دودھ سے بھرے پلاسٹک اور اور المونیم کے ڈبوں سے لدی، مشین سے چلنے والی دیسی کشتی روزانہ صبح کو برہم پتر ندی کے چلکورہ چار سے روانہ ہوتی ہے۔ یہ کشتی دھوبری شہر کے لیے دودھ لے جاتی ہے، جو مشکل سے ایک گھنٹہ کی دوری پر واقع ہے۔
آسام میں سیلابی عمل کی وجہ سے برہم پتر ندی کے ساتھ ساتھ بننے والے ریتیلے اور ناپائیدار جزیروں میں سے ایک چلکورہ چار بھی ہے ( چار کے بارے میں پاری کی اسٹوریز پڑھیں، اس موضوع پر پہلی اسٹوری ہے جن کے گھر ریت پر ہوتے ہیں )۔ یہ کشتی دوپہر کو واپس لوٹتی ہے، اور دوپہر بعد مزید دودھ لے کر دھوبری جاتی ہے۔
یہ دودھ لوور آسام کے دھوبری ضلع کے چار پر واقع، منڈل فیملی کے ڈیئری فارم کا ہے، جہاں پر اس فیملی نے دودھ دینے والے ۵۰ مویشی رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں روزانہ ۱۰۰ سے ۱۲۰ لیٹر دودھ نکلتا ہے۔ ’’جن دنوں میں ہماری گائیں اور بھینسیں سب سے زیادہ دودھ دینے کی مدت میں ہوتی ہیں، ان دنوں میں روزانہ ۱۸۰ سے ۲۰۰ لیٹر دودھ پیدا ہوتا ہے،‘‘ تین بچوں کے والد، ۴۳ سالہ تمیزالدین منڈل بتاتے ہیں۔ دھوبری شہر میں ہر ایک لیٹر کے انھیں ۴۰ روپے ملتے ہیں۔
دھوبری کے چاروں پر ڈیئری فارم کو حکومت کامیاب بتا رہی ہے۔ لیکن، اس کے پیچھے ایک سچائی بھی ہے جس سے ان کے ذریعہ معاش کو خطرہ لاحق ہے – اور وہ ہے مویشیوں کے لیے چارے کی کمی
چلکورہ چار پر رہنے والے ۷۹۱ کنبوں کے لیے معاش کا سب سے بڑا ذریعہ ہے دودھ کا کاروبار۔ ہر گھر کے مویشی روزانہ ۳۰ سے ۴۰ لیٹر دودھ اوسطاً دیتے ہیں۔ ان کنبوں کے درمیان تمیزالدین کو ایک طرح سے انقلابی مانا جاتا ہے – انھوں نے ۱۰ سال قبل ۵۱۵۶ لوگوں کی آبادی والے اس چھوٹے سے جزیرہ پر زیادہ دودھ دینے والی دو نسلی گایوں کو سب سے پہلے متعارف کرایا۔ اس چار پر پیدا ہونے والے زیادہ تر دودھ دو نسلی گایوں کے ہی ہوتے ہیں۔ جانوروں کے ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ ان مویشیوں کو بہار کے بازاروں سے لایا گیا ہے اور یہ دیسی اور جرسی گایوں کے ہائی برڈ (دو نسلے) ہیں۔
’’دو نسلی گایوں کے آنے سے پیداوار میں اضافہ ہوا ہے،‘‘ چار کے ایک دوسرے دودھ کاروباری، انور حسین بتاتے ہیں۔ ’’دو نسلی گائے ایک دن میں ۱۰ سے ۱۴ لیٹر دودھ دیتی ہے، جب کہ دیسی گائے مشکل سے ۳ یا ۴ لیٹر ہی دودھ دے پاتی ہے۔ بھینس ( چار کے کئی دودھ کاروباریوں کے پاس یہ مویشی بھی ہے) ایک دن میں ۱۲ سے ۱۶ لیٹر دودھ دیتی ہے۔‘‘
ویسے، دو نسلی مویشی آسام کے کچھ ہی حصوں میں مقبول ہیں – آسام کے سال ۱۶۔۲۰۱۵ کے اقتصادی سروے کے مطابق، ریاست میں ۱۵۔۲۰۱۴ میں جو ۸۷۳ ملین لیٹر دودھ پیدا ہوا (سرِ دست ضرورت ۲۴۵۲ ملین لیٹر کی ہے) اس میں سے دو نسلی مویشیوں سے صرف ۲۴۶ اعشاریہ ۰۶ لیٹر ہی ملا۔
بعد میں جا کر، تمیزالدین دھوبری کے سب سے زیادہ دودھ پیدا کرنے والے کسان کے طور پر مشہور ہو گئے، جس کے بعد ضلع انتظامیہ نے انھیں اپنے ورکشاپ میں بلایا اور دیگر کسانوں کے سامنے اس موضوع پر بولنے کے لیے کہا، تاکہ وہ بھی دودھ کا کاروبار شروع کر سکیں۔ وہ چلکورہ میلون دُگدھ اُتپادَک سوموبے سمیتی کے سربراہ بھی ہیں، یہ دودھ کا کاروبار کرنے والے ۵۱ کسانوں پر مبنی ایک کوآپریٹو سوسائٹی ہے، چار میں اسے ملا کر ایسی کل پانچ کوآپریٹو سوسائٹیز ہیں۔
دھوبری ضلع کے چاروں پر دودھ کے کاروبار کو سرکاری اہلکار ان لوگوں کی کامیابی کے طور پر پیش کرتے ہیں جو اپنی زمینوں اور جائیدادوں کی لگاتار تباہی کے باوجود وہاں زندگی گزار رہے ہیں۔ تاہم، کامیابی کی اس کہانی کے پیچھے ایک سچائی بھی ہے جس سے ان کے ذریعہ معاش کو خطرہ لاحق ہے – اور وہ سچائی ہے مویشیوں کے چارے کی کمی۔
دھوبری کے ڈسٹرکٹ ویٹرینری آفیسر، دنیش گوگوئی کے مطابق، سال ۲۰۱۶ تک پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے تحت مرکز سے آسام کو فراہم کیا جانے والا گیہوں، مقامی سطح پر پیس کر دودھ کے کاروباریوں کو ۶۰۰ روپے فی کوئنٹل کے حساب سے رعایتی قیمت پر، مویشیوں کے چارہ کی شکل میں سپلائی کیا جاتا تھا۔ تمیزالدین کی فیملی کو مثال کے طور پر، ہر ماہ ۲۵ کوئنٹل سبسڈی والا گیہوں ملتا تھا۔
دسمبر ۲۰۱۵ میں، آسام حکومت کی درخواست پر، صارفین کے امور، فوڈ اور پبلک ڈسٹری بیوشن کی وزارت نے ریاست کا ماہانہ کوٹہ تبدیل کرکے انتیودیہ اَنّ یوجنا کے تحت صرف چاول (’ترجیحی‘ زمرہ میں) اور نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ (این ایف ایس اے؛ ’ٹائڈ۔ اوور‘ کیٹیگری میں) کے تحت صرف گیہوں دینا شروع کر دیا۔ اس کے بعد آسام کو ہر ماہ ۶۱۰ روپے کے حساب سے ۸۲۷۲ ٹن گیہوں، اور جولائی ۲۰۱۶ کے بعد ۵۷۸۱ ٹن گیہوں ملے۔
لیکن، دسمبر ۲۰۱۶ سے ریاست کو این ایف ایس اے کے تحت گیہوں بالکل بھی نہیں ملا۔ وزارت نے ۳۰ نومبر، ۲۰۱۶ کو ریاستی حکومت کو لکھا کہ ’’مرکزی ذخیرہ میں گیہوں کی کمی کے سبب، حکومت ہند نے ریاست کو دسمبر ۲۰۱۶ سے مارچ ۲۰۱۷ کے دوران ٹائڈ اوور کیٹیگری کے تحت گیہوں کی جگہ پر چاول دینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
اس کے بعد سے ہی، چار کے دودھ پیدا کرنے والوں کو سبسڈی والا چارہ نہیں ملا ہے، سوائے اس کے جو انھیں اگست ۲۰۱۷ میں سیلاب سے راحت کی شکل میں بہت کم مقدار میں سپلائی کیا گیا تھا۔ اب انھیں کھلے بازار میں دستیاب مویشی کا چارہ خریدنے پر مجبور کر دیا گیا ہے، جہاں پر فی کوئنٹل کی قیمت ہے ۲۰۰۰ روپے۔
اس کی وجہ سے دودھ پیدا کرنے کی لاگت میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے، لیکن بازار میں دودھ کی قیمت اب بھی ۴۰ روپے ہی ہے۔ ’’آج مویشی کے چارہ کی قیمت کو دیکھتے ہوئے، ہم تبھی زندہ رہ پائیں گے جب دودھ کی قیمت بڑھا کر ۵۰ روپے یا اس سے زیادہ کر دی جائے،‘‘ تمیزالدین کا کہنا ہے۔
تمیزالدین ۳۵ لوگوں پر مشتمل مشترکہ خاندان میں رہتے ہیں۔ وہ اور ان کے پانچ بھائی، ضمیر علی، عمر علی، عبدالرحیم، عبدالقاسم اور نور حسین ڈیئری فارم کا کام ساتھ مل کر کرتے ہیں۔ فیملی کا کھانا ایک ہی باورچی خانہ میں پکتا ہے۔ ان کے پاس تقریباً دو ایکڑ کھیت ہے، جس میں گھر کی عورتیں مختلف فصل اُگاتی ہیں۔ دودھ کی پیداوار سے فیملی کی روزانہ آمدنی ہو سکتا ہے اچھی لگتی ہو، لیکن جب اسے فیملی کی چھ الگ الگ اکائیوں میں تقسیم کیا جاتا ہے تو منافع زیادہ نہیں بچتا۔
’’دودھ کا کاروبار محنت بھرا کام ہے،‘‘ تمیزالدین بتاتے ہیں۔ ’’دو نسلی گایوں کو چوبیسوں گھنٹے چارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انھیں بیماری لگنے کا خطرہ رہتا ہے جس کی وجہ سے انھیں ہر وقت ایک رکھوالی کرنے والا چاہیے۔‘‘ تمیزالدین بتاتے ہیں کہ اس علاقہ میں مویشیوں کے ڈاکٹروں کی وقت پر دستیابی مشکل ہوتی ہے، کیوں کہ یہاں مویشیوں کے سرکاری ڈاکٹروں کی زبردست کمی ہے۔ رات میں ڈاکٹر کی فوری ضرورت پڑنے پر ایک خاص گاڑی منگوانی پڑتی ہے، جس کا کرایہ ۲۵۰۰ روپے سے لے کر ۳۰۰۰ روپے تک ہو سکتا ہے۔
برہم پتر کے سبھی چار کمزور ہیں اور یہاں مٹی کے کٹاؤ کا خطرہ لگاتار بنا رہتا ہے، لیکن چلکورہ (جس کا معنی ہے ’حرکت‘) میں مٹی کا کٹاؤ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ تاہم، قریب میں اتنی ہی تیزی سے ریت کے ٹیلے بھی بننے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے بے گھر ہوئے لوگ ریت کے نئے ٹیلوں پر فوراً ہی منتقل ہو جاتے ہیں۔ چلکورہ چار کے اب پانچ الگ الگ حصے ہیں، جس میں سے ہر ایک حصہ کی آبادی ۱۳۵ سے لے کر ۱۴۵۲ تک ہے۔ یہاں کے باشندے ہر تین یا چار سال کے بعد بے گھر ہو جاتے ہیں؛ تمیزالدین اب تک ۱۵ بار نقل مکانی کر چکے ہیں۔
چار پر رہنے والے لوگ ایک طرح سے خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے درمیان دودھ کا کاروبار چونکہ نسلوں سے چلا آ رہا ہے، اس لیے اب یہ ان کی زندگی کا اٹوٹ حصہ بن چکا ہے۔ ’’اس قسم کی غیر یقینی صورتحال اور لگاتار نقل مکانی کے باوجود، ہمارے آباء و اجداد نے دودھ کے کاروبار کو اپنا پائیدار ذریعہ معاش بنایا،‘‘ تمیزالدین بتاتے ہیں۔ ’’سالانہ سیلاب اور لگاتار مٹی کے کٹاؤ کی وجہ سے زرعی زمین پر کھڑی فصلوں کے برباد ہونے کا خطرہ بنا رہتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس، مویشی مستقل اثاثہ ہیں اور انھیں کہیں بھی لے جایا جا سکتا ہے۔ جب جب ہمارا گھر ٹوٹتا ہے، ہم اپنے تمام گھریلو سامان اور مویشیوں کے ساتھ نئے چار پر منتقل ہو جاتے ہیں۔ یہ منتقلی ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
گزشتہ برسوں کے دوران دودھ بیچنے سے ہونی والی بڑی آمدنی نے زیادہ تر کنبوں کو اس لائق بنا دیا ہے کہ وہ اپنے چھپر کے مکانوں کی جگہ اب ٹن کی چھت اور ٹن کی دیوار سے جدید مکان بنا سکیں، جسے لکڑی کے فولڈنگ فریم پر بنایا جاتا اور ضرورت پڑنے پر آسانی سے دوسری جگہ لے جایا جا سکتا ہے۔