پھاگن کا مہینہ ختم ہونے کو ہے۔ سریندر نگر ضلع کے کھارا گھوڑا اسٹیشن کے پاس ایک چھوٹی سی نہر بہہ رہی ہے، جس کے پانی پر اتوار کی صبح کا سورج اتر آیا ہے۔ ایک چھوٹے سے عارضی بند (باندھ) سے نہر کے پانی کو روکا گیا ہے، جس سے چھوٹا تالاب بن گیا ہے۔ بند کے پانی کی آواز وہاں موجود بچوں سے زیادہ تیز ہے، جو پوری توجہ کے ساتھ خاموش بیٹھے ہیں۔ ہوا بند ہونے کے بعد کھیتوں کے چھوٹے جنگلی پودوں کی طرح شانت نظر آ رہے یہ ساتوں لڑکے کانٹا ڈالے بیٹھے ہیں اور مچھلی پکڑنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ کانٹے پر ہلکا سا کھنچاؤ محسوس ہونے پر، تیزی سے پیچھے کی طرف جھٹکا دیا جاتا ہے اور ان کے چھوٹے ہاتھ کانٹوں کو واپس کھینچ لیتے ہیں۔ مچھلی اب پانی کے باہر ہے۔ ادھر ادھر کود رہی ہے، تڑ- پھڑ- پھڑ- پھڑ۔ منٹوں کے اندر ان کی تڑپ خاموش ہو جاتی ہے۔
کنارے سے تھوڑا دور، اکشے درودرا اور مہیش سیپارا بات کرنے، چیخنے، ایک دوسرے کو گالی دینے، ہیکسا بلیڈ سے مچھلی کو صاف کرنے، چھلکے (جلد کے اوپر کا حصہ) ہٹانے اور کاٹنے میں مصروف ہیں۔ مہیش ۱۵ سال کا ہونے والا ہے، باقی چھ لڑکے کافی چھوٹے ہیں۔ مچھلی پکڑنے کا کھیل ختم ہو چکا ہے۔ اب بات چیت کرنے اور دل کھول کر ہنسنے کا وقت ہے۔ مچھلیاں صاف ہو چکی ہیں۔ اس کے بعد مل جل کر کھانا پکایا جاتا ہے۔ مستی کا دور جاری ہے۔ کھانا پک چکا ہے۔ آپس میں بانٹا جا رہا ہے۔ ڈھیر ساری ہنسی کے درمیان کھانا کھایا جانے لگا ہے۔
تھوڑی دیر بعد، لڑکے تالاب میں غوطہ لگاتے ہیں اور تیرتے ہیں، اور کناروں پر جو تھوڑی بہت گھاس ہے وہاں بیٹھ کر خود کو سُکھاتے ہیں۔ یہ لڑکے، جن میں سے تین کا تعلق چونوالیہ کولی نام کی ایک خصوصی طور پر کمزور درج فہرست ذات سے ہے اور دو مسلمان ہیں، پوری دوپہر ادھر ادھر گھومتے، ہنستے، بات چیت کرتے، اور ایک دوسرے کو گالی دیتے رہے ہیں۔ میں ان کے پاس جاتا ہوں، مسکراتے ہوئے سوال پوچھتا ہوں، ’’تم سب کون سی کلاس میں پڑھتے ہو؟‘‘
بغیر کپڑوں کے بیٹھا پون کھلکھلاتا ہے، ’’آ میسیو نوما بھانا، آن آ ولاسیو چھٹھو بھانا۔ بِجّو کوئے ناتھ بھنتو۔ مویہ ناتھ بھنتو [یہ مہیشیو (مہیش) نویں میں ہے اور ولاسیو (ولاس) چھٹی میں ہے۔ کوئی اور اسکول نہیں جاتا۔ میں بھی نہیں]۔‘‘ بولتے بولتے وہ کوٹی ہوئی سُپاری کی ایک پڑیا پھاڑتا ہے اور دوسری پڑیا سے اس میں تمباکو ملاتا ہے۔ دونوں کو ایک ساتھ مسلنے کے بعد، وہ چٹکی میں بھرتا ہے اور اسے ہونٹ اور مسوڑوں کے درمیان دبا لیتا ہے، اور بقیہ اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کرتا ہے۔ پانی میں اس کا لال رس تھوکتے ہوئے وہ مزید کہتا ہے، ’’نو مجا آوے۔ بین مارتاتا [پڑھائی میں مزہ نہیں آتا تھا۔ ٹیچر ہمیں مارتی تھی۔‘‘ میرے اندر ایک خاموش آہ سی بھر گئی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز