’’میرا نام اِندو ہے، لیکن میرے پہلے آدھار کارڈ میں یہ ’ہندو‘ بن گیا۔ لہٰذا میں نے نئے کارڈ کے لیے اَپلائی کیا (نام کو درست کرنے کے لیے)، لیکن انھوں نے دوبارہ اسے ’ہندو‘ بنا دیا۔‘‘
اس کی وجہ سے گورنمنٹ پرائمری اسکول کی ۱۰ سالہ دلت لڑکی، جے اِندو اور پانچویں کلاس کے چار دیگر طلبہ کو اس سال ان کا وظیفہ نہیں ملے گا۔ صرف اس لیے کہ آدھار کارڈ پر ان کے نام کا اِملا صحیح نہیں ہے۔ دیگر چار طلبہ میں سے تین، اِندو کی ہی طرح دلت ہیں۔ ایک مسلمان ہے۔ امداگُر، آندھرا پردیش کے اننتا پور ضلع کے سب سے غریب منڈلوں میں سے ایک ہے۔
جب پریشانی شروع ہوئی، تو جگرا سوپلّی اِندو کے اسکول اور فیملی نے اس کے لیے نیا کارڈ بنانے کی کوشش کی۔ اس کی تاریخ پیدائش اور نئی تصویر دوبارہ رجسٹر کرائی گئی اور نیا آدھار کارڈ بھی جاری ہوا۔ لیکن اس کا نام، اس کارڈ پر بھی، ’ہندو‘ ہی رہا۔ اس کی وجہ سے اندو کا اسکول اس کے لیے بینک کھاتہ کھلوانے میں ناکام رہا – صحیح اور میل کھاتے نام والا آدھار کارڈ اس کے لیے لازمی ہے۔ چار دیگر طلبہ، سبھی لڑکے، کو ایسی ہی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
آندھرا پردیش میں درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل اور دیگر پس ماندہ طبقات کے طلبہ و طالبات پانچویں کلاس سے ۱۲۰۰ روپے سالانہ وظیفہ حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ امداگُر کے اس اسکول میں پانچویں کلاس کے کل ۲۳ طلبہ میں سے صرف ایک اونچی ذات کا ہے۔ اندو اور ۲۱ دیگر طلبہ کے لیے وظیفہ کا پیسہ ان کے بینک کھاتوں میں عموماً فروری ماہ میں کسی وقت جمع کیا جائے گا۔ صرف، ان پانچ بچوں کے کھاتے نہیں ہیں۔
اس اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے بچوں کے والدین زیادہ تر معمولی کسان یا زرعی مزدور ہیں، جو کام کی تلاش میں اکثر بنگلورو کا رخ کرتے ہیں۔ اسکول کے ہیڈماسٹر ایس روشیہ کے مطابق، وظیفہ کے پیسے کا استعمال والدین اپنے بچوں کے لیے وہ سامان خریدنے میں کرتے ہیں، جو ’’حکومت مہیا نہیں کرتی، جیسے قلم، اضافی کتابیں اور بعض دفعہ کپڑے بھی۔‘‘ یہ نیا سال اِندو اور اس کے ہم جماعت چار طلبہ کے لیے اچھا نہیں ہے۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)