کمل شندے کے دو کمرے کے گھر میں ۱۵۰ کلو چاول کی بوری، ۱۰۰ کلو گیہوں کے آٹے کی بوری، ۳۰ کلو آلو اور ۵۰ کلو پیاز جمع کیا گیا ہے۔ ’’یہ کھانا سبھی کے لیے ہے،‘‘ ۵۵ سالہ کمل بتاتی ہیں۔ ’’ہر آدمی آج کا اپنا کھانا لے کر چل رہا ہے اور باقی دنوں میں ہم راستے میں [سڑک کے کنارے] کھانا بنائیں گے۔‘‘
ان کے گاؤں کے تقریباً ۳۰-۴۰ کسانوں نے ان اجتماعی سپلائیز میں تعاون کیا ہے، جس کا استعمال ان کے ذریعے کل، یعنی ۲۰ فروری کو شروع کیے گئے مارچ کے دوران ان کا کھانا تیار کرنے میں کیا جائے گا، اکھل بھارتیہ کسان سبھا کے ڈنڈوری تعلقہ کے کوآرڈی نیٹر، اپا وٹانے کہتے ہیں جو اس احتجاجی مظاہرہ کے بنیادی منتظم ہیں۔
منتظمین اور مارچ میں شریک ہونے والوں کے ذریعے، کھانا پکانے کے لیے بڑے برتن، پانی جمع کرنے کے لیے ڈرم، لکڑی، ترپال اور سونے کے لیے گدے بھی جمع کیے گئے ہیں۔ ناسک ضلع کے ڈنڈوری تعلقہ میں تقریباً ۱۸ ہزار کی آبادی والے ڈنڈوری گاؤں کے کسان ایک مہینہ سے اس مارچ کی تیاری کر رہے ہیں۔
ان میں سے ایک، ۵۸ سالہ لیلا بائی واگھے بھی ہیں۔ کل صبح کو تقریباً ۱۰ بجے انھوں نے، کھرسنی چٹنی کے ساتھ ۳۰ چپاتیاں ایک کپڑے میں باندھیں۔ ناسک سے ممبئی تک کے مارچ کے دوران، یہ اگلے دو دنوں کے لیے ان کا دوپہر اور رات کا کھانا ہوگا۔
ان کے اور ان کے گاؤں کے دیگر کسانوں کے مطالبات میں شامل ہے – زمین کا مالکانہ حق، فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت، آبپاشی کی سہولیات، کسانوں کے لیے پنشن کا التزام اور قرض معافی۔ لیلا بائی پچھلے سال انہی دو شہروں کے درمیان کسانوں کے لمبے مارچ میں شامل تھیں – انہی مطالبات کے ساتھ، جنہیں ریاستی حکومت کے ذریعے یقین دہانی کے باوجود ابھی تک پوری طرح سے نافذ نہیں کیا گیا ہے۔
’’ہم وہاں [ممبئی میں] رکنے جا رہے ہیں۔ جب تک حکومت ہمارے مطالبات پورا نہیں کرتی، ہم نہیں ہٹیں گے۔ میں نے پچھلے سال بھی اس میں حصہ لیا تھا، لیکن حکومت نے ہمارے مطالبات پورے نہیں کیے ہیں،‘‘ ڈنڈوری میں اپنے دو کمرے کی جھونپڑی میں مٹی کے چولہا کے بغل میں فرش پر بیٹھی، چپاتیوں کو کپڑے میں باندھتے ہوئے لیلا بائی کہتی ہیں۔
لیلا بائی، مہادیو کولی برادری سے ہیں جو ایک درج فہرست ذات ہے۔ ۲۰۱۸ میں، انھوں نے محکمہ جنگلات کی ایک ایکڑ زمین پر مونگ پھلی کی کھیتی کی تھی، لیکن بارش ٹھیک سے نہ ہونے کے سبب پوری فصل برباد ہو گئی۔
’’میں کئی سالوں سے اس زمین پر کھیتی کر رہی ہوں۔ ہم جیسے چھوٹے کسانوں کو زمین کا پورا حق ملنا چاہیے۔ ہم زندہ کیسے رہیں گے؟ حکومت کو ہمارے بارے میں سوچنا چاہیے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ڈنڈوری گاؤں کے زیادہ تر کسان مہادیو کولی برادری کے ہیں، جو جنگل کی زمین پر گیہوں، باجرا، پیاز اور ٹماٹر کی کھیتی کرتے ہیں۔ وہ طویل عرصے سے حقوق جنگلات قانون ۲۰۱۶ کے تحت زمینی حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
۲۰ فروری کو دوپہر کے قریب، ڈنڈوری گاؤں کے کسانوں نے اناج، برتن اور اپنے سامان کو ایک ٹیمپو میں لادا۔ پھر، کچھ اسی ٹیمپو میں، کچھ دیگر مشترکہ ٹیکسیوں یا اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کی بسوں میں بیٹھ کر ۱۳ کلومیٹر دور، ڈھاکمبے ٹول ناکہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ ڈنڈوری تعلقہ کے کئی گاؤوں کے کسان اس ناکہ پر جمع ہوئے، جہاں سے ۲ بجے دوپہر کو تقریباً ۱۵ کلومیٹر دور، ناسک کے لیے مارچ کا پہلا مرحلہ شروع ہونے والا تھا۔
’’اگر حکومت ہمیں مارچ نہیں کرنے دیتی، تو ہم وہیں [ناسک میں] بیٹھ جائیں گے اور تب تک احتجاجی مظاہرہ کریں گے، جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے،‘‘ کمل پورے عزم سے کہتی ہیں، جنہوں نے ۲۰۱۸ کے لمبے مارچ میں بھی حصہ لیا تھا۔ ان کی فیملی پانچ ایکڑ جنگلاتی زمین پر کھیتی کرتی ہے، جس میں سے صرف ایک ایکڑ ان کے نام پر منتقل کیا گیا ہے۔
لیلا بائی اور کمل مہاراشٹر کے تقریباً ۲۰ ضلعوں کے تقریباً ۵۰ ہزار کسانوں میں سے ہیں، جو اس ہفتہ جنوبی ممبئی کے آزاد میدان تک پیدل مارچ کریں گے (حالانکہ مارچ کے لیے منظوری غیر یقینی بنی ہوئی ہے)، اس امید میں کہ اس بار ریاست اپنی یقین دہانیوں پر ضرور عمل کرے گی۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)