جگر دید تنہائی کی عادی ہو چکی ہیں۔ وہ سرینگر کی ڈل جھیل کے ایک گھاٹ پر اپنے ہاؤس بوٹ کے پاس لکڑی کی ایک جھونپڑی میں تنہا رہتی ہیں۔ تین دہائی قبل ان کے شوہر اور پھر بیٹے کا انتقال ہو گیا تھا، تب سے انہوں نے اکیلے ہی کئی پریشانیوں کا سامنا کیا ہے۔
پھر بھی، وہ کہتی ہیں، ’’اس زندگی میں، میں ۳۰ سال سے تنہا رہ رہی ہوں، لیکن پچھلے سال جن پریشانیوں کا سامنا کیا ویسی پریشانیاں پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ تالا بندی کے بعد جیسے ہی سیاح آنے شروع ہوئے، یہ کورونا آ گیا اورپھر لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا، جس نے ہم سبھی کو پریشان کر رکھا ہے۔‘‘
سرکار نے جب ۵ اگست، ۲۰۱۹ کو کشمیر میں آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کر دیا، تو اس کے بعد ہوئی تالا بندی کے سبب بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ ’’میں نے تب سے ایک بھی گاہک نہیں دیکھا ہے،‘‘ جگر کہتی ہیں۔ اس وقت تمام باہری لوگوں کو یہاں سے چلے جانے کی سرکاری ایڈوائزری جاری کرنے کا مطلب تھا کہ تمام سیاح بھی وادی چھوڑ دیں۔ ’’اس نے ہمیں برباد کر دیا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’اس سے ہمارے کاروبار کو کافی نقصان ہوا۔ اس نے میری پہلے سے ہی تباہ زندگی کو مزید تباہ کر دیا۔‘‘
وہ اس تباہی کو یاد کرتی ہیں، جس میں ان کے اکیلے پن کا لمبا درد واضح طور دکھائی دیتا ہے: ’’میری بہن کی سگائی کی رسم تھی اورپورا خاندان ایک ساتھ تھا، خوشی میں ناچ گا رہا تھا،‘‘ جگر بتاتی ہیں، جن کا اندازہ ہے کہ وہ ۸۰ سال کی ہیں۔ ’’میرے شوہر، علی محمد تھُلّا میرے پاس آئے اور کہا کہ ان کے سینے میں درد ہو رہا ہے۔ اور پھر، جب میں نے انہیں اپنی گود میں رکھا، تو محسوس کیا کہ ان کا جسم ٹھنڈا ہو رہا ہے... اُس لمحہ مجھے لگا کہ پورا آسمان میرے اوپر گر پڑا ہے۔‘‘
تقریباً ۵۰ سال کے علی محمد، اپنے پیچھے جگر اور اپنے واحد بچے، منظور کو ’’تکلیفوں سے بھری زندگی بسر کرنے کے لیے‘‘ چھوڑ گئے۔ جگر اپنے بیٹے کو مَنّا کہہ کر پکارتی تھیں، جو اس وقت صرف ۱۷ سال کا تھا۔ ان کے پاس فیملی کی ہاؤس بوٹ تھی، جس پر ان کا معاش منحصر تھا۔ چار کمرے والی یہ ہاؤس بوٹ ان کی جھونپڑی سے ایک چھوٹے سے پُل کے اُس پار کھڑی تھی۔
’’میرا بیٹا سیاحوں کو ہماری کشتی میں قیام کرنے کے لیے لانے جب بھی باہر جاتا، تو پڑوسیوں کو کہہ کر جاتا کہ وہ میری دیکھ بھال کریں کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ میں اس کے والد کو یاد کرکے روؤں گی،‘‘ ایک کمرے کی اپنی جھونپڑی میں بیٹھی جگر، دروازہ کے باہر دیکھتے ہوئے کہتی ہیں۔ ان کے شوہر اور بیٹے کی تصویریں لکڑی کی دیواروں پر آویزاں ہیں۔
وہ علی کو کھونے کے غم میں ابھی مبتلا ہی تھیں کہ سات مہینے بعد منظور کا بھی انتقال ہو گیا۔ جگر کو تاریخ اور موت کا سبب یاد نہیں ہے، لیکن ان کا ماننا ہے یہ اس کے والد کو کھونے کا درد تھا جو اُن کے نوجوان بیٹے کو ان سے دور لے گیا۔
’’میری آنکھوں کے سامنے میری پوری دنیا اجڑ گئی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میری زندگی کے دو ہیرو نے اپنی یادوں سے بھری ہاؤس بوٹ کے ساتھ مجھے تنہا چھوڑ دیا۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ وہ یادیں ’’ہر وقت مجھے پریشان کرتی ہیں۔ میری بیماریوں کے سبب، میری زیادہ تر یادداشت دھندلی ہو چکی ہے، لیکن مجھے پریشان کرنے والی یادیں ہر دن تازہ ہو جاتی ہیں۔‘‘
ہم جب بات کر رہے ہیں، تو ان میں سے کچھ یادیں ابھر آتی ہیں۔ ’’میرا مَنّا اِس بستر پر سوتا تھا،‘‘ وہ یاد کرتی ہیں۔ ’’وہ بہت شرارتی لڑکا تھا۔ اکلوتی اولاد ہونے کے ناتے، اسے ہم سے، اپنے ماں باپ سے بہت محبت تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ہم نے اسے بتائے بغیر ایک نیا صوفا خریدا، اور جب اسے اس کے بارے میں پتا چلا، تو اس نے اُس دن تب تک کھانا نہیں کھایا جب تک کہ اس کے والد اور میں نے اس سے معافی نہیں مانگ لی۔ اے خدا، مجھے اپنے بچے کی یاد آتی ہے!‘‘
تب سے، جگر دید ڈل جھیل کے پانی پر پوری طرح سے تنہا رہنے کی کوشش کر رہی ہیں، اپنے شوہر کے ذریعہ چھوڑی گئی ہاؤس بوٹ سے آمدنی حاصل کرتی ہیں۔ سیاحتی موسم کے دوران، اپریل سے اگست تک وہ عام طور پر ہر مہینے ۱۵-۲۰ ہزار روپے کماتی تھیں۔
لیکن پچھلے سال کی تالا بندی اور کمائی کے نقصان کے سبب، انہیں اگست ۲۰۱۹ کے بعد تقریباً دو مہینے تک ایک اور جھٹکا لگا، جب ہاؤس بوٹ کی نگرانی کرنے والا ان کا پرانا ملازم انہیں چھوڑ کر چلا گیا۔ ’’میرے پاس ایک ملازم تھا، غلام رسول، جو مہمانوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ وہ میرے لیے بیٹے جیسا تھا، جو میری کشتی کی نگرانی کرنے کے ساتھ ساتھ میرے لیے باہر سے کھانا اور دیگر سامان لانے میں مدد کرتا تھا۔‘‘
جگر جب اس کی ۴۵۰۰-۵۰۰۰ روپے ماہانہ تنخواہ کی ادائیگی کرنے میں ناکام ہو گئیں (اور وہ سیاحوں سے ٹپس بھی نہیں کما سکتا تھا)، تو غلام رسول انہیں چھوڑ کر چلا گیا۔ ’’مجھے اکیلا چھوڑ کر جانے سے میں اسے روک نہیں سکی، کیوں کہ اس کی بھی اپنی فیملی ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
اپنی بڑھتی عمر کے سبب، جگر دید اپنے ہاؤس بوٹ سے نکل کر ڈل جھیل کے باہر جاکر کام کرنے یا کیرانے کا سامان لانے کے قابل نہیں ہیں، اور انہیں کسی ایسے آدمی کی ضرورت ہے جو بازار سے ان کے لیے یہ سامان لا دے۔ عام طور پر، ایک پرانا خاندانی دوست اس میں ان کی مدد کرتا ہے، لیکن کبھی کبھی انہیں گھنٹوں ہاؤس بوٹ کے باہر اس کے آنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ’’میں کسی کو بھی اپنا کام چھوڑکر میرا کام کرنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتی۔ میں صرف انتظار کر سکتی ہوں، جب تک کہ کوئی مدد کرنے کے لیے نہیں آتا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
’’پہلے، جب میرے پاس پیسہ ہوتا تھا، تو لوگ [آسانی سے] سامان لا دیتے تھے،‘‘ وہ کہتی ہیں، ’’لیکن اب مجھے اپنی ضرورت کا سامان حاصل کرنے کے لیے کبھی کبھی دیر تک کوشش کرنی پڑتی ہے کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں اور میں انہیں ادائیگی نہیں کروں گی۔‘‘
اور اب، ۳۰ برسوں میں پہلی بار، دو مسلسل لاک ڈاؤن اور ان کے ہاؤس بوٹ کو کسی بھی سیاح کے ذریعہ کرایے پر نہیں لینے کے سبب، جگر دید کی بچت کے تقریباً سارے پیسے خرچ ہو چکے ہیں۔ اس لیے اب وہ دن میں دو کی بجائے ایک وقت کا ہی کھانا کھاتی ہیں – عام طور پر رات کے کھانے میں چاول اور دال، اور دوپہر کے کھانے میں صرف مقامی نون چائے (نمک کی چائے)۔ کئی بار ڈل جھیل میں ان کے پڑوسی ان کی جھونپڑی یا کشتی پر کھانے کا پیکٹ گرا دیتے ہیں۔
’’میں لوگوں کا احسان لینے کی بجائے بھوکے مرنا پسند کروں گی؛ اس سے میرے علی اور مَنّا کی بدنامی ہوگی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میں کسی کو قصوروار نہیں ٹھہرا رہی ہوں، کیوں کہ اس وقت سبھی کے لیے حالات ایک جیسے ہیں۔ اس لاک ڈاؤن کے سبب، ہمارا کاروبار رک گیا ہے، ہمارے پاس کوئی پیسہ نہیں بچا ہے۔ ایسی صرف میں ہی نہیں ہوں، جس نے پچھلے سال اگست سے ایک بھی گاہک نہیں دیکھا ہے، یہاں کے کئی ہاؤس بوٹ مالکوں اور شکارہ والوں کا یہی حال ہے۔‘‘
سردیوں کے دن تیزی سے قریب آ رہے ہیں، اس لیے جگر دید فکرمند ہیں کہ ہاؤس بوٹ ٹھنڈ سے بچ پائے گی یا نہیں، کیوں کہ ان کے پاس اس کی مرمت کرانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اب جب بھی موسم خراب ہوتا ہے، وہ کہتی ہیں کہ وہ سو نہیں سکتیں۔ ’’مجھے ڈر ہے کہ اگر بارش ہوئی تو میں کیا کروں گی؟ مجھے ڈر ہے کہ میری ہاؤس بوٹ میرے ساتھ ڈوب جائے گی کیوں کہ اس سردی سے بچنے کے لیے اسے کافی مرمت کی ضرورت ہے۔ میں خدا سے دعا کرتی ہوں کہ سردیوں کے شدت اختیار کرنے سے پہلے مجھے کچھ گاہک مل جائیں، تاکہ میں اپنے زندہ رہنے کے واحد ذریعے اور اپنے علی کے تحفہ کو کھو نہ دوں۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز