کاندون گھوڑا کے گھر کے ایک اندھیرے کمرے میں رکھے ایکویریم، ٹینکوں اور برتنوں میں اینجل فش، پیکاک فش، گپّی، اور مولی جیسی مچھلیاں تیر رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ ایک نازک کام ہے۔ انہیں بچوں کی طرح پالنا پڑتا ہے۔‘‘
کاندون، مغربی بنگال کے جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع کے ادے رامپور گاؤں میں ماہی پروری کا کام کرتے ہیں۔ یہ گاؤں کولکاتا کے جنوبی حصے سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور واقع ہے۔ کاندون کی پوری فیملی آرائش کے لیے استعمال ہونے والی مچھلیوں کو پالنے کے کام میں لگی ہوئی ہے۔ ان کا اندازہ ہے کہ تقریباً ۵۴۰ کنبوں والے اس گاؤں کی گھوڑا پاڑہ، منڈل پاڑہ، اور مستری پاڑہ بستیوں کے ۶۰-۵۰ کنبے اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔
مغربی بنگال کے دیگر علاقوں، تمل ناڈو اور کیرالہ کے ماہی پروروں کی طرح ہی وہ آرائش کے لیے استعمال ہونے والی رنگ برنگی دیسی اور غیر ملکی نسل کی ۲۰۰ سے زیادہ قسم کی مچھلیاں پیدا کرتے اور انہیں پالتے ہیں، تاکہ ملک بھر میں انہیں پالنے کے خواہش مند لوگوں کو فروخت کر سکیں۔
بستیوں میں تالاب کے کنارے ناریل کے درخت اور سپاری کی جھاڑیاں لگی ہوئی ہیں۔ گھروں کے باہر مرغیاں ادھر ادھر گھوم رہی ہیں، اور سائیکل پر سوار بچے دوپہر کے وقت اسکول سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ کبھی کبھی کولکاتا کے گلیف اسٹریٹ پیٹ بازار سے مچھلی خریدنے سے پہلے، امکانی گاہک انہیں قریب سے دیکھنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔ اتوار کے دن کولکاتا کے اس بازار میں خوردہ تاجر جمع ہوتے ہیں۔
کاندون کے گھر کے پیچھے، ان کی فیملی کی ملکیت والا مچھلی تالاب جال سے گھرا ہوا ہے۔ دیگر ماہی پروروں کی ملکیت والے تالابوں میں بھی اسی طرح کا انتظام رہتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’برسات کے موسم میں مچھلیوں کی افزائش اپنے عروج پر ہوتی ہے، اس لیے تالاب کو اس کے لیے پہلے سے تیار کرنا پڑتا ہے۔‘‘ ان کے چھوٹے سے گھر کے ایک کمرے میں ایسی مچھلیاں رکھی ہیں جنہیں گھر کے اندر ہی پالا جا سکتا ہے۔ مچھلی کے انڈے اکثر خراب ہو جاتے ہیں، اس لیے یہ طے نہیں ہوتا کہ بازار میں کتنی مچھلیاں فروخت ہوں گی: ایک ہفتہ میں اوسطاً ۱۵۰۰۔ کاندون کہتے ہیں، ’’اس کاروبار سے ہونے والی آمدنی کافی غیر متعین ہوتی ہے، اور کبھی ۷-۶ ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔‘‘
ادے رامپور میں مچھلیاں پالنے اور انہیں بازار میں بیچنے کا ہنر نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ فیملی کے ہر رکن کو ان کی دیکھ بھال کرنا آتا ہے۔ ہر کسی کو مچھلیوں کی بیماریوں کی علامتوں کی شناخت کرنا اور ان کا علاج کرنا بھی آتا ہے۔ کاندون کہتے ہیں، ’’جب وہ بیمار یا زخمی ہوتی ہیں، تو عام طور پر پانی کی سطح کے پاس تیرنے لگتی ہیں۔ اور وہ کچھ بھی کھانا بند کر دیتی ہیں۔ وہیں، کچھ مچھلیاں مرجھا سی جاتی ہیں اور ان کی پونچھ سفید پڑ جاتی ہے۔‘‘ آمتالا کی ایک مقامی دکان میں مچھلیوں کی دوائیں مل جاتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ان کی صحت ٹھیک کرنے کے لیے، ہم انہیں ایک الگ برتن میں رکھتے ہیں، انہیں وقت سے دوائیں کھلاتے ہیں، اور ان کا روزمرہ کا کھانا بند کر دیتے ہیں۔‘‘
کاندون کی فیملی نے ماہی پروری کے کاروبار میں تقریباً ۲۵ سال پہلے قدم رکھا تھا، اور تب وہ مٹی کے برتنوں میں مچھلیاں پالتے تھے۔ پھر وہ مٹی اور پلاسٹک کے ٹب کا استعمال کرنے لگے، اور آخر میں تالاب اور ایکویریم استعمال کرنے لگے۔ کاندون بتاتے ہیں کہ مچھلیوں سے پیار کرنا انہیں اپنے والد سے وراثت میں ملا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس دنیا میں ہمارے پاس کمائی کا یہی ایک ذریعہ ہے۔ ہم اس کام کو چھوڑ نہیں سکتے۔ ہمارے بچے شہر میں پڑھتے ہیں، لیکن وہ بھی آخرکار اسی پیشہ کی جانب رخ کریں گے۔‘‘ ان کی بیوی پُتُل اس بات سے اتفاق کرتی ہیں؛ ان کا تعلق بھی ماہی پروری کرنے والی فیملی سے ہے۔
ان کی بیٹی دشا، ودیا نگر کالج سے فلاسفی (فلسفہ) میں گریجویشن کی پڑھائی کر رہی ہیں۔ جب ہم ان کے گھر گئے تھے، تو وہ اپنے کمرے کے سامنے بنے گلیارے کے ایک حصہ میں کچھ بچوں کو پڑھا رہی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں شاید گھر پر پڑھانے کا کام کرتی رہنا چاہوں گی اور مچھلیوں کی دیکھ بھال جاری رکھوں گی۔‘‘
ہم گاؤں میں اور آگے بڑھے، تو ہم نے دیکھا کہ عورتیں اور مرد تالابوں میں گھٹنے بھر پانی کے اندر کھڑے ہیں۔ وہ چھوٹی مچھلیوں کو کھلانے کے لیے چھوٹے چھوٹے کیڑوں کو پھنسا رہے تھے۔ مچھلیاں جیسے جیسے بڑھتی ہیں، وہ دلدل میں لگے کیڑوں کو کھانے لگتی ہیں – جو انہی تالابوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ راستے میں، ہم تروبالا مستری سے ملے، جو ایندھن کی لکڑی اٹھائے چل رہی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس کام کے ذریعے ہم جو کماتے ہیں اس سے ہمارا گزارہ نہیں چلتا، لیکن ہمارے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔‘‘ مچھلیوں سے ان کا (اور ان کی برادری کا) پیار ان کے پہنے ہوئے جھمکوں سے جھلک رہا تھا۔
ایک اور ماہی پرور، اتم مستری کے گھر پر مچھلیوں کو کنویں میں پالا جاتا ہے؛ وہ فائٹر فش کو پالنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ لڑائی سے بچنے کے لیے ان مچھلیوں کو الگ رکھنا پڑتا ہے؛ چھوٹی مچھلیاں مٹی کے برتنوں میں رکھی جاتی ہیں، جب کہ بڑی مچھلیوں کو سایہ دار شیڈ میں ایک قطار میں رکھی بوتلوں میں رکھا جاتا ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے، تب اتم ان کے ہفتہ واری کھانے (کیڑوں) کو بوتلوں میں ڈال رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر انہیں اس سے زیادہ بار کھانا دیا جائے گا، تو وہ مر جائیں گی۔‘‘
ماہی پرور برادریوں میں آپسی سمجھداری سے یہ طے کیا جاتا ہے کہ کون کس مچھلی کو بنیادی طور پر پالے گا، تاکہ ان کا کاروبار متوازن طریقے سے چلتا رہے۔ گھوڑا کے برعکس، مستری مچھلی بیچنے کے لیے گلیف اسٹریٹ بازار نہیں جاتے، بلکہ وہ خوردہ فروشوں کو اپنی مچھلیاں سونپ دیتے ہیں۔
منڈل پاڑہ کی طرف جانے والے راستے میں ہمیں گولک منڈل مل گئے، جو گھاس پھوس اکھاڑ رہے تھے۔ پاس ہی میں ایک پپیتے کا پیڑ تھا، جو ان کی فیملی کے تالاب کی طرف جھکا ہوا تھا، جہاں عورتیں کیڑوں کو جال میں پھنسا رہی تھیں۔ گولک نے ہمیں اپنی گپّی اور مولی مچھلیاں دکھائیں۔ وہ اپنی مچھلیوں کو ایک ٹینک، کچھ برتنوں، اور فیملی کی ملکیت والی زمین کے ایک حصہ پر واقع تالاب میں پالتے ہیں۔ ان کے چھوٹے سے گھر کی چھت پر بوتلوں میں فائٹر مچھلیوں کو پالا گیا ہے۔
منڈل کی گولڈ فش اور اینجل فش بالترتیب ۵ اور ۲ روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ ان کی ایک فائٹر مچھلی کی قیمت ۱۵۰ روپے ہے، اور وہ ۱۰۰ گپّی مچھلیوں کے لیے بھی اتنے ہی پیسے لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمیں کبھی کبھی منافع ہوتا ہے، کبھی نہیں ہوتا؛ اور ایک ہفتہ میں ہم کبھی ۱۰۰۰ روپے سے زیادہ نہیں کماتے۔ کئی بار ہمیں نقصان اٹھا کر کم قیمت میں ہی انہیں بیچنا پڑتا ہے۔‘‘ منڈل اس خاندانی پیشہ کو بڑھانے کا خواب دیکھ رہے ہیں، اور آس پاس کہیں اور زمین خریدنا چاہتے ہیں، تاکہ زیادہ بہتر طریقے سے ماہی پروری کر سکیں۔
ان کا بیٹا باپّا (۲۷ سالہ) ایک آٹوموبائل کمپنی میں پارٹ ٹائم (جزوقتی) کام کرتا ہے، اور ماہی پروری کو زیادہ سنجیدگی سے اپنانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’اب تو شہروں میں پڑھے لکھے لوگوں کو بھی نوکری نہیں مل پاتی ہے، تو ہم بڑے خواب دیکھ کر کیا کریں گے۔ بلکہ ہم تو اس معاملے میں زیادہ بہتر حالت میں ہیں، کم از کم ہمارے پاس یہ کاروبار تو ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز