سنجے گوپ کبھی لڑکھڑائے ہی نہیں – کیوں کہ وہ کبھی چلے ہی نہیں۔ اٹھارہ سال کا یہ نوجوان تمام عمر پہیے دار کرسی میں ہی رہا ہے۔ ان سے میری ملاقات بنگو میں ہوئی، یہ گاؤں جھارکھنڈ کے پوربی (مشرقی) سنگھ بھوم ضلع کے جڈوگوڈا شہر (جسے مردم شماری میں جڈوگورا کے طور پر درج کیا گیا ہے) میں واقع یورینیم کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ (یو سی آئی ایل) کی کان سے تقریباً چھ کلومیٹر دور ہے۔
یو سی آئی ایل، جو کہ حکومت ہند کی ایک کمپنی ہے، نے یہاں پر پہلی کانکنی ۱۹۶۷ میں کی تھی۔ جڈوگوڈا اور پاس کی چھ دیگر کانوں میں پروسیس کی گئی کچ دھات کو ییلو کیک (یورینیم آکسائڈ کے آمیزہ) میں تبدیل کیا گیا اور حیدر آباد کے جوہری ایندھن احاطہ (نیوکلیئر فیول کامپلیکس) میں بھیج دیا گیا۔
سنجے جب دو سال کے تھے، تو ان کے فکر مند والدین انھیں یو سی آئی ایل اسپتال لے گئے، کیوں کہ انھوں نے چلنا شروع نہیں کیا تھا۔ ان کے والد ایک یومیہ مزدور ہیں، ان کی والدہ دھان کے کھیتوں میں کام کرتی ہیں – جیسا کہ یہاں کے گاؤوں کے زیادہ تر لوگ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ یو سی آئی ایل کی کانوں میں کام کرتے ہیں – باقیوں کا کہنا ہے کہ انھیں نوکری دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جو کہ پورا نہیں ہوا۔ ڈاکٹروں نے سنجے کے والدین کو بھروسہ دلایا کہ انھیں فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے صبرو تحمل سے انتظار کیا، لیکن ان کے بیٹے نے کبھی اپنا پہلا قدم – یا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
سنجے بنگو کے ان متعدد بچوں میں سے ایک ہیں، جو جسمانی عیب کے ساتھ پیدا ہوئے یا ان بیماریوں کی وجہ سے ان کی موت ہو گئی۔ بنگو گاؤں میں تقریباً ۸۰۰ لوگ رہتے ہیں (مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق) – ان میں سے زیادہ تر سنتال، مُنڈا، اوراؤں، ہو، بھومِج اور کھاریا قبائل کے لوگ ہیں۔ انڈین ڈاکٹرس فار پیس اینڈ ڈیولپمنٹ نامی گروپ کے ذریعہ ۲۰۰۷ میں کی گئی ایک اسٹڈی کے مطابق، اس قسم کی جسمانی معذوریوں کے سبب مرنے والے بچوں کی تعداد کان سے ۳۰-۳۵ کلومیٹر دور کی آبادیوں کے مقابلہ کان کے قریب (صفر سے ڈھائی کلومیٹر) کی آبادیوں میں ۵ء۸۶ گنا زیادہ ہے۔
اِن گاؤوں میں رہنے والی عورتوں میں اسقاطِ حمل کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ کینسر اور ٹیوبر کلوسس جیسی بیماریوں سے ان لوگوں کی موت ہو رہی ہے جو کانوں میں کام کرتے ہیں یا پروسیسنگ پلانٹس اور ’ٹیلنگ پانڈس‘ (یورینیم کچ دھات کی پروسیسنگ سے بچ جانے والی زہریلی سلری کا ذخیرہ) کے قریب رہتے ہیں۔
ہندوستانی اور بین الاقوامی سائنس داں لمبے عرصے سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس قسم کی جسمانی معذوریاں اور بیماریاں شعاع ریزی کی اونچی سطح اور شعاع پذیر کچرے کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ زہریلے مادوں والے تالاب کے آس پاس کی آبادیاں کو خاص طور سے خطرہ ہے، کیوں کہ گاؤوں والے ان پانیوں کے رابطے میں ضرور آتے ہیں۔ لیکن، یو سی آئی ایل اپنی ویب سائٹ پر کہتا ہے کہ ’’بیماریاں ..... شعاع ریزی کی وجہ سے نہیں ہیں، بلکہ [گاؤوں میں] کم غذائیت، ملیریا اور صفائی سے زندگی نہ گزارنے وغیرہ کی وجہ سے ہوتی ہیں۔‘‘
مشرقی سنگھ بھوم میں یو سی آئی ایل کی سات کانیں ہیں – جڈوگوڈا میں، نروا پہاڑ، بگجاٹا، تورام ڈیہہ، ماہُل ڈیہہ، اور بندوہوڈانگ میں۔ یہاں پر شعاع ریزی کے ہولناک اثرات کا مسئلہ عدالتوں تک میں پہنچ چکا ہے اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی بھی شامل ہے۔ سال ۲۰۰۴ میں، سپریم کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے جوہری توانائی کمیشن کے ذریعہ داخل کیے گئے حلف نامہ کی بنیاد پر پی آئی ایل کو ردّ کر دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ ’’یورینیم کے فضلہ کی وجہ سے ہونے والی شعاع ریزی کو چیک اور کنٹرول کرنے کے لیے مناسب قدم اٹھائے گئے ہیں۔‘‘ جڈوگوڈا کے آس پاس ہونے والی عوامی تحریکوں، جیسے جھارکھنڈی آرگنائزیشن اگینسٹ ریڈی ایشن، نے لمبے عرصے سے اس بات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ ملک کی یورینیم کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے گاؤوں والوں کو کتنی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔