مشرقی ہندوستان میں اس سمندری ساحل پر صبح کے تین بجے ہیں۔ رامولو لکشمیّا ٹارچ جلا کر اولیو رِڈلے کچھوے کے انڈے تلاش کر رہے ہیں۔ لکڑی کی ایک لمبی چھڑی اور بالٹی کے ساتھ وہ آہستہ آہستہ جالاری پیٹہ میں اپنے گھر اور آر کے بیچ (ساحل سمندر) کے درمیان کے اس چھوٹے اور ریتیلے راستے کو پار کر رہے ہیں۔

مادہ اولیو رڈلے کچھوے انڈے دینے کے لیے ساحل پر آتے ہیں۔ اس کے لیے وشاکھاپٹنم کے ڈھلان والے ریتیلے ساحل مناسب جگہ ہے۔ ۱۹۸۰ کی دہائی کی شروعات سے انہیں یہاں دیکھا جا رہا ہے۔ حالانکہ، کچھ کلومیٹر دور شمال میں اوڈیشہ کے ساحلی علاقے میں ملک کی کچھ سب سے بڑی جگہیں دیکھنے کو ملتی ہیں، جہاں مادہ کچھوے اجتماعی طور پر انڈے دیتے ہیں۔ کچھوے ایک بار میں ۱۵۰-۱۰۰ انڈے دیتے ہیں اور انہیں ریت کے گہرے گڑھوں میں دبا دیتے ہیں۔

چھڑی سے نم ریت کو دھیان سے چیک کرتے ہوئے لکشمیّا کہتے ہیں، ’’جب ریت ڈھیلی محسوس ہونے لگے، تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ ماں کچھوے نے یہاں اپنے انڈے دیے ہیں۔‘‘ لکشمیّا کے ساتھ کرّی جلّی بابو، پُٹّایاپانا یِیرّنّا اور پُلّا پولاراؤ بھی ہیں، جو جالاری برادری (آندھرا پردیش میں دیگر پس ماندہ طبقہ کے طور پر درج) کے ماہی گیر ہیں۔ سال ۲۰۲۳ میں انہوں نے میرین ٹرٹل کنزرویشن پروجیکٹ کے تحت اولیو رِڈلے کچھوے کے انڈے بچانے کی کوششوں کے تحت آندھرا پردیش فاریسٹ ڈپارٹمنٹ (اے پی ایف ڈی) میں جز وقتی گارڈ کے طور پر کام شروع کیا۔

اولیو رڈلے کچھوؤں ( لیپڈوچیلس اولیویسیا ) کو انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن (آئی یو سی این) کی ریڈ لسٹ میں ’نایاب ہونے والی انواع‘ کے طور پر رکھا گیا ہے اور ہندوستانی جنگلی حیات کے تحفظ کا قانون، ۱۹۷۲ (ترمیم شدہ ۱۹۹۱) کے شیڈول-1 کے تحت محفوظ کیا گیا ہے۔

وشاکھاپٹنم میں کمبال کونڈا وائلڈ لائف سینکچری میں پروجیکٹ سائنٹسٹ یگناپتی اڈاری کہتے ہیں کہ ساحلی علاقوں کے تباہ ہونے جیسی کئی وجہوں کے سبب کچھوے خطرے میں ہیں، ’’خاص طور پر ترقی کے نام پر انڈوں کے مسکن کے ساتھ ہی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے سمندری مسکن برباد ہو گئے ہیں۔‘‘ سمندری کچھوؤں کا شکار ان کے گوشت اور انڈوں کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔

Left to right: Ramolu Lakshmayya, Karri Jallibabu, Puttiyapana Yerranna, and Pulla Polarao are fishermen who also work as guards at a hatchery on RK Beach, Visakhapatnam where they are part of a team conserving the endangered Olive Ridley turtle at risk from climate change and loss of habitats.
PHOTO • Amrutha Kosuru

بائیں سے دائیں: رامولو لکشمیّا، کرّی جلّی بابو، پُٹّایاپانا ییرّنّا اور پُلاّ پولاراؤ، وشاکھاپٹنم کے آر کے بیچ پر گارڈ ہیں۔ ان پر نایاب ہوتے جا رہے اولیو رڈلے کچھوؤں کے تحفظ اور ان کے سمندری مسکن کو بچانے کی ذمہ داری ہے

Olive Ridley turtle eggs (left) spotted at the RK beach. Sometimes the guards also get a glimpse of the mother turtle (right)
PHOTO • Photo courtesy: Andhra Pradesh Forest Department
Olive Ridley turtle eggs (left) spotted at the RK beach. Sometimes the guards also get a glimpse of the mother turtle (right)
PHOTO • Photo courtesy: Andhra Pradesh Forest Department

اولیو رڈلے کچھوے کے انڈے (بائیں) آر کے بیچ پر گارڈوں نے دیکھے ہیں۔ کبھی کبھی کچھوے کی ماں (دائیں) بھی نظر آ جاتی ہے

انڈے بچانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے لکشمیّا کہتے ہیں، ’’چاہے ماں انڈوں کو کتنی بھی گہرائی میں دبا دے، انہیں ڈھونڈ کر نکالا جا سکتا ہے۔ لوگ ان پر پیر رکھ سکتے ہیں یا پھر کتے ان پر پنجے چلا سکتے ہیں۔‘‘ لکشمیّا (۳۲) کے مطابق ’’ہیچری [کچھوے پالنے کے احاطے] میں وہ محفوظ رہتے ہیں۔‘‘

اسی لیے لکشمیا جیسے گارڈ ان انڈوں کے وجود کے لیے ضروری ہیں۔ اولیو رڈلے سمندری کچھوؤں کی سب سے چھوٹی قسم ہے اور ان کا نام ان کے زیتون جیسے سبز خول کی وجہ سے پڑا ہے۔

کچھوے کے انڈے تلاش کرنے اور انہیں ہیچری میں رکھنے کے لیے گارڈوں کی تقرری کی جاتی ہے۔ انڈے سے نکلنے والے بچوں کو پھر سے سمندر میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ آر کے بیچ پر موجود ہیچری آندھرا پردیش کی چار ہیچری میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ ساگر نگر، پیدناگمیاّ پالیم اور چیپلوپّاڈا ہیں۔

ساگر نگر ہیچری میں سبھی گارڈ ماہی گیر نہیں ہیں۔ ان میں کچھ مہاجر مزدور ہیں، جنہوں نے اضافی آمدنی کے لیے یہ جزوقتی کام اپنا لیا ہے۔ رگھو ڈرائیور ہیں، جنہوں نے اپنے گھر کا خرچ نکالنے کے لیے یہ نوکری کی ہے۔ شریکا کولم کے رہنے والے رگھو جب ۲۲ سال کے تھے، تو وشاکھاپٹنم چلے آئے تھے۔ ان کے پاس اپنی کوئی گاڑی نہیں ہے، مگر وہ ڈرائیور کے طور پر کام کرکے ۷۰۰۰ روپے کما لیتے ہیں۔

یہ جزوقتی کام کرنے سے انہیں مدد ملی بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں اب گھر پر اپنے ماں باپ کو ۶۰۰۰-۵۰۰۰ [روپے] بھیج پاتا ہوں۔‘‘

Left: B. Raghu, E. Prudhvi Raj, R. Easwar Rao, and G. Gangaraju work as guards at the Sagar Nagar hatchery. Right: Turtle eggs buried in sand at the hatchery
PHOTO • Amrutha Kosuru
Left: B. Raghu, E. Prudhvi Raj, R. Easwar Rao, and G. Gangaraju work as guards at the Sagar Nagar hatchery. Right: Turtle eggs buried in sand at the hatchery
PHOTO • Amrutha Kosuru

بائیں: بی رگھو، ای پرتھوی راج، آر ایشور راؤ اور جی گنگا راجو، ساگر نگر ہیچری میں گارڈ کا کام کرتے ہیں۔ دائیں: کچھوے کے انڈے ہیچری میں ریت میں دبے ہوئے ہیں

Guards at the Sagar Nagar hatchery digging a hole to lay the turtle eggs
PHOTO • Amrutha Kosuru
Guards at the Sagar Nagar hatchery digging a hole to lay the turtle eggs.
PHOTO • Amrutha Kosuru

ساگر نگر ہیچری کا گارڈ اولیو رڈلے کچھوے کے انڈے رکھنے کے لیے گڑھا کھود رہا ہے

ہر سال دسمبر سے مئی تک، گارڈ آر کے بیچ کے ساتھ ساتھ ۸-۷ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں اور ہر کچھ منٹ پر انڈے تلاش کرنے کے لیے رکتے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں اولیو رڈلے کچھوؤں کا انڈے دینے کا موسم عام طور پر نومبر سے مئی تک چلتا ہے، مگر سب سے زیادہ انڈے فروری اور مارچ میں ملتے ہیں۔

جلّی بابو کہتے ہیں، ’’کبھی کبھی ہم ماں کے پیروں کے نشان دیکھتے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ہمیں خود ماں [کچھوے] کی جھلک بھی مل جاتی ہے۔‘‘

ایک بار انڈے مل جانے پر انہیں وہاں سے مٹھی بھر ریت کے ساتھ احتیاط سے بیگ میں رکھ لیا جاتا ہے۔ اس ریت کا استعمال ہیچری میں انڈوں کو دوبارہ دبانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

گارڈ انڈوں کے ملنے کے وقت ان کی تعداد اور انڈے سینے کی تخمینی تاریخ ریکارڈ کرتے جاتے ہیں، جسے وہ ایک چھڑی سے جوڑ کر انہیں دبانے کی جگہ پر لگا دیتے ہیں۔ اس سے انڈے سینے کے وقت پر نظر رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ انڈے سینے کی مدت عموماً ۴۵ سے ۶۵ دن ہوتی ہے۔

گارڈ اپنی آمدنی کے بنیادی ذریعہ یعنی مچھلی پکڑنے کے لیے سمندر میں جانے سے پہلے صبح ۹ بجے تک ہیچری میں رہتے ہیں۔ انہیں ان کے تحفظ کے کام کے لیے دسمبر سے مئی تک ہر مہینے ۱۰ ہزار روپے کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ سال ۲۲-۲۰۲۱ میں انڈے سینے کا دور پورا ہونے تک یہ رقم ۵۰۰۰ روپے تھی۔ جلّی بابو کہتے ہیں، ’’کچھوے کے بچوں کی مدد کرنے سے ملے پیسے بڑے کام آتے ہیں۔‘‘

Lakshmayya buries the Olive Ridley turtle eggs he collected at RK Beach at the hatchery. 'In the hatchery the eggs are safe,' he says
PHOTO • Amrutha Kosuru
Lakshmayya buries the Olive Ridley turtle eggs he collected at RK Beach at the hatchery. 'In the hatchery the eggs are safe,' he says.
PHOTO • Amrutha Kosuru

لکشمیا نے آر کے بیچ پر جمع کیے اولیو رڈلے کچھوے کے انڈوں کو ہیچری میں رکھ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’ہیچری میں انڈے محفوظ رہتے ہیں‘

لکشمیّا کہتے ہیں، ’’یہ کمائی ہر سال افزائش کے موسم میں ۶۱ دنوں تک مچھلی پکڑنے پر پابندی کے دوران اصل میں مددگار ثابت ہوگی، جو ۱۵ اپریل سے ۱۴ جون تک رہتی ہے۔‘‘ حالانکہ، ان مہینوں میں گارڈوں کو ان کے پیسے نہیں ملے تھے۔ جب پاری نے جون میں ان سے ملاقات کی، تو انہیں صرف پہلے تین مہینوں یعنی دسمبر، جنوری اور فروری کا ہی بقایا پیسہ ملا تھا۔

مچھلی پکڑنے پر پابندی کے دوران ان کی آمدنی نہ کے برابر رہ گئی ہے۔ لکشمیا نے جون میں بتایا تھا، ’’ہم عموماً تعمیر کے مقامات اور دوسری جگہوں پر جا کر کام کرتے ہیں۔ حالانکہ، اس سال اضافی پیسہ کام آ گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ باقی پیسے بھی جلد ہی مل جائیں گے۔‘‘

ان میں سے کچھ کو حال ہی میں ستمبر میں پیسے ملے تھے، جب کہ کچھ کو مچھلی پکڑنے پر پابندی کے مہینوں کے بعد اگست میں پیسے دیے گئے تھے۔

رگھو کہتے ہیں کہ ان کے کام کا پسندیدہ حصہ انڈوں سے کچھوے نکلنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ گارڈ آہستہ سے انہیں ایک بُٹّا (ٹوکری) میں رکھ دیتے ہیں اور ساحل سمندر پر چھوڑ آتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ’’یہ ننھے بچے تیزی سے ریت کھودتے ہیں۔ ان کے پیر کافی چھوٹے ہوتے ہیں۔ وہ تیزی سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہیں اور تب تک نہیں رکتے، جب تک کہ سمندر تک نہیں پہنچ جاتے۔ تب لہریں بچوں کو بہا لے جاتی ہیں۔‘‘

After the eggs hatch, the hatchlings are carefully transferred into the a butta (left) by the guards. The fishermen then carry them closer to the beach
PHOTO • Photo courtesy: Andhra Pradesh Forest Department
After the eggs hatch, the hatchlings are carefully transferred into the a butta (left) by the guards. The fishermen then carry them closer to the beach
PHOTO • Photo courtesy: Andhra Pradesh Forest Department

انڈوں سے نکلنے کے بعد گارڈ بچوں کو احتیاط سے بُٹّا (بائیں) میں رکھ دیتے ہیں۔ پھر ماہی گیر انہیں ساحل سمندر کے قریب لے جاتے ہیں اور وہاں چھوڑ دیتے ہیں

Guards at the Sagar Nagar hatchery gently releasing the hatchlings into the sea
PHOTO • Photo courtesy: Andhra Pradesh Forest Department
Guards at the Sagar Nagar hatchery gently releasing the hatchlings into the sea
PHOTO • Photo courtesy: Andhra Pradesh Forest Department

ساگر نگر ہیچری کے گارڈ دھیرے دھیرے بچوں کو چھوڑ رہے ہیں

انڈوں کی آخری کھیپ اس سال جون میں پھوٹی تھی۔ اے پی ایف ڈی کے مطابق، ۲۱ گارڈوں کے ذریعے سبھی چار ہیچری میں ۴۶۷۵۴ انڈے جمع کیے گئے تھے اور ۳۷۶۳۰ بچوں کو سمندر میں چھوڑا تھا۔ بقیہ ۵۶۵۵ انڈوں سے بچے نہیں نکل پائے تھے۔

لکشمیا کہتے ہیں، ’’مارچ ۲۰۲۳ میں بھاری بارش کے دوران کئی انڈے خراب ہو گئے تھے۔ یہ واقعی میں دکھ کی بات تھی۔ جب مئی میں کچھ بچے نکلے، تو ان کے خول ٹوٹے ہوئے تھے۔‘‘

سائنس داں اڈاری بتاتے ہیں کہ کچھوؤں کو اپنی پیدائش کی جغرافیائی جگہ یاد رہتی ہے۔ مادہ کچھوے پانچ سال میں بالغ ہونے کے بعد انڈے دینے کے لیے سمندر کے اسی ساحل پر لوٹتے ہیں جہاں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔

ان کے انڈے دینے کے اگلے سیزن کا انتظار کر رہے لکشمیّا کہتے ہیں، ’’مجھے خوشی ہے کہ میں اس کا حصہ ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ کچھوے کے انڈے نازک ہوتے ہیں اور انہیں حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

اس اسٹوری کے لیے مضمون نگار کو رنگ دے کی طرف سے مالی تعاون حاصل ہوا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Amrutha Kosuru

अम्रुथा कोसुरु एक फ़्रीलांस पत्रकार हैं और विशाखापट्टनम में रहती हैं. उन्होंने चेन्नई के एशियन कॉलेज ऑफ़ जर्नलिज़्म से ग्रैजुएशन किया है.

की अन्य स्टोरी Amrutha Kosuru
Editor : Sanviti Iyer

संविति अय्यर, पीपल्स आर्काइव ऑफ़ रूरल इंडिया में बतौर कंटेंट कोऑर्डिनेटर कार्यरत हैं. वह छात्रों के साथ भी काम करती हैं, और ग्रामीण भारत की समस्याओं को दर्ज करने में उनकी मदद करती हैं.

की अन्य स्टोरी Sanviti Iyer
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पीपुल्स आर्काइव ऑफ़ रुरल इंडिया के ट्रांसलेशन्स एडिटर, उर्दू, हैं। वह दिल्ली स्थित एक पत्रकार हैं।

की अन्य स्टोरी Qamar Siddique