’’اسکول میں مجھے جو کچھ سکھایا جاتا ہے گھر پر ٹھیک اس کا اُلٹا دیکھنے کو ملتا ہے۔‘‘
پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کی رہنے والی پریہ ۱۶ سال کی ہیں، اور راجپوت برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ بتا رہی ہیں کہ کیسے انہیں حیض کے دوران سخت اور واضح طور پر بنائے گئے اصولوں کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہ ایک طرح سے دو الگ الگ دنیاؤں میں رہنے جیسا ہے۔ گھر پر مجھے الگ رہنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور تمام طرح کے رواجوں اور پابندیوں کی تعمیل کرنی پڑتی ہے، جب کہ اسکول میں پڑھایا جاتا ہے کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کے برابر ہیں۔‘‘
پریہ اپنے گھر سے سات کلومیٹر دور، نانک متّا شہر کے ایک اسکول میں ۱۱ویں کلاس کی طالبہ ہیں، جہاں وہ روزانہ سائیکل سے آتی جاتی ہیں۔ اچھی طالبہ ہونے کے ناطے، انہوں نے شروع میں اس موضوع کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں کتابیں پڑھتی ہوں اور سوچا کہ میں یہ کروں گی، میں وہ کروں گی؛ میں دنیا کو بدل دوں گی۔ لیکن اپنی فیملی کو یہ سمجھانے میں ناکام رہی کہ رواجوں کا کوئی مطلب نہیں ہوتا ہے۔ میں رات دن انہی کے ساتھ رہتی ہوں لیکن انہیں سمجھا نہیں پائی کہ ان پابندیوں کا کوئی مطلب نہیں ہے۔‘‘
ان اصول و ضابطوں کے بارے میں ان کی ابتدائی بے چینی اور پریشانی تو دور نہیں ہوئی، البتہ اب وہ اپنے والدین کی سوچ کے مطابق ہی زندگی گزار رہی ہیں۔ پریہ اور ان کی فیملی کے لوگ ترائی والے علاقہ میں رہتے ہیں، جو کہ (مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق) ریاست کا سب سے زیادہ زرعی پیداوار والا خطہ ہے۔ خطہ میں فصلوں کے تین سیزن ہوتے ہیں – خریف، ربیع اور زائد – اور زیادہ تر لوگ کاشتکاری اور مویشی پروری کرتے ہیں، خاص کر گائیں اور بھینسیں پالتے ہیں۔
قریب کے ہی ایک دوسرے راجپوت گھر کی لڑکی، وِدھا حیض کے دنوں میں اپنے رہنے کے انتظامات کے بارے میں بتاتی ہیں: ’’اگلے چھ دنوں تک، میں اپنے کمرے میں بند رہوں گی۔ مجھے [ماں اور دادی کی طرف سے] اِدھر اُدھر گھومنے سے منع کیا گیا ہے۔ مجھے جس چیز کی بھی ضرورت پڑے گی، ممّی یہیں پہنچا دے گی۔‘‘
کمرے میں دو بیڈ (بستر)، ایک ڈریسنگ ٹیبل اور الماری رکھی ہے۔ حیض کے ان دنوں میں ۱۵ سال کی وِدھا لکڑی کے اس بیڈ پر نہیں سوئیں گی جس پر عام دنوں میں سوتی ہیں۔ اس دوران انہیں چارپائی پر سونا پڑے گا، جس پر ایک چادر بچھی ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ چارپائی پر سونے سے ان کی پیٹھ میں درد ہوتا ہے، لیکن ’’اپنے گھر والوں کی تسلی‘‘ کی خاطر انہیں اسی پر سونا پڑتا ہے۔
لازمی طور پر علیحدگی والے ان دنوں میں، سِتار گنج بلاک کے نگلا گاؤں میں رہنے والی ودھا کو اسکول جانے کی تو اجازت ہے، لیکن واپسی پر انہیں سیدھے اپنے گھر کے اسی کمرے میں جانا پڑتا ہے۔ ان کی ماں کا فون اور کچھ کتابیں ۱۱ویں کلاس کی اس طالبہ کو اپنا وقت گزارنے میں مدد کرتے ہیں۔
جب کوئی عورت فیملی کے دیگر ممبران سے الگ بیٹھنے لگتی ہے اور اپنی چیزوں کو ایک طرف کر لیتی ہے، تو یہ سبھی کے لیے اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ اس کا حیض شروع ہو گیا ہے۔ وِدھا اس بات سے ناراض رہتی ہیں کہ کسے حیض آ رہا ہے اور کسے نہیں، یہ سب پر واضح ہو جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’سبھی کو معلوم ہو جاتا ہے اور وہ اس کے بارے میں باتیں کرنے لگتے ہیں۔ اسے جانوروں کو کھلانے، پھل دار درختوں کو چھونے یا کھانا پکانے اور اسے دسترخوان پر لگانے کی اجازت نہیں ہوتی؛ یہاں تک کہ مندر کا پرساد لینے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔‘‘
جس سوچ کے تحت مقامی سطح پر عورتوں کو ’ناپاک‘ اور ’نامبارک‘ سمجھا جاتا ہے اس کی جھلک ضلع کی شماریات میں مل جاتی ہے، جس کے مطابق یہاں ہر ۱۰۰۰ مردوں پر ۹۲۰ عورتیں ہیں، جو ریاستی اوسط (۹۳۶) سے کہیں کم ہے۔ ساتھ ہی، (مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق) مردوں میں خواندگی کی شرح ۸۲ فیصد ہے، اور اس کے مقابلے عورتوں میں یہ شرح ۶۵ فیصد ہے۔
جس سوچ کے تحت مقامی سطح پر عورتوں کو ’ناپاک‘ اور ’نامبارک‘ سمجھا جاتا ہے اس کی جھلک ضلع کی شماریات میں مل جاتی ہے، جس کے مطابق یہاں ہر ۱۰۰۰ مردوں پر ۹۲۰ عورتیں ہیں، جو ریاستی اوسط (۹۳۶) سے کہیں کم ہے
ودھا کی چارپائی کے نیچے ایک پلیٹ، پیالہ، گلاس، اور چمچ رکھا ہوا ہے، جسے وہ حیض کے دوران کھانے پینے میں استعمال کرتی ہیں۔ چوتھے دن صبح جلدی اٹھ کر وہ ان برتنوں کو دھوتی ہیں، پھر دھوپ میں سوکھنے کے لیے رکھ دیتی ہیں۔ اس پوری مدت کے دوران جن اصول و ضابطے پر انہیں پابندی سے عمل کرنا ہوتا ہے، اس کے بارے میں وہ آگے بتاتی ہیں، ’’پھر ممّی ان برتنوں پر گائے کا پیشاب چھڑکتی ہیں، انہیں دوبارہ دھوتی ہیں اور باورچی خانہ میں رکھ دیتی ہیں۔ اس کے بعد، مجھے اگلے دو دنوں کے لیے دوسرے برتن دے دیے جاتے ہیں۔‘‘
انہیں حیض کے دوران گھر سے باہر کہیں جانے کی اجازت نہیں ہوتی، اور ان کے مطابق، ’’میری ماں نے ان دنوں میں پہننے کے لیے جو کپڑے دیے ہوتے ہیں ان کے علاوہ کوئی دوسرا کپڑا پہننا بھی ممنوع ہے۔‘‘ حیض کے دوران وہ جو دو جوڑی کپڑے پہنتی ہیں، ان کپڑوں کو انہیں دھو کر گھر کے پیچھے سُکھانے کے لیے ٹانگنا ہوتا ہے؛ اور یہ کپڑے گھر کے دوسرے کپڑوں کے ساتھ ملنے نہیں چاہئیں۔
ودھا کے والد فوج میں ہیں، اور ۱۳ ممبران پر مشتمل اس گھر کو ان کی ماں سنبھالتی ہیں۔ اتنی بڑی فیملی میں علیحدہ کیے جانے پر ودھا کو عجیب سا لگتا ہے۔ خاص کر تب، جب انہیں اپنے چھوٹے بھائیوں کو یہ سب سمجھانا پڑتا ہے: ’’گھر والوں نے انہیں بتایا ہے کہ یہ ایک بیماری ہے، جس میں لڑکیوں کو سب سے الگ رہنا ہوتا ہے۔ جانے انجانے میں اگر کوئی مجھے چھو دے، تو وہ بھی ’ناپاک‘ قرار دے دیا جاتا ہے؛ اور اسے تب تک ’پاک‘ نہیں مانا جاتا، جب تک اس پر گائے کا پیشاب نہ چھڑک دیا جائے۔‘‘ ان چھ دنوں تک ودھا کے رابطہ میں آئی تقریباً ہر ایک چیز پر گائے کا پیشاب چھڑکا جاتا ہے۔ فیملی کے پاس چار گائیں ہیں، اس لیے ان کا پیشاب آسانی سے دستیاب ہو جاتا ہے۔
وقت کے ساتھ سماج کے اندر کچھ اصول و ضابطے میں نرمی آئی ہے، لیکن زیادہ تر چیزیں ویسی ہی ہیں۔ سال ۲۰۲۲ میں، جہاں ایک طرف ودھا کو حیض کے دنوں میں رہنے کے لیے چارپائی دی جاتی ہے، وہیں اسی گاؤں کی تقریباً ۷۰ سال کی بزرگ بینا، پرانے دور کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ کیسے انہیں حیض کے دنوں میں مویشیوں کے باڑے میں رہنا پڑتا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم باڑے کی زمین پر چیڑ کے درخت کے پتے بچھاتے تھے اور اس پر ہی بیٹھتے تھے۔‘‘
ایک اور بزرگ خاتون اپنے ماضی کے دنوں کو یاد کرتی ہیں، ’’مجھے کھانے کے لیے پھیکی چائے کے ساتھ روٹی دی جاتی تھی۔ یا جانوروں کو دیے جانے والے موٹے اناج کی بنی روٹی دے دی جاتی تھی۔ کبھی کبھی تو وہ یہ بھی دینا بھول جاتے تھے، اور ہم بھوکے پڑے رہتے تھے۔‘‘
بہت سی عورتوں اور مردوں کا کہنا ہے کہ مذہبی کتابوں میں ان رواجوں کا ذکر ہے، اس لیے ان پر سوال نہیں اٹھائے جا سکتے۔ کچھ عورتوں نے یہ ضرور کہا کہ وہ ان پر عمل کرتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتی ہیں، لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر وہ حیض کے دوران خود کو الگ تھلگ نہیں کرتی ہیں، تو انہیں ڈر رہتا ہے کہ دیوتا ناراض ہو جائیں گے۔
گاؤں کے ایک نوجوان مرد کے طور پر، ونے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ حائضہ عورت سے شاید ہی کبھی ان کا ملنا یا آمنا سامنا ہوتا ہے۔ وہ اُس محاورے کے بارے میں بھی بتاتے ہیں جسے وہ بچپن سے سنتے آ رہے ہیں، ’ممی اچھوت ہو گئی ہے‘۔
ونے (۲۹) نانک متّا قصبے میں کرایے کے ایک کمرے میں اپنی بیوی کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر اتراکھنڈ کے چمپاوت ضلع کے رہنے والے ہیں، اور ایک دہائی قبل جب انہوں نے ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھانا شروع کیا تھا، تو یہاں آ کر بس گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمیں کبھی بتایا ہی نہیں گیا کہ یہ ایک فطری عمل ہے۔ اگر ہم بچپن سے ہی ان پابندیوں کی تعمیل کرنا بند کر دیتے ہیں، تو مرد حیض آنے پر کسی بھی لڑکی یا عورت کو نیچی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے۔‘‘
یہاں سینٹری پیڈ کا استعمال کرنا اور بعد میں اسے ٹھکانے لگانا اپنے آپ میں ایک چنوتی ہے۔ گاؤں کی واحد دکان میں سینٹری پیڈ کبھی ہوتا ہے، تو کبھی نہیں ہوتا۔ چھوی جیسی نوجوان لڑکیوں کا کہنا ہے کہ جب وہ پیڈ مانگتی ہیں، تو انہیں دکاندار عجیب نظروں سے دیکھتا ہے، اور گھر لوٹتے وقت انہیں چبھتی نظروں کی وجہ سے خریدے ہوئے پیڈ کو چھپانے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ، استعمال کیے ہوئے پیڈ کو ٹھکانے لگانے کے لیے انہیں ۵۰۰ میٹر دور واقع ایک نہر تک چل کر جانا پڑتا ہے؛ پھینکنے سے پہلے چاروں طرف ایک سرسری نگاہ دوڑائی جاتی ہے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا ہے، اور پھر جھٹکے سے پیڈ کو پھینک دیا جاتا ہے۔
زچگی کی مدت مزید تنہائیوں میں دھکیل دیتی ہے
صرف حیض کے دوران ہی نہیں، بلکہ حال ہی میں زچگی کی مدت کاٹ چکی عورتوں کو بھی ’ناپاک‘ مانا جاتا ہے۔ نوخیز عمر کے بچوں کی ماں لتا اپنا تجربہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’[حیض والے] ۴ سے ۶ دن کی جگہ، نئی نئی ماں بنی عورتوں کو ۱۱ دنوں تک گھر والوں سے الگ رکھا جاتا ہے۔ کئی بار تو ۱۵ دن تک ایسے ہی الگ رکھا جاتا ہے، جب تک کہ بچے کا نام رکھنے کی رسم پوری نہیں ہو جاتی۔‘‘ دو بچوں – ۱۵ سال کی ایک بیٹی اور ۱۲ سال کے ایک بیٹے – کی ماں لتا آگے بتاتی ہیں کہ ماں بنی عورت کو سونے کے لیے جو چارپائی یا بستر دیا جاتا ہے اسے گوبر کی لکیر بنا کر باقی گھر سے الگ کر دیا جاتا ہے۔
کھٹیما بلاک میں واقع جھنکٹ گاؤں کی رہنے والی لتا جب اپنے شوہر کے مشترکہ خاندان کے ساتھ رہتی تھیں، تب ان ضابطوں پر عمل کرتی تھیں۔ کچھ دنوں کے بعد، جب وہ اور ان کے شوہر الگ رہنے لگے، تو انہوں نے کچھ وقت کے لیے ان پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔ سیاسیات (پولیٹکل سائنس) میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے والی لتا بتاتی ہیں کہ ’’گزشتہ کچھ سالوں سے، ہم نے پھر سے ان روایات کو ماننا شروع کر دیا ہے۔‘‘ اپنی روایت کے بارے میں سمجھاتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’اگر حیض کے دوران کوئی عورت بیمار پڑ جائے، تو کہتے ہیں کہ دیوتا ناراض ہو گئے ہیں۔ [فیملی یا گاؤں کی] ہر پریشانی کے پیچھے ان رسم و رواج کو نہ ماننے کو ہی وجہ بتائی جاتی ہے۔‘‘
جس گھر میں بچہ پیدا ہوا ہو، گاؤں والے ان کے ہاتھ کا پانی تک نہیں پیتے ہیں۔ پوری فیملی کو ’’ناپاک‘‘ مانا جاتا ہے، اور چاہے لڑکا پیدا ہوا ہو یا لڑکی، دونوں ہی حالتوں میں ایسا ہوتا ہے۔ جو بھی آدمی اس دوران اُس عورت یا نوزائیدہ بچے کو چھو دیتا ہے اسے گائے کا پیشاب چھڑک کر پاک کیا جاتا ہے۔ عام طور پر، ۱۱ویں دن ماں اور بچے کو نہلایا جاتا ہے، ان پر گائے کا پیشاب چھڑکا جاتا ہے، اور اس کے بعد نام رکھنے کی رسم پوری کی جاتی ہے۔
لتا کی ۳۱ سالہ دیورانی (شوہر کے چھوٹے بھائی کی بیوی)، سویتا کی شادی ۱۷ سال کی عمر میں ہی ہو گئی تھی، اور انہیں بھی ان رواجوں کو ماننے کے لیے مجبور ہونا پڑا تھا۔ سویتا یاد کرتی ہیں کہ شادی کے پہلے سال میں وہ صرف ایک ساڑی سے اپنا بدن ڈھانپ کر کھانا کھا سکتی تھیں۔ ان رواجوں کے تحت اندرونی لباس (انڈر گارمنٹس) پہننا پوری طرح ممنوع تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’اپنے پہلے بچے کی پیدائش کے بعد، میں نے ایسا کرنا چھوڑ دیا۔‘‘ حالانکہ، وہ مانتی ہیں کہ بعد میں حیض آنے پر انہوں نے کمرے کی فرش پر سونا شروع کر دیا تھا۔
جہاں اس قسم کے رواجوں پر عمل کیا جاتا ہے ایسے گھروں میں پرورش پانے والے اس علاقے کے لڑکے پس و پیش میں ہیں کہ انہیں اس بارے میں کون سی سوچ اپنانی ہے۔ بڑکی ڈنڈی گاؤں کے نوجوان نکھل، ۱۰ویں کلاس میں پڑھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پچھلے سال حیض کے بارے میں پڑھا تھا اور انہیں زیادہ کچھ سمجھ میں تو نہیں آیا تھا، لیکن ’’مجھے پھر بھی لگا کہ عورتوں کو الگ تھلگ رکھنے کا رواج غلط ہے۔‘‘ حالانکہ، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر وہ گھر میں اس بارے میں بات کریں گے، تو انہیں ڈانٹ پڑ سکتی ہے۔
کچھ یہی ڈر دِویانش کا بھی ہے۔ سُنکھری گاؤں کا اسکول جانے والا یہ ۱۲ سال کا لڑکا، اپنی ماں کو مہینے کے پانچ دن علیحدہ رہتے ہوئے دیکھتا آ رہا ہے، لیکن اسے کبھی اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ پوچھتا ہے، ’’میرے لیے ایسا سوچنا عام بات ہو سکتی ہے کہ یہ تمام عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن اب مجھے نہیں لگتا کہ یہ صحیح ہے۔ بڑا ہونے پر، کیا مجھے ان رواجوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لینا چاہیے یا میں اسے روک سکتا ہوں؟‘‘
گاؤں کے ایک بزرگ نریندر اس قسم کے کسی پس و پیش میں نہیں پڑتے اور بغیر کسی لاگ لپیٹ کے کہتے ہیں، ’’اترانچل (اتراکھنڈ کا پرانا نام) دیووں کی بھومی (سرزمین) ہے۔ اس لیے، یہاں رسم و رواج کو ماننا ضروری ہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ ان کی برادری میں، حیض شروع ہونے سے پہلے ہی لڑکیوں کی ۹ یا ۱۰ سال کی عمر میں شادی کر دی جاتی تھی۔ ان کے مطابق، ’’اگر اس کا حیض شروع ہو گیا، تو ہم کنیا دان کیسے کریں گے؟‘‘ وہ آگے کہتے ہیں، ’’اب تو سرکار نے شادی کی عمر ۲۱ سال کر دی ہے۔ تب سے ہمارے قاعدے الگ ہیں اور سرکار کے الگ۔‘‘
یہ اسٹوری بنیادی طور پر ہندی میں لکھی گئی تھی۔ اسٹوری میں شامل لوگوں کے نام ان کی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے بدل دیے گئے ہیں۔
پاری ایجوکیشن کی ٹیم اس اسٹوری کو تیار کرنے میں مدد کے لیے روہن چوپڑا کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہے۔
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتہ لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز