ششی روپیجہ پورے اعتماد سے تو نہیں کہہ سکتیں، لیکن ان کو لگتا ہے کہ ان کے شوہر نے پہلی بار انہیں کشیدہ کاری کرتے ہوئے ہی دیکھا تھا۔ ’’انہوں نے ضرور مجھے کشیدہ کاری کرتے ہوئے دیکھا ہوگا، اور سوچا ہوگا کہ میں بہت محنتی رہی ہوں گی،‘‘ ششی ان خوبصورت یادوں کے بارے میں ہنستے ہوئے بتاتی ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں ایک پھلکاری ہے جسے ابھی مکمل کیا جانا باقی ہے۔
پنجاب میں یہ سردیوں کا دن ہے اور ششی پڑوس میں رہنے والی اپنی سہیلی بملا کے ساتھ بیٹھی ہوئی دھوپ کے مزے لے رہی ہیں۔ روزمرہ کی گفتگو کے درمیان بھی دونوں کے ہاتھ اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ لیکن گپ شپ لڑاتے ہوئے بھی ان کی توجہ اپنے ہاتھوں کی تیز سوئیوں سے نہیں بھٹکتی ہے۔ سوئیوں میں رنگین دھاگے لگے ہوئے ہیں، جن کی مدد سے دونوں پھلکاری کے پیٹرن بنا رہی ہیں۔
’’ایک دور تھا جب گھر گھر میں عورتیں پھلکاری کی کڑھائی کا کام کرتی تھیں،‘‘ لال دوپٹے پر ایک پھول کشیدہ کرنے کے دوران احتیاط سے اس پر ایک اور ٹانکہ لگاتے ہوئے پٹیالہ شہر کی یہ ۵۶ سالہ رہائشی بتاتی ہیں۔
پھلکاری پھولوں کے پیٹرن والی ایک کشیدہ کاری ہے، جسے عموماً دوپٹہ، شلوار قمیض اور ساڑی پر کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے کپڑے پر لکڑی کے نقاشی دار ٹکڑے کی مدد سے سیاہی سے ڈیزائن بنایا جاتا ہے۔ اس کے بعد کاریگر مارکنگ کے اندر اور آس پاس ریشم اور سوتی رنگین دھاگوں کی مدد سے کشیدہ کاری کرتے ہیں۔ دھاگے پٹیالہ شہر سے منگوائے جاتے ہیں۔
’’ہمارا محلہ تریپوری ہمیشہ سے پھلکاری کی وجہ سے مشہور رہا ہے،‘‘ ششی بتاتی ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ہریانہ سے تعلق رکھتی ہیں اور تقریباً چار دہائی قبل اپنی شادی کے بعد پنجاب کے پٹیالہ ضلع میں آ کر رہنے لگیں۔ ’’میں نے یہ ہنر تریپوری کی عورتوں کو دیکھ کر سیکھا ہے۔‘‘ ششی اس محلہ میں شادی کر کے آئیں اپنی بہن سے ملنے آئی تھیں، تبھی ان کی دلچسپی پھلکاری میں پیدا ہوئی۔ تب وہ ۱۸ سال کی تھیں، اور تقریباً سال بھر بعد ہی ان کی شادی یہیں رہنے والے ونود کمار سے ہو گئی۔
یہ ہنر جس کے لیے پنجاب، ہریانہ اور راجستھان کو ۲۰۱۰ میں جغرافیائی نشان (جی آئی) ٹیگ ملا تھا، اس علاقے کی عورتوں کے درمیان کافی مشہور ہے جو گھر میں رہ کر کام کرنا پسند کرتی ہیں۔ عام طور پر وہ ۲۰ سے لے کر ۵۰ کاریگروں کا ایک گروپ بنا لیتی ہیں اور کشیدہ کاری کے لیے آئے کاموں کو آپس میں بانٹ لیتی ہیں۔
’’اب ہاتھ سے پھلکاری کرنے والے کاریگر بہت کم رہ گئے ہیں،‘‘ ششی کہتی ہیں۔ سستے اور مشین سے بنے کشیدے نے اس ہنر پر اپنا قبضہ جما لیا ہے۔ اس کے باوجود بازار میں اس کاریگری کی قیمت ہے – تریپوری کے مرکزی بازار میں ایسی بہت سی دکانیں ہیں جہاں پھلکاری والے کپڑے فروخت ہوتے ہیں۔
ششی نے اپنے ہنر سے جب پہلی کمائی کی، تو اس وقت ان کی عمر محض ۲۳ سال تھی۔ انہوں نے ۱۰ سیٹ شلوار قمیض خریدا تھا اور ان پر کشیدہ کاری کر کے انہیں مقامی گاہکوں کے ہاتھوں فروخت کیا تھا۔ اس کام میں انہیں کل ۱۰۰۰ روپے کی کمائی ہوئی تھی۔ پھلکاری کے کام نے مشکل دنوں میں گھر چلانے میں ان کی مدد کی ہے۔ ششی کہتی ہیں، ’’بچوں کو پڑھانے کے علاوہ اور بھی بہت سے اخراجات تھے۔‘‘
ششی کے شوہر پھلکاری کا کام کرتے تھے اور جب ششی نے کام کرنا شروع کیا، تو وہ خسارہ میں چل رہے تھے۔ جب ان کی صحت گرنے لگی اور وہ زیادہ کام کرنے کی حالت میں نہیں رہے، تب ششی ہی آگے آئیں اور گھر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ ’’جب میرے شوہر مذہبی مقامات کی زیارت کرنے کے بعد گھر لوٹے، تب انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ میں نے ان کی ٹیلرنگ کی دکان کی شکل و صورت ہی بدل دی تھی،‘‘ یہ یاد کرتے ہوئے کہ کیسے انہوں نے دکان سے شوہر کی سلائی کی مشین ہٹا کر وہاں دھاگے اور ڈیزائن تیار کرنے والے لکڑی کے بلاک رکھ دیے تھے، ششی بتاتی ہیں۔ یہ سبھی سامان انہوں نے اپنے جمع کیے ہوئے ۵۰۰۰ روپے سے خریدے تھے۔
کشیدہ کاری کے کام میں مہارت رکھنے والی یہ بہادر کاریگر اُن دنوں کویاد کرتی ہیں جب وہ پٹیالہ شہر کے لاہوری گیٹ جیسے بھیڑ بھاڑ والے علاقہ میں اپنے ہاتھوں سے کی گئی پھلکاری والے کپڑے بیچنے جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ وہ ٹرین پکڑ کر ۵۰ کلومیٹر دور انبالہ ضلع میں چلی جاتی تھیں اور گھر گھر جا کر اپنا سامان بیچتی تھیں۔ ’’میں نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر جودھپور، جیسلمیر اور کرنال میں پھلکاری کے کپڑوں کی نمائش لگائی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ بہرحال، اب وہ اپنے تھکا دینے والے روزمرہ کے کاموں سے پریشان ہو چکی ہیں، اس لیے اب انہوں نے پھلکاری کپڑوں کو بیچنا چھوڑ دیا ہے اور اسے شوقیہ طور پر کرتی ہیں۔ اب ان کے صاحبزادے ۳۵ سالہ دیپانشو روپیجہ پھلکاری والے کپڑے بیچنے کا کام سنبھالتے ہیں اور پٹیالہ کے ماہر کاریگروں کی مدد سے اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔
’’مشین سے کڑھائی کا کام شروع ہونے کے بعد بھی، ہاتھ سے بنی پھلکاری کی آج بھی زبردست مانگ ہے،‘‘ دیپانشو کہتے ہیں۔ باریکی کے علاوہ دونوں طرح کی کڑھائی کی قیمتوں میں بھی فرق ہے۔ ہاتھ سے کڑھائی کیا گیا ایک پھلکاری دوپٹہ ۲۰۰۰ روپے میں فروخت ہوتا ہے، جب کہ مشین سے بنا ایک دوپٹہ صرف ۵۰۰ سے ۸۰۰ روپے میں۔
’’ہم کشیدہ کاری کیے گئے پھولوں کی گنتی اور ڈیزائن کی باریکی کی بنیاد پر پیسے ادا کرتے ہیں،‘‘ دیپانشو بتاتے ہیں۔ یہ کاریگر کی مہارت پر بھی منحصر ہے۔ عام طور پر ایک پھول کے لیے ادائیگی ۳ روپے سے لے کر ۱۶ روپے کے درمیان کچھ بھی ہو سکتی ہے۔
بلوندر کور (۵۵) بھی دیپانشو کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ وہ پٹیالہ ضلع کے میال گاؤں میں رہتی ہیں، اور مہینہ میں ۳ سے ۴ بار ۳۰ کلومیٹر کا سفر طے کر کے تریپوری واقع دیپانشو کی دکان تک جاتی ہیں۔ دکان میں ہی انہیں دھاگے اور کپڑے ملتے ہیں جس پر سیاہی سے پھلکاری کے ڈیزائن بنے ہوتے ہیں جن پر وہ کشیدہ کاری کرتی ہیں۔
بلوندر ایک ماہر کشیدہ کار ہیں اور وہ صرف دو دن میں ایک شلوار قمیض میں ۱۰۰ پھولوں کی کڑھائی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ’’کسی نے مجھے باقاعدہ طور پر پھلکاری کا کام نہیں سکھایا ہے،‘‘ بلوندر بتاتی ہیں، جو ۱۹ سال کی عمر سے ہی یہ کام کر رہی ہیں۔ ’’میرے گھر والوں کے پاس کھیتی کے لیے نہ تو زمین تھی اور نہ گھر میں سرکاری نوکری کرنے والا کوئی ممبر تھا،‘‘ تین بچوں کی ماں بلوندر کہتی ہیں۔ ان کے شوہر یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور تھے، لیکن جن دنوں بلوندر نے کام کرنا شروع کیا تھا اُن دنوں وہ بے روزگار تھے۔
بلوندر کو یاد آتا ہے، جب ان کی ماں کہتی تھیں، ’’ہُن جو تیری قسمت ہے تینوں مل گئی ہے۔ ہُن کجھ نا کجھ کر؛ تے کھا [تمہاری قسمت میں جو تھا، تمہیں مل گیا ہے۔ اب تمہیں جو کام ملتا ہے اسے کرو اور اپنا پیٹ بھرو]۔‘‘ ان کے کچھ شناساؤں کو تریپوری کے کپڑا تاجروں سے پھلکاری کڑھائی کا موٹا آرڈر ملتا تھا۔ ’’میں نے ان سے کہا کہ مجھے پیسوں کی ضرورت ہے اور ان سے کشیدہ کاری کے لیے دوپٹہ دینے کی درخواست کی۔ اور انہوں نے میری بات مان لی۔‘‘
جب شروع میں بلوندر کو پھلکاری کے کام کے لیے کپڑے دیے جاتے تھے، تو تاجر ان سے سیکورٹی ڈپازٹ مانگتے تھے۔ انہیں عموماً ۵۰۰ روپے ضمانت کے طور پر جمع کرنا ہوتا تھا۔ لیکن جلد ہی ’’تاجروں کو میرے کام پر اعتماد ہونے لگا،‘‘ بلوندر کہتی ہیں، اور ساتھ میں یہ بتانا نہیں بھولتی ہیں کہ تریپوری میں پھلکاری کپڑوں کا ہر بڑا تاجر ان کو پہچانتا ہے۔ ’’کام کی کوئی کمی نہیں ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں، اور یہ بھی بتاتی ہیں کہ انہیں کڑھائی کے لیے ہر مہینے تقریباً ۱۰۰ کپڑے مل جاتے ہیں۔ انہوں نے تو پھلکاری کشیدہ کاروں کا ایک گروپ بھی بنایا ہے جنہیں وہ اپنا وہ کام دے دیتی ہیں جو وہ نہیں کر پاتی ہیں۔ ’’میں کسی اور پر منحصر نہیں رہنا چاہتی ہوں،‘‘ ان کا کہنا ہے۔
تقریباً ۳۵ سال قبل جب انہوں نے کام کرنا شروع کیا تھا، تب بلوندر کو ایک دوپٹہ میں کڑھائی کرنے کے ۶۰ روپے ملتے تھے۔ اب اسی باریک اور خوبصورت کام کے انہیں ۲۵۰۰ روپے ملتے ہیں۔ بلوندر کے ہاتھ کی کچھ پھلکاریاں بیرونی ممالک جانے والے لوگ تحفے کے طور پر بھی لے جاتے ہیں۔ ’’میرا کام امریکہ اور کینیڈا جیسے دور دراز کے ممالک میں جاتا ہے۔ مجھے اچھا محسوس ہوتا ہے کہ میرا کام ان ممالک تک پہنچتا ہے جہاں میں خود کبھی نہیں جا پائی،‘‘ وہ فخر سے کہتی ہیں۔
اس رپورٹ کو مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) کی ایک فیلوشپ کے ذریعہ مالی تعاون حاصل ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز