امیتھابھ بچن نے کہا ہے کہ مردم شماری کرنے والوں نے اگر کبھی ان سے اُن کی ذات کے بارے میں پوچھا، تو ان کا جواب ہوگا: ذات – ہندوستانی۔ میڈیا کی بالی ووڈ سے محبت ایک بار پھر مزید شدت سے اجاگر ہونی چاہیے۔ شیام مہاراج بچّن نہیں ہیں۔ نہ ہی ان کے بھائی، چیتنیہ پربھو۔ لیکن وہ اور ان کے چاہنے والے مزید پیچیدہ جواب دینے والے ہیں – اور سوال – اگر مردم شماری کرنے والوں نے اُن سے ان کی ذات کے بارے میں پوچھا، ’’تو ہمارا جواب ہوگا: ہم اَجات ہیں۔ میرے پاس اسے ثابت کرنے کے لیے میرا اسکول چھوڑنے کا یہ سرٹیفکیٹ ہے۔ لیکن آپ جو چاہیں لکھ سکتے ہیں،‘‘ پربھو، مہاراشٹر کے امراوتی ضلع کے منگرول (دستگیر) گاؤں میں واقع اپنے گھر میں، ہمیں بتاتے ہیں۔
اجات کا لغوی معنی ہے جس کی کوئی ذات نہیں۔ یہ ۱۹۲۰ اور ۳۰ کے عشرے کی ایک بڑی تحریک تھی، جس کے پیروکار اُس زمانے میں موجودہ مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں لاکھوں تھے۔ اس کی قیادت ایک انوکھے اور جنونی سوشل ریفارمر گن پتی بھابھُتکر کر رہے تھے، جو گن پتی مہاراج کے نام سے مشہور ہیں۔ چیتنیہ پربھو اور شیام مہاراج اُن کے پوتے ہیں۔ اس قسم کی تحریکوں میں عام طور سے شراب اور تشدد کے خلاف آواز تو اٹھائی ہی جاتی ہے، لیکن گن پتی مہاراج نے ان کے ساتھ ساتھ دیگر چیزوں کو بھی جوڑا۔ انھوں نے ذات پر کھل کر حملہ کیا۔ ان کی اپیل پر بہت سے لوگوں نے مورتی پوجا بند کر دی۔ انھوں نے جنسی برابری کا مطالبہ کیا اور یہاں تک کہ پرائیویٹ پراپرٹی کے خلاف بھی لوگوں کو متحد کیا۔ اور، ۱۹۳۰ کے عشرے میں، وہ اور ان کے پیروکاروں نے خود کو ’اجات‘ ہونے کا اعلان کر دیا۔
ان کے ذریعہ ذاتوں کے درمیان کھانے سے متعلق شروع کی گئی مہم نے اُن گاؤوں میں ہنگامہ برپا کر دیا، جہاں وہ کام کیا کرتے تھے۔ ان کے ایک شاگرد پی ایل نیمکر اس کے بارے میں یوں بتاتے ہیں: ’’وہ تمام ذاتوں کے اپنے پیروکاروں سے کہتے کہ وہ اپنے گھروں سے پکا ہوا کھانا لے کر آئیں۔ اسے وہ پوری طرح ایک دوسرے میں ملا دیتے اور پھر پرساد کی شکل میں اسے تقسیم کرتے۔‘‘ ذات ان کا سب سے بڑا نشانہ تھا۔ ’’ مختلف ذاتوں کے درمیان شادی اور بیواؤں کی دوسری شادی – یہی ان کا مقصد تھا اور اسے انھوں نے حاصل بھی کیا،‘‘ پربھو کہتے ہیں۔ ’’خود ہماری فیملی میں، دادا سے لے کر ہم تک، ہم نے ۱۱ الگ الگ ذاتوں میں شادیاں کی ہیں، برہمن سے لے کر دلت ذات تک میں۔ ہمارے بڑے خاندان میں ایسی شادیوں کی تعداد بے شمار ہے۔‘‘
خود گن پتی مہاراج نے ایسی ہی شادی کی تھی۔ انھوں نے ’’انسانیت کا مذہب شروع کیا اور یہاں پر اونچی ذاتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے، دلتوں کا ایک مندر کھولا،‘‘ شیام مہاراج بتاتے ہیں۔ ’’انھوں نے ان کے خلاف مقدمے دائر کیے اور کسی نے بھی ان کے کیس کو ہاتھ نہیں لگایا۔ اس وقت یہاں کے تمام وکیل برہمن تھے۔‘‘
یہ تحریک گزرتے ہوئے برسوں کے ساتھ ختم ہوتی چلی گئی، کچھ پیروکاروں نے ذات کے ایشو پر اسے چھوڑ دیا، اور کچھ نے ۱۹۴۴ میں اس کے گرو (قائد) کی موت کی وجہ سے۔ (انھیں پربھو کے گھر کے ٹھیک سامنے یہاں کے کمیونٹی سنٹر میں دفن کیا گیا ہے، جس کی تعمیر انھوں نے کئی عشرے قبل کرائی تھی)۔ پھر بھی، یہ تحریک آزادی کے بعد کئی سالوں تک جانی جاتی رہی اور لوگ اس کی عزت کرتے رہے۔ ’’میرے اسکول چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ دیکھئے،‘‘ پربھو ہمیں دکھاتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’۱۹۶۰ کی دہائی کے اخیر تک، یہاں تک کہ ۷۰ کی دہائی میں بھی، ہمیں جو سرٹیفکیٹ ملتے تھے، ان پر اجات لکھا ہوتا تھا۔ اب، اسکول اور کالج والے کہتے ہیں کہ انھوں نے ہمارے بارے میں کبھی نہیں سنا اور ہمارے بچوں کو داخلہ دینے سے منع کر دیتے ہیں۔‘‘
جو اَجات اس وقت زندہ ہیں، ان کی حالت بہت اچھی نہیں ہے۔ شیام اور پربھو معمولی زرعی کاروباری کے طور پر کسی طرح اپنا گھر چلا رہے ہیں۔
انھیں ۷۰ کی دہائی کے اختتام تک بھلایا جا چکا تھا، لیکن چند سال قبل ناگپور کے دو صحافیوں، اتُل پانڈے اور جے دیپ ہرڈیکر نے انھیں دوبارہ ڈھونڈ نکالا۔ ان کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد مہاراشٹر حکومت نے ان کی مدد کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن جس سینئر سرکاری اہلکار نے اس میں دلچسپی دکھائی تھی، ان کے اس سے الگ ہوتے ہی، یہ فیصلہ بھی ٹل گیا۔
اجات امیدوار پنچایت انتخابات نہیں لڑ سکتے۔ پولنگ اہلکار ان کے فارموں کو جمع کرنے سے منع کر دیتے ہیں – جس پر لکھا ہوتا ہے کوئی ذات نہیں۔ ’’اجات لوگ بڑی جدوجہد کے بغیر راشن کارڈ نہیں حاصل کر سکتے،‘‘ پربھو کہتے ہیں۔ اسی کو بہانہ بنا کر انھیں کالج میں داخلہ، اسکالر شپ اور سرکاری نوکریاں نہیں ملتیں۔ گاؤں کے دوسرے لوگ اب ان کے گھروں میں شادیاں نہیں کریں گے، کیوں کہ ان کی ذات کے بارے میں واضح نہیں ہے۔ مختصراً یہ کہ کسی زمانے میں قابل احترام ذات مخالف اصلاحی تحریک کو اب خود چند ہزار لوگوں پر مبنی ایک ذات سمجھ لیا گیا ہے۔
’’میری بھتیجی سُنینا کالج نہیں جا سکی،‘‘ پربھو بتاتے ہیں۔ ’’کالج نے کہا: ’ہم اس اجات کو نہیں پہچانتے۔ پہلے اس کا کوئی صحیح ذات کا سرٹیفکیٹ لائیے پھر ہم اسے داخلہ دیں گے‘۔‘‘ ان کا بھیتجا منوج، جو کسی طرح کالج جانے میں کامیاب رہا، کہتا ہے: ’’وہ ہمارے ساتھ وہاں پر اجنبی جیسا سلوک کرتے ہیں۔ ہم میں سے کسی کے لیے بھی اسکالرشپ نہیں ہے۔ وہاں کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ اجات جیسی کوئی چیز موجود ہے۔‘‘ بے چین نوجوان نسل خود کو ماضی میں محصور محسوس کرتی ہے۔ پربھو کی فیملی سمیت بہت سے اجات نے اپنے اجداد کا پتہ لگانے میں رسوائی جھیلی ہے، جن کی ذات آسانی سے ثابت کی جا سکتی ہے۔
’’ہماری رسوائی کے بارے میں تصور کیجئے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہمیں اپنے بچوں کے لیے ذات کا سرٹیفکیٹ نکالنا ہے۔‘‘ لیکن بین ذات شادیوں کی وجہ سے ان کنبوں کی جو نسل ہے، اس کو دیکھتے ہوئے یہ آسان نہیں ہے۔ گاؤں کے کوتوال کے رجسٹر میں بھی انھیں ’اجات‘ ہی لکھا گیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اپنے پردادا کا پتہ لگانے کی کوشش کی، جن کی ذات ثابت کی جا سکتی تھی۔ ’’ان پرانے ریکارڈوں کو دوبارہ حاصل کرکے موجودہ ریکارڈ میں انھیں شامل کروانا بہت مشکل کام ہے،‘‘ پربھو بتاتے ہیں۔ ’’حکام ہم پر یہ شک کرتے ہیں کہ ہم چیزوں کو چھپا رہے ہیں اور اپنی ذات بدلوا رہے ہیں۔ اسی لیے ذات کے ان سرٹیفکیٹ کو بنوانے میں ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن ان کے بغیر ہمارے بچے پوری طرح سے پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘ بدقسمتی سے، ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے کہ وہ خود ذات مخالف تحریک کے بانی، گن پتی مہاراج کی ذات کا پتہ لگائیں۔ ان کے پڑ پوتوں کو اس کی ضرورت پڑی تھی۔
اب ۲۰۰۰ کے آس پاس جو اجات بچے ہیں، ان میں سے کچھ لوگ ہر سال نومبر میں گاؤں کے اس کمیونٹی سنٹر میں جمع ہوتے ہیں۔ ’’اب ایسی صرف ایک فیملی مدھیہ پردیش میں ہے، جس کے ساتھ ہمارا رابطہ ہے،‘‘ گلُم پربھو کہتے ہیں۔ باقی لوگ مہاراشٹر میں ہیں۔ ’’ان میں سے صرف ۱۰۵ ہی ہماری تنظیم، اجاتیہ مانو سنستھا کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ لوگ ہماری اس سالانہ میٹنگ میں شریک ہوتے ہیں۔ تاہم، آپ تصور کیجئے کہ اس تحریک میں کسی زمانے میں ہمارے ساتھ ۶۰ ہزار لوگ جڑے ہوئے تھے۔‘‘
’’مردم شماری میں ذات کو لے کر جو سوال کیا جائے گا، ہمیں ذات کا اس سے کہیں وسیع سروے کرنے کی ضرورت ہے،‘‘ اس موضوع پر کام کر چکے ماہر اقتصادیات، ڈاکٹر کے ناگ راج کہتے ہیں (جو پہلے مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اسٹڈیز سے وابستہ تھے)۔ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں ذات پر مبنی اعداد و شمار کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمیں وہ اعداد و شمار ایک ایسے فریم میں چاہیے جو ہمہ گیر ہو، ہر ایک علاقے پر مخصوص ہو، اور ذات سے متعلق دیگر تمام پیچیدگیوں کا محاصرہ کرتا ہو۔ سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری میں ایک واحد سوال اسے حاصل نہیں کر پائے گا۔ یہ کام شاید نیشنل سیمپل سروے اور اس کے تربیت یافتہ محققین کی ٹیم کا ہے جو اس کے لیے پہلے سے تیاری کر چکے ہوں۔‘‘
تو مردم شماری کرنے والا کوئی شخص اگر ذات پر مبنی اسی سوال کے ساتھ آپ کے گھر آ جاتا ہے، تب کیا ہوگا؟ ’’یقین جانئے،‘‘ پربھو کہتے ہیں، ’’یہ انھیں کنفیوژ کر دے گا۔ میرے خیال سے ان لوگوں کو مردم شماری میں ہمارے جیسے لوگوں کے لیے الگ کیٹیگری بنانی چاہیے۔ ہمیں یہ بتانا ہوگا کہ ہم کون ہیں۔ ہم نے ذات سے جڑی ہر چیز کے خلاف لڑائی لڑی ہے۔ لیکن اس معاشرہ میں، ہر ایک چیز میں ذات ہے۔‘‘
یہ مضمون (جس میں یہاں تھوڑی سی ترمیم کی گئی ہے) سب سے پہلے ۴ جون، ۲۰۱۰ کو دی ہندو میں شائع ہوا تھا۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)