اپنے گھر سے کچھ دوری پر پانی سے بھرے چھ پلاسٹک کے گھڑوں کو خریدنے کے بعد انھیں اپنی چھوٹی سی ٹرالی میں رکھ کر تیزی سے سڑک پار کرتے ہوئے، سی سبو لکشمی کے دماغ میں صرف الیکشن چل رہا ہے۔ وہ ایک زرعی مزدور ہیں، جو ٹرالی کی وجہ سے سارا پانی خود لے آتی ہیں۔ ’’ہم یقیناً پریشانی میں ہیں،‘‘ کماریڈیاہ پورم گاؤں کی سبو لکشمی کہتی ہیں۔
سبولکشمی (۴۸) ووٹنگ کے علاوہ دیگر چیزوں پر دھیان دے سکتی ہیں، لیکن ان کا گاؤں توتوکوڈی لوک سبھا حلقہ میں ہے، جو پورے تمل ناڈو کے سب سے ہائی پروفائل انتخابی حلقوں میں سے ایک ہے۔ دراوڑ مونیٹر گژگم (ڈی ایم کے) کی ایک کنی موئی – آنجہانی اور مشہور ڈی ایم کے لیڈر ایم کروناندھی کی بیٹی – بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ریاستی صدر تملی سائی ساؤنڈراجن کے خلاف میدان میں ہیں۔ یہ سیٹ ۲۰۱۴ میں اے آئی اے ڈی ایم کے کے جیا سنگھ تیاگ راج نے جیتی تھی، جب انھوں نے اپنے حریف ڈی ایم کے کے جیگن پی کو ہرایا تھا۔
۱۳ لاکھ سے زیادہ ووٹروں کے اس انتخابی حلقہ کی طرف متوجہ کرنے کی دوسری وجہ پچھلے سال توتوکوڈی شہر کو ہلا کر رکھ دینے والا پرتشدد واقعہ تھا۔ اس کی وجہ سے، یہاں سے صرف ۲۴ کلومیٹر کی دوری پر واقع کماریڈیاہ پورم کے بھی کئی لوگ متاثر ہوئے تھے۔
۱۲ فروری ۲۰۱۸ کو اس گاؤں کے تقریباً ۳۰۰ لوگ، توتوکوڈی ٹاؤن سینٹر میں اسٹرلائٹ کاپر پلانٹ (ویدانتا لمٹیڈ کی ایک تجارتی اکائی) کے توسیعی منصوبہ کی مخالفت میں دھرنے پر بیٹھ گئے۔ احتجاج کرنے والوں کو وہاں جتنے گھنٹے بیٹھنے کی اجازت ملی تھی، اس کے بعد بھی جگہ نہ چھوڑنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ اس گرفتاری کی مخالفت میں ۲۴ مارچ ۲۰۱۸ کو، تقریباً ۲ لاکھ لوگ توتوکوڈی شہر کی سڑکوں پر اتر آئے۔ مختلف پس منظر اور پیشہ سے جڑے لوگ اسٹرلائٹ کے نئے تانبہ گلانے والے احاطہ کی تعمیر کو روکنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ اسٹرلائٹ پلانٹ نے ان کی آب و ہوا کو زہریلا اور ان کے ذریعہ معاش کو ختم کر دیا ہے۔
احتجاجی مظاہرہ کے ۱۰۰ویں دن، ۲۲ مئی کو پولیس نے احتجاجیوں پر اندھا دھند گولیاں چلائیں، جس سے ۱۴ لوگوں کی موت ہو گئی۔ ۱۰۰ سے زیادہ لوگ زخمی ہو گئے۔ ۲۸ مئی کو، ریاستی حکومت نے اسٹرلائٹ کاپر پلانٹ کو بند کر دیا، لیکن اسٹرلائٹ نے پھر سے کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔
’’جب تک پلانٹ مستقل طور پر بند نہیں ہو جاتا، تب تک ہم پریشانی میں رہیں گے اور ہمارے لیے انتخابات کا کوئی مطلب نہیں ہوگا،‘‘ سبولکشمی نے ہمیں کماریڈیاہ پورم میں بتایا، جو کہ توتوکوڈی ضلع کے اوٹی پِڈارم بلاک میں ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس گاؤں کا کوئی بھی شخص زخمی نہیں ہوا تھا – یہ ۲۱ مئی کو پولیس کے ذریعے احتجاج سے ’روکے‘ گئے تین گاؤوں میں سے ایک تھا۔ لیکن اس نے انھیں خوفزدہ کر دیا ہے۔
تمل ناڈو میں اسی وقت ریاست کا چھوٹا الیکشن بھی چل رہا ہے۔ یہاں کے لوگ ۱۸ اپریل (اسی دن لوک سبھا پولنگ بھی ہے) اور ۱۹ مئی کو ۲۲ اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات میں ووٹ کرنے جا رہے ہیں۔ یہ ۲۳۴ رکنی تمل ناڈو اسمبلی کی تقریباً ۱۰ فیصد سیٹیں ہیں۔ اوٹاپِڈارم ایس سی (ریزرو) سیٹ ہے، جس کے تحت کماریڈیاہ پورم آتا ہے، یہاں ۱۹ مئی کو پولنگ ہوگی۔ اوٹاپڈارم میں ضمنی انتخاب اس لیے ہو رہا ہے کیوں کہ اس کے موجودہ اے آئی اے ڈی ایم کے رکن اسمبلی آر سندر راج کو دل بدلو مخالف قانون کے تحت نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ اس سیٹ کے لیے ابھی تک صرف ڈی ایم کے نے اپنا امیدوار، ایم سی شَن مُگیّا کو بنایا ہے۔
ان ۲۲ سیٹوں کے نتائج سے اسمبلی میں توازن مزید بگڑ سکتا ہے، جہاں برسراقتدار اے آئی اے ڈی ایم کے کے پاس اکثریت سے دو سیٹیں پہلے سے ہی کم ہیں۔
کماریڈیاہ پورم اور آس پاس کے علاقوں میں پانی کی شدید کمی سے سبو لکشمی (اوپر کے کور فوٹو میں) اور ان کے جیسی بہت سی دیگر خواتین کو اپنے دن کا ایک بڑا حصہ پانی لانے میں گزارنا پڑتا ہے، چاہے وہ جہاں سے مل جائے۔ اتفاق سے، اسٹرلائٹ ان خواتین کے مقابلے کافی سستے دام پر پانی خرید رہا تھا، جب کہ ان خواتین کو ایک گھڑا پینے کے پانی پر ۱۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ پلاسٹک کے ایک گھڑے میں تقریباً ۲۵ لیٹر پانی آتا ہے۔ ’’اسٹرلائٹ کے بند ہونے کے بعد ہی، کماریڈیاہ پورم کی خواتین کو باقاعدگی کے ساتھ نہ سہی، لیکن وافر مقدار میں پانی ملنے لگا،‘‘ پی پربھو کہتے ہیں۔ ’’المیہ یہ ہے کہ جب تک اسے بند نہیں کر دیا گیا، تب تک اسٹرلائٹ کو صرف ۱۰ روپے میں ۱۰۰۰ لیٹر پانی دیا جاتا تھا۔‘‘ ایک احتجاجی اور توتوکوڈی کے مقامی تاجر، پربھو اس رپورٹر کو اپنے ساتھ گاؤں لے کر گئے تھے۔
صنعتی مرکز کے طور پر مشہور، توتوکوڈی میں بہت سی گھریلو صنعتیں بھی ہیں جیسے کہ تاڑ کے پتے کی اشیاء اور مونگ پھلی کینڈی۔ کماریڈیاہ پورم، جہاں ۳۰۰ سے زیادہ گھر نہیں ہیں، متنازع اسٹرلائٹ کاپر پلانٹ کے قریب واقع ہے۔ یہ اسٹرلائٹ کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا مرکز رہا ہے۔ یہ پلانٹ ۱۹۹۸ میں نصب کیا گیا تھا اور تبھی سے اسے ماحولیات کو آلودہ کرنے اور صحت سے متعلق مختلف مسائل کے لیے مقامی لوگوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ کارکنوں کا الزام ہے کہ اسٹرلائٹ نے آپریشن کے ضابطوں کی لگاتار خلاف ورزی کی اور ۲۰۱۱ تک لائیسنس کی تجدید کے بنا ہی توسیعی مدتوں تک کام کرتا رہا۔ قومی ماحولیاتی تحقیقی ادارہ اور تمل ناڈو آلودگی کنٹرول بورڈ کے مطالعوں سے بھی یہ پتہ چلا ہے کہ اسٹرلائٹ نے اپنے اخراج سے زیر زمین پانی، ہوا اور مٹی کو آلودہ کر دیا ہے۔
کماریڈیاہ پورم کے باشندوں نے ۲۰۱۸ میں اپنا تازہ احتجاج تب شروع کر دیا، جب انھیں پتہ چلا کہ کاپر پلانٹ کی توسیع کا منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ یہ صنعت ان کے گاؤں کو آلودہ کر رہی ہے، جس سے مختلف بیماریوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ ’’ہم نے اپنا معیارِ زندگی برسوں سے خراب ہوتے دیکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گاؤں-دیہات میں رہنا اچھا ہوتا ہے۔ آپ کو کماریڈیاہ پورم آکر رہنا چاہیے، تب آپ کو پتہ چلے گا کہ یہاں رہنا حقیقت میں کیسا ہے،‘‘ ۵۵ سالہ گھریلو خاتون، ویلئی تائی کہتی ہیں۔
یہاں کے باشندوں کا کہنا ہے کہ اسٹرلائٹ کے آس پاس رہنے سے کینسر اور تولیدی پیچیدگیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ’’آپ کو ایسا ایک بھی گھر نہیں ملے گا جہاں کوئی مریض نہ ہو۔ میں نے اپنے والدین کو بڑی تیزی سے بوڑھا ہوتے ہوئے دیکھا ہے، جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے،‘‘ ۱۷ سالہ طالبہ پی مہا لکشمی کہتی ہیں۔
اور پانی کی کمی یہاں کی سب سے بڑی چنوتیوں میں سے ایک ہے۔ عورتوں کو پلاسٹک کے گھڑوں میں اپنی ٹرالیوں سے پانی لے کر سڑک پار کرتے ہوئے، کسی بھی دن دیکھا جا سکتا ہے۔ ’’ہمیں وافر مقدار میں پانی حاصل کرنے کے لیے ۱۰ سے ۱۵ دنوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ، پانی لانے کے لیے ہمیں آدھا کلومیٹر یا اس سے زیادہ پیدل چلنا پڑتا ہے۔ ہم آنے جانے میں چھ چکر نہیں لگا سکتے۔ اسی لیے ٹرالی استعمال کرتے ہیں،‘‘ ۵۰ سالہ زرعی مزدور، کرشنا لیلاوتی کہتی ہیں۔
ریاست کے اس حصہ کے لیے بے مثال، ان ٹرالیوں کو توتوکوڈی شہر میں بنایا جاتا اور پھر گاؤوں میں لایا جاتا ہے۔ ’’ایک ٹرالی ۲۵۰۰ روپے میں آتی ہے، اس کے علاوہ انھیں کماریڈیاپورم تک منگوانے میں اوپر سے ۳۰۰ روپے اور دینے پڑتے ہیں،‘‘ لیلاوتی بتاتی ہیں۔
کچھ ہی دوری پر واقع، توتوکوڈی کی یوگیشور کالونی کی عورتوں نے ان برسوں میں پانی لانے کے لیے سائیکل چلانا سیکھ لیا ہے۔ ’’یہاں پر تقریباً ۱۰۰ فیملی رہتی ہے اور ہم کم از کم ۵۰ برسوں سے پینے کے پانی کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ آپ کو ہمارے درمیان ایسی ایک بھی عورت نہیں ملے گی جو سائیکل نہ چلا سکے۔ ہمیں پانی لانے کے لیے تقریباً دو کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے اور شہر میں، جہاں بھاری ٹریفک ہو، ایسا ہم صرف سائیکل پر ہی کر سکتے ہیں۔ پھر بھی، اتنا پانی ڈھونے سے ہمیں صحت سے متعلق مسائل پیش آئے ہیں،‘‘ ۴۰ سالہ مزدور اور توتوکوڈی کی باشندہ، اے سرسوتی کہتی ہیں۔
اس درمیان، سرکار کے ذریعے پلانٹ بند کر دیے جانے کے ایک سال بعد بھی، کماریڈیاہ پورم کے لوگ خوف و تشویش میں جی رہے ہیں۔ ’’بہت ہو چکا، ہم نہیں چاہتے کہ اسے کسی بھی قیمت پر کھولا جائے،‘‘ ویلئی تائی کہتی ہیں۔ گاؤں والوں کو پتہ ہے کہ اسٹرلائٹ اپنے پلانٹ کو پھر سے کھولنے کے لیے عدالتوں سے اجازت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ظاہر ہے، اسٹرلائٹ کے دوبارہ کھلنے کا ڈر انتخابات کے جوش سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ ’’الیکشن ہو یا نہیں، ہمارا واحد مطالبہ ہے کہ اسٹرلائٹ کو مستقل طور پر بند کر دیا جائے،‘‘ ویلئی تائی کہتی ہیں۔
کماریڈیاہ پورم میں اسٹرلائٹ کا ایشو پلوامہ، بالاکوٹ یا آگستا یا رافیل ڈیل سے کہیں بڑا ایشو ہے۔ ’’کوئی بھی ہمارا ووٹ مانگنے کے لیے یہاں نہیں آیا ہے، لیکن ہم ووٹ دینے تب تک نہیں جائیں گے جب تک ہمیں یہ نہ پتہ لگ جائے کہ اسٹرلائٹ مستقل طور پر بند ہو رہا ہے،‘‘ لیلاوتی کہتی ہیں۔
پولنگ کا بائیکاٹ کرنے سے لے کر اسٹرلائٹ کو بند کرانے کا وعدہ کرنے والے کسی شخص کو ووٹ دینا، ایسے کئی متبادل ہیں جن پر اس چھوٹے سے گاؤں کے لوگ غور کر رہے ہیں۔ ویلئی تائی بہت واضح ہیں۔ ’’ہم نہیں چاہتے کہ مودی واپس آئے۔‘‘
’’گولی باری میں جب ۱۴ لوگ مارے گئے تھے، تب بھی انھوں نے ہمارے لیے اپنا منھ نہیں کھولا تھا،‘‘ ۵۵ سالہ زرعی مزدور پی پونراج کہتے ہیں۔ ’’کم از کم، اسٹرلائٹ نے ہمیں دھیرے دھیرے مار ڈالا۔‘‘
یہ ایشو ان کی زندگی اور ذریعہ معاش پر تقریباً ۲۵ برسوں سے حاوی ہونے کے باوجود، اور ’’جو کچھ ہوا اس کے بعد، سیاسی لیڈروں کو لگتا ہے کہ ہم ان کے لیے ووٹ کریں گے۔ لیکن ہمیں اس سے لڑنے کی ضرورت ہے، اپنے لیے نہ سہی کم از کم ہماری آنے والی نسلوں کے لیے،‘‘ سبولکشمی کہتی ہیں۔
’’وہ ووٹ مانگنے کے لیے یہاں تک کیسے آ سکتے ہیں؟‘‘ ۴۶ سالہ زرعی مزدور ویلئی تائی پوچھتی ہیں۔ ’’اگر انھیں لگتا ہے کہ اسٹرلائٹ ہماری زندگی اور ذریعہ معاش سے زیادہ اہم ہے، تو پھر ہمیں انسان کیوں مانا جا رہا ہے اور یہاں الیکشن کیوں کروایا جا رہا ہے؟‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)