’’میرے ذریعے بنائی گئی ہر جھونپڑی کم از کم ۷۰ سال چلتی ہے۔‘‘

کولہاپور ضلع کے جامبھڑی گاؤں میں رہنے والے وشنو بھوسلے کا ہنر نرالا ہے – وہ جھونپڑی بنانے کے ماہر ہیں۔

وشنو (۶۸ سالہ) لکڑی کے فریم اور پھوس سے جھونپڑی بناتے ہیں۔ انہوں نے اپنے آنجہانی والد، گنڈو بھوسلے سے یہ ہنر سیکھا تھا۔ وہ اب تک ۱۰ سے زیادہ جھونپڑیاں بنا چکے ہیں اور اتنی ہی تعداد میں اسے بنانے میں دوسروں کی مدد کر چکے ہیں۔ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’ہم لوگ اسے [عام طور پر] گرمیوں میں بناتے تھے کیوں کہ [اس وقت] کھیتوں میں ہمارے پاس کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔ اُن دنوں جھونپڑی بنوانے میں لوگوں کی کافی دلچسپی ہوا کرتی تھی۔‘‘

وشنو ۱۹۶۰ کی دہائی کو یاد کرتے ہیں، جب جامبھڑی میں سو سے زیادہ جھونپڑیاں ہوا کرتی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دوست لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے اور اسے بنانے کا سامان گاؤں کے آس پاس آسانی سے مل جاتا تھا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’جھونپڑی بنانے کے لیے ہم لوگ ایک بھی روپیہ خرچ نہیں کرتے تھے۔ کسی کے پاس اتنے پیسے ہوتے ہی نہیں تھے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’لوگ تین مہینے تک انتظار کرنے کو تیار رہتے تھے، اور جب تمام سامان صحیح طریقے سے جمع ہو جاتے تھے تبھی اسے بنانا شروع کرتے تھے۔‘‘

صدی کے آخر میں، ۴۹۶۳ لوگوں کی آبادی (مردم شماری ۲۰۱۱) والے اس گاؤں میں لکڑی اور پھوس کی بجائےے اینٹ، سیمنٹ اور ٹن کی مدد سے گھر بنائے جانے لگے۔ جھونپڑی کو پہلا نقصان تب ہوا، جب مقامی کمہاروں نے کھپری کولو (چھت کی ٹائل جسے کھپریل بھی کہتے ہیں) یا کُمبہری کولو بنانا شروع کیا۔ بعد میں مشین سے بنے ہوئے بنگلور کے کولو آنے لگے، جو مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ دنوں تک چلتے تھے۔

جھونپڑی کا چھپّر (چھت) بنانے میں کافی محنت لگتی ہے، جب کہ کھپریل (ٹائلوں) کو بڑی آسانی اور تیزی کے ساتھ لگایا جا سکتا ہے اور اس کا رکھ رکھاؤ بھی زیادہ نہیں کرنا پڑتا۔ آخر میں، پختہ مکان کی تعمیر کے لیے اینٹ اور سیمنٹ آ جانے کی وجہ سے جھونپڑیوں کا زوال شروع ہو گیا۔ جامبھڑی میں لوگوں نے جھونپڑیوں میں رہنا چھوڑ دیا، اور آج وہاں پر دو چار جھونپڑیاں ہی نظر آتی ہیں۔

وشنو کہتے ہیں، ’’اب گاؤں میں مشکل سے کوئی جھونپڑی نظر آتی ہے۔ کچھ سالوں میں، یہاں ایک بھی روایتی جھونپڑی دیکھنے کو نہیں ملے گی، کیوں کہ کوئی بھی ان کی دیکھ بھال کرنا نہیں چاہتا۔‘‘

*****

Vishnu Bhosale is tying the rafters and wooden stems using agave fibres. He has built over 10 jhopdis and assisted in roughly the same number
PHOTO • Sanket Jain
Vishnu Bhosale is tying the rafters and wooden stems using agave fibres. He has built over 10 jhopdis and assisted in roughly the same number
PHOTO • Sanket Jain

وشنو بھوسلے اگیو (کیکٹس کی نسل کا ایک پودا) کے ریشہ سے لکڑی اور شہتیر کو باندھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اب تک ۱۰ جھونپڑیاں بنا چکے ہیں اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں اسے بنانے میں دوسروں کی مدد کر چکے ہیں

وشنو بھوسلے کے دوست اور پڑوسی نارائن گائکواڑ جب بھی کوئی جھونپڑی بنانا چاہتے، تو مدد کے لیے ان کے پاس پہنچ جاتے تھے۔ دونوں کسان ہیں اور ہندوستان بھر میں ہونے والے کسانوں کے کئی مظاہروں میں شامل ہو چکے ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں: جامبھڑی کے کسان: ہاتھ ٹوٹا، حوصلہ نہیں )

جامبھڑی میں، وشنو کے پاس ایک ایکڑ اور نارائن کے پاس تقریباً ۲۵ء۳ ایکڑ زمین ہے۔ یہ دونوں اپنے اپنے کھیتوں میں گنّے کے ساتھ جوار، گندم، سویابین، بینس (پھلیاں)، اور پالک، میتھی اور دھنیا جیسی پتے دار سبزیاں اُگاتے ہیں۔

دس سال پہلے نارائن کے من میں جھونپڑی بنانے کا خیال اس وقت آیا، جب وہ اورنگ آباد ضلع میں تھے اور زرعی مزدوروں سے ان کے کام کے حالات کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ وہیں پر انہوں نے ایک گول جھونپڑی دیکھی اور سوچا، ’’ اگڈی پریکشنی [انتہائی خوبصورت]۔‘‘ وہ بتاتے ہیں، ’’ تیاچا گروتواکرشن کیندر اگڈی بروبر ہوتا [کشش ثقل کا مرکز بہت اچھی طرح متوازن تھا]۔‘‘

نارائن یاد کرتے ہیں کہ وہ جھونپڑی دھان کی پرالی سے بنائی گئی تھی اور اس کا ہر ایک حصہ صحیح جگہ پر تھا۔ انہوں نے اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انہیں بتایا گیا کہ اس جھونپڑی کو کسی زرعی مزدور نے بنایا ہے، لیکن وہ اس سے مل نہیں پائے۔ پھر، ۷۶ سالہ نارائن نے یہ تمام تفصیلات اپنی کاپی میں لکھ کر رکھ لیں۔ وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے، روزمرہ کی زندگی کی دلچسپ تفصیلات کو اپنی کاپی میں لکھتے آ رہے ہیں۔ ان کے پاس پاکٹ سائز سے لے کر اے ۴ سائز تک کی ۴۰ الگ الگ ڈائریاں ہیں، جن میں مقامی مراٹھی زبان میں ہاتھ سے لکھے ہوئے ایسے ہزاروں صفحات ہیں۔

ایک دہائی کے بعد وہ اپنے ۲۵ء۳ ایکڑ کھیت میں ویسی ہی ایک جھونپڑی بنانا چاہتے تھے، لیکن ان کے ساتھ کئی چیلنج تھے۔ ان میں سب سے بڑا چیلنج جھونپڑی بنانے کے کسی ماہر کو تلاش کرنا تھا۔

تب انہوں نے وشنو بھوسلے سے بات کی، جن کے پاس جھونپڑی بنانے کا کافی تجربہ تھا۔ اس شراکت داری کا نتیجہ اب لکڑی اور پھوس بنی اُس جھونپڑی میں نظر آتا ہے، جو ہاتھ سے تعمیراتی کاریگری کی نشانی ہے۔

نارائن کہتے ہیں، ’’جب تک یہ جھونپڑی موجود ہے، نوجوان نسل کو ہزاروں سال پرانے ہنر کی یاد دلاتی رہے گی۔‘‘ اسے بنانے میں ان کا ساتھ دینے والے وشنو کہتے ہیں، ’’اگر یہ جھونپڑی نہیں ہوگی، تو لوگوں کو میرے کام کے بارے میں پتہ کیسے چلے گا؟‘‘

*****

Vishnu Bhosale (standing on the left) and Narayan Gaikwad are neighbours and close friends who came together to build a jhopdi
PHOTO • Sanket Jain

وشنو بھوسلے (بائیں طرف کھڑے ہیں) اور نارائن گائکواڑ ایک دوسرے کے پڑوسی اور گہرے دوست ہیں، جنہوں نے ایک ساتھ مل کر یہ جھونپڑی بنائی تھی

Narayan Gaikwad is examining an agave plant, an important raw material for building a jhopdi. 'This stem is strong and makes the jhopdi last much longer,' explains Vishnu and cautions, 'Cutting the fadyacha vasa [agave stem] is extremely difficult'
PHOTO • Sanket Jain

نارائن گائکواڑ اگیو (کیکٹس) کے پودے کا معائنہ کر رہے ہیں، جو کہ جھونپڑی بنانے کے لیے ایک ضروری خام مال ہے۔ ’اس کا تنا بہت مضبوط ہوتا ہے اور جھونپڑی کو لمبے عرصے تک برقرار رکھتا ہے،‘ وشنو بتاتے ہیں اور خبردار کرتے ہیں، ’فڑیاچا واسا [اگیو کے تنے] کو کاٹنا بہت مشکل کام ہے‘

Narayan Gaikwad (on the left) and Vishnu Bhosale digging holes in the ground into which poles ( medka ) will be mounted
PHOTO • Sanket Jain

نارائن گائکواڑ (بائیں طرف) اور وشنو بھوسلے زمین میں گڑھا کھود رہے ہیں جس میں کھمبے (میڈکا) گاڑے جائیں گے

جھونپڑی بناتے وقت سب سے پہلے یہ سوچا جاتا ہے کہ اس کا استعمال کیا ہونے والا ہے۔ وشنو کہتے ہیں، ’’اسی (استعمال) کی بنیاد پر، جھونپڑی کا سائز اور ڈھانچہ الگ الگ ہوتا ہے۔‘‘ مثال کے طور پر، جانوروں کا چارہ رکھنے کے لیے جو جھونپڑی بنائی جاتی ہے وہ سہ رخی (مثلث) ہوتی ہے، جب کہ چھوٹی فیملی کے لیے ۱۲ بائی ۱۰ فٹ کا ایک کمرہ عام طور سے مستطیل ہوتا ہے۔

نارائن پڑھنے کے شوقین ہیں۔ وہ ایک چھوٹے کمرہ کے سائز کی جھونپڑی بنوانا چاہتے تھے، جسے (کتابیں پڑھنے کے لیے) ریڈنگ روم کے طور پر استعمال کر سکیں۔ انہوں نے وشنو کو بتایا کہ وہ یہاں پر اپنی کتابیں، رسائل اور اخبارات رکھیں گے۔

وشنو کو جب معلوم ہو گیا کہ اس کا کیا استعمال ہونا ہے، تو انہوں نے چند چھڑیوں کی مدد سے ایک چھوٹا سا ماڈل تیار کیا۔ پھر، انہوں نے نارائن کے ساتھ مل کر جھونپڑی کی صورت و شکل کو حتمی شکل دینے میں ۴۵ منٹ سے زیادہ وقت لگایا۔ نارائن کے کھیت کا کئی بار دورہ کرنے کے بعد، انہوں نے اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں پر ہوا کا دباؤ سب سے کم ہو۔

نارائن کہتے ہیں، ’’جھونپڑی صرف گرمی یا سردی کے بارے میں سوچ کر نہیں بنائی جاتی۔ یہ کئی دہائیوں تک چلنی چاہیے، اس لیے ہم متعدد عناصر پر غور کرتے ہیں۔‘‘

زمین میں دو فٹ گہرا گڑھا کھود کر ۱۲ بائی ۹ فٹ کی جھونپڑی بنانے کی شروعات ہوئی۔ کل ۱۵ گڑھوں کی ضرورت تھی، جنہیں ڈیڑھ ڈیڑھ فٹ کے فاصلہ پر کھودا گیا۔ ان تمام گڑھوں کو کھودنے میں تقریباً ایک گھنٹہ کا وقت لگا۔ اس کے بعد سبھی گڑھوں کو پالی تھین یا پلاسٹک کی بوریوں سے ڈھانپ دیا گیا۔ ’’ایسا اس لیے کیا گیا، تاکہ گڑھوں میں پانی نہ بھر جائے، ورنہ لکڑی ان میں مضبوطی سے گڑے گی نہیں۔‘‘ لکڑی کو کچھ ہوا، تو پوری جھونپڑی کے سڑنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔

وشنو اپنے ایک دوست اور پیشہ سے مستری، اشوک بھوسلے کی مدد سے میڈکا (کھمبے) کو دونوں کناروں اور درمیان میں کھودے گئے گڑھوں میں پوری احتیاط سے رکھتے ہیں۔ میڈکا ، دراصل انگریزی کے حرف ’وائی‘ کی شکل کا تقریباً ۱۲ فٹ لمبا ایک کھمبا ہوتا ہے، جسے چندن (سنتالم البم) ، ببول (وچیلیا نیلوٹکا) ، یا کڈو لِمب (ازاڈیراچا انڈیکا) کی لکڑی سے تیار کیا جاتا ہے۔

’وائی‘ کے اوپری سرے کو لکڑی کا تنا افقی طور پر رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ نارائن بتاتے ہیں، ’’بیچ میں گاڑے گئے دو میڈکا کو ’آد‘ کہا جاتا ہے، جو کم از کم ۱۲ فٹ لمبے ہوتے ہیں۔ باقی کھمبے ۱۰-۱۰ فٹ کے ہوتے ہیں۔‘‘

Left: Narayan digging two-feet holes to mount the base of the jhopdi.
PHOTO • Sanket Jain
Right: Ashok Bhosale (to the left) and Vishnu Bhosale mounting a medka
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: جھونپڑی کی بنیاد تیار کرنے کے لیے نارائن دو فٹ گہرا گڑھا کھود دہے ہیں۔ دائیں: اشوک بھوسلے (بائیں طرف) اور وشنو بھوسلے میڈکا گاڑ رہے ہیں

Narayan and Vishnu (in a blue shirt) building a jhopdi at Narayan's farm in Kolhapur’s Jambhali village.
PHOTO • Sanket Jain
Narayan and Vishnu (in a blue shirt) building a jhopdi at Narayan's farm in Kolhapur’s Jambhali village.
PHOTO • Sanket Jain

کولہاپور کے جامبھڑی گاؤں میں نارائن کے کھیت پر جھونپڑی بناتے ہوئے نارائن اور وشنو (نیلی شرٹ میں)

بعد میں، لکڑی کے اس ڈھانچہ کے اوپر چھپر رکھا جائے گا؛ اور دو فٹ لمبے میڈکا کا استعمال یہ یقینی بنانے کے لیے کیا جائے گا کہ بارش کے دوران پانی چھپر سے نیچے زمین پر گرے، نہ کہ گھر کے اندر جائے۔

اس طرح کے آٹھ میڈکا کو سیدھا گاڑنے کے بعد جھونپڑی کی بنیاد تیار ہو جاتی ہے۔ میڈکا کو گاڑنے میں تقریباً دو گھنٹے لگتے ہیں۔ پھر، جھونپڑی کے دونوں سروں کو آپس میں جوڑنے کے لیے، ایک قسم کے مقامی بانس سے تیار کی گئی رسی (جسے ’ویڑو‘ کہتے ہیں) کو ان میڈکا کے نچلے حصے سے باندھ دیا جاتا ہے۔

وشنو کہتے ہیں، ’’چندن اور ببول کے درخت تلاش کرنا اب مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ان تمام ضروری [دیسی] درختوں کی جگہ اب گنّے اگائے جا رہے ہیں یا عمارتیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔‘‘

ڈھانچہ کھڑا ہو جانے کے بعد، اگلا قدم ہوتا ہے شہتیر لگانا، جس سے چھت کی اندرونی شکل تیار ہوتی ہے۔ اس جھونپڑی کے لیے، وشنو نے ۴۴ شہتیریں لگانے کے بارے میں سوچا ہے۔ چھت کو ٹکانے کے لیے دونوں سروں پر ۲۲-۲۲ شہتیریں لگائی جائیں گی۔ انہیں اگیو (کیکٹس کی قسم کا پودا) کے تنے سے تیار کیا جاتا ہے، جسے علاقائی مراٹھی میں ’فڑیاچا واسا‘ کہتے ہیں۔ اگیو کا تنا ۳۰-۲۵ فٹ لمبا اُگ سکتا ہے اور اپنی مضبوطی کے لیے جانا جاتا ہے۔

وشنو بتاتے ہیں، ’’یہ تنا کافی مضبوط ہوتا ہے اور جھونپڑی کو لمبے عرصے تک صحیح سلامت رکھتا ہے۔‘‘ زیادہ شہتیر استعمال کرنے سے مضبوطی بھی اتنی ہی زیادہ ملے گی۔ لیکن، وہ خبردار کرتے ہیں، ’’ فڑیاچا واسا کو کاٹنا بہت مشکل کام ہے۔‘‘

اگیو کے ریشوں کا استعمال میڈکا کے اوپر رکھی گئی لکڑیوں کو باندھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ رسیاں کافی مضبوط ہوتی ہیں۔ اگیو کی پتیوں سے ریشے نکالنا ایک پیچیدہ کام ہے۔ لیکن نارائن کو اس میں مہارت حاصل ہے، اور درانتی سے ریشہ نکالنے میں انہیں ۲۰ سیکنڈ سے بھی کم وقت لگتا ہے۔ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ اگیو کے پتوں کے اندر ریشے ہوتے ہیں۔‘‘

ان ریشوں کا استعمال ماحولیات کے موافق بائیو ڈی گریڈیبل (جو آسانی سے سڑ گل جائیں) رسیاں بنانے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں: غائب ہوتی ہندوستانی رسیوں کی کہانی )

Ashok Bhosale passing the dried sugarcane tops to Vishnu Bhosale. An important food for cattle, sugarcane tops are waterproof and critical for thatching
PHOTO • Sanket Jain

اشوک بھوسلے گنّے کا خشک اوپری حصہ وشنو بھوسلے کو پکڑا رہے ہیں۔ مویشیوں کے لیے یہ ایک اہم غذا ہے، جو پانی سے خراب نہیں ہوتا ہے اور چھپّر کے لیے ضروری ہوتا ہے

Building a jhopdi has become difficult as the necessary raw materials are no longer easily available. Narayan spent over a week looking for the best raw materials and was often at risk from thorns and sharp ends
PHOTO • Sanket Jain

جھونپڑی بنانا اب مشکل ہوتا جا رہا ہے، کیوں کہ ضروری خام مال ملنا اب آسان نہیں رہا۔ نارائن کو اپنی جھونپڑی کے لیے اچھے خام مال کی تلاش میں ایک ہفتہ سے زیادہ وقت تک بھٹکنا پڑا، اور اس دوران انہیں کانٹے اور نکیلی چیزوں کا خطرہ بنا رہا

لکڑی کا ڈھانچہ تیار ہو جانے کے بعد، دیواروں کو ناریل کے پتّوں اور گنّے کے ڈنٹھل سے تیار کیا جاتا ہے، تاکہ اس میں درانتی بھی آسانی سے ٹک سکے۔

اس کے بعد چھپّر ڈالنے کی باری آتی ہے۔ اسے کچے گنّے کے اوپری سرے کی پتیوں کا استعمال کرکے بنایا جاتا ہے۔ نارائن بتاتے ہیں، ’’گنّے کی پتیاں ہم نے ان کسانوں سے لی ہیں، جن کے پاس مویشی نہیں ہیں۔‘‘ گنّے کے پتّے مویشیوں کے لیے ایک اہم غذا ہیں، اور اس لیے کسان اسے مفت میں نہیں دیتے۔

جوار اور گیہوں کے خشک ڈنٹھلوں کا استعمال چھت کو ڈھانپنے، کھلی جگہوں کو بھرنے اور جھونپڑی کو خوبصورت بنانے میں کیا جاتا ہے۔ نارائن بتاتے ہیں، ’’ہر جھونپڑی کے لیے کم از کم آٹھ بِندا [تقریباً ۲۵۰-۲۰۰ کلوگرام گنّے کے اوپری حصے] کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

چھپّر بچھانا بہت محنت کا کام ہے، جس میں تقریباً تین دن لگتے ہیں اور تین لوگوں کو روزانہ چھ سے سات گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ وشنو کہتے ہیں، ’’ہر ڈنٹھل کو احتیاط سے بچھانا پڑتا ہے، تاکہ بارش کا پانی اندر نے گرے۔‘‘ چھپر زیادہ دن تک چلے، اس کے لیے چھپر کی ہر ۳ سے ۴ سال میں مرمت کی جاتی ہے۔

وشنو کی بیوی انجنا (۶۰ سالہ) بھوسلے بتاتی ہیں، ’’روایتی طور پر، جامبھڑی میں صرف مرد ہی جھونپڑی بناتے ہیں، لیکن عورتیں خام مال کو تلاش کرنے اور زمین کو برابر کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔‘‘

جھونپڑی کا ڈھانچہ پورا ہونے کے بعد، نیچے کی مٹی کو بٹھانے کے لیے اس پر ڈھیر سارا پانی ڈالا جاتا ہے اور اگلے تین دنوں تک خشک ہونے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ نارائن بتاتے ہیں، ’’اس سے مٹی کے چپچپے پن کا پتہ لگتا ہے۔‘‘ یہ کام پورا ہو جانے کے بعد، نارائن اسے اپنے کسان دوستوں سے لائی گئی پانڈھری مٹی (سفید مٹی) سے ڈھانپ دیتے ہیں۔ لوہا اور مینگنیز نکل جانے کی وجہ سے، ’سفید‘ مٹی کا رنگ ہلکا ہوتا ہے۔

Before building the jhopdi , Vishnu Bhosale made a miniature model in great detail. Finding the right place on the land to build is critical
PHOTO • Sanket Jain
Before building the jhopdi , Vishnu Bhosale made a miniature model in great detail. Finding the right place on the land to build is critical
PHOTO • Sanket Jain

جھونپڑی بنانے سے پہلے، وشنو بھوسلے نے چھڑی سے اس کا ایک چھوٹا سا ڈھانچہ بنایا تھا۔ جھونپڑی بنانے کے لیے صحیح جگہ تلاش کرنا کافی اہم ہوتا ہے

Ashok Bhosale cuts off the excess wood to maintain a uniform shape.
PHOTO • Sanket Jain
PHOTO • Sanket Jain

جھونپڑی کا سائز ایک جیسا بنائے رکھنے کے لیے، اشوک بھوسلے بڑھی ہوئی لکڑی کو کاٹ دیتے ہیں۔ دائیں: ’وائی‘ کی شکل کا ایک میڈکا ، جس کے اوپر لکڑی کے تنے رکھے جائیں گے

سفید مٹی کی طاقت بڑھانے کے لیے اس میں گھوڑے، گائے اور دیگر جانوروں کے گوبر ملائے جاتے ہیں۔ اسے زمین پر پھیلا جاتا ہے اور مرد لکڑی سے بنے ’دُھمُّس‘ نام کے ایک اوزار سے اس کو بٹھاتے ہیں۔ اس اوزار کا وزن تقریباً ۱۰ کلو ہوتا ہے اور اسے تجربہ کار بڑھئی (کارپینٹر) ہی بناتے ہیں۔

مردوں کے ذریعے دُھمُس مارنے کے بعد، عورتیں اسے ’بڈونا‘ سے برابر کرتی ہیں، جس کا وزن تین کلو ہوتا ہے اور اسے ببول کی لکڑی سے بنایا جاتا ہے۔ بڈونا دیکھنے میں کرکٹ کے بلّے جیسے لگتا ہے، لیکن اس کا ہینڈل بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ نارائن کا اپنا بڈونا کہیں گم ہو گیا ہے، لیکن خوش قسمتی سے ان کے بڑے بھائی سکھا رام (۸۸ سالہ) کے پاس یہ موجود ہے۔

نارائن کی بیوی، کسم گائکواڑ نے جھونپڑی بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ کسم (۶۸ سالہ) کہتی ہیں، ’’جب بھی ہمیں اپنی کھیتی سے وقت ملتا تھا، ہم زمین کو برابر کرنے میں لگ جاتے تھے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ یہ بہت مشکل کام ہے، اس لیے فیملی کے تمام ممبران اور دوستوں نے باری باری اس میں مدد کی۔

مٹی برابر ہو جانے کے بعد، عورتیں اس پر گائے کا گوبر لیپتی ہیں۔ یہ مٹی میں دراڑ نہیں پڑنے دیتا ہے، اور مچھر کو بھی دور رکھنے میں مدد کرتا ہے۔

دروازے کے بغیر گھر خالی خالی لگتا ہے۔ عام طور پر، دروازے کو دیسی جوار، گنّا اور یہاں تک کہ ناریل کے خشک پتّوں کے ڈنٹھل سے بنایا جاتا ہے۔ حالانکہ، جامبھڑی میں کوئی بھی کسان چونکہ ان دیسی قسموں کو نہیں اگاتا ہے اور دروازے بنانے والوں کے لیے یہ ایک چیلنج ہے۔

نارائن کہتے ہیں، ’’ہر کوئی ہائبرڈ قسم استعمال کر رہا ہے، جس کا نہ تو چارہ اتنا مقوی ہوتا ہے اور نہ ہی یہ ’دیسی‘ کی طرح لمبے وقت تک ٹکتا ہے۔‘‘

Narayan carries a 14-feet tall agave stem on his shoulder (left) from his field which is around 400 metres away. Agave stems are so strong that often sickles bend and Narayan shows how one of his strongest sickles was bent (right) while cutting the agave stem
PHOTO • Sanket Jain
Narayan carries a 14-feet tall agave stem on his shoulder (left) from his field which is around 400 metres away. Agave stems are so strong that often sickles bend and Narayan shows how one of his strongest sickles was bent (right) while cutting the agave stem
PHOTO • Sanket Jain

نارائن (بائیں)، کھیت سے تقریباً ۴۰۰ میٹر کے فاصلہ پر، اپنے کندھے پر اگیو کا تنا لیے ہوئے ہیں۔ اگیو کے تنے اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ اکثر انہیں کاٹتے وقت درانتی ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔ نارائن دکھاتے ہیں کہ کیسے اگیو کے تنے کو کاٹتے وقت ان کی سب سے مضبوط ہنسیا (دائیں) ٹیڑھی ہو گئی ہے

جیسے جیسے کھیتی کے طور طریقوں میں تبدیلی آئی ہے، ویسے ویسے جھونپڑی بنانے کے وقت میں بھی تیزی آئی ہے۔ پہلے جھونپڑیاں گرمیوں میں بنائی جاتی تھیں، جب کھیتوں میں زیادہ کام نہیں ہوتا تھا۔ لیکن وشنو اور نارائن کا کہنا ہے کہ اب شاید ہی کوئی ایسا وقت ہو جب کھیت خالی پڑے ہوں۔ وشنو کہتے ہیں، ’’پہلے ہم سال میں ایک بار ہی کھیتی کرتے تھے۔ اب، بھلے ہی ہم سال میں دو یا تین بار کھیتی کرتے ہیں، لیکن پھر بھی ہمارا گزارہ نہیں ہو پاتا ہے۔‘‘

جھونپڑی بنانے میں نارائن، وشنو، اشوک بھوسلے اور کسم گائکواڑ کو مشترکہ طور پر پانچے مہینے اور ۳۰۰ گھنٹے سے زیادہ وقت لگا ہے۔ ساتھ ہی، وہ کھیتوں میں بھی کام کرتے رہے۔ نارائن بتاتے ہیں، ’’یہ کام ہمیں بہت زیادہ تھکا دیتا ہے اور اس کے علاوہ خام مال ڈھونڈنا بھی ایک چیلنج ہے۔‘‘ نارائن کو جامبھڑی میں کئی جگہوں سے خام مال اکٹھا کرنے میں ایک ہفتہ سے زیادہ کا وقت لگ گیا۔

انہیں جھونپڑی بناتے وقت، خاص کر کانٹوں اور قمچی سے چوٹیں لگیں۔ اپنی زخمی انگلی دکھاتے ہوئے نارائن کہتے ہیں، ’’اگر آپ کو اس درد کی عادت نہیں ہے، تو آپ کہاں سے کسان کہلائیں گے؟‘‘

آخرکار، جھونپڑی بن کر تیار ہے اور اسے بنانے والے سبھی لوگ بری طرح تھک چکے ہیں۔ لیکن جھونپڑی کو کھڑا دیکھ سبھی خوش ہیں۔ وشنو کو لگتا ہے کہ شاید یہ جامبھڑی کی آخری جھونپڑی ہو، کیوں کہ جھونپڑی بننے کے دوران کچھ ہی لوگ تھے جو اسے دیکھنے اور سیکھنے آئے تھے۔ لیکن نارائن نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا، ’’لوگ آئیں یا نہ آئیں، فرق نہیں پڑتا۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ جس جھونپڑی کو انہوں نے سبھی کے ساتھ مل کر اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے، اس میں انہیں چین کی نیند آتی ہے۔ اسے وہ ایک لائبریری بنانا چاہتے ہیں۔

نارائن گائکواڑ کہتے ہیں، ’’جب بھی کوئی دوست یا مہمان میرے گھر آتا ہے، تو میں فخر سے انہیں یہ جھونپڑی دکھاتا ہوں۔ اور لوگ اس روایتی ہنر کو زندہ رکھنے کے لیے، ہماری تعریف کرتے ہیں۔‘‘

Vishnu Bhosale shaves the bamboo stems to ensure they are in the proper size and shape. Narayan extracting the fibre from Agave leaves which are used to tie the rafters and horizontal wooden stems
PHOTO • Sanket Jain
Vishnu Bhosale shaves the bamboo stems to ensure they are in the proper size and shape. Narayan extracting the fibre from Agave leaves which are used to tie the rafters and horizontal wooden stems
PHOTO • Sanket Jain

وشنو بھوسلے، بانس کو صحیح شکل و صورت دینے کے لیے اسے چھیل رہے ہیں۔ نارائن، اگیو کے پتوں سے ریشے نکال رہے ہیں، جن کا استعمال چھپر اور اوپری لکڑی کے تنے کو باندھنے میں کیا جاتا ہے

The women in the family also participated in the building of the jhopdi , between their work on the farm. Kusum Gaikwad (left) is winnowing the grains and talking to Vishnu (right) as he works
PHOTO • Sanket Jain
The women in the family also participated in the building of the jhopdi , between their work on the farm. Kusum Gaikwad (left) is winnowing the grains and talking to Vishnu (right) as he works
PHOTO • Sanket Jain

کھیت پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ، فیملی کی خواتین نے جھونپڑی بنانے میں بھی مدد کی۔ کسم گائکواڑ (بائیں) اناج پھٹک رہی ہیں اور کام کرتے ہوئے وشنو (دائیں) سے بات کر رہی ہیں

Narayan Gaikwad attending a call on his mobile while digging holes for the jhopdi
PHOTO • Sanket Jain

جھونپڑی کے لیے گڑھا کھودتے وقت نارائن گائکواڑ اپنے موبائل پر بات کر رہے ہیں

Narayan’s grandson, Varad Gaikwad, 9, bringing sugarcane tops from the field on the back of his cycle to help with the thatching process.
PHOTO • Sanket Jain

نارائن کا ۹ سال کا پوتا ورد گائکواڑ، چھپر بنانے میں مدد کرنے کے لیے کھیت سے گنّے کا بنڈل اپنی چھوٹی سی سائیکل کے پیچھے لاد کر لا رہا ہے

Narayan’s grandson, Varad hangs around to watch how a jhopdi is built
PHOTO • Sanket Jain

نارائن کا پوتا، ورد یہ دیکھنے کے لیے اکثر موجود رہتا ہے کہ جھونپڑی کیسے بنائی جاتی ہے

The jhopdi made by Narayan Gaikwad, Kusum Gaikwad, Vishnu and Ashok Bhosale. 'This jhopdi will last at least 50 years,' says Narayan
PHOTO • Sanket Jain
The jhopdi made by Narayan Gaikwad, Kusum Gaikwad, Vishnu and Ashok Bhosale. 'This jhopdi will last at least 50 years,' says Narayan
PHOTO • Sanket Jain

نارائن گائکواڑ، کسم گائکواڑ، وشنو اور اشوک بھوسلے کے ذریعے بنائی گئی جھونپڑی۔ نارائن کہتے ہیں، ’یہ جھونپڑی کم از کم ۵۰ سال تک چلے گی‘

Narayan Gaikwad owns around 3.25 acre on which he cultivates sugarcane along with sorghum, emmer wheat, soybean, common beans and leafy vegetables like spinach, fenugreek and coriander. An avid reader, he wants to turn his jhopdi into a reading room
PHOTO • Sanket Jain

نارائن گائکواڑ کے پاس تقریباً ۲۵ء۳ ایکڑ زمین ہے، جس پر وہ گنّے کی کھیتی کے ساتھ ساتھ جوار، گندم، سویابین، راجما اور پالک، میتھی اور دھنیا جیسی پتے دار سبزیاں بھی اگاتے ہیں۔ پڑھنے کے شوقین نارائن، جھونپڑی کو لائبریری میں بدلنا چاہتے ہیں

یہ اسٹوری سنکیت جین کے ذریعے دیہی کاریگروں پر لکھی جا رہی سیریز کا حصہ ہے، اور اسے مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن کا تعاون حاصل ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Sanket Jain

संकेत जैन हे कोल्हापूर स्थित ग्रामीण पत्रकार आणि ‘पारी’चे स्वयंसेवक आहेत.

यांचे इतर लिखाण Sanket Jain
Editor : Priti David

प्रीती डेव्हिड पारीची वार्ताहर व शिक्षण विभागाची संपादक आहे. ग्रामीण भागांचे प्रश्न शाळा आणि महाविद्यालयांच्या वर्गांमध्ये आणि अभ्यासक्रमांमध्ये यावेत यासाठी ती काम करते.

यांचे इतर लिखाण Priti David
Photo Editor : Sinchita Parbat

सिंचिता माजी पारीची व्हिडिओ समन्वयक आहे, ती एक मुक्त छायाचित्रकार आणि बोधपटनिर्माती आहे. सुमन पर्बत कोलकात्याचा ऑनशोअर पाइपलाइन अभियंता आहे, सध्या तो मुंबईत आहे. त्याने दुर्गापूर, पश्चिम बंगालच्या राष्ट्रीय प्रौद्योगिकी संस्थेतून बी टेक पदवी प्राप्त केली आहे. तोदेखील मुक्त छायाचित्रकार आहे.

यांचे इतर लिखाण Sinchita Parbat
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पारीचे ऊर्दू अनुवादक आहेत. ते दिल्ली स्थित पत्रकार आहेत.

यांचे इतर लिखाण Qamar Siddique