مہسوڑ میں، جہاں میری پرورش ہوئی ہے، میں نے اپنی آنکھوں سے لوگوں کو ہر روز پانی کے لیے پریشان ہوتے دیکھا ہے۔
مان دیش کا یہ علاقہ مہاراشٹر کے وسط میں واقع ہے، جہاں خانہ بدوش دھنگر چرواہے صدیوں سے بھٹکتے رہے ہیں۔ دکن کے سطح مرتفع کے اس خشک زدہ علاقے میں آبی ذرائع کو تلاش کرنے کے علم کے ذریعہ ہی ان کا گزارہ چلتا رہا ہے۔
برسوں سے، میں نے عورتوں کو برتن بھرنے کے لیے قطار میں کھڑے ہوتے دیکھا ہے۔ ریاستی حکومت ۱۲ دنوں میں صرف ایک گھنٹہ کے لیے پانی کی سپلائی کرتی ہے۔ ہفتہ واری بازار میں، کسان پانی سے متعلق مسائل کے بارے میں بات کرتے ہیں، اور بتاتے ہیں کہ کیسے گہرے کوئیں کھودنے کے باوجود انہیں پانی نہیں مل پا رہا ہے۔ اگر انہیں پانی مل بھی جاتا ہے، تو اکثر آلودہ ہوتا ہے جس سے گردے کی پتھری جیسی بیماریاں ہو جاتی ہیں۔
حالات کچھ ایسے بن چکے ہیں کہ کھیتی کرنا ممکن نہیں رہ گیا ہے۔ گاؤوں کے نوجوان ممبئی جیسے بڑے شہروں کی طرف مہاجرت کر رہے ہیں۔
کارکھیل کے رہنے والے کسان گائکواڑ نے اپنے سبھی مویشی بیچ دیے ہیں اور اب صرف بکریاں پالتے ہیں۔ ان کے کھیت بنجر پڑے ہیں اور ان کے بیٹے دہاڑی مزدوری کرنے ممبئی چلے گئے ہیں۔ ساٹھ سال سے زیادہ کے ہو چکے گائکواڑ اپنی بیوی اور پوتے پوتیوں کے ساتھ رہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ موت کے دستک دینے سے پہلے انہیں پانی مل جائے گا۔ فیملی کپڑے اور برتن دھونے کے لیے اسی پانی کا استعمال کرتی ہے جسے انہوں نے غسل کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ یہی پانی گھر کے سامنے لگے آم کے درخت میں ڈالا جاتا ہے۔
ستارا ضلع کے مان تعلقہ میں شوٹ کی گئی فلم ’پانی کی تلاش میں‘ شدید آبی بحران کا سامنا کر رہے لوگوں اور پانی کی سپلائی کرنے والوں کی کہانیوں کو بیان کرتی ہے۔
مترجم: قمر صدیقی