’’میں کوشش کرتا ہوں کہ ہر چیز کی مرمت کر سکوں۔‘‘
سنیل کمار پیشہ سے ٹھٹھیرا (دھات کے برتن بنانے والے) ہیں۔ ’’لوگ ہمارے پاس ایسے سامان لے کر آتے ہیں، جن کی مرمت کوئی اور نہیں کر سکتا۔ کئی بار تو میکینک بھی اپنے اوزار لے کر آتے ہیں۔‘‘
ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جہاں لوگ کئی نسلوں سے تانبے، کانسی اور پیتل جیسی دھاتوں سے گھر اور باورچی خانہ میں استعمال ہونے والے طرح طرح کے برتن بناتے آ رہے ہیں۔ ’’اب کوئی بھی اپنے ہاتھ گندے نہیں کرنا چاہتا،‘‘ تقریباً ۴۰ سال کی عمر کے سنیل کہتے ہیں۔ ٹھٹھیرا کے طور پر برتن بناتے ہوئے انہیں اب تقریباً ۲۵ سال ہو چکے ہیں۔ ’’مجھے پورا دن تیزاب، کوئلہ اور آگ کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔ میں یہ اس لیے کرتا ہوں کیوں کہ مجھے یہ کام پسند ہے۔‘‘
پنجاب میں ٹھٹھیرا (جنہیں ٹھٹھیار بھی کہا جاتا ہے) او بی سی (دیگر پس ماندہ ذات) کے طور پر درج ہے اور دھاتوں کو الگ الگ شکلوں میں ڈھالنا ان کا روایتی پیشہ ہے۔ ساتھ ہی، وہ ہاتھ کے اوزاروں کا استعمال کرکے بغیر لوہے والی دھاتوں سے دروازے کا مضبوط لاک ہینڈل بھی بناتے ہیں۔ اپنے ۶۷ سالہ والد کیول کرشن کے ساتھ وہ کباڑی کے سامان خریدتے ہیں، جن کا استعمال مرمت کے کاموں میں کیا جاتا ہے۔
گزشتہ کچھ دہائیوں سے اسٹیل جیسی دھاتوں کی بڑھتی مقبولیت نے ہاتھ کے ہنر سے برتن بنانے والے کاریگروں کے لیے پورا منظر نامہ ہی بدل دیا ہے۔ ان دنوں گھروں میں کام آنے والے زیادہ تر باورچی خانہ کے سامان اسٹیل کے بنے ہوتے ہیں، اور بھاری بھرکم اور نسبتاً مہنگے پیتل اور تانبے کے برتنوں کی مانگ میں زبردست کمی آئی ہے۔
سنگرور ضلع کے لہراگاگا شہر میں جہاں سنیل اپنی فیملی کے ساتھ رہ کر کئی نسلوں سے چل رہی اپنی دستکاری کو آگے بڑھا رہے ہیں، وہاں تقریباً ۴۰ سال پہلے تک ٹھٹھیروں کا دو اور کنبہ بھی رہتا تھا۔ ’’مندر کے پاس کے علاقے میں ایک اور فیملی تھی، لیکن انہیں تین لاکھ روپے کی لاٹری لگ گئی۔ اس کے بعد ان لوگوں نے اپنا پیشہ چھوڑ دیا اور اپنی دکان بھی بند کر دی،‘‘ اس کام کو چھوڑنے کے پیچھے پیسے کی تنگی کو بنیادی وجہ بتاتے ہوئے سنیل کہتے ہیں۔
اپنا کام جاری رکھنے کی کوشش میں سنیل جیسے ٹھٹھیروں نے مرمت اور تعمیر دونوں کے لیے اسٹیل جیسی دھات پر بھی ہاتھ آزمانا شروع کر دیا۔
لہراگاگا میں سنیل کی واحد دکان ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں پیتل کے سامانوں کی صفائی، مرمت اور پالش کی جاتی ہے۔ دور دراز کے گاؤوں اور شہروں سے لوگ اسی کام کے لیے یہاں آتے ہیں۔ حالانکہ، اس دکان کا کوئی نام یا سائن بورڈ نہیں ہے، لیکن لوگ اسے ٹھٹھیرے کی دکان کے نام سے جانتے ہیں۔
’’ہمارے گھر میں پیتل کے برتن ہیں، لیکن ان کی قیمت کی وجہ سے انہیں رکھا گیا ہے۔ ان کی اونچی قیمتوں اور ان کے ساتھ ہمارے جذباتی لگاؤ کے سبب ہم ان کا روز استعمال نہیں کرتے ہیں،‘‘ سنیل کی دکان پر ۲۵ کلومیٹر دور کے دِربا گاؤں سے چار باٹیوں (پیالی) کی صفائی کرانے آئی ایک گاہک کہتی ہیں۔ ’’اسٹیل کے برتن لگاتار استعمال کے بعد اپنی قیمت کھو دیتے ہیں۔ دوبارہ بیچے جانے کے بعد ان کے بدلے نہ کے برابر پیسے ملتے ہیں۔ لیکن پیتل کے برتن کی قیمت برقرار رہتی ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
پیتل کے سامانوں کو چمکا کر انہیں نیا جیسا بنا دینے کی وجہ سے سنیل جیسے ٹھٹھیروں کی کافی مانگ رہتی ہے۔ جب ہم ان سے ستمبر کے مہینہ میں ملتے ہیں، اس وقت وہ کچھ برتنوں کو دوبارہ پالش کر کے انہیں چمکانے میں مصروف ہیں، جنہیں ایک ماں اپنی بیٹی کو اس کی شادی کے موقع پر دینے والی ہے۔ اُن برتنوں کو لمبے عرصے سے استعمال نہیں کیا گیا ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بد رنگ ہو گئے ہیں۔ سنیل انہیں دوبارہ نیا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پیتل کے سامانوں کی صفائی کرنے کا عمل سب سے پہلے ان پر تکسید (آکسی ڈیشن) کے سبب پڑے سبز دھبوں کی جانچ کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد اُن دھبوں کو ہٹانے کے لیے انہیں چھوٹی بھٹی میں گرم کیا جاتا ہے، اور جب یہ دھبے سیاہ پڑ جاتے ہیں، تب انہیں تیزاب کے رقیق محلول سے صاف کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد برتنوں کی باہری اور اندرونی سطح پر املی کا پیسٹ رگڑا جاتا ہے، تاکہ اس کی چمک پھر سے لوٹ آئے۔ اس پیسٹ کو رگڑنے کے بعد سطح بھورے سے لال سنہرے رنگ میں بدل جاتی ہے۔
صفائی کے بعد سنیل ایک گرائنڈنگ مشین کا استعمال کر کے انہیں پوری طرح سنہرا بنا دیتے ہیں۔ ’’جس زمانے میں ہمارے پاس گرائنڈنگ مشین نہیں ہوا کرتی تھی، اس وقت ہم یہ کام کرنے کے لیے ریگمال [سینڈ پیپر] کا استعمال کیا کرتے تھے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
اس کے بعد اگلا قدم ٹِکّا کا ہوتا ہے – اور برتن کی سطح پر کسی اچھے ڈیزائن کے مطابق چھوٹے چھوٹے ڈاٹ کریدے جاتے ہیں۔ لیکن کچھ گاہکوں کو نارمل پالش چاہیے ہوتا ہے یا وہ کوئی خاص ڈیزائن بنا دینے کی درخواست کرتے ہیں۔
کڑاہی (ایک بڑا برتن) کو ڈاٹنگ سے پہلے سنیل لکڑی اور لوہے – دونوں کے ہتھوڑے کی پالش اور صفائی کر لیتے ہیں، تاکہ برتن پر صاف اور چمکدار نقطے بنائے جا سکیں۔ پالش کے بعد برتن کسی آئینے کی طرح چمک اٹھتے ہیں۔ اس کے بعد وہ کڑاہی کو لکڑی کے ہتھوڑے پر رکھتے ہیں اور انہیں گول گول گھما کر ہتھوڑے سے ٹھوکنے لگتے ہیں، جو نقطوں (ڈاٹ) والی سطح کے چمکدار سنہرے رنگ کو ابھارنے میں مدد کرتا ہے۔
اُن پیتل کے برتنوں کو جنہیں صحیح طریقے سے استعمال نہ کیا گیا ہو یا جنہیں لگاتار کچھ سالوں تک استعمال کیا گیا ہو، ان کی سنہری چمک کو واپس لینے کے لیے صفائی اور پالش کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔
اگر پیتل کے برتنوں کا استعمال کھانا پکانے کے لیے کیا جاتا ہے، تو اس کے اوپر ٹن کی پرت چڑھائی جاتی ہے۔ اس عمل کو قلعی کہتے ہیں، جس میں پتیل اور بغیر لوہے والی دھاتوں کے برتن کی اندرونی سطح پر ٹن کی ایک پرت چڑھائی جاتی ہے، تاکہ برتن میں پکائی یا رکھی جانے والی کسی غذائی اشیاء کو کسی کیمیاوی ردعمل سے بچایا جا سکے۔
’بھانڈے قلعی کرا لو!‘ کچھ سال پہلے تک ایسی آواز لگاتے گلی محلے میں گاہکوں کی تلاش میں گھومتے ہوئے کاریگر نظر آ جایا کرتے تھے۔ وہ پیتل کے برتنوں میں ٹن کی قلعی ہی چڑھاتے تھے۔ سنیل بتاتے ہیں کہ اگر ٹھیک سے استعمال کیا جائے، تو وہ بغیر قلعی کے پانچ سال آرام سے چل سکتے ہیں۔ حالانکہ، کچھ لوگ استعمال کے تقریباً ایک سال بعد اسے دوبارہ کراتے ہیں۔
قلعی کے دوران پیتل کے برتنوں کو املی کے پیسٹ اور تیزاب کے رقیق محلول سے صاف کر کے تب تک آگ میں گرم کیا جاتا ہے، جب تک کہ اس کی اندرونی سطح تپ کر گلابی نہ دکھائی دینے لگے۔ اس کے بعد اس کی اندرونی سطح پر ٹن کے لچھّے کو نوسادَر کے چھڑکاؤ کے ساتھ رگڑا جاتا ہے۔ نوسادر کاسٹک سوڈا اور امونیم کلورائیڈ کے آمیزہ سے تیار کیا گیا ایک پاؤڈر ہے، جسے پانی میں گھول کر برتن کے اندر چھڑکا جاتا ہے۔ ایک سوتی کپڑے کو اس میں ڈبو کر اس سے لگاتار رگڑنے کے تھوڑی دیر بعد ایک سفید دھواں سا اٹھتا ہے اور چند منٹ میں کسی عجوبہ کی طرح برتن کی اندرونی سطح چاندی کے رنگ کی ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد برتن کو ٹھنڈے پانی سے بھرے ایک بڑے برتن میں تھوڑی دیر تک ڈبو دیا جاتا ہے۔
حالیہ دہائیوں میں پیتل کی جگہ اسٹیل کے برتنوں کی مانگ میں بہت تیزی آئی ہے، کیوں کہ اسٹیل کے برتنوں کی صاف صفائی بہت آسان ہے اور ان سے کسی غذائی اشیاء کے کیمیاوی ردعمل کا امکان بھی نہیں کے برابر ہوتا ہے۔ حالانکہ، پیتل کے برتن مضبوط ہوتے ہیں اور ان کو قیمتی بھی مانا جاتا ہے، لیکن ان کے رکھ رکھاؤ میں تھوڑا احتیاط برتنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سنیل اپنے گاہکوں سے صاف تاکید کرتے ہیں کہ ان برتنوں کو استعمال کرنے کے بعد فوراً ان کی صفائی کر دیں۔
*****
سنیل کے والد کیول کرشن ۵۰ سال پہلے جب صرف ۱۲ سال کے ہوا کرتے تھے، تب مالیر کوٹلہ سے لہراگاگا چلے آئے تھے۔ ’’پہلے تو میں کچھ دنوں کے لیے ہی آیا تھا، لیکن پھر میں نے یہیں رکنے کا فیصلہ کر لیا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ان کا خاندان کئی نسلوں سے برتن بنانے کے کام میں لگا ہوا ہے۔ کیول کے والد کیدار ناتھ اور دادا جیوتی رام ایک ماہر کاریگر تھے۔ لیکن سنیل پورے یقین سے یہ نہیں بتا سکتے کہ ان کا بیٹا ان کی وراثت کو آگے لے جائے گا۔ ’’میرا بیٹا یہ کام تبھی کرے گا، جب اسے اس کام میں مزہ آئے گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
سنیل کے بھائی پہلے ہی خاندانی پیشہ کو چھوڑ چکے ہیں اور اب ایک پرائیویٹ ٹیلی کام کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ ان کے کئی دوسرے رشتہ دار بھی دوسرے سامانوں کی دکانداریوں میں لگ چکے ہیں۔
سنیل کو یہ ہنر کیول کرشن سے وراثت میں ملی ہے۔ ’’جب میں دسویں میں پڑھتا تھا، تو میرے والد کو چوٹ لگ گئی تھی، اور فیملی کا پیٹ بھرنے کے لیے مجھے اپنی پڑھائی روک کر کام سنبھالنا پڑا تھا،‘‘ وہ اپنے برتن کو ہتھوڑی سے ٹھوکتے ہوئے بتاتے ہیں۔ ’’جب میں اسکول میں پڑھتا تھا، تب اپنے خالی وقت میں دکان پر آیا کرتا تھا اور کوئی چھوٹا موٹا کام بھی کرتا تھا۔ ایک بار میں نے پیتل سے ایئر کولر کا ایک چھوٹا سا ماڈل بنایا تھا،‘‘ وہ فخریہ لہجے میں بتاتے ہیں۔
پہلا برتن جو انہوں نے بنایا تھا وہ ایک دیغ تھی، جسے انہوں نے بیچ دیا۔ اس کے بعد سے جب انہیں کام سے وقت ملتا ہے، تو وہ کچھ نیا بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ’’میں نے اپنی بہن کے لیے ایک غُلَّک بنایا، جس پر ایک چہرہ بنا ہوا تھا،‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ اپنے گھر کے لیے انہوں نے واٹر کنٹینر سے پانی جمع کرنے کے لیے ایک یا دو پیتل کے برتن بنائے ہیں۔
حالیہ دہائیوں میں پیتل کی جگہ اسٹیل کے برتنوں کی مانگ میں بہت تیزی آئی ہے، کیوں کہ اسٹیل کے برتنوں کی صاف صفائی بہت آسان ہے اور ان سے کسی غذائی اشیاء کے کیمیاوی ردعمل کا امکان بھی نہیں کے برابر ہوتا ہے
پنجاب کے جنڈیالا گرو میں ٹھٹھیرا برادری کو ۲۰۱۴ سے یونیسکو کے ذریعہ غیر محسوس ثقافتی ورثہ (آئی سی ایچ) کے زمرہ میں رکھا گیا ہے۔ یہ قصبہ ان چنندہ جگہوں میں سے ایک ہے جہاں یہ برادری اور ٹھٹھیروں کا پیشہ آج بھی محفوظ بچا ہوا ہے۔ اس بات کا کریڈٹ یونیسکو اور امرتسر کے سبھی گرودواروں کو جاتا ہے، جنہوں نے آج بھی اپنے یہاں پیتل کے برتن کا استعمال کرنا جاری رکھا ہے۔
گرودواروں میں آج بھی کھانا پکانے اور انہیں پیش کرنے کے لیے بڑی دیغوں اور بالٹیوں کا استعمال ہوتا ہے۔ حالانکہ، کئی گرودوارے رکھ رکھاؤ کی پریشانیوں کے سبب اب پیتل کے برتن استعمال نہیں کرتے ہیں۔
’’ہم بھی اب زیادہ تر مرمت کا ہی کام کرتے ہیں۔ ہمارے پاس اب نئے برتن بنانے کا وقت نہیں ہے،‘‘ سنیل اُس زمانے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، جب وہ بنیادی طور پر کانسی کے برتن بنایا کرتے تھے۔ ایک کاریگر ایک ہی دن میں ۱۲-۱۰ دیغیں بنا لیتا تھا۔ بہرحال، مانگ، قیمت اور وقت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ان ٹھٹھیروں پر کئی قسم کی بندشیں لگ گئیں اور انہیں اپنا آبائی کام تقریباً چھوڑ دینا پڑا۔
’’ہم آرڈر پر یہ کام کرتے ہیں، لیکن اب ہم برتن بنا کر نہیں رکھتے ہیں،‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ یہ بتانا بھی نہیں بھولتے کہ بڑی کمپنیاں اب ٹھٹھیروں کے برتن اور دوسرے سامان خرید لیتی ہیں اور انہیں چار گنا زیادہ قیمت پر بیچتی ہیں۔
ٹھٹھیرے پیتل کے برتنوں کی قیمت ان کے وزن، دھات کے معیار اور سامان کے حساب سے طے کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک کڑاہی ۸۰۰ روپے فی کلوگرام کے حساب سے فروخت ہو سکتی ہے۔ چونکہ پیتل کے برتن اور سامان وزن کے حساب سے فروخت ہوتے ہیں، اس لیے وہ اسٹیل کے برتنوں کے مقابلے مہنگے ہوتے ہیں۔
’’ہم یہاں نئے برتن بنایا کرتے تھے۔ تقریباً ۵۰ سال پہلے حکومت ہمیں رعایتی قیمت پر جست اور تانبے کا کوٹہ مہیا کراتی تھی۔ لیکن اب حکومت وہ مقررہ کوٹہ ہم چھوٹے کاروباریوں کی بجائے فیکٹریوں کو دینے لگی ہے،‘‘ کیول کرشن ناراضگی کے ساتھ کہتے ہیں۔ تقریباً ۶۰ سال کے ہو چکے کیول اپنی دکان میں کام کاج دیکھتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ حکومت اپنی رعایت پر دوبارہ غور کرے گی۔
کیول ہمیں بتاتے ہیں کہ ۲۶ کلو جست میں ۱۴ کلو تانبہ ملا کر کیسے روایتی طور پر پیتل تیار کیا جاتا ہے۔ ’’دھاتوں کو پوری طرح سے گرم کر کے ایک دوسرے سے ملایا جاتا تھا، اور چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں رکھ کر سوکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پیالی کے سائز کے ان دھاتوں کے آمیزہ کو ایک چادر میں لپیٹ کر بیل لیا جاتا ہے اور الگ الگ برتنوں یا آرائشی سامانوں کے مطابق انہیں ڈھال لیا جاتا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
اس علاقہ میں صرف دو چار رولنگ مل ہی بچی ہیں، جہاں ٹھٹھیروں کو برتن یا آرائشی چیزیں بنانے کے لیے دھات کی چادریں دستیاب ہیں۔ ’’یا تو ہم انہیں امرتسر میں جنڈیالا گرو [لہراگاگا سے ۲۳۴ کلومیٹر دور] سے حاصل کرتے ہیں یا ہریانہ میں جگادھری [۲۰۳ کلومیٹر دور] سے حاصل کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہم انہیں گاہکوں کی ضرورتوں کے مطابق ڈھالتے ہیں،‘‘ سنیل تفصیل سے بتاتے ہیں۔
کیول ستمبر میں اعلان کردہ پردھان منتری وشو کرما اسکیم کا ذکر کر رہے ہیں، جس کے تحت حکومت نے کاریگروں اور دستکاری سے وابستہ دیگر کارکنوں کو ۳ لاکھ روپے تک کا ضمانت سے پاک قرض دینے کا انتظام کیا ہے۔ اس اسکیم میں لوہار، تالا اور کھلونا بنانے والے کاریگر اور ۱۵ دیگر زمروں کے کارکن بھی شامل ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ٹھٹھیرا برادری کو اس زمرے سے محروم رکھا گیا ہے۔
مرمت کے کام میں کوئی مقررہ آمدنی نہیں ہوتی ہے – اور یومیہ کمائی تقریباً ۱۰۰۰ روپے تک ہو سکتی ہے، اور وہ بھی اُس خاص دن پر منحصر ہوتی ہے۔ اسی لیے، سنیل نئے برتن بنانا چاہتے ہیں، تاکہ ان کا کام چلتا رہے۔ دیر سے ہی سہی، انہیں لگتا ہے کہ لوگ دوبارہ پیتل کے برتنوں کی طرف لوٹیں گے اور اس پیشہ کو نئی زندگی ملے گی۔
مترجم: محمد قمر تبریز