جسدیپ کور کو جب اپنی پڑھائی کے لیے اسمارٹ فون چاہیے تھا، تو ان کے والدین نے قرض میں لیے پیسوں میں سے انہیں ۱۰ ہزار روپے دیے۔ ان پیسوں کو واپس کرنے کے لیے ۱۸ سال کی جسدیپ نے ۲۰۲۳ کی اپنی گرمیوں کی چھٹیاں دھان کی روپائی میں گزاریں۔
یہ لڑکی اکیلی نوجوان دلت اسٹوڈنٹ نہیں ہے، جو پنجاب کے شری مُکتسر صاحب ضلع میں اپنی فیملی کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کھیتوں میں کام کرتی ہے۔
جسدیپ کہتی ہیں، ’’ہم کھیتوں میں خوشی سے نہیں، بلکہ اپنی فیملی کی مجبوری کے سبب کام کرتے ہیں۔‘‘ ان کی فیملی مذہبی سکھ ہے، جو پنجاب کی درج فہرست ذات میں شامل ہے۔ برادری کے زیادہ تر لوگوں کے پاس اپنی زمین نہیں ہے اور وہ اونچی ذات کے کسانوں کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔
والدین نے انہیں جو پیسے اُدھار دیے تھے وہ قرض کے تھے۔ گائے خریدنے کے لیے انہوں نے ایک مائیکرو فائنانس کمپنی سے ۳ لاکھ ۸۰ ہزار روپے کا قرض لیا تھا۔ اس سے تقریباً ۴۰ روپے لیٹر کے حساب سے دودھ بیچنے پر گھریلو خرچ چلانے لائق پیسے مل جاتے ہیں۔ شری مُکتسر صاحب ضلع کے کھُنڈے حلال گاؤں میں آمدنی کے ذرائع محدود ہیں – یہاں کی ۳۳ فیصد آبادی زرعی مزدور ہے۔
جسدیپ کو جب جون میں کالج کا امتحان دینا تھا، تب اسمارٹ فون سے انہیں کافی مدد ملی۔ وہ دھان کے کھیتوں میں کام کرنے کے بعد دو گھنٹے کی چھٹی کے دوران آن لائن امتحان دیتی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں کام چھوڑنے کا جوکھم نہیں اٹھا سکتی تھی۔ اگر میں اس کی بجائے کالج جاتی، تو اُس دن کی میری مزدوری کاٹ لی جاتی۔‘‘
پنجاب کے شری مُکتسر ضلع کے گورنمنٹ کالج میں کامرس کی سال دوئم کی طالبہ، جسدیپ کے لیے کھیتی باڑی کا کام کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ ۱۵ سال کی عمر سے ہی اپنی فیملی کے ساتھ کھیتوں میں کام کر رہی ہیں۔
وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، ’’دوسرے بچے گرمی کی چھٹیوں کے دوران اپنی نانی کے پِنڈ (گاؤں) جانے کی ضد کرتے ہیں۔ ہم جتنا ہو سکے، زیادہ سے زیادہ دھان کی روپائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
نوجوان جسدیپ نے مائیکرو فائنانس کمپنی سے لیے گئے ایک لاکھ روپے کے دو قرض چُکانے میں فیملی کی مدد کے لیے دھان کی روپائی کا کام شروع کیا تھا۔ دونوں قرض ایک موٹر سائیکل کی قیمت ادا کرنے کے لیے لیے گئے تھے، جو ان کے والد جسوندر نے ۲۰۱۹ میں خریدی تھی۔ فیملی نے ایک قرض پر ۱۷ ہزار روپے اور دوسرے پر ۱۲ ہزار روپے کا سود ادا کیا۔
جسدیپ کے بھائی بہن – منگل اور جگدیپ کور، دونوں ۱۷ سال کے ہیں۔ انہوں نے بھی ۱۵ سال کی عمر میں کھیتوں میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ ان کی ماں، ۳۸ سالہ راج ویر کور بتاتی ہیں کہ گاؤں میں زرعی مزدوروں کے کنبے ۸-۷ سال کی عمر سے بچوں کو کھیتوں میں لے جانا شروع کر دیتے ہیں، جہاں وہ اپنے ماں باپ کو کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ’’تاکہ جب بچے ہمارے ساتھ کام کرنا شروع کریں، تو انہیں مشکل نہ ہو۔‘‘
یہی نظارہ ان کے پڑوسی نیرو کی فیملی میں دیکھنے کو ملتا ہے، جس میں نیرو کی تین بہنیں اور ان کی بیوہ ماں ہیں۔ نیرو (۲۲) بتاتی ہیں کہ وہ کام کے لیے گاؤں سے باہر نہیں جا سکتے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میری ماں کو دھان کی روپائی کرنے میں پریشانی ہوتی ہے، کیوں کہ انہیں کالا پیلیا [ہیپیٹائٹس سی] ہے۔‘‘ سال ۲۰۲۲ میں ہوئی اس بیماری نے ۴۰ سال کی سرندر کور کو گرمی کے تئیں حساس بنا دیا ہے، جس کے اثر سے وہ فوراً بخار اور ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ انہیں بیوہ پنشن کی شکل میں ہر مہینے ۱۵۰۰ روپے ملتے ہیں، مگر یہ گھر چلانے کے لیے کافی نہیں ہوتا۔
اس لیے جب نیرو ۱۵ سال کی تھیں، تب سے وہ اور ان کی بہنیں دھان کی روپائی کر رہی ہیں، گھاس پھوس نکالتی ہیں اور کپاس چُنتی ہیں۔ بے زمین مذہبی سکھ خاندانوں کے لیے یہ آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔ نیرو کہتی ہیں، ’’ہماری تمام چھٹیاں کھیتوں میں مزدوری کرکے گزرتی تھیں۔ ہمیں صرف ایک ہفتہ ملتا تھا، جس میں ہم اپنی چھٹیوں کا ہوم ورک پورا کرتے تھے۔‘‘
حالانکہ، کام کرنے کے حالات خاص کر لمبی گرمیوں میں مشکل ہو جاتے ہیں۔ جیسے ہی دھان کے کھیتوں میں پانی گرم ہونا شروع ہوتا ہے، عورتوں اور لڑکیوں کو دوپہر میں سایہ تلاش کرنا پڑتا ہے، جو شام ۴ بجے کے بعد ہی دوبارہ کام شروع کر پاتی ہیں۔ یہ جسمانی طور پر مشکل کام ہے، مگر آمدنی کے لیے جسدیپ اور نیرو کے کنبوں کے پاس کوئی اور متبادل نہیں ہے۔
راج ویر اسکول کی سالانہ فیس، نئی کتابیں اور یونیفارم کی لاگت کا ذکر کرتے ہوئے پوچھتی ہیں، ’’اگر ہماری ساری کمائی اُن پر ہی خرچ ہو جائے گی، تو ہم گھر کیسے چلائیں گے؟‘‘
اپنے پکّے گھر کے آنگن میں مَنجی (بان والی چارپائی) پر بیٹھی وہ بتاتی ہیں، ’’ان دونوں کو اسکول جانا ہوتا ہے!‘‘ جگدیپ اپنے گاؤں سے ۱۳ کلومیٹر دور لکھّے والی کے گورنمنٹ گرلز سینئر سیکنڈری اسمارٹ اسکول میں پڑھتی ہیں۔
جسدیپ کہتی ہیں، ’’ہمیں لڑکی کی خاطر ٹرانسپورٹ وین سروس کے لیے ہر مہینے ۱۲۰۰ روپے دینے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ہمیں ان کے کاموں کے لیے پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ ہمیشہ کچھ نہ کچھ خرچ لگا رہتا ہے۔
جولائی میں، گرمی کی چھٹیوں کے بعد منگل اور جگدیپ کو اپنے اسکولی امتحان میں شامل ہونا ہے۔ فیملی نے انہیں چھٹیوں کے آخر میں کچھ دن کام سے آرام دینے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ وہ اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز کر سکیں۔
جسدیپ پُر امید ہیں کہ ان کے چھوٹے بھائی بہن پڑھائی میں اچھا کریں گے۔ حالانکہ، ضروری نہیں کہ گاؤں کے کئی دوسرے نوجوانوں کے لیے حالات ویسے ہوں۔ مَنجی پر اپنی ماں کے پاس بیٹھی وہ کہتی ہیں، ’’وہ جدوجہد کرتے رہتے ہیں اور اس سے انہیں تشویش ہونے لگتی ہے۔‘‘ جسدیپ اپنا کام کر رہی ہیں – وہ گاؤں میں کالج جانے والے دلتوں کے ایک گروپ کا حصہ ہیں، جو شام کو برادری کے بچوں کو مفت ٹیوشن دیتے ہیں۔ یہ کلاسز جون میں باقاعدگی سے نہیں ہو پاتیں، کیوں کہ ان میں سے زیادہ تر بچے صبح ۴ بجے سے شام ۷ بجے کے بعد تک کھیتوں میں ہی رہتے ہیں۔
*****
دھان کی روپائی زرعی مزدوروں کے بے زمین خاندانوں کو حاصل کچھ موسمی کاموں میں سے ایک ہے۔ ہر فیملی کو ایک ایکڑ زمین پر دھان کی روپائی کے لیے تقریباً ۳۵۰۰ روپے دیے جاتے ہیں۔ اگر نرسری کھیتوں سے تقریباً دو کلومیٹر دور ہے، تو ۳۰۰ روپے مزید دیے جاتے ہیں۔ اگر دو یا دو سے زیادہ کنبوں کو اس کام کے لیے ایک ساتھ لگایا جاتا ہے، تو وہ ۴۰۰ سے ۵۰۰ روپے فی کس یومیہ کما لیتے ہیں۔
حالانکہ، کھُنڈے حلال گاؤں میں کئی خاندان اب خریف سیزن کے دوران کام کی کمی کے بارے میں بتاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جسدیپ اور ان کے والدین نے اس سیزن میں ۲۵ ایکڑ زمین پر دھان لگایا، جو پچھلے سال کے مقابلے پانچ ایکڑ کم ہے۔ تینوں نے ۱۵ ہزار روپے کمائے۔ چھوٹے بھائی بہنوں میں سے ہر ایک نے سیزن کے لیے تقریباً ۱۰ ہزار روپے کمائے۔
کام کا دوسرا متبادل ہے سردیوں میں کپاس چُننا۔ جسدیپ کہتی ہیں کہ یہ اب پہلے جتنا کارآمد نہیں رہ گیا ہے۔ ’’کیڑوں کے حملے اور زیر زمین پانی کی گھٹتی ہوئی سطح کے سبب پچھلے ۱۰ سال میں کپاس کی کھیتی کم ہو گئی ہے۔‘‘
کام کے مواقع کم ہونے کا مطلب ہے کہ کچھ زرعی مزدور دوسرے کام کرنے لگتے ہیں۔ جسدیپ کے والد جسوندر، راج مستری تھے مگر جسم کے نچلے حصے میں درد رہنے کی وجہ سے انہوں نے یہ کام چھوڑ دیا۔ جولائی ۲۰۲۳ میں ۴۰ سال کے جسوندر نے مہندرا بولیرو کار خریدنے کے لیے ایک پرائیویٹ بینک سے قرض لیا اور اب وہ کار میں مسافروں کو لاتے لے جاتے ہیں۔ وہ اب بھی کھیت میں مزدوری کا کام کرتے ہیں۔ فیملی کو پانچ سال میں اس گاڑی کا قرض چُکانا ہوگا۔
دو سال پہلے تک نیرو کی فیملی گرمی کی چھٹیوں کے دوران کم از کم ۱۵ ایکڑ زمین پر دھان کی روپائی کرتی تھی۔ اس سال انہوں نے اپنے مویشیوں کے چارے کے عوض صرف دو ایکڑ زمین پر کام کیا۔
سال ۲۰۲۲ میں نیرو کی بڑی بہن، ۲۵ سالہ شکھاش نے ۲۶ کلومیٹر دور ڈوڈہ میں میڈیکل لیب اسسٹنٹ کے بطور کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ ان کی ۲۴ ہزار روپے کی ماہانہ تنخواہ سے گھر والوں کو کچھ راحت ملی، جنہوں نے ایک گائے اور ایک بھینس خریدی۔ لڑکیوں نے کم دوری کے سفر کے لیے ایک سیکنڈ ہینڈ [پہلے استعمال کی ہوئی] موٹر بائیک بھی خرید لی۔ نیرو بھی بہن کی طرح لیب اسسٹنٹ بننے کے لیے ٹریننگ حاصل کر رہی ہیں اور ان کی فیس گاؤں کی ایک فلاحی کمیٹی دیتی ہے۔
ان کی سب سے چھوٹی بہن، ۱۴ سالہ کمل نے گھر والوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کیا۔ جگدیپ کے ہی اسکول میں ۱۱ویں جماعت کی طالبہ، کمل مزدوری کے کام اور اسکول کی پڑھائی کے درمیان جدوجہد کر رہی ہے۔
*****
پنجاب کھیت مزدور یونین کے جنرل سکریٹری ترسیم سنگھ کہتے ہیں، ’’گاؤں میں زرعی مزدوروں کے پاس اب اس موسم میں صرف ۱۵ دن کا کام رہتا ہے، کیوں کہ کسانوں نے ڈی ایس آر کو تیزی سے اپنایا ہے۔‘‘ جسدیپ اس سے متفق ہیں، اور بتاتی ہیں کہ پہلے دھان کی روپائی کرکے ان کی فیملی ۲۵ ہزار روپے تک کما لیتی تھیں۔
جسدیپ کی ماں، راج ویر افسردگی سے کہتی ہیں کہ اب، ’’کئی کسان مشینوں کا استعمال کرکے سیدھی بیجائی [چاول یا ڈی ایس آر کی سیدھی بوائی] کراتے ہیں۔ ان مشینوں نے ہماری مزدوری چھین لی ہے۔‘‘
نیرو مزید کہتی ہیں، ’’یہی وجہ ہے کہ گاؤں کے کئی لوگ کام کی تلاش میں دور دراز کے گاؤوں میں چلے جاتے ہیں۔‘‘ کچھ مزدوروں کا ماننا ہے کہ جب سے ریاستی حکومت نے ڈی ایس آر تکنیک اپنانے کے لیے ۱۵۰۰ روپے فی ایکڑ مالی مدد کا اعلان کیا ہے، تب سے مشینوں کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔
کھُنڈے حلال میں ۴۳ ایکڑ زمین کے مالک کسان گرپندر سنگھ پچھلے دو سیزن سے ڈی ایس آر تکنیک استعمال کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’مزدور یا مشین سے دھان روپنے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دھان کی سیدھی بوائی سے کسان صرف پانی بچاتا ہے، پیسہ نہیں۔‘‘
گرپندر (۵۳) کا کہنا ہے کہ وہ ڈی ایس آر کے ذریعے دو گنی مقدار میں بیج بو لیتے ہیں۔ مگر ان کا ماننا ہے کہ اس تکنیک سے کھیت سوکھے رہ جاتے ہیں، جس سے چوہوں کے لیے کھیت میں داخل ہونا اور فصل خراب کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’جب ہم زیادہ گھاس پھوس اُگنے کے سبب ڈی ایس آر کا استعمال کرتے ہیں، تو زیادہ حشرہ کش کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔ مزدور جب دھان کی روپائی کرتے ہیں، تو گھاس پھوس کا حملہ کم ہوتا ہے۔
اس لیے گرپندر جیسے کسانوں کو گھاس پھوس سے نجات پانے کے لیے پھر سے مزدوروں کو کام پر لگانا پڑتا ہے۔
ترسیم، جو مذہبی سکھ ہیں، سوال کرتے ہیں، ’’اگر نئی تکنیک اپنانے میں کوئی فائدہ نہیں ہے، تو کسان اس کے لیے زرعی مزدوروں کو کیوں نہیں لگاتے؟‘‘ وہ کہتے ہیں کہ کسانوں کو حشرہ کش تیار کرنے والی کمپنیوں کی جیبیں بھرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی، مگر وہ مزید کہتے ہیں، ’’ مزدوراں دے تاں کلّے ہتھ ہی نیں، اَووی ایہہ کھالی کرنانچ لگے ہیں [مزدوروں کے پاس تو صرف ہاتھ ہی ہوتے ہیں، اسے بھی یہ خالی کروانے پر لگے ہیں]۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز