بنگالی کھول کے مقابلے آسامی کھول ڈرم کا (باس) ساؤنڈ کم ہوتا ہے۔ نیگیرا کے مقابلے ڈھول کی آواز اونچی ہوتی ہے۔ گریپود بادیوکار اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ طبلے جیسے سازوں کا کاریگر ہونے کے ناطے وہ اپنے روزمرہ کے کام کی ان باریکیوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔
’’نوجوان لڑکے مجھے اپنا اسمارٹ فون دکھاتے ہیں اور ایک خاص اسکیل پر ٹیون کو سیٹ کرنے کے لیے کہتے ہیں،‘‘ آسام کے ماجولی میں رہنے والے یہ ماہر ساز کاریگر کہتے ہیں۔ ’’لیکن ہمیں ان ایپ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔‘‘
گریپود بتاتے ہیں کہ ایک ٹیونر ایپ کی مدد کے بعد بھی ان طبلہ جیسے سازوں کو بنانے کا پورا عمل آخرکار جانچ اور ترمیم کرنے کے طریقہ پر ہی منحصر ہے۔ اس میں جانوروں کی کھال کو ساز کے دونوں سروں پر اچھی طرح سے کھینچ کر لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’’ٹیونر ایپ بھی اس کے بعد ہی کام کرتا ہے۔‘‘
گریپود اور ان کے بیٹے پدوم بادیوکاروں کی ایک لمبی پشتینی روایت سے تعلق رکھتے ہیں۔ دُھلی اور سبدکار ناموں سے بھی جانے جانے والی ان کی برادری آلات موسیقی کو بنانے اور ان کی مرمت کرنے کی وجہ سے مشہور ہے۔ تریپورہ میں وہ درج فہرست ذات کے تحت درج ہیں۔
پدوم اور گریپود عام طور پر ڈھول، کھول اور طبلہ بناتے ہیں۔ ’’چونکہ یہاں سترا ہوتے ہیں، اس لیے ہمیں سال بھر کام ملتا رہتا ہے،‘‘ پدوم کہتے ہیں۔ ’’ہم اپنی ضرورت کے حساب سے کمائی کر لیتے ہیں۔‘‘
پھاگن مہینہ (فروری-مارچ) کے شروعات کے ساتھ ہی تہواروں کا موسم اور میسنگ برادری کا اَلی ائے لیگانگ نامی موسم بہار کا تہوار بھی شروع ہو جاتا ہے۔ اس مدت میں ان کی کمائی بڑھ جاتی ہے۔ ڈھول اس موقع پر کیے جانے والے گُمرانگ رقص کا ایک اٹوٹ حصہ ہے، اور سوت (مارچ-اپریل) کے مہینے میں نئے ڈھول کی مانگ اور پرانے ڈھول کی مرمت کے کام میں بہت تیزی آ جاتی ہے۔ بوہاگ بیہو، جو ریاست میں موسم بہار کی آمد کا ایک بڑا تہوار ہوتا ہے، کے موقع پر بھی ڈھول کی مانگ بہت بڑھ جاتی ہے۔
بھادر کے مہینہ میں نیگیرا اور کھول کی مانگ بہت زیادہ رہتی ہے۔ راس سے لے کر بیہو تک آسام کی تمام ثقافتی سرگرمیوں میں ان سازوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق، آسام میں چھ قسم کے طبلے خاص طور پر مقبول ہیں، جن میں سے زیادہ تر یہیں ماجولی میں بنائے اور بجائے جاتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: ماجولی کا راس مہوتسو اور سترا
اپریل کی کڑی دھوپ میں اپنی دکان سے باہر بیٹھے پدوم جانور کی کھال کو رگڑ کر اس سے بال صاف کر رہے ہیں۔ یہ کھال کسی طبلہ، نگیرا (نقارہ) یا کھول پر چڑھائے جائیں گے۔ برہم پتر میں ماجولی جزیرہ پر آلات موسیقی کی سبھی پانچ دکانیں بادیوکار خاندانوں کی ہیں، جو مہاجر بنگالی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
’’میرے والد کہتے ہیں، چونکہ انہوں نے دیکھتے ہوئے سیکھا ہے، اس لیے مجھے بھی یہی کرنا چاہیے،‘‘ ۲۳ سال کے پدوم بتاتے ہیں۔ ’’سکھانے کے وقت وہ کسی کا ہاتھ نہیں پکڑتے ہیں۔ وہ میری غلطیوں تک کو درست نہیں کرتے ہیں۔ مجھے خود ہی درست کرنا ہوتا ہے۔‘‘
پدوم جس کھال کی صفائی کرنے میں مصروف ہیں، وہ ایک بیل کی ہے جسے انہوں نے ۲۰۰۰ روپے میں خریدا ہے۔ سب سے پہلا کام پھوٹ سائیں (چولہے کی راکھ) یا سوکھی ریت کی مدد کھال سے بال کی صفائی کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد کھال کو ایک بٹالی (ایک مسطح چھینی) سے کھرچا جاتا ہے۔
صفائی کے بعد کھال کے گول گول ٹکڑے کاٹے جاتے ہیں اور اس کام کو نیم دائرہ کار داؤ چاقو، جسے ایکتیرا کہتے ہیں، کا سہارا لیا جاتا ہے۔ کھال کے یہ گول ٹکڑے ہی تالی [چمڑے کی جھلی] بنتے ہیں۔ ’’ساز میں تالی کو جس رسی کی مدد سے باندھا جاتا ہے، وہ بھی چمڑے کی ہی بنی ہوتی ہے،‘‘ پدوم بتاتے ہیں۔ ’’یہ چھوٹے جانوروں سے حاصل کی جاتی ہے اور نسبتاً ملائم اور چکنی ہوتی ہے۔‘‘
تالی کے درمیان میں بنائے گئے گول حصے یعنی سیاہی کو لوہے کے چورن یا گُھن اُبلے چاول کے پیسٹ کے ساتھ ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔ ’’گُھن کو مشین میں بنایا جاتا ہے،‘‘ اپنی ہتھیلی پر رکھی اس کی ایک چھوٹی سی ڈھیر کو دکھاتے ہوئے وہ کہتے ہیں۔ ’’مقامی لوہاروں کے یہاں ملنے والی کھردری گھن کے مقابلے میں یہ زیادہ چکنی اور پرت دار ہوتی ہے، اور اس سے آپ کے ہاتھ کھرچ سکتے ہیں۔‘‘
یہ نوجوان کاریگر تھوڑی سی گہری بھوری گھن اس رپورٹر کی ہتھیلی میں رکھ دیتا ہے۔ یہ پاؤڈر بہت تھوڑی مقدار میں ہونے کے باوجود حیران کن طور پر بھاری ہے۔
تالی میں گھن لگانے کے لیے بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ کاریگر پہلے تالی کو ۴-۳ بار صاف کرتے ہیں اور اس کے بعد اس پر ابلے ہوئے چاول کی ایک پرت چڑھا کر اسے دھوپ میں سکھاتے ہیں۔ چاول کا اسٹارچ تالی کو چپچپا بنا دیتا ہے۔ تالی کے پورا سوکھنے سے پہلے اس پر سیاہی کی ایک پرت چڑھائی جاتی ہے۔ اس کے بعد پوری سطح کے ایک پتھر کی مدد سے پالش کی جاتی ہے۔ تریباً ۳۰-۲۰ منٹ کے وقفہ کے بعد اس عمل کو تین بار دہرایا جاتا ہے۔ سب سے آخر میں ساز کو کسی سایہ دار جگہ پر ایک گھنٹے کے لیے سوکھنے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
’’جب تک کھال پوری طرح خشک نہیں ہو جاتی ہے، ہمیں اسے رگڑنا پڑتا ہے۔ اصولی طور پر یہ کام گیارہ بار کیا جانا چاہیے۔ اگر موسم ابر آلود ہو، تو اس عمل میں پورا ایک ہفتہ لگ سکتا ہے۔‘‘
*****
گریپود چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں اور انہوں نے اپنے اس خاندانی پیشہ میں تقریباً ۱۲ سال کی عمر میں ہاتھ بٹانا شروع کیا تھا۔ تب وہ کولکاتا میں رہا کرتے تھے۔ جب ان کے والدین چھوٹے وقفہ میں ہی فوت ہو گئے، تو وہ بالکل اکیلے رہ گئے۔
’’میرے اندر اس فن کو سیکھنے کی خواہش بالکل نہیں رہ گئی تھی،‘‘ وہ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ کچھ سال بعد جبانہیں پیار ہوا، تو انہوں نے آسام جانے کا فیصلہ کر لیا۔ شروع میں انہوں نے ڈھول بنانے والی ایک دکان میں کام کیا۔ بعد میں انہوں نے کچھ سالوں تک ایک آرا مل میں نوکری کی، اور پھر اس کے بعد لکڑی کے کاروبار میں آ گئے۔ لکڑی کی سلیوں سے لدے ٹرک کو مانسون کے دنوں میں کیچڑ بھری سڑکوں سے پہاڑوں سے نیچے اتارنا ایک خطرناک کام تھا۔ ’’میں نے اپنی آنکھوں سے حادثہ میں کئی لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھا تھا،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔
آخرکار، وہ اس کام میں دوبارہ لوٹ آئے اور جورہاٹ میں ۱۲-۱۰ سالوں تک کام کیا۔ ان کے سبھی بچوں – تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کی یہیں پیدائش ہوئی۔ ایک گروپ کے ذریعے اُدھار دیے گئے ڈھول کو واپس لوٹانے کے ایشو پر کچھ آسامی لڑکوں کے ساتھ ہوئی بحث اور جھگڑے کے بعد مقامی پولیس نے انہیں اپنی دکان کسی دوسری جگہ کھولنے کا مشورہ دیا، کیوں کہ وہ لڑکے وہاں کے جانے مانے غنڈے تھے اور انہیں مستقبل میں زیادہ پریشان کر سکتے تھے۔
’’میں نے بھی سوچا کہ چونکہ ہم بنگالی ہیں، تو اگر وہ ہمارے خلاف متحد ہوجاتے ہیں، تو پورا معاملہ فرقہ وارانہ رنگ لے لے گا اور میرے اور میری فیملی کی زندگی کے لیے یہ خطرناک ہو سکتا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’اس لیے میں نے جورہاٹ چھوڑ کر ماجولی میں رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ دھیرے دھیرے انہیں کھول مردنگ بنانے اور مرمت کا کام لگاتار ملنے لگا، جن کا سترا کی تقریبات میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا۔
’’یہ جگہ کبھی جنگل ہوا کرتی تھی اور آس پاس کے علاقوں میں گنتی کی دکانیں تھیں۔‘‘ بالی چپوری گاؤں میں پہلی دکان انہوں نے ہی کھولی تھی، اور چار سال بعد وہ گرمور میں آباد ہو گئے۔ سال ۲۰۲۱ میں ان کی فیملی نے پہلی دکان سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور نیا بازار میں ایک دوسری دکان کھولی، جو نسبتاً بڑی تھی۔
دکان میں سبھی کھولوں کو ایک قطار میں ترتیب سے رکھا گیا ہے۔ بنگالی کھول پکی مٹی کے بنے ہوتے ہیں۔ انہیں مغربی بنگال میں بنایا جاتا ہے اور ان کی قیمت ان کے سائز پر منحصر ہوتی ہے، جو ۴۰۰۰ روپے یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان کے مقابلے آسامی کھول لکڑے کے بنے ہوتے ہیں۔ ان ڈھولوں کی قیمت ۵۰۰۰ اور اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ یہ استعمال کی گئی لکڑی کی قسم پر منحصر ہے۔ کھال بدلنے اور اسے دوبارہ سازوں پر چڑھانے کے لیے گاہک کو تقریباً ۲۵۰۰ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔
ماجولی کے کسی نامگھر (عبادت خانہ) کا ایک دبا دکان کی فرش پر رکھا ہے۔ یہ کیروسین کے کسی خالی پیپے سے بنایا گیا ہے۔ کچھ دبا پتیل یا المونیم سے بھی بنائے جاتے ہیں۔ ’’اگر لوگ ہمیں پیپا منگوا کر دبا بنانے کا آرڈر دیتے ہیں، تو ہم وہی کرتے ہیں۔ یا پھر گاہک بھی پیپا لے کر آ سکتے ہیں جن پر ہم کھال چڑھا دیتے ہیں،‘‘ پدوم بتاتے ہیں۔ یہ دبا مرمت کے لیے ہی آیا ہوا ہے۔
’’کبھی کبھی ہمیں سترا اور نامگھر میں دبا کی مرمت کرنے خود جانا ہوتا ہے،‘‘ وہ آگے بتاتے ہیں۔ ’’پہلے دن جا کر ہم پیمائش کر لیتے ہیں۔ اس کے دوسرے دن ہم چمڑے کے ساتھ جاتے ہیں اور دبا کی سترا میں ہی مرمت کر دیتے ہیں۔ اس کام میں ہمیں گھنٹہ بھر لگتا ہے۔‘‘
چمڑے کا کام کرنے والوں کے ساتھ بھید بھاؤ کرنے کی لمبی تاریخ رہی ہے۔ ’’وہ لوگ جو ڈھول بجاتے ہیں، وہ تھاپ دینے کے وقت اپنی انگلیوں پر رال لگا لیتے ہیں، اور پھر ڈھول بجاتے ہیں۔ ٹیوب ویل میں لگنے والا واشر بھی چمڑے کا بنا ہوتا ہے،‘‘ گریپود بتاتے ہیں۔ ’’اس لیے ذات پات کے نظریہ سے بھید بھاؤ بیکار کی باتیں ہیں۔ چمڑے کو لے کر کسی قسم کے اعتراض کا کوئی مطلب نہیں ہے۔‘‘
پانچ سال پہلے فیملی نے ایک چھوٹی سی زمین خریدی اور اپنے لیے نیا بازار میں ایک گھر بنایا۔ وہ میسنگ، اسمیا، دیئوری، اور بنگالی لوگوں کی ملی جلی آبادی کے درمیان رہتے ہیں۔ کیا انہیں کبھی بھید بھاؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے؟ ’’ہم لوگ منی داس ہیں۔ روی داس برادری کے لوگ، جو مردہ جانوروں کے چمڑے کے پیشہ سے جڑے ہوئے ہیں ان کے ساتھ تھوڑا بہت بھید بھاؤ ہوتا ہی ہے۔ ذات پر مبنی تفریق بنگال میں کہیں زیادہ ہے۔ یہاں تفریق تھوڑی کم ہے،‘‘ گریپود جواب میں کہتے ہیں۔
*****
بادیوکار ایک بیل کی پوری کھال تریباً ۲۰۰۰ روپے میں عموماً جورہاٹ کے کاکوجان کے مسلم تاجروں سے خریدتے ہیں۔ یہاں کھال کی قیمت تھوڑی زیادہ ضرور ہے، لیکن پاس کے لکھیم پور ضلع میں فروخت ہونے والی کھال سے اس کی قسم تھوڑی بہتر ہوتی ہے،‘‘ پدوم بتاتے ہیں۔
بدلتے قوانین کے سبب کھال کو حاصل کرنا ان دنوں مشکل ہو گیا ہے۔ آسام کے مویشیوں کے تحفظ کا قانون، ۲۰۲۱ کے تحت گائے کے ذبیحہ پر پابندی ہے۔ یہ دوسرے جانوروں کو ذبح کرنے کی اجازت تو دیتا ہے، لیکن اس کے لیے ایک رجسٹرڈ مویشی افسر کو یہ تصدیق کرنا ضروری ہے کہ جانور کی عمر ۱۴ سال سے زیادہ ہو چکی ہے یا وہ ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہو چکا ہے۔ اس قانون کے سبب کھال کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے، جس کا منفی اثر نئے سازوں کی تعمیر اور ان کی مرمت کی قیمتوں پر بھی پڑا ہے۔ ’’لوگ بڑھی ہوئی قیمتوں کی شکایت کرتے ہیں، لیکن اس بارے میں کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے،‘‘ پدوم کہتے ہیں۔
گریپود ایک بار اپنا کام نمٹا کر گھر واپس آ رہے تھے۔ ان کے پاس چمڑے پر کام کرنے والے اوزاروں کے علاوہ ایک داؤ چھری بھی تھی۔ پولیس نے انہیں ایک چیک پوسٹ پر روک لیا اور ان سے سوال جواب کرنے لگی۔ ’’میرے والد نے ان کو یہ بھی بتایا کہ میں کون سے پیشہ میں ہوں، اور یہاں ایک آلہ موسیقی دینے آیا تھا،‘‘ لیکن پولیس نے انہیں جانے دینے سے صاف منع کر دیا۔
’’جیسا آپ سمجھ سکتے ہیں، پولیس نے ہم پر بھروسہ نہیں کیا۔ ان کو لگا کہ ہم چوری چھپے گایوں کو ذبح کرنے جا رہے ہیں،‘‘ پدوم یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔ آخرکار، گریپود کو پولیس کو ۵۰۰۰ روپے دینے پڑے، تب وہ کہیں گھر لوٹ سکے۔
اسی طرح گھن کو منگوانا بھی ایک جوکھم بھرا کام ہے، کیوں کہ وہ بم بنانے میں کام آتا ہے۔ گریپود گولا گھاٹ ضلع کی ایک بڑی دکان سے ایک بار میں ایک یا دو کلوگرام گھن خریدتے ہیں۔ اس دکان کو گھن بیچنے کا لائیسنس ملا ہوا ہے۔ چھوٹے راستے سے بھی اس دکان سے آنے جانے میں تقریباً ۱۰ گھنٹے لگتے ہیں اور وہاں پہنچنے کے لیے کشتی سے برہم پتر ندی پار کرنی ہوتی ہے۔
’’اگر پولیس نے اسے دیکھ لیا یا ہمیں اس کے ساتھ پکڑ لیا، تو ہمیں جیل جانے کی نوبت بھی آ سکتی ہے،‘‘ گریپود کہتے ہیں۔ ’’اگر ہم انہیں یہ یقین دلا دیں کہ ہم طبلے پر اسے کیسے لگاتے ہیں، تب تو ٹھیک ہے۔ نہیں تو ہمارا جیل جانا پکا ہے۔‘‘
یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) سے ملی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز