بوٹے ماجھی کو اپنے پوتے پوتیوں کی پرورش و پرداخت کی فکر ستائے جا رہی ہے۔ وہ چھ لڑکیوں اور دو لڑکوں کی دادی ہیں، اور ان کے بیٹے اپنے بچوں کو ان کے پاس چھوڑ گئے ہیں؛ بوٹے دادی کے پوتے پوتیوں میں سب سے چھوٹی چھ سال کی جانکی ہے۔ اوڈیشہ کے بلانگیر ضلع کے ہیال گاؤں کی رہنے والی ۷۰ سالہ گونڈ آدیواسی کہتی ہیں، ’’مجھے نہیں معلوم کہ ہم ان سب کی پرورش کیسے کریں گے۔‘‘

ان کے بیٹے نروپا ماجھی ۵۰ سال کے تھے، جب دو سال پہلے ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے گھر والوں کا ماننا ہے کہ اس کی وجہ کڈنی کا فیل ہونا تھا۔ مہاجر مزدور، نروپا اور ان کی ۴۷ سالہ بیوی نمنی، اینٹ کے بھٹوں پر کام کرنے کے لیے تلنگانہ، آندھرا پردیش اور تمل ناڈو جاتے تھے۔

نمنی بتاتی ہیں، ’’نومبر ۲۰۱۹ میں، ہم اینٹ بھٹے میں کام کرنے کے لیے چنئی گئے تھے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ ان کے گھر سے ۱۰ لوگ گئے تھے، جن میں ان کے ۵۰ سالہ شوہر نروپا، ان کا سب سے بڑا بیٹا جدھشٹر (۲۴ سالہ) اور اس کی ۲۱ سالہ بیوی پرملا، ۱۹ سالہ پورنمی، ۱۶ سالہ سجنے، ۱۵ سالہ کماری اور اس کے ۲۱ سالہ شوہر دنیش تھے۔ وہ مزید بتاتی ہیں، ’’ہم میں سے ہر ایک کو مقامی سردار [ٹھیکہ دار] کے ذریعے ۲۵ ہزار روپے کی پیشگی ادائیگی کی گئی تھی۔‘‘ ان لوگوں کے ساتھ ۱۰ سال کی سابتری اور ۶ سال کی جانکی بھی گئی تھی، جنہیں پیسے نہیں دیے گئے تھے۔

جون ۲۰۲۰ میں، کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن کے دوران وہ سبھی اپنے گاؤں لوٹ آئے تھے۔ حکومت اوڈیشہ نے لوٹنے والے مہاجر مزدوروں کے لیے اسکولوں اور کمیونٹی سنٹرز پر عارضی طبی سہولیات اور کوارنٹائن (الگ تھلگ) کرنے کا انتظام کیا تھا۔ نمنی یاد کرتی ہیں، ’’ہم گاؤں کے اسکول میں ۱۴ دن رہے۔ مجھے اور میرے شوہر کو ۲-۲ ہزار روپے [حکومت اوڈیشہ کی طرف سے] ملے تھے۔‘‘

Namani Majhi sitting with her children in front of their house in Hial village in Balangir district.
PHOTO • Anil Sharma
Her mother-in-law, Bute Majhi
PHOTO • Anil Sharma

بلانگیر ضلع کے ہیال گاؤں میں گھر کے سامنے بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئیں نمنی ماجھی۔ ان کی ساس بوٹے ماجھی

حالانکہ، جلد ہی چیزیں بدلنے لگیں۔ نمنی یاد کرتی ہیں، ’’وہ (نروپا) چنئی میں ہی بیمار پڑنے لگے تھے۔ سیٹھ [مقامی ٹھیکہ دار] انہیں گلوکوز کا پانی اور کچھ دوائیں دے دیا کرتا تھا۔ ان کی صحت سے جڑے مسائل گاؤں آنے کے بعد بھی جاری رہے۔‘‘ وہ علاج کے لیے انہیں کانٹا بانجی کے سرکاری اسپتال لے گئیں۔ نروپا کی ماں، بوٹے دادی کہتی ہیں، ’’میرے بیٹے کو رکت جھاڑا [پاخانہ میں خون آنا] شروع ہو گیا تھا۔‘‘

گھر والے انہیں سندھ کیلا اور رامپور کے بھی کئی سرکاری اسپتالوں میں لے گئے۔ آخرکار، کانٹا بانجی کے اسپتال میں ڈاکٹر نے ان کے اہل خانہ کو بتایا کہ نروپا کو کمزوری ہے۔ ’’ہمارے پاس پیسے نہیں تھے، اس لیے ہم لوگ واپس آ گئے اور پیسوں کا انتظام کرنے میں لگ گئے۔ جب ہم واپس اسپتال گئے، تو ڈاکٹر نے کہا کہ ان کی کڈنی خراب ہو رہی ہے۔‘‘

نمنی نے دوسرے متبادل تلاش کرنے کی کوشش شروع کردی اور دواؤں کی طرف رخ کیا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میرے گھر والوں نے مشورہ دیا کہ میں انہیں آیورویدک علاج کے لیے سندھ کیلا (۲۵ کلومیٹر دور) لے جاؤں۔ وہ ایک مہینہ سے زیادہ وقت سے دوائیں لے رہے تھے، لیکن ٹھیک نہیں ہوئے۔‘‘ جب نروپا کی صحت مزید خراب ہوئی، تب وہ انہیں ۴۰ کلومیٹر دور واقع پٹنہ گڑھ کے پاس رامپور کے ایک کمینوٹی ہیلتھ سنٹر لے گئے۔

مارچ ۲۰۲۱ میں نروپا کا انتقال ہو گیا۔ وہ اپنے پیچھے آٹھ بچے، جن میں سب سے چھوٹی اولاد محض چھ برس کی تھی، چھوڑ کر گئے تھے۔

Namani holding her eight-month-old granddaughter, Dhartiri.
PHOTO • Anil Sharma
While being photographed, Janaki tries to hide behind her mother Namani
PHOTO • Anil Sharma

نمنی اپنی آٹھ سالہ پوتی دھرتری کو پکڑے ہوئے۔ تصویر کھنچواتے وقت اپنی ماں کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کرتی جانکی

نروپا کی فیملی کو امید تھی کہ وہ اس کے علاج میں ہونے والے خرچ کی ادائیگی کے لیے معاوضہ کا دعویٰ کر سکیں گے، اور اس کے سہارے کچھ دنوں تک گزارہ چلا پائیں گے، کیوں کہ نمنی ابھی کام کے لیے دوبارہ دوسری ریاستوں میں مہاجرت کرنے کے بارے میں غیر یقینی کی شکار ہیں۔ ’’ہمیں پھر سے جانا پڑ سکتا ہے، کیوں کہ ہمیں میرے شوہر کے علاج کے واسطے لیے گئے قرض چکانے ہیں۔ اگر ہمیں سرکار سے کچھ مدد ملے گی، تو ہم نہیں جائیں گے۔‘‘

نروپا ان اڑیہ مزدوروں میں سے تھے جنہوں نے ۲۰۱۸ میں ویلفیئر بورڈ میں استفادہ حاصل کرنے والے کے طور پر رجسٹریشن کرایا تھا، لیکن ان کی فیملی کو بورڈ کی طرف سے کوئی بھی رقم نہیں ملی ہے جس کے وہ حقدار ہیں۔ نمنی جس ’مدد‘ کا ذکر کر رہی ہیں وہ رقم دو لاکھ روپے ہے، جو اوڈیشہ بلڈنگ اور دیگر کنسٹرکشن ورکرز ویلفیئر بورڈ کے تحت ان کے آنجہانی شوہر کے نام پر ملنی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’وہ [محکمہ محنت کے عہدیدار] کہتے ہیں کہ ہم نے تین سال سے [رنیو کرانے کی] فیس ادا نہیں کی ہے، اس لیے ہمیں پیسے نہیں مل سکتے۔‘‘

کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل آف انڈیا (سی اے جی) اپنی ریاستی مالی رپورٹ میں بتاتے ہیں کہ ریاست کے ذریعہ روکا گیا پیسہ آئینی التزامات کی خلاف ورزی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’’سال ۲۱-۲۰۲۰ کے دوران وصول کیے گئے ۴۹ء۴۰۶ کروڑ روپے کو آئینی التزامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک آف انڈیا، سرکاری خزانہ برانچ میں فکسڈ ڈپازٹ اور فلیکسی بچت کھاتہ کے طور پر ’سرکاری کھاتے‘ سے باہر رکھا گیا تھا۔‘‘

بوٹے دادی کہتی ہیں، ’’جب نروپا بیما پڑا، تو مالی مدد مانگنے کے لیے وہ اپنی بہن اومے [اس کی واحد بہن] کے پاس گیا تھا۔‘‘ اومے شادی شدہ ہیں اور پاس ہی کے ایک گؤں [مالپاڑہ] میں رہتی ہیں۔ بوٹے دادی مزید کہتی ہیں، ’’اس نے اپنے زیور اسے دے دیے۔ ایسی محبت تھی دونوں کے درمیان ایک دوسرے کے لیے۔‘‘ نروپا نے ان زیورات کو گروی رکھ دیا۔ اس سے جو کچھ ہزار روپے انہیں ملے وہ ان کے علاج میں خرچ ہو گئے۔

Left: The two kachha houses in which the family of late Nrupa Majhi live.
PHOTO • Anil Sharma
Right: These stones were purchased by Bute and her husband Gopi Majhi to construct their house under Indira Awaas Yojna, but Gopi's demise has paused that work
PHOTO • Anil Sharma

بائیں: دو کچے گھر، جن میں آنجہانی نروپا ماجھی کی فیملی رہتی ہے۔ دائیں: بوٹے اور ان کے شوہر گوپی ماجھی کے ذریعے اندرا آواس یوجنا کے تحت گھر بنانے کے لیے یہ پتھر خریدے گئے تھے، لیکن گوپی کی موت سے وہ کام رک گیا

سال ۲۰۱۳ میں بوٹے اور ان کے آنجہانی شوہر گوپی ماجھی کو ایک سرکاری رہائش الاٹ کی گئی تھی۔ سال ۲۰۱۴ میں گوپی ماجھی کی موت ہو گئی۔ بوٹے دادی بتاتی ہیں، ’’جب ماجھی زندہ تھے، تب ۱۰ ہزار، ۱۵ ہزار اور ۱۵ ہزار کی ۳ قسطوں میں ہمیں ۴۰ ہزار روپے ملے تھے۔‘‘ فیملی نے گھر بنانے کے لیے پتھر اور ریت خرید لی تھی، لیکن جب گوپی ماجھی کا انتقال ہوا، تب گھر کی تعمیر کا کام رک گیا۔

گھر بنانے کے لیے خریدے گئے، اور اب استعمال ہونے کے انتظار میں پڑے پتھروں کے انبار کو دکھاتے ہوئے بیٹے دادی کہتی ہیں، ’’ہم کسی طرح کچے گھر سے کام چلا رہے ہیں۔‘‘

اپنے بیٹے اور بہو کے برعکس، بوٹے دادی کام کرنے کے لیے دوسری ریاستوں میں کبھی نہیں گئیں۔ ’’ہم گزر بسر کے لیے اپنی خاندانی زمین پر کھیتی کرتے تھے۔ دوسری ریاستوں میں جا کر کام کرنے کی شروعات کرنے والا نروپا پہلا شخص تھا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ فیملی نے اپنی زمین گاؤں کے گونٹیا (مہاجن) کے پاس رہن پر رکھ کر ایک لاکھ روپے کا قرض لیا ہے۔

’’جدھشٹر [نروپا کا بیٹا] کو کام کرکے وہ زمین چھڑانی پڑے گی،‘‘ بوٹے دادی کہتی ہیں۔

*****

اپنی شادی سے پہلے، نمنی معاش کے لیے کبھی بھی اوڈیشہ سے باہر نہیں گئی تھیں۔ پہلی بار وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہی آندھرا پردیش کے محبوب نگر گئی تھیں؛ ان کا سب سے بڑا بیٹا جدھشٹر تک تیسری کلاس میں پڑھتا تھا۔ ’’کام کے لیے ملنے والی پیشگی رقم بہت کم تھی – ہمیں ۸۰۰۰ روپے ملے تھے۔ مجھے سال تو یاد نہیں ہے، لیکن سجنے [بیٹی] تب کچھ ہی مہینے کی تھی، اس لیے ہم اسے اپنے ساتھ لیتے گئے تھے۔‘‘ نمنی کہتی ہیں کہ تب سے – ۱۷ سال پہلے سے – ہر سال کام کی تلاش میں وہ لوگ الگ الگ جگہوں پر جاتے رہے ہیں۔

Left: Bute standing in front of her mud house along with her grandchildren and great grandchildren .
PHOTO • Anil Sharma
Right: Namani's eldest son Judhisthir holding his daughter Dhartiri
PHOTO • Anil Sharma

بائیں: بوٹے، اپنے پوتے پوتیوں اور ان کے بچوں کے ساتھ مٹی کے اپنے گھر کے سامنے کھڑی ہیں۔ دائیں: نمنی کا سب سے بڑا بیٹا جدھشٹر اپنی بیٹی دھرتری کے ساتھ

پہلی بار کے بعد سے یہ فیملی ہر سال مہاجرت کرنے لگی۔ ’’دو سالوں تک ہم پھر سے آندھرا پردیش ہی گئے۔ تب ہمیں جو پیشگی رقم ملی وہ تقریباً ۹۵۰۰ روپے ہی تھی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ اگلے چار سالوں تک وہ لوٹ کر وہیں جاتے رہے اور دھیرے دھیرے پورے گروپ کے لیے پیشگی رقم بڑھ کر ۱۵ ہزار روپے ہو گئی۔

سال ۲۰۱۹ میں چنئی کے سفر میں سب سے زیادہ کمائی ہوئی – اس میں پیشگی رقم کے طور پر ۲۵ ہزار روپے ملے۔ چنئی میں، اس وقت ہر ۱۰۰۰ اینٹوں کے لیے کارکنوں کے لیے ایک گروپ کو تقریباً ۳۵۰ روپے ملتے تھے۔ اور ایک ہفتہ میں ۴ کارکنوں کے ایک گروپ کے ہر ایک شخص کی ۱۵۰۰-۱۰۰۰ روپے کی کمائی ہو سکتی تھی۔

انہیں ہر ہفتے پیسے دیے جاتے تھے اور اس پیسے سے وہ کھانے کا راشن، صابن، شیمپو اور ضرورت کی دوسری چیزیں خریدتے تھے۔ ’’پیسے دیتے وقت سپروائزر پیشگی رقم کے کچھ پیسے کاٹ لیتا تھا اور باقی پیسے ہمیں دے دیتا تھا،‘‘ نمنی بتاتی ہیں۔ یہ تب تک چلتا تھا، جب تک کہ پیشگی رقم کا سارا پیسہ ادا نہیں ہو جاتا تھا۔

زیادہ تر کارکنوں کو آخر میں ۱۰۰ روپے سے بھی کم مل پاتا تھا، جو تعمیراتی شعبہ کے غیر ہنرمند کارکنوں کے لیے متعینہ کم از کم مزدوری کے آدھے سے بھی کم ہے۔ چیف لیبر کمشنر، محنت اور روزگار کی مرکزی وزارت کے آفس کا کہنا ہے کہ چنئی جیسے شہری علاقوں میں چیمبر اینٹیں بنانے والے کارکنوں کو ۶۱۰ روپے (۱۰۰۰ اینٹوں کے لیے) روزانہ کے حساب سے دہاڑی ملنی چاہیے۔

نروپا اور ان کی فیملی کو ملنے والی مزدوری محنت کے ان قوانین کی سخت خلاف ورزی کرتی تھی۔

Namani holding a labour card issued by the Balangir district labour office. It has been more than a year since her husband died and Namani is struggling to get the death benefits that his family are entitled to under the Odisha Building and other Construction Workers Act, 1996
PHOTO • Anil Sharma
It has been more than a year since her husband died and Namani is struggling to get the death benefits that his family are entitled to under the Odisha Building and other Construction Workers Act, 1996
PHOTO • Anil Sharma

بلانگیر ضلع لیبر آفس سے جاری ہوئے لیبر کارڈ کے ساتھ نمنی۔ ان کے شوہر کی موت کو ایک سال سے زیادہ وقت گزر چکا ہے اور وہ ابھی بھی اوڈیشہ بلڈنگ اور دیگر کنسٹرکشن ورکرز ایکٹ، ۱۹۹۶ کے تحت موت کے بعد فیملی کو ملنے والا معاوضہ اور سہولیات پانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں

بلڈنگ اور دیگر تعمیراتی کاموں میں مصروف زیادہ تر بین ریاستی اڑیہ مہاجر مزدور، اوڈیشہ بلڈنگ اور دیگر کنسٹرکشن ورکرز ایکٹ، ۱۹۹۶ کے تحت مستفیدین کے طور پر رجسٹرڈ نہیں ہیں، جس کے تحت انہیں تحفظ، صحت اور تمام فلاحی سہولیات ملنے کا التزام ہے۔

حالانکہ، نروپا نے خود کو رجسٹر کیا ہوا تھا، لیکن ان کی فیملی کو اس قانون کی ایک چھوٹی چوک کے سبب اس کا کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ اس قانون کے تحت فائدہ حاصل کرنے والے کے لیے، رجسٹرڈ مستفیدین کو لگاتار تین سالوں تک اس کے فنڈ میں ۵۰ روپے جمع کرنے ہوتے ہیں۔ یہ رقم بلانگیر میں لیبر ڈپارٹمنٹ کے ضلع دفتر میں جمع کرنی ہوتی ہے، جو کہ بلانگیر ضلع کے ہیال گاؤں میں واقع ان کے گھر سے ۸۰ کلومیٹر دور ہے۔

یہ عمل یکم مئی، ۲۰۲۲ کے بعد آن لائن ہو گیا ہے۔ نروپا کو ان کا لیبر کارڈ چنئی جانے کے فوراً پہلے ملا تھا۔ لاک ڈاؤن اور اپنی بیماری کے سبب وہ ضلع دفتر جا کر فنڈ میں سالانہ رقم جمع نہیں کر سکتے تھے۔ اب فیملی کو اس معاوضے پر دعویٰ کرنے میں مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے وہ حقدار ہیں۔

اس رپورٹر نے بلانگیر ضلع مجسٹریٹ و کلکٹر کو ایک خط لکھا ہے اور ان کے آفیشیل وہاٹس ایپ نمبر پر بھی رابطہ کیا ہے، اور ان سے درخواست کی ہے کہ اوڈیشہ بلڈنگ اور دیگر کنسٹرکشن ورکرز ایکت کے تحت ملنے والے فائدے نمنی اور ان کی فیملی کو دیے جائیں۔ اس اسٹوری کے شائع ہونے کے وقت تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Anil Sharma

अनिल शर्मा ओडिशा के कन्ताबंजी शहर में स्थित एक वकील, और प्रधान मंत्री ग्रामीण विकास फेलो योजना, ग्रामीण विकास मंत्रालय, भारत सरकार के पूर्व फेलो हैं।

की अन्य स्टोरी Anil Sharma
Editor : S. Senthalir

एस. सेंतलिर, पीपल्स आर्काइव ऑफ़ रूरल इंडिया में बतौर सहायक संपादक कार्यरत हैं, और साल 2020 में पारी फ़ेलो रह चुकी हैं. वह लैंगिक, जातीय और श्रम से जुड़े विभिन्न मुद्दों पर लिखती रही हैं. इसके अलावा, सेंतलिर यूनिवर्सिटी ऑफ़ वेस्टमिंस्टर में शेवनिंग साउथ एशिया जर्नलिज्म प्रोग्राम के तहत साल 2023 की फ़ेलो हैं.

की अन्य स्टोरी S. Senthalir
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पीपुल्स आर्काइव ऑफ़ रुरल इंडिया के ट्रांसलेशन्स एडिटर, उर्दू, हैं। वह दिल्ली स्थित एक पत्रकार हैं।

की अन्य स्टोरी Qamar Siddique