جو دادر سے ۲۱ کلومیٹر دور جنوبی ممبئی کے بھانڈوپ میں رہتی ہیں، کہتی ہیں کہ مودی سرکار میں دلتوں کی حالت مزید خراب ہوئی ہے۔ وہ پوچھتی ہیں، ’’روہت ویمولا کی کیا غلطی تھی؟ ان تحریکوں کا کیا ہوا؟ دلت بھی آخر انسان ہی ہوتے ہیں۔‘‘
روہت ویمولا کا معاملہ جنوری ۲۰۱۶ میں تب بھڑک اٹھا تھا، جب اس نوجوانوں پی ایچ ڈی اسکالر نے اپنی جان اس لیے دے دی، کیوں کہ حیدرآباد یونیورسٹی نے ان کی اسکالرشپ بند کر دی تھی۔ اس کے بعد، کیمپس میں احتجاج کر رہے دلت اور بایاں محاذ کے کارکنوں پر سخت کارروائی بھی کی گئی۔
سروجا کی ہی طرح، بھانڈوپ میں رہنے والی کامرس کی اسٹوڈنٹ منیشا وانکھیڑے (۱۶) بھی کافی غصے میں ہیں۔ وہ مانتی ہیں کہ ملک کو ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر سے ملا آئین خطرے میں ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’اگر ہم آئین کی تعمیل کر رہے ہوتے، تو سنبھا جی بھیڑے [بھیما کورے گاؤں تشدد بھڑکانے کا ملزم] آج جیل کے اندر ہوتا۔ مودی سرکار ایسے لوگوں کو شہ دے رہی ہے۔ وہ کہنے کو امبیڈکر کی تعریف کرتے ہیں، جب کہ ان کے ذریعے لکھے آئین کی توہین کرتے ہیں۔ خامی آئین میں نہیں ہے، بلکہ سرکار میں ہے، جس کے اوپر اس کی صحیح تعمیل کرنے کی ذمہ داری ہے۔‘‘
منیشا کی باتوں میں دَم تو ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں دلتوں پر ظلم لگاتار بڑھے ہیں۔ جولائی ۲۰۱۶ میں، گجرات کے گیر سومناتھ ضلع کے اونا شہر میں چار دلت نوجوانوں کی بے رحمی سے پٹائی کے بعد ملک گیر احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ ان کا مبینہ ’جرم‘ تھا: مرے ہوئے مویشیوں کی کھال نکالنا۔
مہاراشٹر کے پونے ضلع کے بھیما کورے گاؤں آ جا رہے دلتوں پر اونچی ذاتوں کے ذریعے تشدد کے واقعہ کو بمشکل تین مہینے ہوئے ہیں۔ سال ۱۸۱۸ میں برطانوی فوج کے مہار سپاہیوں کے ہاتھوں پیشواؤں کی قیادت والی مراٹھا فوج کی شکت کی یاد میں دلت ہر سال بڑی تعداد میں وہاں جمع ہوتے ہیں۔
تشدد اور نا انصافی کے ان تمام واقعات نے ممبئی میں پروٹیسٹ مارچ کرنے والوں کے دماغ پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ بہرحال، چیتیہ بھومی پہنچنے پر احتجاجی مظاہرہ کی قیادت کرنے والوں نے گیت گائے، نعرے لگائے، اور تقریریں کیں۔ موجود لوگوں میں مشہور و معروف کارکن اُلکا مہاجن، ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل آف پولیس سدھاکر سُردکر، اور تمام دیگر لوگ شامل تھے۔
سدھاکر کا کہنا ہے کہ مظالم کی روک تھام کے قانون کے بارے میں معاشرہ کے تمام طبقوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ’’پولیس کو بھی۔ ایسا نہ ہونے کی وجہ سے کسی قانون پر عمل آوری اطمینان بخش نہیں ہے۔ کسی نظام میں، ہر کسی کو اپنا رول ادا کرنا ہوتا ہے۔‘‘
ممبئی کے پروٹیسٹ مارچ میں سڑکوں پر بھاری مجمع نہیں دیکھا گیا۔ حالانکہ، شمالی ہندوستان کی ریاستوں میں کہیں زیادہ بڑے مظاہرے ہوئے۔ ملک بھر میں ہوئے احتجاجی مظاہروں کے دن ٹکراؤ کے واقعات میں سات لوگ مارے گئے تھے: مدھیہ پردیش میں پانچ، اتر پردیش میں ایک، اور راجستھان میں ایک۔ گجرات اور پنجاب سے بھی پرتشدد جھڑپوں کی خبریں آئی تھیں۔ الگ الگ علاقوں میں فساد کو روکنے والے تقریباً ۱۷۰۰ پولیس والوں کو تعینات کیا گیا تھا۔ جن ریاستوں میں دلتوں اور آدیواسیوں کے خلاف مظالم کے معاملے سب سے زیادہ دیکھے جاتے رہے ہیں، ان ریاستوں میں سب سے زیادہ پروٹیسٹ مارچ کیے گئے۔
زمین کے حقوق کے لیے لڑنے والی چندا تیواری اور ان کے آدیواسی دوستوں کا چھوٹا گروپ، ۱۳۰ کلومیٹر دور واقع رائے گڑھ کے روہا سے اس احتجاجی مظاہرہ میں حصہ لینے دادر آیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم نے اپنا پیسہ خرچ کیا، اپنا کھانا خود بنایا، اور اپنا پانی خود لائے۔‘‘ دریں اثنا، ’’جو ہٹلر کی چال چلے گا، وہ ہٹلر کی موت مرے گا‘‘ کے نعرے گونج رہے تھے۔ وہ آگے کہتی ہیں، ’’ہم آج رات میں ہی واپسی کی ٹرین لیں گے اور گھر لوٹ جائیں گے۔ بھلے ہی مظاہرے میں بڑا مجمع نہ اکٹھا ہوا ہو، لیکن اس میں حصہ لینا اور پیغام دینا اہم ہے۔ ہم اپنے دلت بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘
حقوق جنگلات قانون، ۲۰۱۶ کا ذکر کرتے ہوئے وہ مزید کہتی ہیں، ’’جن قوانین سے ہمیں فائدہ ہوتا ہے انہیں ٹھیک سے نافذ کیا جاتا ہے۔‘‘ یہ قانون آدیواسیوں کو اُس زمین پر مالکانہ حق دلاتا ہے جس پر وہ دہائیوں سے کھیتی کرتے آئے ہیں۔ چندہ کہتی ہیں، ’’اور جب ہمیں فائدہ پہنچانے والے قانون نافذ ہوتے ہیں، تو انہیں کمزور کر دیا جاتا ہے۔‘‘
مظاہرے میں شامل تقریباً ۲۰۰ لوگوں میں سے ہر کوئی کسی گروپ کا حصہ ہے یا کسی کے ساتھ آیا ہے؛ سنیل جادھو کو چھوڑ کر۔ سنیل (۴۷)، جو دادر سے ۴۰ کلومیٹر دور نوی ممبئی میں رہتے ہیں، نے اخباروں میں احتجاجی مظاہرہ کے بارے میں پڑھا اور اس میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں ساین میں ایک چوکیدار کے طور پر کام کرتا ہوں۔ میں رات کے وقت کام پر ہوتا ہوں۔ میں پروٹیسٹ مارچ کے بعد سیدھے کام پر جاؤں گا۔‘‘ سنیل کو شاید یہ نہ معلوم ہو کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی باریکیاں کیا ہیں یا اس نے اس پروٹیسٹ مارچ کو کیسے متحرک کیا۔ لیکن وہ یہ ضرور جانتے ہیں، جسے وہ افسوسناک مسکراہٹ کے ساتھ کہتے بھی ہیں، ’’دلتوں کی حالت اچھی نہیں ہے۔ مجھے لگا کہ یہ میرے لوگ ہیں، اور مجھے پروٹیسٹ میں جانا چاہیے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز