سوِندانے میں اپریل کی رات کے ۲ بجے ہیں۔ مغربی مہاراشٹر میں پونہ ضلع کے شیرور تعلقہ کے اس گاؤں میں مندر کے سامنے کھلا میدان جگمگا رہا ہے، جہاں عورتیں چمکدار، رنگین روشنی میں بالی ووڈ کے گانے پر رقص کر رہی ہیں۔ لیکن للن پاسوان اور ان کے ساتھیوں کا بینڈ اس کی طرف بالکل بھی دھیان نہیں دے رہا۔ وہ مرد ناظرین اور لاؤڈاسپیکر کے ہنگامے سے دور کوئی جگہ ڈھونڈ رہے ہیں، جہاں کچھ دیر کے لیے جھپکی لے سکیں۔ ان میں سے کچھ، اپنے فون پر فلم دیکھ کر وقت گزارتے ہیں۔
’’یہ کام بہت تھکا دینے والا ہے۔ ہم رات بھر جگے رہتے ہیں، مالک چاہتے ہیں کہ ہم ہر وقت کام کریں،‘‘ للن پاسوان کہتے ہیں۔ للن (اوپر کے کور فوٹو میں)، جو کہ اب تقریباً ۱۹ سال کے ہو چکے ہیں، ۱۳ سال کی عمر سے ہی ’منگلا بنسوڈے اور نتن کمار تماشہ منڈل‘ کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ وہ ۳۰ مزدوروں کے گروپ میں شامل ہیں – ان میں سے زیادہ تر دلت برادریوں سے ہیں، جن کی عمر ۱۵ سے ۴۵ سال تک ہے – یہ سبھی اترپردیش کے لکھنؤ ضلع کے مال بلاک کی ملیح آباد تحصیل سے ہیں۔ اس گروپ کے سبھی مرد ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں یا اپنے گاؤں کے ایک جیسے سماجی نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔
تماشہ منڈلی جب ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جاتی ہے، تو وہ فنی مظاہرہ کے لیے اسٹیج اور ٹینٹ لگاتے ہیں۔ اور ستمبر سے مئی تک تماشہ کے آٹھ مہینے کے موسم میں وہ یہ کام کم از کم ۲۱۰ بار کرتے ہیں۔ تماشہ، جو کہ مہاراشٹر کا ایک فوک آرٹ ہے، کا مظاہرہ روزانہ الگ الگ گاؤں میں کھلی جگہ پر بنائے گئے اسٹیج پر کیا جاتا ہے۔ یہ ناچ، گانا، اسکٹ اور لمبے ناٹک سے بھرا تفریح کا ایک پیکیج ہے۔ منڈلی میں فنکار، مزدور، ڈرائیور، وائرمین، منیجر اور باورچی شامل ہوتے ہیں۔
للن کو یہ کام اس کے گاؤں اومئو میں ایک دوست کے توسط سے ملا۔ اس سے پہلے وہ لکھنؤ میں راج مستری کا کام کرتے تھے۔ لیکن کام رک رک کر ہوتا تھا اور پیسے بھی کم ملتے تھے۔ اب، پانچویں کلاس کے بعد اسکول چھوڑنے والے للن کو اپنے گاؤں کے گروپ کے ’منیجر‘ کے طور پر ہر ماہ ۱۰ ہزار روپے ملتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر وہ منڈلی کے لیے مزدور بھی لاتے ہیں۔ ’’گاؤں میں اگر کوئی لڑکا ادھر ادھر بھٹکتا ہوا نظر آیا، جو نہ تو پڑھائی کر رہا ہے اور نہ ہی کوئی کام، تو ہم اسے مزدور بنانے کے لیے اپنے ساتھ لے آتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہمارے خیال سے یہ سبھی کے لیے ایک ساتھ کام کرنے اور پیسہ کمانے کا ایک اچھا موقع ہے۔‘‘
تماشہ منڈلی کے مالک بھی اترپردیش کے مزدوروں کو پسند کرتے ہیں۔ منڈلی کے منیجر، انل بنسوڈے کہتے ہیں، ’’وہ کڑی محنت کرتے ہیں اور اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ وہ ہمیں بیچ میں چھوڑ کر چلے جائیں۔‘‘ پونہ میں مقیم فوٹو جرنسلٹ اور تماشہ محقق سندیش بھنڈارے کے مطابق، منڈلی کے مالکوں کی ترجیح کا ایک اور ممکنہ سبب یہ ہے کہ یوپی کے مزدور کم اجرت میں کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
للن اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اسٹیج تیار کرنا دیگر کاموں کے مقابلے زیادہ مشکل کام ہے۔ گاؤں میں شو کی متعینہ جگہ پر سامان لانے والے ٹرک کے پہنچتے ہی، مزدور لکڑی کے تختوں، لوہے کے فریم اور روشنی اور آواز کے لیے بجلی کے سامان اتارنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ لوہے کے فریم کی ایک کڑی کے ساتھ اسٹیج بنانا شروع کرتے ہیں، جس پر لکڑی کے تختوں کو فٹ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد فریم لگاتے ہیں جو اسٹیج کی چھت اور بجلی کے آلات کو سہارا دے گا۔ اسٹیج اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ وہ موسیقی آلات اور ۱۵-۲۰ لوگوں کے بوجھ کو برداشت کر سکے۔ کبھی کبھی موٹر سائیکل یا گھوڑا بھی اداکاری کا حصہ ہوتا ہے، اور اس اضافی بوجھ کو برداشت کرنے کے لیے اسٹیج کافی مضبوط ہونا چاہیے۔
’’اسٹیج تیار کرنے والے پورے گروپ کو تماشہ ختم ہونے تک وہیں رہنا پڑتا ہے، مالکوں کی یہی خواہش رہتی ہے،‘‘ للن کہتے ہیں، جن کے اوپر ٹینٹ لگانے والے آٹھ مزدوروں کے گروپ کی ذمہ داری ہے۔ ’’لیکن مالک [ہمارے کام کی] جانچ یا دخل اندازی نہیں کرتا ہے، وہ صرف ہمیں بنیادی ہدایات دیتا ہے۔ اس کام کو پورا کرنا پوری طرح سے ہماری ذمہ داری ہے، اور ہم اس کا خیال رکھتے ہیں،‘‘ وہ فخر سے کہتے ہیں۔
چار مردوں کا کام اسٹیج کے پاس دھات کی باڑ لگانا ہے، جو ناظرین کو اسٹیج سے دور رکھے۔ ٹکٹ والے شو کےد وران، اضافی ۱۰-۱۲ مرد ایک بڑا ٹینٹ لگاتے ہیں جس کے اندر اسٹیج ہوتا ہے، اور وہ ٹینٹ تک جانے والے دروازے بھی لگاتے ہیں۔ ایک مزدور جنریٹر کا دھیان رکھتا ہے، جو دیہی مہاراشٹر میں بجلی کی کٹوتی کو دیکھتے ہوئے شو کے لیے ضروری ہے۔
یہ مزدور منڈلی کی حفاظت میں بھی مدد کرتے ہیں۔ اومئو گاؤں کے ہی ۲۰ سالہ سنت رام راوت، جنریٹر کے انچارج ہیں۔ ناظرین جب کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں، تو وہ انھیں سنبھالتے بھی ہیں۔ ’’جب لوگ راہوتی [خواتین فنکاروں کے خیمے] میں گھسنے یا اسے پھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہمیں انھیں مہذب بنانے کے لیے ہاتھ جوڑنا پڑتا ہے۔ ہم انھیں سمجھاتے ہیں کہ انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے،‘‘ سنت رام کہتے ہیں، جو پانچ سال سے شو کے دوران اس منڈلی کے ساتھ ہیں۔ ’’اگر کوئی شرابی ہے، تو ہم اسے ۲-۳ بار مارتے ہیں اور وہاں سے چلے جانے کو کہتے ہیں۔‘‘
مزدوروں کے آرام کرنے کا وقت متعین نہیں ہے۔ تماشہ رات کے ۱۰ یا ۱۱ بجے سے شروع ہوتا ہے، اور تقریباً ۳ بجے اور کبھی کبھی ۵ بجے جب ختم ہوتا ہے، تو انھیں تیزی سے ٹینٹ، اسٹیج اور دیگر سامان پیک کرنا پڑتا ہے۔ جب شو ٹکٹ والا ہوتا ہے (اور گاؤں کے ذریعے پیشگی کمیشن نہیں کیا جاتا، جب وہ عوام کے لیے مفت ہو)، تو انھیں ٹکٹ کاؤنٹر بھی پیک کرنا پڑتا ہے۔ منڈلی کے ٹرکوں میں سارا سامان لوڈ ہو جانے کے بعد، مزدور تنگ جگہ پر چڑھ جاتے ہیں اور سونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ٹرک، فنکاروں کو لے کر چلنے والی بسوں کے ساتھ ساتھ، پوری منڈلی کو اگلے گاؤں تک پہنچاتے ہیں۔ دوپہر کے آس پاس وہاں پہنچے پر، مزدور اداکاروں کو آرام کرنے اور ملبوسات بدلنے کے لیے ٹینٹ لگاتے ہیں۔ پھر وہ تھوڑی دیر سوتے یا نہاتے اور کھانا کھاتے ہیں۔ اور اس کے بعد تقریباً ۴ بجے، وہ ایک بار پھر سے اسٹیج تیار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
لگاتار چلتے رہنے کے دوران، ان کے لیے کھانا بھی ایک مسئلہ ہے۔ ’’کوئی بھی لڑکا [مزدور] اس کھانے کو پسند نہیں کرتا۔ ہم گھر پر گیہوں کی روٹی اور چاول کھاتے ہیں۔ یہاں ہمیں بھاکھری [جوار یا باجرے سے بنی] کھانی پڑتی ہے،‘‘ سنت رام کہتے ہیں۔ ’’حد تو یہ ہے کہ سبھی میں مونگ پھلی اور ناریل بھرا ہے،‘‘ للن کہتے ہیں، باقی لوگ حمایت میں گردن ہلاتے ہیں۔ ’’ہم اپنے کھانوں میں ان میں سے کسی کا بھی استعمال نہیں کرتے۔ لیکن ہم اس کی برائی نہیں کر سکتے، ہمیں اسے کھانا ہی پڑتا ہے۔‘‘
کھانے کا وقت بھی بہت الگ الگ ہوتا ہے۔ ’’کبھی کبھی ہمیں صبح ۱۰ بجے کھانا ملتا ہے، کبھی دوپہر بعد ۳ بجے۔ کوئی متعین وقت نہیں ہے۔ سیزن کے آخر تک ہمارا جسم بیکار ہو جاتا ہے،‘‘ للن کہتے ہیں۔ ’’اگر وقت پر کھانا ملا تو ہم کھا لیتے ہیں، ورنہ ہمیں خالی پیٹ ہی ٹینٹ کو اکھاڑنا اور پیک کرنا پڑتا ہے،‘‘ للن کے چھوٹے بھائی، ۱۸ سالہ سرویش کہتے ہیں۔
ان مشکلوں کے باوجود، یہ مزدور تماشہ کا کام اس لیے پسند کرتے ہیں کیوں کہ اس میں استقلال اور آمدنی ہے۔ آٹھ مہینے تک منڈلی کے ساتھ رہتے ہوئے وہ ۹-۱۰ ہزار روپے ہر ماہ کماتے ہیں، حالانکہ نئے بھرتی ہونے والوں کو صرف ۵۰۰۰ روپے ہی ملتے ہیں۔
سرویش نے ۱۱ویں کلاس میں اسکول چھوڑ دیا تھا، کیوں کہ یہ سن سن کر وہ تھک چکے تھے کہ ان کی فیملی کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ ’’میں نے سوچا کہ پیسہ مانگنے کے بجائے میں کماؤں گا اور خود اپنا پیسہ رکھوں گا،‘‘ انھوں نے کہا۔ ان کے والد بھی اسی منڈلی کے ساتھ مزدور ہیں، اور ان کا سب سے چھوٹا بھائی ایک ہیلپر کے طور پر یہاں کام کرتا ہے۔ خرچ کے بعد، یہ فیملی آٹھ مہینے بعد ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے کے ساتھ اپنے گھر واپس لوٹے گی۔ تماشہ سے ہونے والی اس سال کی کمائی کا استعمال للن کی شادی اور ان کے گھر کی دوبارہ تعمیر پر کیا جائے گا۔
ہر ایک مزدور کو یومیہ خرچ کے لیے ۵۰ روپے ملتے ہیں۔ یہ رقم ان کی ماہانہ رقم سے کاٹ لی جاتی ہے۔ اس کا زیادہ تر حصہ اضافی کھانے پر خرچ کیا جاتا ہے (جو انھیں منڈلی کا حصہ ہونے کے طور پر ایک دن میں ملنے والے دو وقت کے کھانے کے علاوہ ہوتا ہے)۔ کچھ لوگ اس بھتہ کا استعمال تمباکو یا شراب کے لیے کرتے ہیں۔ ’’میں نہیں پیتا، یہاں ۵-۶ مرد ہیں جو پیتے ہیں،‘‘ للن بتاتے ہیں۔ ان کے والد بھی ان میں سے ایک ہیں۔ کچھ مرد گانجا کے بھی عادی ہیں۔ ’’یہ لوگ گانجا اور شراب اتنی تیزی سے حاصل کر لیتے ہیں، جتنی تیزی سے ہم کھانے کا سامان بھی نہیں حاصل کر پاتے،‘‘ سرویش ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔
تماشہ منڈلی کے ساتھ کام کرنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اس سے انھیں سفر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ’’ہم ہر دن کسی نئے گاؤں میں ہوتے ہیں، اس لیے ہمیں نئی جگہ کو دیکھنے سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک جگہ رکنے پر ہم اوب جاتے،‘‘ للن کہتے ہیں۔
لیکن زیادہ تر مزدور اپنے اہل خانہ کو یہ نہیں بتاتے کہ وہ تماشہ کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ’’ہم نے گاؤں کے لوگوں کو بتایا ہے کہ ہم ایک آرکیسٹرا یا ڈی جے کمپنی کے ساتھ کام کرتے ہیں جس میں رقص بھی ہوتا ہے۔ وہ تماشہ میں کام کرنے کو معیوب سمجھیں گے،‘‘ للن کہتے ہیں۔ وہ اترپردیش کے دیہی علاقوں میں ’نوٹنکی‘ نامی اسی قسم کے شو میں اس لیے کام نہیں کرتے، کیوں کہ وہاں کے رقص کرنے والوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، وہ آگے بتاتے ہیں۔ ’’یوپی کے برعکس، یہاں کے لوگ اس فن کا احترام کرتے ہیں۔‘‘
مئی میں جب تماشہ سیزن ختم ہوتا ہے، تو سبھی مزدور آم کے موسم میں اومئو لوٹ آتے ہیں۔ اس علاقہ کے آم ملک بھر میں بھیجے جاتے ہیں اور ایکسپورٹ بھی ہوتے ہیں، سرویش فخر سے کہتے ہیں۔ ہمارے باغات میں سات قسم کے آم پھلتے ہیں، سنت رام بتاتے ہیں۔
یہ ان کے لیے آرام کرنے اور دوبارہ صحت مند ہونے کا بھی وقت ہے۔ ’’یہاں سے واپس جانے کے لیے ہمیں آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ گاؤں میں دو مہینے گزارنے کے بعد ہم دوبارہ فٹ ہو جاتے ہیں۔ ہم آم کھاتے ہیں، زیادہ کام نہیں کرتے۔ کھاؤ، سوئو، گھومو،‘‘ للن کہتے ہیں۔
گروپ کے زیادہ تر مردوں کی طرح، للن اور سرویش کی فیملی کے پاس بھی اپنی زمین ہے، جہاں وہ اپنی کھپت کے لیے گیہوں اور بازار کے لیے آم اُگاتے ہیں۔ ’’ہمارے پاس ایک تماشہ میدان جتنی زمین ہے، تقریباً ایک ایکڑ،‘‘ للن بتاتے ہیں۔ ان کے چچا اس میں کھیتی کرتے ہیں، جہاں سے للن کے والد کو ہر سال تقریباً ۶۰-۷۰ ہزار روپے ملتے ہیں۔ سرویش اور للن روزانہ کچھ گھنٹے آم توڑتے ہیں، انھیں منڈی بھیجتے ہیں، اور پھر آرام کرنے چلے جاتے ہیں۔
’’ہم اس زمین سے ضروری سالانہ آمدی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم گاؤں میں ہوتے، تو روزانہ اپنی ہی کمائی خرچ کر رہے ہوتے۔ ہمیں یہاں اپنی آمدنی یک مشت رقم کے طور پر ملتی ہے، اس میں سے خرچ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس رقم سے ہم اپنا گھر بنا سکتے ہیں، شادیوں کے لیے پیسے ادا کر سکتے ہیں...‘‘ للن کہتے ہیں۔
اپنے گاؤں لوٹنے پر، وہ کبھی کبھی چھوٹے موٹے کام بھی کر لیتے ہیں۔ ان کے مواقع ہیں لکھنؤ میں یومیہ مزدوری، گاؤں میں زرعی مزدوری یا منریگا کے کام – جس سے انھیں ایک دن میں تقریباً ۲۰۰ روپے ملیں گے۔ لیکن ہر دن کام نہیں ملتا۔ ’’کبھی کبھی، ہمیں صبح ۸ بجے سے شام ۵ بجے تک انتظار کرنے کے باوجود کام نہیں ملتا...‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔
لیکن للن کا کہنا ہے کہ وہ شادی کے بعد اگلے سال تماشہ منڈلی میں واپس نہیں جائیں گے۔ ’’میں گاؤں میں کوئی کام ڈھونڈ لوں گا...میں سب کچھ کر سکتا ہوں۔ میں کپڑے کی سلائی بھی کر سکتا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کی ہونے والی بیوی ایک درزی ہیں اور بی اے پاس ہیں۔
سنت رام، گھر واپسی پر ان کی بھی شادی ہونے والی ہے، کہتے ہیں، ’’میں گاؤں میں بس جاؤں گا۔ میرا وہاں ایک دکان کھولنے کا ارادہ ہے، شاید کرانے کی دکان۔ اگر میں یہاں آگیا تو بیوی اور ماں کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ میں صرف اس لیے آ رہا تھا کیوں کہ میں غیر شادی شدہ تھا۔‘‘
سرویش کا کہنا ہے کہک وہ بھی تماشہ سے دور ہو سکتے ہیں اور اس کے بجائے چنڈی گڑھ یا ممبئی جیسے کسی بڑے شہر جا سکتے ہیں۔ ’’مجھے صرف مناسب کھانا اور نیند چاہیے۔ ایک بار گھر چھوڑ دیا، تو ہم کہیں بھی کام کرنے کو تیار ہیں...‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)