امیر ہو یا غریب، بچہ ہو یا بوڑھا – ہر کسی سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اپنے جوتے اتار کر مہاراجہ کے پیر چھوئے گا۔ بہرحال، ایک دبلا اور نوجوان آدمی جب مہاراجہ کے سامنے آیا، تو اس نے اس کے سامنے جھکنے سے منع کر دیا۔ وہ نہ صرف تن کر کھڑا رہا، بلکہ اس نے پلک جھپکائے بغیر مہاراجہ کی آنکھوں میں دیکھتے رہنے کی گستاخی بھی کی۔ اس کے اس ضدی برتاؤ سے پنجاب کے جوگا گاؤں کے بوڑھے بزرگ کافی خوفزہ ہو گئے۔ اپنے مخالفین کو بے رحمی سے کچل دینے کے لیے بدنام مہاراجہ یہ دیکھ کر غصے سے سرخ ہو گیا۔

یہ نوجوان جاگیر سنگھ جوگا تھا۔ تاریخ ان کی اس شجاعت آمیز انفرادی مزاحمت کا گواہ – سنٹرل انڈسٹریل سیکورٹی فورس (سی آئی ایس ایف) کی کانسٹیبل کلوندر کور کے ذریعے بالی ووڈ ہستی اور اب ہماچل پردیش کے منڈی سے نومنتخب رکن پارلیمنٹ کنگنا رنوت کو طمانچہ مارے جانے کے واقعہ سے تقریباً نو دہائی قبل بن چکا تھا۔ جوگا کا غصہ پٹیالہ کے مہاراجہ بھوپندر سنگھ کے خلاف تھا، جن کے نمائندے جاگیرداروں نے غریب کسانوں کی زمینیں ہڑپنے کی کوشش کی تھی۔ یہ ۱۹۳۰ کی دہائی کی بات ہے۔ اس کے بعد کیا ہوا، یہ بات مقامی ادب اور تاریخ کے صفحات میں کہیں گم ہو گئی۔ لیکن جوگا اس کے بعد بھی جدوجہد کرنے کے لیے زندہ رہے۔

تقریباً ایک دہائی کے بعد، جوگا اور لال پارٹی کے ان کے ساتھیوں نے کشن گڑھ (موجودہ سنگرور ضلع) میں ایک تاریخی جدوجہد کی شروعات کی اور بھوپندر سنگھ کے بیٹے سے ۷۸۴ گاؤوں کی ہزاروں ایکڑ زمینیں چھین کر انہیں دوبارہ بے زمینوں میں تقسیم کر دیں۔ پٹیالہ کے سابق شاہی گھرانے کے وارث اور پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کیپٹن امرندر سنگھ اسی بھوپندر سنگھ کے پوتے ہیں۔

زمین سے متعلق لڑائی اور دوسری تحریکوں کے سبب جوگا ۱۹۵۴ میں نابھا جیل میں تھے۔ جیل میں رہتے ہوئے ہی عوام نے ان کو ریاستی اسمبلی کے لیے منتخب کیا۔ وہ ۱۹۶۲، ۱۹۶۷ اور ۱۹۷۲ میں رکن اسمبلی منتخب کیے گئے۔

PHOTO • Jagtar Singh

بائیں: ۱۹۳۰ کی دہائی میں جاگیر سنگھ جوگا نے پٹیالہ کے مہاراجہ بھوپندر کی نمائندگی کرنے والے جاگیرداروں کے خلاف بغاوت کی تھی، جنہوں نے غریب کسانوں کی زمین کو ان سے جبراً چھیننے کی کوشش کی تھی۔ دائیں: جون ۲۰۲۴ کو سی آئی ایس ایف کی کانسٹیبل کلوندر کور کا غصہ نومنتخب رکن پارلیمنٹ کنگنا رنوت کے خلاف پھوٹا تھا

’’بغاوت پنجاب کی فضا میں پھلتی پھولتی ہے۔ کلوندر کور پنجاب میں ذاتی مزاحمتوں کی طویل روایت کا سب سے نیا واقعہ ہے۔ اچانک رونما ہونے والی اس مزاحمت کی شروعات نہ تو جوگا سے ہوتی ہے اور نہ ہی کلوندر کے ساتھ ختم ہوتی ہے،‘‘ جوگا کے سوانح نگار جگتار سنگھ کہتے ہیں۔ جگتار سنگھ، جو کالج کے ایک ریٹائرڈ ٹیچر ہیں، ’انقلابی یودّھا: جاگیر سنگھ جوگا‘ کے مصنف ہیں۔

پنجاب میں ذاتی اور اچانک ہونے والی ان مزاحمتوں میں زیادہ تر احتجاج ان عام شہریوں کے ذریعے کیا گیا جو نچلے یا معمولی اقتصادی و سماجی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے۔ سی آئی ایس ایف کی کانسٹیبل کلوندر، کپورتھلا ضلع کے مہیوال گاؤں کے ایک معمولی کاشتکار خاندان سے آتی ہیں۔ ان کی ماں ویر کور – جن کے بارے میں کلوندر کو یہ لگتا ہے کہ کنگنا رنوت نے ان کا مذاق اڑایا اور بے عزت کیا، آج بھی کھیتی کرتی ہیں۔

جوگا سے پہلے پریم دت ورما لاہور سازش معاملے سے جڑے حملے میں شامل رہے، لیکن بعد میں بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ کی سماعت (۱۹۳۰-۱۹۲۹) کے دوران سرکاری گواہ بن گئے جے گوپال پر عدالت کے اندر چپل پھینکی تھی۔ ’’یہ کوئی پہلے سے طے شدہ منصوبہ نہیں تھا، اور ورما کی مخالفت خود بخود شروع ہوئی تھی۔ سماعت کے دوران ان کو اور ان کے ساتھیوں کو جسمانی اذیتیں دی گئیں،‘‘ ’دی بھگت سنگھ ریڈر‘ کے مصنف پروفیسر چمن لال کہتے ہیں۔

مقدمہ کے نقلی اور غیر اخلاقی ڈھونگ کے بعد بھگت سنگھ اور ان کے دو ساتھیوں کو ۲۳ مارچ، ۱۹۳۱ کو پھانسی دے دی گئی۔ (ورما، جو ان میں سب سے نوجوان تھے، کو پانچ سال کی قید بامشقت کی سزا ملی)۔ ٹھیک ایک سال بعد ان سب کی شہادت کی پہلی برسی کے موقع پر، اور دیکھتے ہی گولی مار دینے کے آرڈر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ۱۶ سال کے ہری کشن سنگھ سرجیت نے ہوشیار پور کی ضلعی عدالت سے برطانوی پرچم کو اتار کر اسے پھاڑ دیا اور اس کی جگہ پر ترنگا لہرا دیا۔

’’سچ تو یہ تھا کہ یونین جیک کو اتار پھینکنے کی اپیل کانگریس پارٹی کے ذریعے کی گئی تھی، لیکن بعد میں انہوں نے اپنے قدم پیچھے کر لیے۔ سرجیت نے یہ فیصلہ خود سے کیا تھا، اور بعد میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے،‘‘ پاری سے بات کرتے ہوئے مقامی مؤرخ اجمیر سدھو بتاتے ہیں۔ کئی دہائی کے بعد، یادداشتوں کے گلیارے میں جھانکتے ہوئے سرجیت کہتے ہیں، ’’اُس دن جو میں نے کیا، اس پر مجھے آج بھی فخر ہے۔‘‘ ترنگا لہرانے کے اس واقعہ کے تقریباً ساٹھ سال بعد، سرجیت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسوادی) کے جنرل سکریٹری کے عہدہ پر فائز ہوئے۔

PHOTO • Daily Milap / courtesy Prof. Chaman Lal
PHOTO • Courtesy: Prof Chaman Lal

لاہور سازش کے معاملے پر ’دی ڈیلی ملاپ‘ میں ۱۹۳۰ کی دہائی میں شائع ہوا ایک پوسٹر (بائیں)۔ پریم دت ورما (دائیں) جنہوں نے انقلابی سے سرکاری گواہ بنے جے گوپال پر بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف سماعت کے دوران عدالت کے اندر چپل پھینکی تھی

PHOTO • Courtesy: Amarjit Chandan
PHOTO • P. Sainath

بائیں: سال ۱۹۳۲میں ہری کشن سنگھ سرجیت نے ہوشیار پور کی ضلعی عدالت میں لہراتے برطانوی پرچم کو اتار کر پھاڑ ڈالا اور اس کی جگہ ہندوستانی ترنگا لہرانے کا شجاعتی کام کیا، جب کہ اس وقت وہ صرف ۱۶ سال کے تھے۔ یہ اس زمانے کی تصویر ہے، جب انہوں نے ۱۹۶۷ میں پنجاب کی پھلّور اسمبلی سیٹ پر جیت حاصل کی تھی۔ دائیں: انقلابی شہید بھگت سنگھ کے بھتیجے پروفیسر جگموہن سنگھ (نیلے کپڑے میں) جھگیاں کے ساتھ رام گڑھ میں واقع ان کے گھر پر

سال ۱۹۳۲ میں جھنڈا لہرانے کے واقعہ کے کچھ سال بعد، سرجیت کے ساتھی بھگت سنگھ جھگیاں، جو عمر میں ان سے بہت چھوٹے تھے، نے محض ۱۱ سال کی عمر میں سب سے دلچسپ انفرادی مزاحمت کو انجام دیا۔ جھگیاں تیسری جماعت کے انعام حاصل کرنے والے ایک طالب علم تھے اور انہوں نے کلاس میں پہلا مقام حاصل کیا تھا۔ محکمہ تعلیم کی بڑی ہستیوں نے انہیں اسٹیج پر بلا کر مبارکباد دی تھی اور انہیں انعام دیا تھا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ بلند آواز میں کہیں ’برطانیہ زندہ باد، ہٹلر مردہ باد‘۔ جھگیاں سامعین کی طرف پلٹے اور نعرہ لگایا، ’برطانیہ مردہ باد، ہندوستان زندہ باد۔‘

انہیں اسٹیج سے نیچے پھینک دیا گیا، جم کر ان کی پٹائی کی گئی اور اسکول سے ہمیشہ کے لیے نکال دیا گیا۔ لیکن، زندگی کی آخری سانس تک جھگیاں کو اپنے کارنامہ پر فخر رہا۔ آپ یہاں ان کی اسٹوری پڑھ سکتے ہیں ، جہاں جھگیاں نے ۲۰۲۲ میں اپنی موت سے بمشکل سال بھر پہلے پاری کے بانی ایڈیٹر پی سائی ناتھ سے بات چیت کی تھی۔ تب ان کی عمر ۹۵ سال ہو چکی تھی۔

انھیں جذبات کی گونج اس ۱۲ جون کو بھی سنائی دی، جب کلوندر کور کے بھائی شیر سنگھ مہیوال، جن کے پاس قابل کاشت چھ ایکڑ زمین ہے، اپنی بہن سے موہالی میں ملنے کے بعد میڈیا سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے، ’’اس نے جو کچھ بھی کیا، اس کی پشیمانی نہ اس کو ہے اور نہ ہم سب کو ہے۔ اس لیے معافی مانگنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا ہے،‘‘ انہوں نے اعلان کرتے ہوئے کہا۔

پنجاب میں حالیہ دنوں بھی انفرادی مزاحمت کے ایسے بے خوف واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ کسانوں کی خود کشی، نشہ خوری کی عادت اور بڑے پیمانے پر پھیلی بے روزگاری کے ماحول کے درمیان ۲۰۱۴ پنجاب کے کاٹن بیلٹ کے لیے ایک انتشار انگیز دور تھا۔ ہر طرف نا امیدی کو دیکھتے ہوئے وکرم سنگھ دھنولا اپنے گاؤں سے تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے کھنّا شہر پہنچے، جہاں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل ۱۵ اگست، ۲۰۱۴ کو ترنگا لہرانے والے تھے۔

PHOTO • Courtesy: Vikram Dhanaula
PHOTO • Shraddha Agarwal

سال ۲۰۱۴ میں وکرم سنگھ دھنولا (بائیں) نے بے روزگار نوجوانوں اور متاثرہ کسانوں کے تئیں حکومت کی بے رخی کے خلاف احتجاج درج کراتے ہوئے وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل پر جوتا پھینک دیا تھا۔ سال ۲۰۲۱ میں پنجاب کی خواتین نے کسان آندولن (دائیں) میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا

بادل نے ابھی اپنی تقریر شروع ہی کی تھی کہ دھنولا نے اپنا جوتا ان کی طرف اچھال دیا۔ ’’میں آسانی سے جوتے کو ان کے چہرے پر مار سکتا تھا، لیکن میں نے جان بوجھ کر اسے پوڈیم کی طرف پھینکا۔ میں صرف اتنا چاہتا تھا کہ وہ بے روزگار نوجوانوں اور فرضی بیجوں اور حشرہ کش ادویات کی فروخت کے سبب خودکشی کرنے کو مجبور کسانوں کی تکلیفوں پر دھیان دیں۔‘‘

دھنولا، جو اب بھی برنالہ ضلع کے دھنولا گاؤں میں رہتے ہیں، نے ۲۶ دن جیل میں گزارے۔ کیا انہوں نے جو کیا اس پر انہیں کوئی پشیمانی بھی ہے؟ ’’جو کلوندر نے کیا یا جو میں نے آج سے دس سال پہلے کیا، وہ آدمی تب کرتا ہے جب کوئی اور راستہ نہ بچا ہو اور آپ کو دور دور تک امید کی کوئی کرن نہیں دکھائی دیتی ہو،‘‘ وہ پاری سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ برطانوی راج سے لے کر آج کی بی جے پی حکومت تک، ہر زمانے میں احتجاج کی یہ آواز اپنی پوری طاقت اور ضد کے ساتھ موجود رہی ہے – یہ پرواہ کیے بغیر کہ اس کے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

پنجاب کے ساتھ کنگنا رنوت کے تعلقات کے نئے زاویے ۲۰۲۰ میں دکھائی دیے، جب کسان آندولن اپنے عروج پر تھا اور کنگنا نے تین متنازع زرعی قوانین کی مخالفت میں دھرنے پر بیٹھیں خواتین مظاہرین کے بارے میں ہتک آمیز تبصرے کیے، حالانکہ مرکزی حکومت نے ان قوانین کو آخرکار ۱۹ نومبر، ۲۰۲۱ کو واپس لے لیا تھا۔ ’’ہا ہا ہا ہا، یہ وہی دادی ہیں جنہیں ٹائم میگزین نے سب سے طاقتور ہندوستانی کے طور پر پیش کیا تھا…اور وہ یہاں صرف ۱۰۰ روپے کے لالچ میں آ گئی،‘‘ کنگنا نے ٹویٹ کیا تھا۔

ایسا لگتا ہے پنجاب کے لوگ کنگنا کے ذریعہ ادا کیے گئے ان الفاظ کو بھولے نہیں ہیں۔ وہ دوبارہ لوگوں کے کانوں میں ۶ جون کو گونجنے لگے، جب کلوندر کور نے کہا، ’’اس نے [کنگنا نے] ایسا بیان دیا کہ کسان دہلی میں ۱۰۰ یا ۲۰۰ روپے کے لالچ میں آندولن کر رہے تھے۔ اس وقت آندولن کرنے والوں میں میری ماں بھی شامل تھیں۔‘‘ حالانکہ، کسی نے ابھی تک یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ انہوں نے کلوندر کے ذریعہ مبینہ طور پر کنگنا کو تھپڑ مارنے والا منظر دیکھا ہے۔ لیکن، جو کچھ بھی ہوا اس کی شروعات ۶ جون کو نہیں ہوئی تھی۔

پنجاب میں اچانک ہونے والی ان انفرادی مزاحمتوں کو درج کرانے والوں میں زیادہ تر لوگ عام شہری ہیں اور ان کا تعلق انتہائی معمولی اقتصادی و سماجی پس منظر سے ہے

ویڈیو دیکھیں: کنگنا کے بیان کے خلاف پھوٹے غصے کی سابق کہانی

گزشتہ ۶ جون کو چنڈی گڑھ ایئر پورٹ پر رونما ہوئے اس مبینہ ’تھپڑ‘ تنازع سے بہت پہلے ۳ دسمبر، ۲۰۲۱ کے دن کنگنا رنوت جب منالی سے واپس لوٹ رہی تھیں، تب پنجاب میں داخل ہونے سے قبل ان کی کار کو خواتین کسانوں کے ذریعہ روک دیا گیا۔ پیچھا چھڑانے کا کوئی راستہ نہ دیکھ کر آخرکار کنگنا کو اپنے تبصرہ کے لیے معافی مانگنی پڑی۔ کلوندر کے علاوہ ان کے بھائی شیر سنگھ مہیوال اور ان کے رشتہ داروں کے لیے اس خاندان کے عز و وقار سے جڑا ایک سنگین معاملہ تھا۔

’’ہمارے خاندان کی کئی نسلیں سیکورٹی دستوں میں نوکری کرتی آ رہی ہیں،‘‘ مہیوال پاری سے بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔ ’’کلوندر سے پہلے میرے دادا جی کی فیملی کے پانچ ممبر فوج میں تھے۔ میرے دادا جی خود ایک فوجی تھے، اور ان کے پانچ میں سے تین بیٹوں نے ہندوستانی فوج کو اپنی خدمات فراہم کیں۔ وہ اپنے ملک کے لیے ۱۹۶۵ اور ۱۹۷۱ کی جنگوں میں بھی لڑے۔ اس کے بعد بھی آپ کو لگتا ہے کہ ہمیں اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے؟ وہ بھی کنگنا جیسی شخصیت سے، جو ہمیں دہشت گرد کہتی ہے؟‘‘ شیر سنگھ مہیوال کہتے ہیں۔

کلوندر کو ان کی سروس سے معطل کر دیا گیا ہے۔ کلوندر (۳۵) جن کی شادی ایک دوسرے سی آئی ایس ایف کانسٹیبل سے ہوئی ہے، کے دو بچے ہیں – پانچ سال کا ایک بیٹا اور نو سال کی ایک بیٹی۔ اس واقعہ کے بعد اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی سی آئی ایس ایف کی نوکری جا بھی سکتی ہے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ پنجاب کے بارے میں جانتے ہیں، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ انفرادی طور پر اپنا احتجاج درج کرانے والوں کو بیشک اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے، لیکن ان کی اس ہمت میں خوبصورت مستقبل کی کونپلیں بھی پوشیدہ ہیں۔ ’’جوگا اور کور اس بات کی علامت ہیں کہ ہمارے خواب ابھی مرے نہیں ہیں،‘‘ سی پی آئی کے سابق رکن اسمبلی ہردیو سنگھ عرشی کہتے ہیں۔ چھ دہائی قبل عرشی، جوگا کے ساتھ ہی کام کرتے تھے۔ وہ بنیادی طور پر داتیواس گاؤں کے ہیں، جو جاگیر سنگھ جوگا کے گاؤں جوگا سے تقریباً ۲۵ کلومیٹر دور ہے۔ دونوں گاؤں آج کی تاریخ میں منسا ضلع میں ہیں۔

جوگا ۱۹۵۴ میں جب پنجاب اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے تھے، تب وہ نابھا جیل میں بند تھے۔ سرجیت، بھگت سنگھ جھگیاں اور پریم دتّ ورما پنجاب کی انفرادی مزاحمتوں کی طویل روایت اور جدوجہد کی تاریخ کا حصہ ہیں۔

پورے واقعہ پر کلوندر کے بھائی شیر سنگھ مہیوال کا ردعمل سننے کے لیے یہ ویڈیو دیکھیں

انفرادی طور پر اپنا احتجاج درج کرانے والوں کو بیشک اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے، لیکن ان کی اس ہمت میں خوبصورت مستقبل کی کونپلیں بھی پوشیدہ ہیں

بہرحال، پورے پنجاب اور چنڈی گڑھ میں کلوندر کور کی حمایت میں ریلیاں نکالنے اور احتجاجی مظاہرے کرنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ ریلیاں اور مظاہرے تھپڑ کا جشن منانے یا اس واقعہ کو صحیح ٹھہرانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ لوگوں کی نظروں میں وہ جو کر رہے ہیں، وہ ایک معمولی کانسٹیبل کی حمایت میں ہے جس نے اس طاقتور ہستی اور رکن پارلیمنٹ کی مخالفت کرنے کی ہمت دکھائی، جس نے پنجاب کے کسانوں کے عز و وقار سے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی۔ سیدھے لفظوں میں کہیں، تو وہ کلوندر کے کیے کو پنجاب میں انفرادی اور از خود رونما ہونے والی مزاحمتوں کی روایت کے ایک سلسلہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔

پورے واقعہ کے بعد ریاست بھر میں اس واقعہ پر مبنی نظموں، گیتوں، میمس اور کارٹونوں کا گویا سیلاب سا آ گیا ہے۔ آج پاری اس رپورٹ کے ساتھ ایسی ہی ایک نظم بھی پیش کر رہا ہے، جس کے شاعر پنجابی ٹربیون کے سابق ایڈیٹر اور مشہور ڈرامہ نگار سوراج بیر سنگھ ہیں۔

ممکن ہے کہ بہت سارے انعامات، قانونی مدد، اور اپنی حمایت میں احتجاجی مظاہرے کے درمیان – کلوندر کور سیکورٹی فورس کی اپنی نوکری سے ہمیشہ کے لیے ہاتھ دھو بیٹھیں، لیکن جوگا کی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں پنجاب اسمبلی میں کوئی بڑی ذمہ داری ان کا انتظار کر رہی ہو۔ پنجاب میں پانچ اسمبلی حلقوں کے لیے انتخاب جلد ہی ہونے والے ہیں۔ پنجاب کے بہت سے لوگوں کو امید ہے کہ وہ الیکشن لڑیں گی۔

PHOTO • PARI Photos

بائیں: واقعہ کے بعد چنڈی گڑھ ایئر پورٹ پر کلوندر کور۔ دائیں: کنگنا رنوت کے خلاف اور کلوندر کی حمایت میں ۹ جون، ۲۰۲۴ کو موہالی میں نکلی ایک ریلی

___________________________________________________

بتا دے ماں، بتا دے

سوراج بیر

بتا دے ماں، بتا دے
بتا دے دل کا حال
میرے دل میں اٹھے ابال، ماں
مگر بن نہ سکیں یہ بول
میرے دل میں اٹھے ابال، ماں۔

بتا دے ماں، بتا دے
بتا دے ماں، بتا دے
کون روز ہی تھپڑ مارتا ہے؟
اور چیخ کے پردے پھاڑتا ہے؟

تھپڑ تو سکّدار* مارے ہیں،
تھپڑ تو زردار مارے ہیں۔
ہر روز غریب کو مار پڑے،
سرکار کے جھوٹے قرار، ماں۔

مگر کبھی کبھی
کبھی کبھی
کوئی تھکی ہاری غریب، ماں
اٹھے دل میں خیال عجیب، ماں۔
وہ اپنے ہاتھ اٹھاتی ہے،
سکّداروں کو للکارتی ہے۔

یہ تھپڑ بس نہ تھپڑ ہے
یہ میرے دل کی چیخ، ماں
کوئی غلط کہے، کوئی ٹھیک کہے
یہ میرے دل کی چیخ، ماں
کچھ غلط، تو کچھ کچھ ٹھیک، ماں۔

اپنوں کے ساتھ تو بیٹھی تھی
کیے زرداروں نے سوال، ماں
میرے دل میں پڑی تھی کسک، ماں
یہ میرے دل کی کوک، ماں
یہ میرے دل کی ہوک، ماں
یہ میرے دل کی چیخ، ماں
کچھ غلط، تو کچھ کچھ ٹھیک، ماں۔

( * سکّدار: یعنی جس کا سکہ چلتا ہو، سردار)

سوراج بیر سنگھ مشہور ڈرامہ نگار، صحافی اور پنجابی ٹربیون کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

مترجم: قمر صدیقی

Vishav Bharti

विशव भारती चंडीगढ़ स्थित पत्रकार हैं, जो पिछले दो दशकों से पंजाब के कृषि संकट और प्रतिरोध आंदोलनों को कवर कर रहे हैं.

की अन्य स्टोरी Vishav Bharti
Editor : P. Sainath

पी. साईनाथ, पीपल्स ऑर्काइव ऑफ़ रूरल इंडिया के संस्थापक संपादक हैं. वह दशकों से ग्रामीण भारत की समस्याओं की रिपोर्टिंग करते रहे हैं और उन्होंने ‘एवरीबडी लव्स अ गुड ड्रॉट’ तथा 'द लास्ट हीरोज़: फ़ुट सोल्ज़र्स ऑफ़ इंडियन फ़्रीडम' नामक किताबें भी लिखी हैं.

की अन्य स्टोरी पी. साईनाथ
Illustration : Antara Raman

अंतरा रमन, सामाजिक प्रक्रियाओं और पौराणिक कल्पना में रुचि रखने वाली एक इलस्ट्रेटर और वेबसाइट डिज़ाइनर हैं. उन्होंने बेंगलुरु के सृष्टि इंस्टिट्यूट ऑफ़ आर्ट, डिज़ाइन एंड टेक्नोलॉजी से स्नातक किया है और उनका मानना है कि कहानी और इलस्ट्रेशन की दुनिया सहजीविता पर टिकी है.

की अन्य स्टोरी Antara Raman
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पीपुल्स आर्काइव ऑफ़ रुरल इंडिया के ट्रांसलेशन्स एडिटर, उर्दू, हैं। वह दिल्ली स्थित एक पत्रकार हैं।

की अन्य स्टोरी Qamar Siddique