’یہ رہا آپ کا تحفہ،‘ گُملا ضلع کی تیترا گرام پنچایت کی سرپنچ ٹیریسا لکڑا کو مقامی ’استفادہ کرنے والی کمیٹی‘ کے رکن بہاری لکڑا نے ۵۰۰۰ روپے پکڑاتے ہوئے یہ بات کہی۔ ٹیریسا کو معلوم نہیں تھا کہ ’تحفہ‘ کی شکل میں ۵۰۰۰ روپے پیش کیے گئے تھے۔ اصل میں انہیں یہ پیسہ ملا بھی نہیں تھا، اور رانچی سے بدعنوانی مخالف بیورو (اے سی بی) کی ایک ٹیم نے دھاوا بولا اور سرپنچ کو انسداد بدعنوانی قانون، ۱۹۸۸ کے تحت ’’غیر قانونی رشوت‘‘ مانگنے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔

اس کارروائی نے اوراؤں درج فہرست قبیلہ سے تعلق رکھنے والی ۴۸ سالہ آدیواسی ٹیریسا کو ہلا کر رکھ دیا۔ ساتھ ہی، بسیا بلاک کے ۸۰ ہزار سے زیادہ لوگوں کو حیرانی میں ڈال دیا، جس میں ان کی پنچایت آتی ہے۔ کسی کو یہ عجیب نہیں لگا کہ اے سی بی کی ٹیم رانچی سے تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر دور وہاں تک آئی، اور ۵۰۰۰ روپے کی رشوت لینے کے ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے انہوں نے ایس یو وی میں دو گھنٹے سے زیادہ سفر کیا۔ حالانکہ، جس جج کے سامنے لکڑا کو پیش کیا گیا، انہوں نے اس حقیقت پر تبصرہ کیا تھا۔ اے سی بی ٹیم کو دونوں طرف کار سے سفر کرنے میں تقریباً پانچ گھنٹے لگے ہوں گے اور دیگر اخراجات کو چھوڑ بھی دیں، تو ’رشوت‘ کی رقم کا آدھا پیسہ تو خرچ ہوا ہی ہوگا۔

اس پر بھی کسی کا دھیان نہیں گیا کہ ٹیریسا کو ان کی گرام پنچایت کے کچھ رکن ہی موقع واردات، یعنی بسیا بلاک پنچایت دفتر لے گئے تھے۔ اور یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے بعد میں ان کے خلاف گواہی دی تھی۔ یہ بھی کم عجیب بات نہیں تھی کہ ٹیریسا کو گرفتار کرنے والی ٹیم، جیسا کہ ٹیریسا خود بتاتی ہیں، ’’مجھے بسیا پولیس اسٹیشن نہیں لی گئی‘‘ جو بلاک پنچایت دفتر کے ٹھیک سامنے بمشکل کچھ میٹر دور تھا، جہاں پر یہ ڈرامہ چل رہا تھا۔ اس کی بجائے، ’’وہ مجھے تقریباً ۱۵-۱۰ کلومیٹر دور کامڈارا بلاک کے ایک پولیس اسٹیشن میں لے گئے۔‘‘

یہ واقعہ جون ۲۰۱۷ کے آس پاس کا ہے۔

آج جب ۱۲ویں پاس ٹیریسا اسے یاد کرتی ہیں، تو انہیں لگتا ہے کہ ایسا اس لیے ہوا تھا کیوں کہ ’’بسیا پولیس اسٹیشن میں ہر کوئی مجھے جانتا ہے۔ وہ تمام لوگ جانتے ہیں کہ میں مجرم نہیں ہوں۔‘‘ بعد میں ان کا معاملہ رانچی کی ایک اسپیشل عدالت میں پہنچا۔

Teresa Lakra, sarpanch of the Tetra gram panchayat in Gumla district of Jharkhand
PHOTO • P. Sainath

ٹیریسا لکڑا، جھارکھنڈ کے گُملا ضلع کی تیترا گرام پنچایت کی سرپنچ

ضمانت پر چھوٹنے تک ٹیریسا لکڑا کو دو مہینے اور ۱۲ دن جیل میں گزارنے پڑے۔ گرفتاری کے تین دن کے اندر ہی انہیں سرپنچ (جھارکھنڈ میں انہیں ’مکھیا‘ کہا جاتا ہے) کے عہدہ سے برخاست کر دیا گیا۔ پنچایت میں ان کے اختیارات نائب سرپنچ گووندا بڑائیک کو مل گئے، جو انہیں لگاتار فون پر فوراً بسیا پنچایت دفتر آنے کو کہہ رہے تھے۔

ان کے جیل میں رہتے ہوئے کئی پٹوں اور ٹھیکوں پر دستخط کیے گئے اور لوگوں کو سونپے گئے۔ حالانکہ، یہ صاف نہیں ہے کہ یہ سبھی پٹّے اور ٹھیکے کس بارے میں تھے۔

*****

اس ڈرامہ اور پھر گرفتاری سے ٹیریسا، ان کے شوہر اور دونوں بیٹیوں کو بہت تکلیف پہنچی۔ وہ بتاتی ہیں، ’’بڑی لڑکی سریتا ۲۵ سال کی ہے اور شادی شدہ ہے۔ اس نے ۱۲ویں جماعت تک پڑھائی کی تھی۔‘‘ چھوٹی اینجلا ۱۸ سال کی ہے اور ابھی ۱۲ویں میں ہے اور آگے پڑھنا چاہتی ہے۔ ٹیریسا کے شوہر راجیش لکڑا فیملی کے واحد رکن ہیں، جو کالج تک پہنچے۔ مگر بی کام کی ڈگری ہونے کے باوجود انہوں نے اور ٹیریسا نے شہر نہ جا کر تیترا گاؤں میں ہی رہنے اور کھیتی کرنے کا فیصلہ کیا۔

اپنے عہدہ سے ہٹائے جانے اور قید کے باوجود ٹیریسا نے شکست نہیں مانی۔ وہ بتاتی ہیں، ’’سب برباد ہو چکا تھا۔ میں کافی پریشان تھی۔‘‘ جیل سے باہر آ کر ٹیریسا نے اس گروپ سے مورچہ لیا جس کے بارے میں ان کا ماننا تھا کہ اس نے ہی انہیں پھنسایا تھا۔

تیترا گاؤں میں انہوں نے مجھے بتایا، ’’میں نے عہدہ سے ہٹائے جانے کو لے کر لڑائی لڑی، جو غیر قانونی طریقے سے کیا گیا تھا۔‘‘ انہیں ان کے عہدہ سے تب ہٹایا گیا تھا، جب عدالتی کارروائی شروع بھی نہیں ہوئی تھی، فیصلہ آنا تو دور کی بات تھی۔ ٹیریسا اپنی لڑائی کو ریاستی الیکشن کمیشن (ایس ای سی) تک لے گئیں اور غیر قانونی طریقے سے اپنے ہٹائے جانے کو لے کر رانچی میں نوکرشاہی سے مورچہ لیا۔

ٹیریسا کہتی ہیں، ’’میں نے مہینوں رانچی میں ایس ای سی اور دوسرے دفاتر کے ۱۴-۱۲ چکر لگائے۔ اس میں میرا کافی پیسہ خرچ ہوا۔‘‘ پھر بھی، ہمیشہ کی طرح دیر سے ہی سہی، انہیں انصاف ملا۔ کم از کم المیہ کے اس پہلو کو دیکھیں، تو یہ انصاف تھا۔ اس میں انہیں سال بھر سے تھوڑا زیادہ وقت لگا، لیکن وہ مکھیا کے عہدہ پر اپنی بحالی کے آرڈر کے ساتھ سامنے آئیں۔ اور نائب سرپنچ گووندا بڑائیک، جو ان کے جیل میں رہتے ہوئے عہدہ پر فائز تھے، انہیں ان کی جگہ دکھائی گئی۔

یہ سبھی خرچ پانچ ایکڑ زمین کے مالک اُس فیملی نے اٹھایا جس کی زمین بارش کے پانی پر منحصر ہے اور جس سے وہ سالانہ دو لاکھ روپے سے زیادہ نہیں کما پاتے۔ بازار کے لیے وہ دھان، راگی اور اڑد دال اگاتے ہیں اور مونگ پھلی، مکئی، آلو اور پیاز اپنے کھانے کے لیے رکھتے ہیں۔

Lakra has fought the bribery allegations with her own limited resources.
PHOTO • P. Sainath
Lakra has fought the bribery allegations with her own limited resources. With her are other women (right) from Tetra village, gathered at the village middle school building
PHOTO • Purusottam Thakur

لکڑا نے اپنے محدود وسائل کے ساتھ رشوت خوری کے الزام سے جنگ لڑی۔ ان کے ساتھ تیترا گاؤں کی دوسری عورتیں (دائیں) ہیں جو گاؤں کے مڈل اسکول کی عمارت میں اکٹھا ہوئی ہیں

غیر قانونی طور پر ہٹائے جانے کے ایک سال سے بھی زیادہ وقت بعد انہیں ایس ای سی سے آرڈر ملا۔ پھر بھی، وہ ایک جیت کی طرح تھا۔

ٹیریسا آہستہ سے مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، ’’بسیا کے بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر (بی ڈی او) نے فوراً اس آرڈر پر عمل کیا اور ایس ای سی کی ہدایت کے ایک ہفتہ کے اندر مجھے مکھیا کے عہدہ پر بحال کر دیا گیا۔‘‘ یہ ستمبر ۲۰۱۸ کے آس پاس ہوا۔

تختہ پلٹ سے بچ کر نکلیں ٹیریسا کل ملا کر تقریباً سات سال تک مکھیا رہیں۔ ان کی پانچ سالہ مدت کار کووڈ۔۱۹ کے شروع ہونے کے وقت ختم ہونے کو تھی۔ وبائی مرض کے دوران پنچایتی انتخابات پر روک لگ گئی، تو تیترا گرام پنچایت کے تقریباً ۵۰۰۰ لوگوں کی مکھیا کے طور پر ان کی مدت کار میں مزید دو سال کا اضافہ ہو گیا۔ سرکاری ریکارڈ میں سات سال تک ان کا نام مکھیا کے طور پر درج رہے گا، جس میں وہ سال بھی شامل ہے جب وہ سیاسی سازشوں کا سامنا کر رہی تھیں۔

ٹیریسا پوری پنچایت میں مشہور ہیں کہ انہوں نے اپنی پنچایت کے سولنگ بیرا گاؤں میں پتھر کی کنکریٹ کے لیے پہاڑ کو کھودنے کے ارادے سے پٹّہ پر مانگنے والے بڑے ٹھیکہ دار کی ۱۰ لاکھ روپے کی رشوت ٹھکرا دی تھی۔ حالانکہ، انہیں ۵۰۰۰ روپے کی رشوت لینے کے الزام میں جیل میں رہنا پڑا۔

*****

ٹیریسا کی گرفتاری کے طریقے کو لے کر بہت کچھ ایسا تھا جس پر سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ کوئی رشوت دینے والا سب کے سامنے پیسہ کیوں بانٹنا چاہے گا، جب تک کہ یہ پہلے سے طے شدہ ایک سازش نہ ہو؟ وہ پوچھتی ہیں کہ جب وہ کسی اور کام میں مصروف تھیں، تو انہیں نائب سرپنچ گووندا بڑائیک سمیت پنچایت کے دیگر ممبران کی طرف سے بار بار فون کیوں کیے گئے، جس میں انہوں نے ان سے فوراً بلاک پنچایت دفتر پہنچنے کی اپیل کی تھی۔

تو پھر یہ ’رشوت‘ کس بات کو لے کر تھی؟

ٹیریسا کہتی ہیں، ’’ایک آنگن واڑی خراب حالت میں تھی۔ میں نے دیکھا کہ اس کے لیے پیسہ آیا ہے، تو میں نے اس کی مرمت کروا دی۔‘‘ جیسا کہ دوسرے ایسے سبھی معاملوں میں ہوتا ہے، آنگن واڑی کی مرمت کے کام کے لیے ایک ’استفادہ کرنے والی کمیٹی‘ بنائی گئی تھی۔ ’’یہ بہاری لکڑا اس کمیٹی کا رکن تھا۔ کام پورا ہونے کے بعد ۸۰ ہزار روپے بچے تھے جو اسے ہمیں لوٹانے تھے۔ گووند بڑائیک مجھے فوراً بسیا بلاک پنچایت دفتر آنے کو فون کر رہے تھے اور میں وہاں چلی گئی۔‘‘

تیترا گرام پنچایت کی بجائے اس پیسے کو بسیا بلاک پرمکھ دفتر میں لوٹائے جانے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ اس کے علاوہ وہ ابھی دفتر میں داخل بھی نہیں ہوئی تھیں، جب بہاری لکڑا ان کے پاس آئے۔ تب ان کی انگلیوں کے نشان نوٹوں پر لینے کے لیے ۵۰۰۰ روپے دینے کا ڈرامہ کیا گیا۔ اور اس طرح ٹیریسا کی مصیبت کا آغاز ہوا۔

Teresa is known across the panchayat for having turned down a 10-lakh-rupee bribe from a big contractor seeking to lease and destroy a nearby hillock in Solangbira village in her panchayat for rock chips
PHOTO • Purusottam Thakur

ٹیریسا پوری پنچایت میں مشہور ہیں کہ انہوں نے اپنی پنچایت کے سولنگ بیرا گاؤں میں پتھر کی کنکریٹ نکالنے کے لیے نزدیک کی ایک پہاڑی کو کھودنے کے ارادے سے پٹہ پر مانگنے والے بڑے ٹھیکہ دار کی ۱۰ لاکھ روپے کی رشوت کی پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا

حالانکہ، یہ ’رشوت‘ کانڈ کسی دوسرے معاملہ سے جڑا لگتا ہے جس میں رشوت نہیں لی گئی تھی۔

ٹیریسا اپنے خلاف ہوئی سازش کے تار بڑے ٹھیکہ دار کی اس بڑی رشوت کی پیشکش ٹھکرانے کی کہانی سے جوڑتی ہیں۔ وہ اپنے ساتھی پنچایت ممبران کی تنقید کافی زوردار طریقے سے کرتی ہیں۔ ٹھیکہ دار کے رشتے ملک بھر میں پہنچ والے ایک بہت ہی رسوخ دار لیڈر سے ہونے کی وجہ سے وہ اس کا انکشاف کرنے سے کتراتی ہیں۔

ٹیریسا کہتی ہیں، ’’یہ بڑا پروجیکٹ تھا، جس میں سڑک بنانا اور دیگر چیزیں شامل تھیں۔ وہ ہمارے علاقے میں راک چپس [پہاڑی سے کنکریٹ پتھر] توڑ رہے تھے۔ میں نے اس کے خلاف لوگوں کو متحد کیا، ورنہ وہ پوری پہاڑی کو تباہ کر دیتے۔ میں ایسا نہیں ہونے دے سکتی تھی۔‘‘ ایک بار تو ٹھیکہ دار کے لوگ ان کے پاس ایک دستاویز لے کر پہنچ گئے، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہیں گرام سبھا سے منظوری حاصل ہے۔

وہ مسکراتی ہیں، ’’اس میں کئی دستخط تھے، جن میں کچھ ایسے لوگوں کے بھی تھے جو ناخواندہ ہیں اور دستخط کرنا نہیں جانتے۔‘‘ پورا معاملہ جعل سازی کا تھا۔ مگر ہم حیران تھے کہ مکھیا کے بغیر انہوں نے گرام سبھا کی میٹنگ کیسے کر لی؟ کیا انہیں اس میں نہیں بلانا چاہیے تھا؟

تب ان علاقوں میں کام کر رہے ایک سماجی کارکن نے مجھے بتایا کہ ہم ’پیسا (پی ای ایس اے)‘ خطہ میں ہیں، یعنی پنچایت ایکسٹینشن ٹو شیڈولڈ ایریاز ایکٹ، ۱۹۹۶ کے تحت آنے والے علاقے۔ ان کا کہنا ہے، ’’یہاں گاؤں کا روایتی مکھیا گرام سبھا بلا سکتا ہے۔‘‘ ٹیریسا نے دستاویز کو نقلی بتا کر خارج کر دیا۔

اس کے بعد اُس بڑے ٹھیکہ دار کے آدمیوں کی طرف سے ۱۰ لاکھ روپے کی رشوت کی پیشکش کی گئی، جسے ٹیریسا نے صاف طور پر ٹھکرا دیا۔ وہ ناراض تھیں کہ انہیں اس طرح خریدا جا رہا تھا۔

بمشکل ۴-۳ مہینے بعد ہی ’رشوت‘ کا یہ معاملہ ہو گیا، جس میں انہیں پھنسایا گیا۔ ان سب کے دوران ٹھیکہ دار کے ہاتھ آخر دو پہاڑیوں میں سے ایک آ چکی تھی، جس کا وہ مطالبہ کر رہا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیریسا کو ایک بار بھی اس سے انکار نہیں کہ انہوں نے کوئی معمولی یا روایتی چیز تحفہ میں لی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں نے کبھی پیسے کی خواہش نہیں کی۔‘‘ وہ پوری ایمانداری سے کہتی ہیں، ’’یہاں ایسے تمام پروجیکٹوں میں یہ تحفے لیے دیے جاتے ہیں۔ میں بھی لیتی ہوں اور میں نے وہ قبول کر لیا ہوتا۔‘‘ حالانکہ، ایسا صرف جھارکھنڈ میں نہیں ہوتا کہ اس قسم کی لین دین میں تحفے شامل ہوتے ہیں۔ تحفے کی نوعیت الگ الگ ہو سکتی ہے، مگر یہ رواج ملک کی سبھی ریاستوں میں ہے۔ بیشک ایسے مکھیا اور پنچایت ممبر بھی ہیں جو کسی بھی قسم کا تحفہ نہیں لیتے۔ لیکن ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔

جس گروپ نے انہیں پھنسایا تھا، اس کے خلاف لڑائی کے باوجود ٹیریسا لکڑا کی پریشانیاں ختم نہیں ہوئی ہیں۔ ان کے جیل جانے کے چھ سال بعد بھی قانونی کیس چل رہا ہے، جس میں ان کے وسائل اور توانائی خرچ ہو رہی ہے۔ انہیں مدد تو چاہیے، مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ وہ کہاں سے آ رہی ہے۔

انہوں نے تحفہ دینے والے ٹھیکہ داروں سے ہوشیار رہنا سیکھ لیا ہے۔

کور فوٹو: پرشوتم ٹھاکر

مترجم: محمد قمر تبریز

पी. साईनाथ, पीपल्स ऑर्काइव ऑफ़ रूरल इंडिया के संस्थापक संपादक हैं. वह दशकों से ग्रामीण भारत की समस्याओं की रिपोर्टिंग करते रहे हैं और उन्होंने ‘एवरीबडी लव्स अ गुड ड्रॉट’ तथा 'द लास्ट हीरोज़: फ़ुट सोल्ज़र्स ऑफ़ इंडियन फ़्रीडम' नामक किताबें भी लिखी हैं.

की अन्य स्टोरी पी. साईनाथ
Photographs : P. Sainath

पी. साईनाथ, पीपल्स ऑर्काइव ऑफ़ रूरल इंडिया के संस्थापक संपादक हैं. वह दशकों से ग्रामीण भारत की समस्याओं की रिपोर्टिंग करते रहे हैं और उन्होंने ‘एवरीबडी लव्स अ गुड ड्रॉट’ तथा 'द लास्ट हीरोज़: फ़ुट सोल्ज़र्स ऑफ़ इंडियन फ़्रीडम' नामक किताबें भी लिखी हैं.

की अन्य स्टोरी पी. साईनाथ
Photographs : Purusottam Thakur

पुरुषोत्तम ठाकुर, साल 2015 के पारी फ़ेलो रह चुके हैं. वह एक पत्रकार व डॉक्यूमेंट्री फ़िल्ममेकर हैं और फ़िलहाल अज़ीम प्रेमजी फ़ाउंडेशन के लिए काम करते हैं और सामाजिक बदलावों से जुड़ी स्टोरी लिखते हैं.

की अन्य स्टोरी पुरुषोत्तम ठाकुर
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पीपुल्स आर्काइव ऑफ़ रुरल इंडिया के ट्रांसलेशन्स एडिटर, उर्दू, हैं। वह दिल्ली स्थित एक पत्रकार हैं।

की अन्य स्टोरी Qamar Siddique