مانڈیا ضلع کے شری رنگ پٹن تعلقہ کے تقریباً ۱۵۰۰ کی آبادی والے گنن گرو گاؤں کے کسان سوامی کہتے ہیں، ’’نیتا لوگ ٹی وی پر وعدے کرتے ہیں، لیکن اسے پورا نہیں کرتے۔‘‘
کرناٹک میں ۱۲ مئی کو ہونے والے اسمبلی انتخابات کا وقت آ گیا ہے، اور انتخابی منشور، ریلیوں اور ٹیلی ویژن چینلوں پر تلخ سیاسی لڑائی لڑی گئی ہے۔ جنتا دل سیکولر (جے ڈی ایس) کے انتخابی منشور میں کہا گیا ہے کہ وہ ایک سال کے اندر ہر کسان کا قرض معاف کر دے گی۔ ساتھ ہی، اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ جن خاندانوں کے کسانوں نے خودکشی کی ہے ان کے بھی قرض معاف کر دیے جائیں گے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے قومی اور کوآپریٹو بینکوں سے لیے گئے ایک لاکھ روپے تک کے زرعی قرض کو معاف کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ کانگریس نے قرض معافی کا ذکر تو نہیں کیا ہے، لیکن کہا ہے کہ وہ ’’کسانوں کی آمدنی کو دو گنا کرے گی‘‘ اور اگلے پانچ سالوں (۲۰۱۸ سے ۲۰۲۳) میں آبپاشی کے مد میں ۲۵ء۱ لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنے کا منصوبہ بنائے گی۔ وہیں، بی جے پی اور جے ڈی ایس نے کہا ہے کہ وہ اگلے پانچ سالوں میں پوری ریاست میں آبپاشی کے پروجیکٹوں پر ۵ء۱ لاکھ کروڑ روپے خرچ کریں گے۔
حالانکہ، گنن گرو کے کسان ان کھوکھلے وعدوں سے تھک چکے ہیں۔ ’’ٹی وی پر وعدے کرنے کی بجائے سیاستدانوں کو کاویری کا تنازع حل کرنا چاہیے، تاکہ ہم اپنی فصلوں سے پیداوار حاصل کر سکیں، لوگ اپنا پیٹ بھر سکیں اور گزارہ چلا سکیں،‘‘ ایسا سوامی کہتے ہیں (اس گاؤں کے کسان چاہتے تھے کہ صرف ان کے پہلے نام کا استعمال کیا جائے)۔
سوامی کے گھر کے برآمدے میں ایسبسٹوس کی چھت کے نیچے بیٹھے تین کسان، دوپہر ۳ بجے کے آس پاس اپنے کام کے درمیان تھوڑی دیر کے لیے آرام کر رہے ہیں۔ ہمیں بات چیت کرتے ہوئے دیکھ کر تقریباً آدھا درجن اور لوگ وہاں جمع ہو گئے۔ وہ ہم سے پوچھتے ہیں، ’’آپ کو سونا چاہیے یا پیسہ؟ ہم پہلے بھی گھوٹالوں کے شکار ہو چکے ہیں!‘‘ اور پھر نرسمہیا کہتے ہیں: ’’آہ، میڈیا سے ہیں – جن کے ذریعے سیاستداں اپنے بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں!‘‘
مانڈیا، کرناٹک اور تمل ناڈو کے درمیان پانی کے بٹوارے کو لے کر لمبے عرصے سے چل رہے کاویری ندی کے تنازع کا مرکز رہا ہے۔ یہاں کی آدھی زرعی زمین (کرناٹک سرکار کی ۲۰۱۴ کی انسانی ترقی کی رپورٹ کے مطابق، ۳۲۴۰۶۰ ہیکٹیئر کے کل رقبہ کا احاطہ کرنے والی ضلع کی ۵۲۴۴۷۱ زمینوں میں سے) کی آبپاشی، سال ۱۹۴۲ میں مانڈیا ضلع میں کاویری ندی پر بنے کرشن راج ساگر باندھ سے حاصل ہونے والے پانی سے کی جاتی ہے۔ ہیماوتی ندی نے بھی تاریخی طور پر اس علاقے کی سینچائی میں مدد کی ہے۔
حالانکہ، خراب مانسون اور پانی کی کم ہوتی سطح (جس کے مختلف اسباب ہیں – پانی کی زیادہ کھپت والی فصلوں کا چلن، زیر زمین پانی کو حد سے زیادہ نکالا جانا، ریت کی کھدائی اور تعمیراتی کاموں میں بے انتہا اضافہ) کے سبب پڑنے والے سوکھے نے مانڈیا کے کسانوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ کرناٹک گزشتہ چار دہائیوں میں سب سے خطرناک خشک سالی کا سامنا کر رہا ہے۔ تقریباً ۱۸ لاکھ کی کل آبادی والا یہ ضلع کرناٹک میں کسانوں کی خودکشی کا سب سے بڑا مرکز رہا ہے۔
گنن گرو میں، شیڈ کے نیچے بیٹھے کسانوں کے ٹھیک سامنے خشک سالی کی مار جھیل رہے کھیت نظر آتے ہیں۔ ان کی سینچائی کے لیے بنائی گئی نہریں بالکل سوکھی پڑی ہیں۔
بیلو کہتے ہیں، ’’گزشتہ دو مہینے سے نہروں میں پانی نہیں آیا ہے۔ ہمارا دھان برباد ہو گیا ہے۔‘‘ بیلو دو ایکڑ زمین پر ٹماٹر اور راگی بھی اُگاتے ہیں۔ نرسمہیا کہتے ہیں، ’’ہم پیسے کمانے کے لیے اپنے مویشیوں پر منحصر ہیں۔ ہم نے جو اناج جمع کیا ہے وہی ہم کھاتے ہیں، لیکن وہ بھی ختم ہونے تک ہی چلے گا۔ ہمیں پانی چاہیے – یہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔‘‘
سوامی کہتے ہیں، ’’ہم کوآپریٹو سوسائٹیز سے پیسے قرض لے کر گزارہ کرتے ہیں۔ سود کی شرح زیادہ نہیں ہے، لیکن پانی کے اتنے بڑے بحران کے ساتھ چھوٹا سا قرض بھی لوٹا پانا بہت مشکل ہے۔‘‘
انفرادی طور پر بورویل لگے کچھ کھیتوں میں بجلی کی سپلائی نہیں کے برابر ہے۔ نرسمہیا کے مطابق، گاؤں میں ایسے تقریباً ۶۰ بورویل ہیں۔ سال ۲۰۱۴ کی انسانی ترقی کی رپورٹ کے مطابق، مانڈیا میں تقریباً ۵۳ء۸۳ فیصد گھروں میں بجلی دستیاب ہے۔ لیکن، کسان بتاتے ہیں، ’’ہمارے گھر میں دن میں صرف ۳-۲ گھنٹے ہی بجلی آتی ہے۔‘‘
گنن گرو سے تقریباً ۲۰ کلومیٹر دور، پانڈو پورہ تعلقہ میں تقریباً ۲۵۰۰ لوگوں کی آبادی والے گاؤں کیاتن ہلّی کے بی پُٹّے گوڑا کہتے ہیں، ’’نہروں میں گزشتہ ۲۰ دنوں سے پانی نہیں آیا ہے، نہ ہی ٹھیک سے بارش ہو رہی ہے۔ اس طرح میں دھان کی پیداوار کیسے حاصل کر پاؤں گا؟‘‘ ان کے بھائی سوامی گوڑا کہتے ہیں، ’’میرے پاس دو ایکڑ زمین ہے۔ میں نے پچھلے پانچ مہینوں میں دھان کی کھیتی پر ایک لاکھ روپے خرچ کیے ہیں۔ محنت مزدوری، کھاد اور دیگر مدوں میں پیسہ لگتا ہے۔ میں نے کھیتی کے لیے ایک کوآپریٹو سوسائٹی سے قرض لیا ہے۔ شرح سود بہت زیادہ نہیں ہے، لیکن مجھے پیسے تو واپس کرنے ہی ہیں نا۔ اگر بارش نہیں ہوگی، تو میں قرض کیسے لوٹاؤں گا؟ ہم چاہتے ہیں کہ کاویری کا پانی ہمارے کھیتوں تک پہنچے اور ہمیں پینے کے لیے پانی ملے۔‘‘
یہ پوچھنے پر کہ منتخب ہونے کے بعد کون سا امیدوار ان کی پریشانیاں حل کر سکتا ہے، سوامی کہتے ہیں، ’’سیاستداں کروڑوں کی پراپرٹی بنا لیتے ہیں، لیکن عام لوگ اپنی پوری زندگی میں کچھ لاکھ روپے بھی نہیں دیکھ پاتے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی نوجوان، تعلیم یافتہ اور کم بدعنوان لیڈر حالات کو بدل دے۔‘‘ وہ ایک پل کے لیے رکتے ہیں، اور اپنی بات پوری کرتے ہیں، ’’شاید۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز