مایا پرجاپتی اینٹوں کی ایک خستہ حال جھونپڑی کے باہر چارپائی پر بیٹھی ہیں۔ وہ پورے دن مٹی کے مجسمے بنانے کے بعد تھوڑا آرام کر رہی ہیں۔
وہ کمرے کے اندر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فخریہ انداز میں کہتی ہیں، ’’یہ سب میں نے ہی بنایا ہے۔‘‘ مدھم روشنی والے کمرے کے کونے میں مختلف سائز کے سینکڑوں دیئے اور مٹی کے برتن رکھے ہوئے ہیں جبکہ فرش پر گڑیا اور مجسمے یونہی بکھرے ہوئے ہیں۔
مایا، جن کی عمر تقریباً چالیس برس ہے، بتاتی ہیں، ’’یہ سب دیوالی کی تیاری کے لیے ہے۔ ہم اس تہوار کے موقع پر زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے سال بھر سخت محنت کرتے ہیں۔‘‘
اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے مضافات میں واقع چنہٹ کے اس کمہاروں کے محلہ میں، مایا اس علاقے کی چند ہنرمند خواتین کارکنوں میں سے ایک ہیں۔ ’’یہاں مٹی کے برتن بنانا بنیادی طور پر مردوں کا ذریعہ معاش ہے۔ خواتین اس میں مدد کرتی ہیں، کیونکہ انہیں گھر کے دوسرے کام بھی کرنے پڑتے ہیں۔ میرے ساتھ بہرحال معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔‘‘
چند سال قبل مایا پرجاپتی کے شوہر کے انتقال کے بعد، انہیں اپنی اور اپنے دو بچوں کی کفالت کے لیے اپنے شوہر کی ذمہ داریاں نبھانا پڑیں۔ ’’حال ہی میں میرے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا، اور اب میں ہی گھر میں اکلوتی کمانے والی ہوں؛ اسی طرح میں اپنا پیٹ پالتی ہوں۔ میں اب بھی اپنی ضرورتوں کو پورا کرسکتی ہوں کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ یہ کیسے کرنا ہے۔‘‘
اگرچہ مایا نے حال ہی میں یہ کام کرنا شروع کیا ہے، لیکن مٹی کو ڈھالنے کا کام وہ بچپن سے ہی کرتی آ رہی ہے۔ ’’میں نے بچپن سے ہی گڑیا، مجسمے اور مورتیاں، مٹی کی بہت سی دیگر آرائشی چیزیں بنانا شروع کر دی تھیں، کیونکہ ہمارے گھر میں سب لوگ یہی کرتے تھے۔ تب شاید میں ۶ یا ۷ سال کی رہی ہوں گی۔‘‘ بیس سال پہلے ان کی شادی ہوئی اور وہ چنہٹ آ گئیں۔ ’’آج، میں عام استعمال کی چیزیں بنا سکتی ہوں: برتن، شیشے اور دیئے، لیکن مجھے گڑیا اور مورتیاں بنانے میں سب سے زیادہ مزہ آتا ہے۔‘‘
وہ مزید کہتی ہیں، ’’ان کو بنانے کے لیے بہت صبر کی ضرورت ہوتی ہے، برسوں کی محنت کے بعد میں نے یہ مہارت حاصل کی ہے۔ میرے پاس مختلف چیزوں کے سانچے موجود ہیں۔ میں ان میں نرم مٹی ڈالتی ہوں، اور پھر جب یہ سوکھ جاتے ہیں تو میں انھیں رنگ دیتی ہوں۔ پینٹنگ کرنا سب سے مشکل کام ہے، اور یہ وقت طلب بھی ہے۔‘
مایا کا کہنا ہے کہ دیوالی میں ہی وہ موقع ہاتھ آتا ہے جب ان کی بنائی ہوئی چیزیں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ اس تہوار کے لیے سال بھر تیاریاں چلتی رہتی ہیں۔ ’’دیوالی ان آرائشی لوازمات [مٹی سے بنائے گئے خوبصورت دیئے اور برتن] کو فروخت کرنے کا سب سے اچھا وقت ہوتا ہے؛ ہم چنہٹ بازار میں یہ سامان سینکڑوں کی تعداد میں بیچتے ہیں۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کاروباری لوگ مٹی کے سامان خریدنے کے لیے ہمارے گھر آتے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ’’سال کے بقیہ ایام میں فروخت غیر متوقع ہوتی ہے، اس لیے دیوالی کے دوران ہم جو کمائی کرتے ہیں اس میں بچت کرنا ہمارے لیے ضروری ہے۔‘‘
حالانکہ مٹی کے برتنوں سے حاصل ہونے والی رقم اس میں صرف کی گئی محنت کے برابر بھی نہیں ہے۔ پھر بھی، مایا اپنے آبائی ہنر پر شکر ادا کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ مشکل وقت میں یہی ان کے زندہ رہنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
محلہ کے دوسری طرف، ایک پرانے اسپیکر سے تیز آواز کے ساتھ پنجابی دھن بج رہی ہے، جس میں جلتی ہوئی آگ کی چٹخ اور کمہار کے پہیے کی گڑگڑاہٹ کی آوازیں دب سی گئی ہیں۔
دیش راج ہنستے ہوئے کہتے ہیں ’’جب ہم کام کرتے ہیں تو میرے بچے اس دوران کچھ نہ کچھ سننا پسند کرتے ہیں۔‘‘ دیش راج گزشتہ ۴۰ برسوں سے مٹی کے برتنوں سمیت کچھ بہترین قسم کے نوادرات بنانے کا کام رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ موسیقی ایک عام اور بوجھل دن میں تھوڑا جوش پیدا کردیتی ہے۔
یہ ماہر کاریگر اپنی تھکی ہوئی لیکن ہنرمند انگلیوں کو بڑے ہی سلیقے سے حرکت دیتے ہیں، اور گھومتے ہوئے پہیے پر یکے بعد دیگرے برتن بنانے کے لیے گیلی مٹی کو ڈھالتے ہیں۔ اور جب کچی مٹی برتن کی شکل میں ڈھل کر مکمل ہو جاتی ہے، تو وہ اپنے جزوی طور پر بنے ہوئے مکان کی چھت پر بڑے ہی احتیاط کے ساتھ چالیس عدد صاف ستھری قطاروں میں اسے ترتیب سے رکھتے جاتے ہیں۔
اس دوران احاطے میں لگی بھٹی سے دھواں نکلتا رہتا ہے، جہاں گزشتہ رات کے برتن پکائے جا رہے ہیں۔ دھوئیں کا غبار ان کے گھر میں بھر جاتا ہے، لیکن دیش راج کے کنبہ کے افراد (دو بیٹے، ان میں سے ایک کی بیوی اور دو چھوٹے بچے) جو دوپہر میں گھر پر ہی موجود تھے، دھوئیں سے بالکل غیرمتاثر اور بے پرواہ نظر آ رہے ہیں۔ وہ اپنا کام کاج کرتے رہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’’میں بہت کچھ بنانا جانتا ہوں: برتن، کپ، دیئے، پلیٹیں اور دیگر آرائشی سازوسامان۔ ان دنوں میں کُجّی [پوجا میں استعمال ہونے والے چھوٹے برتن] بنا رہا ہوں، جو چھٹھ پوجا میں کام آئیں گے۔‘‘ چھٹھ پوجا ہندوؤں کا ایک تہوار ہے جس میں سورج کی پوجا کی جاتی ہے، اور یہ تہوار عام طور پر اکتوبر یا نومبر میں منایا جاتا ہے۔
’’میں ایک دن میں ۱۰۰۰ سے لے کر ۱۲۰۰ چیزیں بنا سکتا ہوں اور پھر انہیں ۱۵ روپے درجن کے حساب سے فروخت کرتا ہوں۔ بعض اوقات اگر خریدار سودے بازی کرتا ہے تو ہم اسے ۱۰ روپے درجن میں بھی بیچ دیتے ہیں۔‘‘
مٹی کے چھوٹے نوادرات، جو ایک روپے سے کچھ زیادہ میں فروخت ہوتے ہیں، ایک طویل اور محنت کش عمل کے بعد اپنی حتمی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ دیش راج کا کہنا ہے کہ ان کا کام صبح چار بجے شروع ہوجاتا ہے، جب ان کا بیٹا تالاب سے مٹی کھودنے کے لیے چند کلومیٹر دور واقع لولئی گاؤں جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کام ان کے خاندان کے صرف مرد ہی کرتے ہیں۔ ان کا بیٹا صبح ۷ بجے تالاب سے مٹی کھود کر ای رکشہ سے گھر لاتا ہے۔
مٹی کو دھوپ میں خشک کرنے کے لیے پھیلا دیا جاتا ہے۔ اگلے مرحلے میں خشک اور وزنی مٹی کو کوٹنا اور اسے چھان کر اس میں سے پتھروں کو ہٹانا پڑتا ہے۔ بزرگ کمہار کا کہنا ہے کہ مٹی کو آٹے کی طرح ملائم کیا جاتا ہے۔ دیش راج دوپہر سے ہی چاک پر برتن بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک بار جب سارے برتنوں کو کچی شکل میں ڈھال دیا جاتا ہے تو پھر انہیں رات میں ہی بھٹے میں رکھ دیا جاتا ہے۔
دیش راج اپنے ہاتھوں کی پشت سے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے کہتے ہیں، ’’مٹی کے برتن بنانے کا سارا عمل وقت کے ساتھ ساتھ آسان ہو گیا ہے، لیکن اس میں لاگت بھی بہت بڑھ گئی ہے۔‘‘ پھر وہ کراہتے ہوئے اپنی درد والی ٹانگیں سیدھی کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
’’اب میں موٹر والا کمہار کا پہیہ استعمال کرتا ہوں۔ اس سے پہلے میرے پاس ایک دستی پہیہ تھا، جسے مجھے مسلسل اپنے ہاتھوں سے گھمانا پڑتا تھا۔ جہاں تک تالاب سے مٹی ڈھونے کا تعلق ہے، تو ہم پہلے اسے اپنے سروں پر اٹھا کر لاتے تھے۔ لیکن اب ہم لولئی گاؤں (تقریباً ۵ کلومیٹر دور) سے مٹی لانے کے لیے ای رکشہ کا استعمال کرتے ہیں۔
حالانکہ، ان سہولیات کے عوض انہیں اچھی خاصی قیمت بھی چکانی پڑ رہی ہے۔ ہمارے گھر کا ماہانہ بجلی کا بل تقریباً ۲۵۰۰ روپے آتا ہے، اور ای رکشہ پر ہر سفر میں ۵۰۰ روپے کا اضافی خرچ آتا ہے۔ ’’ہمارے کھانے پینے، گیس اور دیگر اخراجات کو اگر شامل کرلیں، تو آخر میں ہمارے پاس کچھ نہیں بچتا،‘‘ دیش راج یہ سب بڑے ہی دل شکستہ ہوکر کہتے ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ کسی اور کام کے بارے میں غور کر رہے ہیں، تو دیش راج اپنے کندھوں کو اچکاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں تو صرف یہی کام جانتا ہوں۔ میں ایک کمہار ہوں؛ مجھے نہیں معلوم کہ اور کچھ کیسے کرنا ہے۔‘‘ وہ علاقے کے دوسرے کمہاروں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جن کے جھکے ہوئے سر ان کی چھتوں سے نظر آ رہے ہیں، اور کہتے ہیں، ’’ہم سب کسی نہ کسی طرح سے ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں؛ ہم سب ایک ہی خاندان سے آتے ہیں۔ ہمارے آباء و اجداد اصلی کمہار تھے۔ ہم ان کی ہی اولاد ہیں۔‘‘
دیش راج بتاتے ہیں کہ اس محلے میں تقریباً ۳۰ خاندان آباد ہیں۔ ’’ہم ایک بڑے خاندان کی طرح رہتے ہیں۔ اپنی ۵۵ سالہ زندگی میں، میں نے پہلے اپنے دادا کو اور پھر اپنے والد کو برتن بناتے ہوئے دیکھا ہے، پھر میں نے یہی پیشہ اختیار کیا اور اب میرا بیٹا بھی اسی پیشہ سے منسلک ہے۔‘‘
کچھ سال پہلے جب ۱۴ سال کے شیو بنسل کے والد کا انتقال ہوگیا تھا، تب اس کی ماں نے بہت زیادہ شراب پینا شروع کر دیا تھا، جس کی وجہ سے اسے اپنا خیال خود رکھنا پڑا۔ وہ کہتا ہے، ’’مٹی کے برتنوں نے ہی مجھے امید اور سہارا دیا ہے۔‘‘
کام کی مجبوری کے سبب اس سال کے شروع میں اسے اپنا اسکول چھوڑنا پڑا۔ ’’اس گاؤں میں ہر کسی نے میری مدد کی ہے۔ میں نے سب سے کچھ نہ کچھ چیزیں سیکھی ہیں،‘‘ شیو بتاتا ہے۔ ’’میں ابھی بھی بہت اچھا کام نہیں جانتا ہوں، لیکن میں زیادہ تر چیزیں بنا سکتا ہوں۔ اس کے علاوہ، میں تالاب سے مٹی لانے میں دوسرے کمہاروں کی مدد بھی کرتا ہوں اور بھٹی میں آگ روشن کرنے میں بھی ان کی مدد کرتا ہوں؛ اس کے لیے وہ مجھے تھوڑے بہت پیسے دے دیتے ہیں۔‘‘ شیو اب اپنے والد کے گھر میں تنہا رہتا ہے۔
اپنی پریشان کن خانگی زندگی کے باوجود، شیو کا کہنا ہے کہ اس نے کمہاروں کے اس گاؤں میں کبھی تنہائی محسوس نہیں کی۔ ’’ہمارے درمیان بہت زیادہ پیار ہے، ہر کوئی مجھے جانتا ہے اور میرا خیال رکھتا ہے۔ کوئی کھانا دیتا ہے، کوئی کام دیتا ہے۔‘‘
وہ اپنے استاد ہیرالال پرجاپتی کے گھر جاتا ہے۔ شیو کہتا ہے، ’’چچا اس کام میں بہت ماہر ہیں، شاید یہ یہاں پر سب سے زیادہ ماہر ہیں۔ مجھے ان سے سیکھنا پسند ہے۔‘‘ ہیرالال نے ہنستے ہوئے شیو کی پیٹھ پر تھپکی دی۔ ’’میں یہ کام کافی عرصے سے کر رہا ہوں، ہم پڑھے لکھے لوگ نہیں ہیں، اس لیے ہم بچپن سے ہی یہ کام کر رہے ہیں۔‘‘
ہیرالال کا کہنا ہے کہ وہ اپنے معمول کے کام کے ساتھ ساتھ لکھنؤ کے ایک اسکول میں بھی جاتے ہیں اور طلباء کو مٹی کے برتن بنانا سکھاتے ہیں۔ ’’میں وہاں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بلند ترین سطح پر لے جاتا ہوں۔ جب ان کی سالانہ نمائش ہوتی ہے تو ہم ایسی چیزیں بناتے ہیں جو ہم نے پہلے نہیں بنائی تھیں۔ اس سال، دوسری چیزوں کے ساتھ، ایک چشمہ بنایا تھا! مجھے طلباء کو اپنا فن دکھانے میں بڑا اچھا لگتا ہے۔‘‘
"میں زیادہ جگہوں پر تو نہیں گیا، لیکن اسکول کے عملہ نے مجھے بتایا کہ نمائش میں سے میرے کچھ فن پارے آسٹریلیا میں رہنے والے لوگوں نے خریدے ہیں۔‘‘ وہ انتہائی مسرت آمیز اور بے یقینی کے ساتھ بار بار دہراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میرا فن آسٹریلیا میں دھوم مچا رہا ہے…‘‘
مترجم: سبطین کوثر