’’کودلو! کودلو! پاترے کودلو! [بال! بال! برتن کے بدلے بال!]‘‘
ساکے سرسوتی کی اونچی آواز بنگلور کے ماتیکیرے کی سڑکوں پر گونجتی ہے۔ وہ گھر گھر جا کر المونیم کے برتنوں کے عوض لوگوں کے بال اکٹھا کرتی ہیں۔ ان ہلکے پھلکے برتنوں میں پانی رکھنے کے چھوٹے کنٹینر، دیغچی، پین، کرچھل، بڑی چھلنیاں اور کئی دوسرے برتن ہوتے ہیں۔
’’یہ کام میں نے اپنی بھابھی شیومّا سے سیکھا ہے۔ انہوں نے ہی مجھے اونچی آواز لگانا سکھایا، تاکہ زیادہ سے زیادہ گاہکوں کو متوجہ کیا جا سکے،‘‘ بنگلور کی یہ ۲۳ سالہ خوانچہ فروش کہتی ہیں۔
فیملی میں اس کام کو کرنے والی تیسری نسل سے تعلق رکھنے والی سرسوتی کہتی ہیں، ’’میری ماں گنگمّا یہ کام اپنی شادی کے پہلے سے کرتی آ رہی ہیں۔ لیکن پیٹھ اور گھٹنوں میں تیز درد کی شکایت کے بعد پہلے کے مقابلے انہوں نے پھیری لگانا بہت کم کر دیا ہے۔‘‘ ان کے والد پُلّنّا اور ماں گنگمّا، آندھرا پردیش سے تقریباً ۳۰ سال پہلے بنگلور آ گئے تھے۔
ان کی فیملی کورچھا برادری سے تعلق رکھتی ہے، جو آندھرا پردیش میں ایک دیگر پسماندہ طبقہ (او بی سی) کے طور پر درج ہے۔ ۸۰ سال کے پُلّنّا اب تاڑ کے سوکھے پتوں سے جھاڑو بناتے ہیں اور انہیں ۲۰ سے ۵۰ روپے میں بیچتے ہیں۔
ان کے والد کی آمدنی بہت کم تھی، اس لیے پانچ سال پہلے جب سرسوتی ۱۸ سال کی ہوئیں، تو انہوں نے کام کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت وہ اپنی بی کام کی پڑھائی کر رہی تھیں۔ ان کی فیملی شمالی بنگلور کے کونڈپّا لے آؤٹ میں رہتی ہے۔ ان کی فیملی میں ان کے ماں باپ، دو بڑے بھائی اور ان کی بیویاں اور بچے ہیں۔
سرسوتی پیر سے سنیچر تک روزانہ اپنے کالج جاتی ہیں۔ اتوار کے دن ان کا معمول صبح ۶ بجے شروع ہو جاتا ہے اور وہ گھر گھر گھوم کر لوگوں کے بال اکٹھا کرنے نکل جاتی ہیں۔ روانہ ہونے سے پہلے وہ فیملی کے لیے ناشتہ بناتی ہیں۔ ’’ہم باہر رہتے ہیں تو ادھر بچوں کو بھوک لگ جاتی ہے، اس لیے میں تھوڑا زیادہ ہی کھانا بنا کر نکلتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
سرسوتی اور ان کی بھابھی شیومّا اپنی ضرورت کا ساز و سامان لے کر کام پر نکل پڑتی ہیں۔ ان کے کندھے پر سرمئی رنگ کا ایک تھیلا لٹکا ہوتا ہے جس میں المونیم کے برتن اور ایک ویسا ہی اسٹیل کا کنٹینر ہوتا ہے جیسا کہ کسی دودھ والے کے پاس ہوتا ہے۔ کنٹینر میں وہ اکٹھا کیے گئے بالوں کو رکھتی ہیں۔
’’کام شروع کرنے سے پہلے ہم اپنا پیٹ بھرنا نہیں بھولتے ہیں،‘‘ سرسوتی کہتی ہیں۔ عموماً وہ ناشتے میں ایک پلیٹ اڈلی وڑا، ایک آملیٹ اور ایک مسالہ چائے لیتی ہیں۔
وہ کچھ علاقوں میں ہر ہفتے جانے کی کوشش کرتی ہیں جن میں ماتیکیرے، یلاہانکا نیو ٹاؤن، کلیان نگر، بناس واڑی اور وجے نگر جیسے علاقے شامل ہیں۔ سرسوتی کے گاہکوں میں زیادہ تر نچلے سے شروع ہو کر متوسط آمدنی والے علاقوں کے لوگ شامل ہیں۔
دونوں تقریباً ۱۰ گھنٹے کام کرتی ہیں اور اس درمیان کھانے کے بہانے صرف دو گھنٹے آرام کرتی ہیں۔
جن گھروں میں سرسوتی جاتی ہیں وہ پلاسٹک کے تھیلوں، کنٹینر، جار، ٹن کے بکسوں اور یہاں تک کہ استعمال شدہ دودھ کے پیکٹ میں بال اکٹھا کرتے ہیں۔
’’میں بال کی کوالٹی کی جانچ انہیں کھینچ کر کرتی ہوں،‘‘ سرسوتی کہتی ہیں، لیکن یہ کہنا بھی نہیں بھولتی ہیں، ’’بیوٹی پارلر میں جو بال کاٹے جاتے ہیں وہ بہت کام کے نہیں ہوتے ہیں۔‘‘ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جڑوں سے کٹے ’ریمی ہیئر‘ جمع کر سکیں۔ ’’جن کے کیوٹیکل کاٹے جانے کے بعد بھی سلامت بچے ہوں۔‘‘ بال کی کم از کم لمبائی بھی متعین ہوتی ہے جو چھ انچ ہونی چاہیے۔
پیمائش کا کوئی مناسب آلہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس کے لیے اپنی مٹھی کا استعمال کرتی ہیں، اور بال کی لمبائی کم از کم اتنی ضرور ہو کہ وہ مٹھی میں دو بار لپیٹے جا سکیں۔ پھر اُن بالوں کو گیند نما سائز میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔
بالوں کے ناپنے کا کام ختم کرکے سرسوتی یا ان کی بھابھی تھیلے سے المونیم کے ہلکے برتنوں کو باہر نکالتی ہیں اور جن سے انہیں سودا کرنا ہوتا ہے ان کے سامنے دو تجویزیں رکھتی ہیں۔ ’’اگر گاہک تھوڑا تول مول کرنے والا ہوتا ہے، تو وہ بہت تھوڑے سے بال کے عوض کوئی بڑا برتن پانے کی ضد کرتا ہے،‘‘ وہ تفصیل سے بتاتی ہیں۔
چونکہ برتن سبھی گھروں میں استعمال ہوتے ہیں، اس لیے وہ ایکسچینج کا ایک اچھا ذریعہ ہیں۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ کئی گاہک ابھی بھی پیسے لینے کی ضد کرتے ہیں۔ ’’لیکن ہم انہیں پیسے نہیں دے سکتے۔ صرف ۲۰-۱۰ گرام بالوں کے عوض وہ ۱۰۰ روپے کی قیمت چاہتے ہیں!‘‘
ایک دن میں وہ بمشکل ایک مٹھی بال ہی اکٹھا کر پاتی ہیں۔ کسی کسی دن تو وہ ۳۰۰ گرام سے بھی کم بال جمع کر پاتی ہیں۔ ’’ایسا بھی وقت آتا ہے جب میں بال لینے کے لیے گھروں میں جاتی ہوں تو جواب ملتا ہے – ’’بال ختم ہو گئے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’آپ جان بھی نہیں پاتے اور لوگ دوسرے علاقوں سے بال اکٹھے کرکے جا چکے ہوتے ہیں۔‘‘
سرسوتی اپنے اکٹھا کیے گئے بال پاروَتی امّا کے ہاتھوں فروخت کرتی ہیں۔ پاروَتی امّا ایک کاروباری ہیں۔
’’بالوں کی قیمت سیزن پر منحصر ہے۔ اس کام سے فیملی کو ہونے والی آمدنی کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی ہے۔ عموماً ایک کلو کالے بال پانچ سے چھ ہزار روپے کے درمیان کسی بھی قیمت پر فروخت ہوتے ہیں۔ لیکن بارش کے موسم میں قیمتیں گر کر تین چار ہزار روپے تک پہنچ جاتی ہیں۔‘‘
پاروَتی امّا بال کو اپنے ڈیجیٹل ترازو پر تولتی ہیں۔
کمپنیاں پاروَتی اماں سے بال خریدتی ہیں اور ان بالوں سے وِگ بناتی ہیں۔ ’’تقریباً ۵۰۰۰ عورتیں ان بالوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے ان کی صفائی کرنے کا کام کرتی ہیں،‘‘ ۵۰ سالہ پاروَتی بتاتی ہیں۔ ’’اس کام کے لیے وہ صابن، تیل اور شیمپو کا استعمال کرتی ہیں اور انہیں رات بھر کے لیے چھوڑ دیتی ہیں، تاکہ وہ اچھی طرح دھل جائیں۔ اس کے بعد انہیں اچھی طرح سے خشک کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد، بیچنے سے پہلے مرد کارکنوں کے ذریعے بالوں کی لمبائی چیک کی جاتی ہے۔‘‘
سرسوتی اپنے دن کا معمول پہلے ہی طے کر لیتی ہیں، ’’اگر مجھے آج برتن خریدنا ہوتا ہے، تو میں پاروَتی امّا سے کل بیچے گئے بالوں کے پیسے لے لیتی ہوں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’بالوں کو بیچنے کے لیے میں پورا مہینہ نہیں لگاتی۔ جیسے ہی مجھے بال ملتے ہیں ویسے ہی میں انہیں نمٹا دیتی ہوں۔‘‘
گھوم گھوم کر بال اکٹھا کرنے والی سرسوتی بتاتی ہیں کہ کام کے سلسلے میں انہیں روزانہ ۱۲ سے ۱۵ کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے، ’’بس کے کنڈکٹر ان کو کے ایس آر ٹی سی [ریاست] کی بسوں پر نہیں چڑھنے دیتے ہیں۔‘‘
وہ کہتی ہیں، ’’میرا جسم اتنی محنت برداشت نہیں کر پاتا ہے۔ دونوں کندھوں پر باری باری سے بوجھ اٹھانے کی وجہ سے میری گردن اور پیٹھ میں بہت درد ہونے لگتا ہے۔‘‘ لیکن اس کام کو جاری رکھنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔
وہ کہتی ہیں، ’’اس کام سے ہماری ضرورتیں مشکل سے ہی پوری ہو پاتی ہیں۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز