۵۸ سالہ رمیش اوکر، ۲۸ نومبر کی صبح جلدی اٹھ گئے۔ ان کے ذہن میں دو باتیں تھیں۔ ’’مجھے ووٹ دینا تھا، اور اگلے دن مجھے دہلی پہنچن تھا،‘‘ انھوں نے بتایا۔
اوکر مدھیہ پردیش کے جھابوا ضلع کے پیٹلاواڑ تعلقہ کے منسیا گاؤں میں رہتے ہیں۔ یہاں کا قریبی ریلوے اسٹیشن اندور ہے – تقریباً ۱۵۰ کلومیٹر دور۔ اندور سے دہلی تک پہنچنے میں ٹرین ۱۴ گھنٹے لیتی ہے۔ ’’میں نے پچھلی رات میں اپنے کپڑے پیک کیے اور اپنی بیوی سے صبح میں راستے کے لیے کھانا تیار کرنے کو کہا،‘‘ ۲۹ نومبر کو دہلی میں، گرودوارہ شری بالا صاحب جی کے احاطہ میں، ایک چھڑی پکڑے بیٹھے ہوئے انھوں نے کہا۔ ’’میں نے ووٹ ڈالا اور دوپہر کو گھر سے نکل پڑا۔ شام کو بس سے اندور پہنچا، جہاں سے میں نے رات کی ٹرین لی۔‘‘
مدھیہ پردیش میں اسمبلی انتخابات کے لیے ۲۸ نومبر کو ووٹ ڈالے گئے تھے، اور ۲۹ نومبر کو آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈی نیشن کمیٹی، جو کہ ۱۵۰-۲۰۰ زرعی جماعتوں اور یونینوں کی ایک مشترکہ تنظیم ہے، نے ملک بھر کے تقریباً ۵۰ ہزار کسانوں کو راجدھانی میں جمع کیا تھا۔ وہ ملک کے زرعی بحران پر مرکوز پارلیمنٹ کا ۲۱ دنوں کا خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ لے کر، دو دنوں کے احتجاجی مارچ میں حصہ لینے یہاں آئے تھے۔ اس بحران نے ۱۹۹۵ سے ۲۰۱۵ کے درمیان ہندوستان بھر کے ۳ لاکھ سے زیادہ کسانوں کو خودکشی کرنے پر مجبور کیا ہے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق، مدھیہ پردیش میں ۲۰۰۸-۱۷ کے درمیان ۱۱۰۰۰ سے زیادہ کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ ’’ہم جدوجہد کر رہے ہیں،‘‘ اوکر نے تب کہا، جب گرودوارہ میں جمع ہوئے ملک بھر کے کسانوں کو ان کے لیڈر مخاطب کر رہے تھے۔ ایک مقرر نے کہا کہ کیسے ہزاروں کروڑ کا ہیر پھیر کرنے کے بعد وجیہ مالیا اور نیرو مودی جیسے لوگ فرار ہو جاتے ہیں۔ ’’وہ صحیح کہہ رہا ہے،‘‘ اوکر کہتے ہیں۔ ’’نریندر مودی اور شیو راج سنگھ چوہان [مدھیہ پردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ] نے کسانوں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ میرا ووٹ بھی شمار کیا جائے۔ امیر لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہمیں گولیاں کھانی پڑ رہی ہیں۔‘‘
اوکر، جو اپنے دو ایکڑ میں عام طور پر سویابین کی کھیتی کرتے ہیں، نے کہا، ’’بیجوں کی قیمت ۴۰۰۰ روپے فی کوئنٹل ہے۔ فصل تقریباً ۲۰۰۰ روپے فی کوئنٹل کے حساب سے فروخت ہوتی ہے۔‘‘ انھوں نے مئی ۲۰۱۷ کے مندسور آندولن کا ذکر کیا، جہاں پیاز کی بہتر قیمت کی مانگ کو لے کر مظاہرہ کر رہے کسانوں پر ریاستی پولس نے گولی چلا دی، جس میں چھ کسان مارے گئے تھے۔ ’’اگر پیاز ۱ روپے کلو فروخت ہوگی، تو کسان زندہ کیسے رہے گا؟‘‘ اوکر نے سوال کیا۔
منسیا کے آس پاس کے ۴-۵ گاؤوں سے تقریباً ۱۲۰ کسان ۲۸ نومبر کی صبح پہنچے۔ ’’اگر مارچ ووٹنگ کے کچھ دنوں بعد نکالا جاتا، تو اور بھی لوگ آتے،‘‘ اوکر نے کہا۔ ’’ریاست کے کسانوں کی حالت واقعی میں خراب ہے۔‘‘
المیہ دیکھئے، مدھیہ پردیش حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے زرعی ترقی میں گزشتہ کچھ برسوں میں تقریباً ۲۰ فیصد کا اضافہ درج کیا ہے۔ ریاست کو حال ہی میں صدر جمہوریہ ہند سے ۲۰۱۶ کا کرشی کرمن ایوارڈ ملا ہے، یہ اسے لگاتار پانچ سالوں سے مل رہا ہے۔
مارچ میں حصہ لینے کے لیے دہلی آئے ہردا ضلع کے بھووَن کھیڑی گاؤں کے کسان لیڈر، کیدار سیروہی نے کہا کہ زرعی ترقی کی تعداد غلط ہے۔ ’’کاغذ میں ترقی اور زمین پر ترقی میں فرق ہے،‘‘ انھوں نے کہا۔ ’’اگر مدھیہ پردیش میں زراعت مضبوط ہو رہی ہے، تو کسان خودکشی کیوں کر رہے ہیں؟ زرعی قرض کیوں بڑھ رہے ہیں؟ کسان اپنا قرض ادا کیوں نہیں کر پا رہے ہیں؟ یہ حکومت غریب مخالف ہے، جو کسانوں اور مزدوروں کے بارے میں نہیں سوچ رہی ہے۔‘‘
اگلے دن، ۳۰ نومبر کو مدھیہ پردیش کے کھرگون سے تقریباً ۲۰۰ کسان رام لیلا میدان پہنچے، جہاں ملک بھر کے کسان دہلی کے پارلیمنٹ اسٹریٹ کی جانب بڑھنے سے پہلے جمع ہوئے تھے۔ سنچری ٹیکسٹائلس اینڈ اینڈ انڈسٹریز لمیٹڈ کی دھاگہ اور ڈینم اکائیوں نے جب اگست ۲۰۱۷ میں ایک دوسری کمپنی کے ساتھ سیلز ڈیڈ کی، تو اس کے بعد مزدوروں کی نوکریاں چلی گئی تھیں۔ ’’ہم میں سے تقریباً ۱۵۰۰ لوگوں نے نوکریاں کھو دیں،‘‘ کھرگون ضلع کے کسراواڑ تعلقہ کے ستراتی گاؤں کی، ۴۵ سالہ شرمیلا مولیوا نے بتایا۔ ’’میرے شوہر ان میں سے ایک تھے۔ وہ ہمیں پانچ مہینے تک کام پر رکھتے تھے، پھر ایک مہینے کے لیے ہٹا دیتے تھے، اس کے بعد دوبارہ کام پر رکھ لیتے تھے یہ یقینی بنانے کے لیے کہ ہمیں مستقل نوکریاں نہ مل پائیں۔ چونکہ ہم عارضی ملازم تھے، اس لیے انھوں نے ہم سے کہہ دیا کہ ہماری ضرورت نہیں ہے۔‘‘
کھرگون کی کپڑا مزدور یونین عدالتوں میں گئی اور صنعتی تنازع قانون کے تحت شکایت درج کرائی۔ اس سال مئی میں، اندور ہائی کورٹ نے ملازمین کے حق میں فیصلہ سنایا، اور کمپنی کو انھیں کام پر رکھنے کا حکم جاری کیا۔ ’’لیکن اس حکم پر ابھی بھی عمل نہیں کیا گیا ہے،‘‘ مولیوا نے بتایا۔ ’’میرے شوہر ہر مہینے تقریباً ۱۰ ہزار روپے کماتے تھے۔ یہ آمدنی اچانک بند ہو گئی۔ تب سے، ہم کمپنی کے دروازہ کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں۔‘‘
مزدوروں نے کچھ مہینے پہلے شیو راج سنگھ چوہان سے بھی ملاقات کی تھی۔ انھوں نے ان سے کہا تھا کہ سرکار کچھ دنوں میں جواب دے گی – لیکن کسی نے بھی جواب نہیں دیا ہے۔ مولیوا نے کہا کہ وہ مزدوروں کے بحران سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انھوں نے مارچ میں حصہ لینے کے لیے اپنے ۱۰ سالہ بیٹے کو گھر چھوڑ دیا۔ ’’میں نے ایسا پہلے کبھی نہیں کیا ہے۔ اصل میں، یہ دوسری بار ہے جب میں نے ٹرین پکڑی ہے۔ ہم نے ایسا اس لیے کیا کیوں کہ یہ مارچ سرکار کو جوابدہ بنانے کے بارے میں تھا۔ مدھیہ پردیش میں چونکہ کسی نے بھی ہمارے اوپر توجہ نہیں کی، اس لیے ہم نے سوچا کہ ہمیں اپنی بات دہلی جا کر سنانی چاہیے۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)