ایک آدمی اپنی سات سال کی بیٹی کے ساتھ پیدل پنڈھر پور کی طرف سالانہ تیرتھ یاترا آشاڑھی واری پر جا رہے ہیں۔ اس تہوار کے موقع پر پوری ریاست سے آئے وارکری برادری کے ہزاروں عقیدت مند بھگوان وٹھل کے مندر میں درشن کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ راستے میں وہ لاتور کے ایک گاؤں، مہیس گاؤں میں رکنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ دن ڈھلنے کے ساتھ ساتھ کیرتن کی آواز پورے ماحول میں گونجنے لگتی ہے۔ کھنجری (ڈفلی جیسا ساز) کی دھیمی آواز سن کر چھوٹی بچی اپنے والد سے وہاں لے چلنے کی ضد کرتی ہے جہاں سے کیرتن کی آواز آ رہی ہے۔
والد اس کی ضد کو ٹالنا چاہتے ہیں۔ ’’یہاں لوگ ہمارے جیسے مانگ اور مہاروں کو چھونے سے بچنا چاہتے ہیں،‘‘ وہ اپنی بیٹی کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’’ان کی نظروں میں ہماری کوئی قیمت نہیں ہے۔ وہ ہمیں اندر نہیں داخل ہونے دیں گے۔‘‘ لیکن بچی اپنی ضد پر قائم رہتی ہے۔ آخرکار، والد کو ہی جھکنا پڑتا ہے۔ لیکن، اس کی بھی ایک شرط ہے کہ دونوں کیرتن کو دور سے کھڑے ہو کر سنیں گے۔ آواز کا پیچھا کرتے ہوئے دونوں پنڈال تک پہنچتے ہیں۔ دونوں یکسوئی سے کیرتن کے دوران مہاراج کو کھنجری بجاتے ہوئے دیکھتے رہتے ہیں۔ جلد ہی وہ چھوٹی بچی بے صبر ہو جاتی ہے۔ وہ کسی بھی شرط پر اسٹیج پر چڑھنا چاہتی ہے۔ اور، موقع پاتے ہی کسی کو بھی کچھ کہے بغیر وہ یہ کر گزرتی ہے۔
’’میں ایک بھاروڑ [ہنسی مذاق پر مبنی گیتوں کا ایک پرانا انداز، جن کی تخلیق معاشرے میں بیداری پیدا کرنے کے مقصد سے کی جاتی ہے] گانا چاہتی ہوں،‘‘ وہ اس وقت اسٹیج پر گا رہے سنت (سادھو) سے کہتی ہے۔ وہاں موجود لوگ اس کی بات سن کر حیران رہ جاتے ہیں۔ لیکن، اسٹیج پر گا رہے مہاراج اسے گانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ اگلے کچھ منٹوں کے لیے وہ چھوٹی بچی اسٹیج پر گویا اپنا حق جما لیتی ہے۔ سنگت کے لیے وہ دھات کے ایک برتن پر تھاپ دیتی ہے۔ گانے کے لیے اس نے ایک ایسے گیت کا انتخاب کیا ہے جسے اسٹیج پر گا رہے مہاراج نے ہی لکھا ہے۔
माझा
रहाट
गं
साजनी
गावू
चौघी
जनी
माझ्या
रहाटाचा
कणा
मला
चौघी
जनी
सुना
کنویں پر رہٹ ہے سجنی
آؤ چاروں گائیں مل کر
جی
جیسے رہٹ کی رسی
ویسی چاروں بہوئیں
میری
اُس بچی کے گانے سے متاثر ہو کر سادھو فنکار نے اسے اپنی کھنجری تحفہ میں دیتے ہوئے کہا، ’’میرا آشیرواد ہمیشہ تمہارے ساتھ ہے۔ تم ایک دن دنیا کو مسحور کروگی۔‘‘
میرا اُمپ کو ویڈیو میں روایتی بھاروڑ گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جس میں ہنسی مذاق پر مبنی گیتوں کا استعمال کیا جاتا ہے، اور اس کی کئی تشریحات کی جا سکتی ہیں
یہ ۱۹۷۵ کا واقعہ تھا۔ اسٹیج پر گا رہے سنت تُکڈوجی مہاراج تھے، جو اپنے دوہوں (اشعار) کے مجموعہ ’گرام گیتا‘ کی وجہ سے مشہور ہیں۔ یہ کتاب دیہی زندگی کے دکھ درد اور ان سے نجات اور بچاؤ پر لکھی گئی تھی۔ بہرحال، اب ۵۰ سال کی ہو چکی وہ چھوٹی بچی آج بھی اپنی فنکارانہ پیشکش سے اسٹیج پر ایک جوش کا ماحول بنا دیتی ہے۔ نوواری سوتی کی ایک ساڑی پہنے، پیشانی پر ایک بڑی سی بِندی لگائے اور بائیں ہاتھ میں تھاپ سے بجنے والے ایک چھوٹے سے ساز دِمڈی کو لے کر جب میرا اُمپ بھیم گیت گاتی ہیں، تو ان کے دائیں ہاتھ کی انگلیاں دِمڈی پر چڑھی کھال پر ایک نئی توانائی اور ترنم میں تھرکنے لگتی ہے۔ ان کی کلائی کی کانچ کی چوڑیاں بھی دِمڈی کے گھیرے میں بندھے گھنگھروؤں کی سنگت دینے سے نہیں چوکتی ہیں۔ دیکھتے دیکھتے پورا ماحول جوش سے بھر جاتا ہے۔
खातो
तुपात
पोळी
भीमा
तुझ्यामुळे
डोईवरची
गेली
मोळी
भीमा
तुझ्यामुळे
काल
माझी
माय
बाजारी
जाऊन
जरीची
घेती
चोळी
भीमा
तुझ्यामुळे
साखर
दुधात
टाकून
काजू
दुधात
खातो
भिकेची
गेली
झोळी
भीमा
तुझ्यामुळे
بھیما بس تیری وجہ سے، میں گھی میں کھاؤں
روٹی
بھیما بس تیری وجہ
سے، میں اب نہ ڈھوؤں لکڑی
ماں کل کو تھی بازار گئی
بھیما بس تیری وجہ
سے، زری کی چولی خریدی
میں نے دودھ میں چینی ملائی اور ساتھ میں
کاجو کھائی
بھیما بس تیری وجہ
سے، بھیک مانگنے سے میں چھوٹ پائی
*****
میرا بائی کب پیدا ہوئی تھیں، اس بارے میں وہ خود بھی کچھ نہیں جانتی ہیں، لیکن ہمیں اپنی پیدائش کا سال ۱۹۶۵ بتاتی ہیں۔ ان کی پیدائش مہاراشٹر کے انتروالی گاؤں میں ایک غریب ماتنگ خاندان میں ہوا تھا۔ ریاست میں ماتنگ برادری درج فہرست ذات کے طور پر درج ہے۔ اس برادری کو زمانہ قدیم سے ہی ’اچھوت‘ مانا جاتا رہا ہے اور ذات پر مبنی درجہ بندی میں یہ سب سے نیچے آتے ہیں۔
ان کے والد وامن راؤ اور ان کی ماں ریشما بائی، بیڈ ضلع میں گاؤں گاؤں گھومتے اور لوگوں کو مترنم بھجن اور ابھنگ سنا کر ان سے بھیک مانگتے تھے۔ انہیں ’گرو گھرانا‘ یعنی استادوں اور دانشوروں کے معروف گروہوں سے وابستہ مان کر دلتوں کی برادری میں ان کی عزت ایک فیملی کی طرح کی جاتی تھی کیوں کہ انہوں نے گلوکاری کے ہنر کو محفوظ رکھا تھا۔ اس لیے میرا بائی کبھی اسکول نہیں گئی تھیں، اس کے بعد بھی ان کی پرورش والدین کی رہنمائی میں ابھنگ، بھجن اور کیرتن جیسے بھکتی سنگیت کی شاندار روایت کے درمیان ہوئی تھی۔
اپنی آٹھ اولادوں – پانچ بیٹیوں اور تین بیٹوں کی دیکھ بھال کرنے اور ان کا پیٹ بھرنے میں میرا بائی کے والدین کو زندگی میں بہت جدوجہد کرنی پڑی۔ سات سال کی ہونے کے بعد میرا بائی – جو اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑی تھیں، اپنے والدین کے ساتھ گا کر بھیک مانگنے جانے لگیں۔ وامن راؤ ایک تاری بجاتے تھے اور ان کے چھوٹے بھائی بھاؤ راؤ دِمڈی بجاتے تھے۔ گیت گانے کے اپنے سفر کی کہانی سناتے ہوئے میرا بتاتی ہیں، ’’میرے والد اور چچا دونوں بھیک مانگنے کے لیے ساتھ ساتھ نکلتے تھے۔ ایک بار بھیک میں ملے پیسے اور اناج کی تقسیم کے وقت دونوں میں جھگڑا ہو گیا۔ یہ جھگڑا اتنا بڑھ گیا کہ دونوں نے ایک دوسرے سے الگ ہو جانے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘
اُس دن کے بعد، ان کے چچا بلڈھانہ چلے گئے اور ان کے والد میرا بائی کو اپنے ساتھ لے جانے لگے۔ وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے اپنی میٹھی آواز میں گانے لگیں، اور اس طرح انہوں نے بہت سے بھکتی گیت اور بھجن یاد کر لیے۔ ’’میرے والد کو ہمیشہ سے میرے اوپر یہ اعتماد تھا کہ ایک دن میں ایک گلوکارہ بنوں گی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
بعد میں یومیہ اجرت پر مویشیوں کو چرانے کے دوران انہوں نے دِمڈی پر بھی اپنا ہاتھ آزمایا۔ ’’جب میں چھوٹی تھی، تو دھات کے برتنوں کو بجانے کے کام میں لاتی تھی۔ پانی لاتے ہوئے میری انگلیاں خود بخود دھات کی بنی کلشی کو تھپتھپانے لگتی تھیں۔ میرا یہ شوق آہستہ آہستہ میری عادت بن گیا۔ زندگی میں میں نے جو کچھ بھی سیکھا وہ ایسے ہی سیکھا، کوئی دوسرا کام کرنے کے دوران۔ اس کے لیے مجھے کبھی کسی اسکول جانے کی ضرورت نہیں محسوس ہوئی،‘‘ میرا بائی کہتی ہیں۔
آس پڑوس میں بھجن گانے کے لیے روزانہ کچھ لوگ اکٹھا ہوتے تھے۔ میرا بائی بھی اس مجلس میں جانے لگیں اور دھیرے دھیرے وہیں بھجن گانا بھی شروع کر دیا۔
राम
नाही
सीतेच्या
तोलाचा
राम
बाई
हलक्या
दिलाचा
رام نہیں سیتا کے قابل
بڑا نہیں ہے رام کا
دل
’’میں کبھی اسکول نہیں گئی، لیکن مجھے ۴۰ الگ الگ رامائن یاد ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’ شروَن بال کی کہانی، مہابھارت میں پانڈووں کی کہانیاں، اور کبیر کے سینکڑوں دوہے میرے ذہن میں درج ہیں۔‘‘ ان کا ماننا ہے کہ رامائن کی کوئی ایسی سیدھی سپاٹ کہانی نہیں ہے جس میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی ہو، بلکہ اس کی تخلیق لوگوں نے اپنی اپنی ثقافت، اپنی اپنی سوچ اور ایک عام تجزیہ کی بنیاد پر کی ہے۔ ان تاریخی چیلنجز اور نقصانات جن سے ہو کر متعدد برادریوں کو گزرنا پڑا ہے، کے سبب ان قدیم کتابوں میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ ان کے کردار تو وہی ہیں، لیکن ان میں جو کہانیاں بیان کی گئی ہیں ان کے حقائق میں نئے گوشے گھٹتے بڑھتے رہے ہیں۔
میرا بائی بھی اسے اپنی نظر سے اور سماج میں اپنی حیثیت کی بنیاد پر دیکھتی ہیں۔ یہ نظر اس سے مختلف ہے جیسے اونچی ذات کے ہندو اسے پیش کرتے ہیں۔ ان کے رامائن کے مرکز میں ایک عورت اور ایک دلت ہے۔ رام نے سیتا کو کیوں چھوڑ دیا؟ انہوں نے شمبوک کی جان کیوں لے لی؟ بالی کے قتل کے پیچھے کیسی مجبوریاں تھیں؟ جب وہ اپنے دلائل کی کسوٹی پر ان کتابوں سے لی گئی مقبول کہانیوں کو سناتی ہیں، تب وہ اپنے سامعین کے سامنے کئی سوال بھی اٹھا رہی ہوتی ہیں۔ ’’اپنی کہانیاں سنانے کے دوران میں مزاحیہ کا استعمال بھی کرتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
موسیقی کی گہری سمجھ، تکنیکوں کی اچھی معلومات اور پیشکش کا ان کا اپنا انداز، میرا بائی کی گلوکاری کو مخصوص بناتا ہے۔ تُکڈوجی مہاراج، جو بڑے سنت شاعر اور سماجی مصلح تھے اور ودربھ اور مراٹھواڑہ میں جن کے پیروکار بڑی تعداد میں ہیں – کے راستے پر چلتے ہوئے اور ان کے انداز کی پیروی کرتے ہوئے میرا بائی نے بھی کئی کامیابیاں حاصل کیں۔
تکڈوجی مہاراج کیرتن گانے کے دوران کھنجری بجایا کرتے تھے۔ ان کے شاگرد ستیہ پال چنچولیکر سپت کھنجری بجاتے ہیں، جس میں سات کھنجریاں الگ الگ آواز اور سُر نکالتی ہیں۔ سانگلی کے دیوانند مالی اور ستارا کے مہلاری گجبھارے بھی انہیں سازوں کو بجاتے تھے۔ لیکن، میرا بائی اُمپ کھنجری بجانے والی واحد خاتون فنکار ہیں، اور وہ بھی اتنی مہارت کے ساتھ۔
لاتور کے شاہیر رتناکار کلکرنی، جو گیت لکھتے اور دف (ڈفلی جیسا ایک ساز، جسے عموماً شاہیروں کے ذریعے بجایا جاتا تھا) بجاتے تھے، نے انہیں بہت مہارت کے ساتھ کھنجری بجاتے ہوئے دیکھا تھا اور ان کی سریلی آواز پر بھی غور کیا تھا۔ انہوں نے میرا بائی کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کو شاہیری (سماجی تبدیلیوں کے لیے گائے جانے والے گیت) گانے کے لیے آمادہ کیا۔ جب وہ ۲۰ سال کی ہو گئیں، تب انہوں نے شاہیری کے شعبہ میں اپنا پہلا قدم بڑھایا اور بیڈ میں منعقد سرکاری پروگراموں میں اپنا فن پیش کیا۔
’’تمام مذہبی کتابیں میرے دل میں درج ہیں۔ سبھی کہانیاں، سپت نارائن، مہا بھارت، ستیہ وان اور ساوتری کی کہانی، مہادیو اور پرانوں کی تمام کہانیاں اور گیت میری زبان کی نوک پر ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میں نے ریاست کے کونے کونے میں اپنا پیش کیا ہے، انہیں سنایا ہے اور گایا ہے۔ لیکن اس سے مجھے کبھی خوشی اور اطمینان نہیں ملا، اور نہ ان گیتوں کو سن کر لوگوں کو کوئی نیا راستہ ہی ملا۔‘‘
یہ بدھ، پھولے، شاہو، امبیڈکر، تکڈوجی مہاراج اور گاڈگے بابا تھے جنہوں نے بہوجن برادریوں کی سماجی خستہ حالی اور معاشرے میں پھیلی برائیوں کے تئیں میرا بائی کے احساس کو جگانے کا کام کیا۔ ’’وجے کمار گوَئی نے مجھے پہلا بھیم گیت سکھایا اور عوامی طور پر جو پہلا گیت میں نے پیش کیا وہ وامن دادا کرڈک کا تھا،‘‘ میرا بائی یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں۔
पाणी
वाढ
गं
माय
,
पाणी
वाढ
गं
लयी
नाही
मागत
भर
माझं
इवलंसं
गाडगं
पाणी
वाढ
गं
माय
,
पाणी
वाढ
गं
مجھ کو پانی دے دو، سکھی مجھ کو پانی دے دو
زیادہ تو نہیں مانگ
رہی، بس بھر دو چھوٹی گاڈگ [مٹی کا برتن] میری
مجھ کو پانی دے دو،
سکھی مجھ کو پانی دے دو
’’اُس دن سے میں نے سبھی پوتھی پُران [کتابی علم] کو گانا بند کر دیا اور بھیم گیت گانے لگی۔ بابا صاحب امبیڈکر کے یوم پیدائش کی صد سالہ تقریب یعنی ۱۹۹۱ سے انہوں نے خود کو پوری طرح بھیم گیت کے مطابق ڈھال لیا اور ان گیتوں کے ذریعے بابا صاحب کے پیغامات کو پھیلانے کا کام کرنے لگیں۔ ’’لوگوں نے بھی اسے خوب پسند کیا اور جوش کے ساتھ اسے سنا،‘‘ شاہیر میرا بائی کہتی ہیں۔
شاہیر لفظ فارسی کے ’شاعر‘ سے بنا ہے۔ مہاراشٹر کے دیہی علاقوں میں شاہیروں نے حکمرانوں کی مدح سرائی کرتے ہوئے گیت لکھے اور گائے ہیں۔ ان گیتوں کو پوواڑا کہتے ہیں۔ اپنے کھنجری کے ساتھ آتما رام سالوے ، ہارمونیم کے ساتھ دادو سالوے اور اپنے اکتاری (وینا جیسا ایک ساز) کے ساتھ کڈو بائی کھرات جیسے شاہیروں نے اپنے گیتوں کے ذریعے دلتوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ میرا بائی بھی اپنی دِمڈی کے ساتھ مہاراشٹر میں سرگرم کچھ خواتین شاہیروں میں شامل ہو گئیں۔ دِمڈی کو ابھی تک جنگ کے دوران بجایا جانے والا ایک ساز ہی مانا جاتا تھا اور اسے عام طور پر مرد بجاتے تھے۔ اس طرح سے میرا بائی نے ایک اور روایت کو توڑنے کام کیا۔
ان کو گاتے اور بجاتے ہوئے سننا ایک الگ طرح کا تجربہ ہے۔ ان کی انگلیاں جب دِمڈی کی کھال کے الگ الگ حصوں پر تھرکتی ہیں، تب ان سے کئی قسم کی سریلی آوازیں نکلتی ہیں جو ان کی متعدد گلوکاری – کیرتن، بھجن اور پوواڑا کو ان کی ضرورتوں کے مطابق سُر دیتی ہیں۔ ان کا الاپ دھیرے دھیرے رفتار پکڑتا ہے، آواز گویا روح کی اندرونی تہوں سے نکل رہی ہو اور ایک صاف اور واضح جوش کے ساتھ پھیلنے لگتی ہے۔ یہ ان کی محنت ہی ہے کہ دِمڈی اور کھنجری کا فن آج بھی زندہ ہے اور پھل پھول رہا ہے۔
میرا بائی ان چنندہ خواتین شاہیروں میں سے ایک ہیں جو بھاروڈ پیش کرتی ہیں۔ اس لوک آرٹ کا استعمال مہاراشٹر کے متعدد سنت شاعروں نے کیا تھا۔ بھاروڈ کی دو قسمیں ہیں – بھجن بھاروڈ جس کا تعلق مذہب اور روحانیت سے ہے، اور سونگی بھاروڈ جس میں مرد خواتین کا بھیس بدل کر اسٹیج پر اپنا ہنر پیش کرتے ہیں۔ پوواڑا بھی مردوں کے ذریعے ہی پیش کیا جاتا ہے اور تاریخی اور سماجی ایشوز کے ساتھ ساتھ بھاروڈ پر مبنی ہوتا ہے۔ لیکن، میرا بائی نے ان اقسام کو چنوتی دی اور پورے جوش کے ساتھ تمام شکلوں میں اپنے فن کو پیش کرنے لگیں۔ ان کی پیشکش کئی مرد فنکاروں کی بہ نسبت زیادہ پسند کی جاتی ہے، اور وہ اپنے مرد ہم عصروں سے زیادہ مقبول بھی ہیں۔
دِمڈی ، گیتوں، تھیٹر اور ناظرین اور سامعین کے لیے پیغام دینا میرا بائی کے لیے تفریح سے بڑا مقصد ہے۔
*****
اس ملک میں کسی فن کے بارے میں رائے بہت حد تک اس کے خالق کی ذات پر مبنی یا اس سے متعلق ہوتی ہے۔ جب کوئی آدمی کسی دوسری ذات کے آدمی کے بارے میں جاننے کے لیے کچھ ایک طریقوں کا انتخاب کرتا ہے، تو ان میں موسیقی اور دوسرے فن بھی ایک طریقے کی طرح ہی شامل ہوتے ہیں۔ کیا کوئی غیر دلت یا غیر بہوجن کبھی بھی ان آلات موسیقی کی باریکیوں کو سمجھ سکتا ہے اور انہیں بجانا سیکھ سکتا ہے؟ اور، اگر کوئی باہری آدمی دِمڈی یا سمبل یا ایک جُمبروک پر اپنے ہاتھ آزمانا چاہیے، تو اس کے لیے کوئی گرامر نہیں ہے۔
ممبئی یونیورسٹی میں شعبہ موسیقی کے طالب علم کھنجری اور دِمڈی بجانے کا ہنر سیکھ رہے ہیں۔ مشہور فنکار کرشنا مُسلے اور وجے چوہان نے تھاپ سے بجنے والے ان سازوں کے لیے اشارتی نشان تیار کیے ہیں۔ لیکن یونیورسٹی میں لوک کلا اکیڈمی کے ڈائریکٹر گنیش چندن شیوے کہتے ہیں کہ ان اشارتی نشانات کے ساتھ کچھ دقتیں بھی ہیں۔
’’آپ دِمڈی ، سمبل اور کھنجری کو اس طرح سے نہیں سکھا سکتے ہیں، جیسے دوسرے کلاسیکی آلات موسیقی کو سکھایا جاتا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’ان سازوں کے اشارتی نشان کی بنیاد پر صرف کوئی طبلہ بجانا سیکھ یا سکھا سکتا ہے۔ لوگوں نے انھیں اشارتی نشان کو آزما کر دمڈی یا یہاں تک کہ سمبل بھی سکھانے کی کوشش کی، لیکن ان میں سے کسی بھی ساز کے پاس اپنا کوئی میوزیکل سائنس نہیں ہے۔ کسی نے ان سازوں کو ایک کلاسیکی ساز کا درجہ دیتے ہوئے ان کے اشارتی نشان کو لکھنے یا ان کا ’سائنس‘ تیار کرنے کی کوشش نہیں کی،‘‘ وہ مسئلہ کی تہہ تک جاتے ہوئے کہتے ہیں۔
میرا بائی نے دِمڈی اور کھنجری میں جومہارت حاصل کی ہے، اس میں کسی سائنس، اشارتی نشان یا اس کو بجانے سے متعلق گرامر کا کوئی رول نہیں ہے۔ جب انہوں نے انہیں بجانا سیکھا، وہ نہیں جانتی تھیں کہ یہ ’دھا‘ ہے کہ ’تا‘ ہے۔ لیکن ان کی رفتار اور آواز اور دُھن سے جڑی ان کی باریکی کلاسیکی آلات موسیقی کو بجانے میں ماہر کسی فنکار سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ ان کا ساز ہے، جس پر ان کا پورا کنٹرول ہے۔ لوک کلا اکیڈمی میں کوئی بھی میرا بائی کے دمڈی بجانے کے ہنر کی برابری نہیں کر سکتا ہے۔
جیسے جیسے بہوجن ذاتیں سماج کے متوسط طبقہ کا حصہ بن رہی ہیں، ویسے ویسے ان کا اپنا روایتی فن اور اظہار کے دیگر ذرائع ختم ہو رہے ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے اور معاش کی تلاش کے لیے شہروں کی طرف اپنی نقل مکانی کے سبب وہ اپنے روایتی پیشوں اور فنون سے دور ہو گئے ہیں۔ فن کی ان شکلوں کی دستاویز بندی کرنا نہایت ضروری ہے، تاکہ ان کی ابتدا اور مشق سے متعلق تاریخی اور جغرافیائی پس منظر کو سمجھا جا سکے، اور اس سے جڑے سوالات کا حل نکالا جا سکے۔ مثال کے طور پر کیا ذات پر مبنی جدوجہد کے مختلف پہلو، یا ان کی دیگر چنوتیوں کو اظہار کے مناسب ذرائع ملے ہیں؟ اگر ہاں، تو کن شکلوں میں ان کا اظہار ہوا ہے؟ جب ان شکلوں پر اکیڈمک طریقے سے سوچا جائے، تو یونیورسٹی یا تعلیمی ادارے ایسا کوئی نظریہ تیار کرتے ہوئے نہیں دکھائی دیتے ہیں۔
ہر ذات کا اپنا ایک خاص لوک آرٹ ہوتا ہے، اور ان لوک آرٹس کا پورا خزانہ ہمیں متحیر کرتا ہے۔ اس خزانے اور روایت کو محفوظ رکھنے اور ان کا مطالعہ کرنے کے لیے ایک وقف تحقیقی مرکز کی اشد ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے، یہ ضرورت کسی بھی غیر برہمن مہم کے ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے۔ لیکن میرا بائی اس صورتحال کو بدلنا چاہتی ہیں۔ ’’میں ایک ایسا ادارہ شروع کرنا چاہتی ہوں، جہاں نوجوان طلباء کھنجری، اکتاری اور ڈھولکی بجانے کا ہنر سیکھیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
انہیں اس کام کے لیے ریاستی سطح پر کسی قسم کی مدد نہیں ملی ہے۔ کیا انہوں نے اس سلسلے میں حکومت سے کوئی اپیل کی ہے؟ ’’کیا مجھے لکھنا اور پڑھنا آتا ہے،‘‘ وہ الٹا سوال کرتی ہیں۔ ’’میں جب اور جہاں کسی پروگرام میں جاتی ہوں اور اگر وہاں مجھے کوئی سرکاری افسر مل جاتے ہیں، تو میں ان سے گزارش کرتی ہوں کہ وہ اس خواب کو پورا کرنے میں میری مدد کریں۔ لیکن آپ کو لگتا ہے کہ سرکار حاشیہ کے لوگوں کے اس ہنر کو کوئی اہمیت دیتی ہے؟‘‘
*****
حالانکہ، ریاستی حکومت نے میرا بائی کو مدعو کیا۔ جب میرا بائی کی شاہیری اور گلوکاری نے لوگوں کی توجہ بڑے پیمانے پر اپنی جانب مبذول کرنی شروع کی، تب مہاراشٹر حکومت نے ان سے درخواست کی کہ وہ ریاست کے ذریعے چلائے جا رہے مختلف بیداری پروگراموں اور مہموں میں اپنا تعاون دیں۔ جلد ہی وہ صحت، نشہ سے چھٹکارہ، جہیز مخالف اور شراب بندی جیسے سماجی مسائل پر تیار کیے گئے چھوٹے اسکٹ پیش کرنے کے لیے ریاست کے کونے کونے میں گھومنے لگیں۔ ان اسکٹس کو تیار کرنے میں لوک موسیقی کی مدد لی جاتی تھی۔
बाई
दारुड्या
भेटलाय
नवरा
माझं
नशीब
फुटलंय
गं
चोळी
अंगात
नाही
माझ्या
लुगडं
फाटलंय
गं
میرا شوہر نشہ کا عادی
میرے نصیب میں ہی
خرابی
نہیں بلاؤز کا ملا
کپڑا
میری ساڑی ہو گئی
چیتھڑا
نشہ سے چھٹکارہ کے موضوع پر بنائے گئے بیداری پروگراموں کے سبب مہاراشٹر حکومت نے ان کو ’ویاسن مُکتی سیوا‘ ایوارڈ سے نوازا۔ انہیں آل انڈیا ریڈیو اور دوردرشن میں اپنا پروگرام پیش کرنے کے لیے بھی بلایا گیا۔
*****
لیکن ان تمام با مقصد کاموں کے باوجود میرا بائی کے لیے زندگی کبھی آسان نہیں رہی۔ ’’میں بے گھر بار رہی اور کسی نے بھی میری مدد نہیں کی،‘‘ وہ اپنی بدقسمتی کی تازہ کہانی سناتے ہوئے بتاتی ہیں۔ ’’لاک ڈاؤن کے دوران [۲۰۲۰] میں میرے گھر میں شارٹ سرکٹ سے آگ لگ گئی۔ ہم اتنے مجبور تھے کہ ہمارے پاس اس گھر کو فروخت کر دینے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں تھا۔ ہم سڑک پر آ گئے تھے۔ امبیڈکر کو ماننے والے کئی لوگوں نے اس گھر کو بنانے میں میری مدد کی،‘‘ وہ اپنے اس نئے گھر کے بارے میں بتاتی ہیں جس میں فی الحال ہم بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس کی دیواریں اور چھت ٹین سے بنی ہیں۔
یہ حالت اس فنکار کی ہے جسے انا بھاؤ ساٹھے، بال گندھرو اور لکشمی بائی کولہاپورکر جیسی مشہور شخصیات کے نام پر دیے جانے والے با وقار اعزازات سے سرفراز کیا جا چکا ہے۔ مہاراشٹر کی حکومت بھی ان کے ثقافتی کارناموں کی وجہ سے انہیں اعزاز دے چکی ہے۔ یہ انعامات کبھی ان کے گھر کی دیواروں کی زینت بڑھاتے تھے۔
’’یہ صرف آنکھوں کو خوشی دیتے ہیں، میں بتا رہی ہوں،‘‘ میرا بائی آنسوؤں سے چھلکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ کہتی ہیں۔ ’’انہیں دیکھ کر آپ اپنا پیٹ نہیں بھر سکتے۔ کورونا کے دوران ہم بھوکے مر رہے تھے۔ ان مصیبت کے لمحات میں مجھے اُن انعامات کو لکڑی کی جگہ جلا کر اپنے لیے کھانا پکانا پڑا۔ بھوک کی طاقت ان انعامات پر بھاری پڑی۔‘‘
انہیں پہچان ملے یا نہ ملے اس فکرمندی سے آزاد میرا بائی اپنے فن کی راہ پر پورے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔ عظیم مصلحین کی طرح انہیں بھی سماج میں انسانیت، محبت اور رحم دلی کا پیغام پھیلانا ہے۔ اپنے فن اور پیشکش کے ذریعے وہ بھی فرقہ وارانہ اور فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دینا چاہتی ہیں۔ ’’میں اپنے ہنر کو بازار کی چیز نہیں بنانا چاہتی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’اگر کوئی اس کی عزت کرتا ہے، تو یہ ہنر ہے، ورنہ یہی مصیبت کا سبب بن جاتا ہے۔
’’میں نے اپنے فن کے وقار کو نہیں کھونے دیا۔ گزشتہ ۴۰ سالوں سے میں اس ملک کے الگ الگ حصوں میں گھومی ہوں اور کبیر، تکا رام، تکڈوجی مہاراج اور پھولے امبیڈکر کے پیغامات کو پھیلایا ہے۔ میں ان کے گیت گاتی رہی ہوں۔ میری پیشکش ان کی وراثت کو زندہ رکھنے اور آگے بڑھانے کی ہی کوشش ہے۔
’’میں زندگی کی آخری سانس تک بھیم گیت گاتی رہوں گی۔ میری زندگی اسی طرح ختم ہوگی اور مجھے مکمل اطمینان بھی اسی میں حاصل ہوگا۔‘‘
اس اسٹوری میں شامل ویڈیو، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے تعاون سے انڈیا فاؤنڈیشن فار آرٹس کے ذریعے آرکائیوز اینڈ میوزیم پروگرام کے تحت چلائے جا رہے ایک پروجیکٹ ’انفلوینشیئل شاہیرز، نریٹوز فرام مراٹھواڑہ‘ کا حصہ ہیں۔ اس پروجیکٹ کو نئی دہلی واقع گیٹے انسٹی ٹیوٹ (میکس مولر بھون) سے بھی جزوی تعاون حاصل ہوا ہے۔
مترجم: قمر صدیقی