نمبر ۲ پنی کھیتی لوور پرائمری اسکول برہم پتر ندی کے کنارے سے ایک میٹر سے بھی کم دوری پر ٹوٹی پھوٹی شکل میں کھڑا ہے۔ نعرہ ’پراتھمک شکشا پرتی گورکی شیشور مولک ادھیکار‘ (’ابتدائی تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے‘) کو اسکول کی عمارت کی اندرونی دیوار پر اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ دیوار کے دوسری جانب، جو کہ ندی کی طرف ہے، مہاتما گاندھی کی تصویر اور آسامی زبان میں ایک دوسرا پیغام تھا: ’سچ کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے‘۔
سونتالی چار کے پنی کھیتی گاؤں میں واقع واحد سرکاری تعلیمی ادارہ کے طالب علموں اور اکیلے ٹیچر کے لیے یہی ایک تلخ حقیقت تھی جو ہمیشہ برقرار رہی۔ ندی کی دھیمی چڑھائی اور اسکول عمارت کے کھنڈرات برہم پتر ندی کے کنارے زندگی کی فانی ہونے کا ثبوت ہیں۔ ایک سابق طالبہ، ریحانہ رحمان بتاتی ہیں، ’’۔۔۔ اسکول بہہ چکا ہے۔ ہم جب اسکول ایک ساتھ جایا کرتے تھے، اس کی اچھی یادیں ہمارے ذہنوں میں اب بھی محفوظ ہیں۔۔۔۔‘‘
اکتوبر ۲۰۱۶ میں، جب طغیانی ندی نے واپس جانے کا کوئی عندیہ نہیں دیا، اور جب اسکول کو بہہ جانے سے بچانے کی گاؤں والوں کی درخواست کو آسام حکومت نے ٹھکرا دیا، تو انھوں نے دھیرے دھیرے پانی میں ڈوب رہی اس عمارت کے دروازوں، کھڑکیوں، ٹن کی چھتوں، ڈیسک اور میزوں کو وہاں سے ہٹا لیا۔
چار چھوٹے، ریتیلے جزیرے ہوتے ہیں جو آسام میں برہم پتر ندی کے کنارے بنتے رہتے ہیں (پاری پر ریت پر رہنے والےلوگوں کی جدوجہد دیکھیں)۔ ان پر تقریباً ۲۴ لاکھ لوگ آباد ہیں۔ پنی کھیتی گاؤں اور سونتالی چار کا وسیع علاقہ کامروپ ضلع کے بوکو حلقہ انتخاب میں واقع ہیں۔
چند ہفتوں کے بعد، ۲۸ نومبر، ۲۰۱۶ کو چار کے
دوسرے دفعہ دورہ پر، اسکول کے کھنڈرات پوری طرح غائب ہو گئے۔ جس جگہ پر کبھی اسکول
کی عمارت کھڑی ہوا کرتی تھی، وہاں اب صرف پانی کا ذخیرہ موجود تھا۔ اس نئی جگہ پر
اب میکنائزڈ دیسی کشتیاں مسافروں اور سامانوں کو ڈھو رہی تھیں۔
اسکول اب پانی میں ڈوب چکی عمارت کی جگہ سے تقریباً ۵۰۰ میٹر دور ایک کچّے ڈھانچہ میں چل رہا ہے۔ یہ جھونپڑی، جو ہیڈماسٹر طارق علی کے گھر کے صحن میں ہے، مشکل سے ندی کے کنارے سے ۱۵ میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یہاں پر ریگولر کلاسیں اور سہ ماہی امتحان ہو رہے ہیں۔
سال ۱۹۷۴ میں، جب پنی کھیتی کے باشندوں نے اپنے گاؤں میں ۶ سے ۱۱ سال کے بچوں کے لیے اسکول کھولنے کا ارادہ کیا، تو اُس وقت روبیعہ خاتون (جن کی عمر اب ۷۰ سال پار کر چکی ہے) اور ان کی کسان فیملی آگے آئی اور اس نے دو بیگھہ زمین اسکول کو عطیہ میں دے دی (آسام میں ساڑھے سات بیگھہ کا ایک ہیکٹیئر ہوتا ہے)۔ گاؤں والوں خود سے اس اسکول کو چلاتے رہے، اس کے بعد محکمہ ابتدائی تعلیم نے ۱۹۸۲ میں اس ادارہ کو تسلیم کیا اور طارق علی کو اس کا ٹیچر مقرر کیا۔ چار میں کچھ پرائیویٹ اسکول اور مدرسے ہیں، لیکن نمبر ۲ پنی کھیتی لوور پرائمری اسکول تب سے سرکار کے ذریعے چلایا جانے والا واحد اسکول تھا۔ یہ اسکول عوامی مقام بھی بن چکا تھا، جہاں علاقے کے لوگ آپس میں مل کر بیٹھتے اور بحث و مباحثہ کرتے تھے۔ واحد ٹیچر والے اس اسکول میں آس پاس کے چار اور گاؤوں سے بھی بچے پڑھنے آتے تھے۔
سال ۲۰۱۶ میں صرف دو مہینے کے اندر، اوپر اٹھتی برہم پتر نے پنی کھیتی کے دو تہائی سے زیادہ علاقے کو توڑ دیا اور ۲۰۰ سے زیادہ کنبوں کو بے گھر کر دیا۔ ’’برہم پتر چونکہ ایک ایک کرکے ہمارے گاؤوں کو اپنے اندر ڈبونا شروع کر دیا تھا، اس لیے میں بلاک ایلیمینٹری ایجوکیشن آفیسر کے پاس کئی بار گیا، اور اپنے ساتھ اسکول کی منیجنگ کمیٹی کے صدر اور کچھ گاؤں والوں کو بھی لے گیا، اور ان سے درخواست کی کہ وہ اسکول کو کسی محفوظ جگہ منتقل کر دیں،‘‘ طارق علی بتاتے ہیں۔ ’’انھوں نے ہمیں واپس بھیج دیا، یہ کہتے ہوئے کہ اسکولوں کو منتقل کرنے کے لیے کوئی فنڈ مختص نہیں کیا گیا ہے۔‘‘
اب چونکہ خود ان کا گھر اور جھونپڑی میں واقع یہ اسکول ندی سے چند میٹر کے ہی فاصلے پر ہے، طارق علی کو نہیں معلوم کہ اگر مٹی کا کٹاؤ یونہی جاری رہا تو وہ کہاں جائیں گے۔ بے گھر ہو چکے بہت سے لوگ پہلے ہی زمین اور نوکری کی تلاش میں آسام کے قصبوں اور شہروں کا رخ کر چکے ہیں، جس کی وجہ سے اسکول کے طلبہ کی تعداد ۱۹۸ سے گھٹ کر ۸۵ پر آ چکی ہے۔
’’جو بچے پہلے ہی اسکول کو چھوڑ چکے ہیں، ان کا پتہ لگا پانا مشکل ہے،‘‘ علی کہتے ہیں۔ ’’بے یقینی اور خطرہ اتنا شدید ہے کہ زیادہ تر والدین اپنے بچوں کا اسکول سرٹیفکیٹ لے جانے کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ بدقسمت بچے اپنی تعلیم چھوڑ دیں گے۔‘‘
سال ۲۰۱۴ میں جاری ہونے والی آسام ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ بتاتی ہے کہ ۶ سے ۱۴ سال کی عمر کے ۹۳ اعشاریہ ۳۳ فیصد بچے چار علاقے کے اسکولوں میں پڑھتے ہیں، اور ۱۵ سے ۱۶ سال کی عمر کے ۵۷ اعشاریہ ۴۹ فیصد بچے فی الحال اپنی تعلیم کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر ریاست آسام میں یہ عدد ۹۳ اعشاریہ ۸۵ اور ۷۴ اعشاریہ ۵۷ فیصد ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریاست کے ۳۳ اعشاریہ ۲۱ فیصد بچے اب بھی اسکولوں سے باہر ہیں، یا جنہوں نے اسکول میں کبھی داخلہ ہی نہیں لیا ہے۔
’’پنی کھیتی سے پہلے بھی کئی گاؤوں اس ندی میں ڈوب چکے ہیں، جیسے لوٹوریا، لوٹوریا بیلورجن، لوٹرتاڑی، گورائی تاڑی، بوروگل، کچیار ڈیا پاتھر، جٹیا ڈیا نمبر ۱ اور جٹیا ڈیاا نمبر ۲،‘‘ ایک مقامی باشندہ، عبدالصمد بتاتے ہیں۔ ’’ہم نے سرکار سے بار بار کٹاؤ کو روکنے کے لیے اقدام اٹھانے اور ہمارے گاؤوں کو بچانے کے لیے کہا، لیکن کسی نے ہماری بات نہیں سنی۔‘‘ سابق فوجی صمد بھی کم از کم پانچ بار بے گھر ہو چکے ہیں اور اب پنی کھیتی سے محلق، سونتالی علاقے کے باڑ اریکاٹی گاؤں میں سکونت اختیار کر لی ہے۔
آسام کے محکمہ آبی ذرائع کے ذریعے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، برہم پتر ندی نے ۱۹۵۰ سے لے کر اب تک ریاست کی ۴ اعشاریہ ۲۷ لاکھ ہیکٹیئر زمین کو کاٹ کر اپنے اندر ملا لیا ہے۔ کٹاؤ کا کل علاقہ ریاست کے جغرافیائی علاقہ کا ۷ اعشاریہ ۲۰ فیصد ہے۔ اوسطاً ہر سال کٹاؤ کی وجہ سے ۸ ہزار ہیکٹیئر زمین کا نقصان ہو رہا ہے۔
خود روبیعہ خاتون، جنہوں نے اسکول کے لیے زمین وقف کی تھی، کو بھی ندی نے نہیں بخشا۔ گھر اور قابل کاشت کھیت کی ۱۰ بیگھہ زمین کٹ جانے کے بعد، وہ اب ندی کے کنارے اپنے ایک رشتہ دار کے ساتھ رہتی ہیں۔ انھیں کوئی بیوہ پنشن بھی نہیں ملتا۔
پنی کھیتی گاؤں اور سونٹالی چار علاقہ کے لوگ حیرانی سے ندی کو دیکھ رہے ہیں جو مشکل سے ۵۰ میٹر کی دوری پر تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگر پانی کی دھار ندی سے مل گئی، تو یہ پوری طرح کٹ جائیں گے، جس کے بعد وہ سونٹالی کے بازار تک بھی نہیں پہنچ پائیں گے۔ چار کی یہی زندگی ہے۔
تصویریں: رتنا بھڑالی تعلقدار