مرہی ماتا کے مندر کے چار فٹ اونچے داخلی دروازہ کی وجہ سے عقیدت مندوں کو مندر میں سر جھکا کر داخل ہونا پڑتا ہے۔ لیکن ماتا کی غیبی طاقت کے تئیں لوگوں کے من میں اتنی گہری عقیدت ہے کہ مرہا اور اس کے ارد گرد کے گاؤوں سے بڑی تعداد میں لوگوں کا مجمع ان کے درشن کے لیے امنڈ پڑتا ہے۔

’’اگر آپ کی فیملی میں کوئی بیمار پڑ جائے، تو آپ بھگوتی کے مندر میں پرارتھنا کے لیے آ سکتے ہیں،‘‘ بابو سنگھ کہتے ہیں۔ کئی دوسرے عقیدت مندوں کے ساتھ برگد کے درخت کے سایہ میں بیٹھے بابو سنگھ پوجا شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس مندر کی دیوی بھگوتی ہیں۔ ’’وہ تمام مشکلیں حل کر دیں گی – خواہ وہ بیمار ہو یا بھوت ہو یا ڈائن،‘‘ وہ پختہ یقین کے ساتھ کہتے ہیں۔

یہ بدھ کا دن ہے اور آج ایک خاص رسم ادا کی جا رہی ہے – آج مندر کے پروہت (جنہیں مقامی لوگ پنڈا کہتے ہیں) پر دیوی کی آتما آنے والی ہے۔ آج پنڈے کے منہ سے خود دیوی بولیں گی اور عقیدت مندوں کے سوالات کے جواب دیں گی۔ عقیدت مندوں کے دوسرے مسائل، خاص طور پر صحت سے متعلق پریشانیوں کو بھی آج حل کیا جائے گا۔

عقیدت مندوں میں آئے زیادہ تر لوگ گہدرا، کونی، کُڈن، کھامری، مجھولی، مرہا، رکسیہا اور کٹہری بلہاٹہ سے آئے ہوئے ہیں۔ کچھ عورتیں بھی موجود ہیں جنہوں نے گھونگھٹ کر رکھا ہے۔

’’آٹھ گاؤوں کے لوگ آتے ہیں،‘‘ مقامی پروہت اور مسائل کو بیان کرنے والے بھیا لال آدیواسی کہتے ہیں۔ آج کے دن وہ کچھ زیادہ مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ایک گونڈ آدیواسی ہیں اور ان کی فیملی کئی نسلوں سے دیوی کی خدمت کرتی آ رہی ہے۔

PHOTO • Sarbajaya Bhattacharya
PHOTO • Sarbajaya Bhattacharya

بائیں: مندر کا ایک نظارہ۔ دائیں: داخلی دروازہ

PHOTO • Priti David
PHOTO • Sarbajaya Bhattacharya

بائیں: لال قمیض میں مندر کے پروہت بھیا لال آدیواسی اور دیگر عقیدت مند۔ دائیں: مندر کے احاطہ میں دوسری مقدس جھونپڑیوں کے قریب نلیش تیواری

مندر کے اندرونی حصہ میں لوگوں کا ایک گروپ ڈھول اور ہارمونیم کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے ساز بجا رہا ہے اور رام اور سیتا کے ناموں کا ورد کر رہا ہے۔

ایک کونے میں ایک تھالی سے ڈھکا ایک معمولی سا برتن رکھا ہے۔ ’’تھالی بجے گی آج،‘‘ تھالی کو دکھاتے ہوئے اپنی جگہ پر خاموشی کے ساتھ بیٹھے ہوئے پنّا کے رہائشی نلیش تیواری کہتے ہیں۔

اسی درمیان بھیا لال داخل ہوتے ہیں اور دیوی کے سامنے آگے پیچھے ٹہلتے ہوئے اپنی جگہ پر بیٹھتے ہیں۔ انہیں ۲۰ سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں نے گھیر رکھا ہے جو خود بھی اس تقریب میں شامل ہیں۔ پورے کمرے کا ماحول تھالی کو پیٹنے کی آواز سے گونج رہا ہے، اگربتی سے نکلتا دھواں چاروں طرف پھیلتا جا رہا ہے، مندر کے سامنے ہون کُنڈ سے آگ کی چمکیلی لپٹیں اٹھ رہی ہیں۔ یہ سب پروہت پر دیوی کی آمد کے انتظار میں کیا جا رہا ہے۔

جیسے ہی موسیقی کی دُھن تیز ہوتی ہے، اپنے پیروں کو متوازن کرتے پنڈا اچانک رک جاتے ہیں۔ موجود لوگ پوری طرح خاموش ہو جاتے ہیں، لیکن ہر آدمی یہ سمجھ رہا ہے کہ دیوی نے پنڈے کو پوری طرح سے اپنے قابو میں کر لیا ہے۔ عقیدت مندوں کے درمیان ایک افراتفری مچ جاتی ہے۔ وہ جلد از جلد پنڈے سے اپنے سوالوں کا جواب پوچھنے کے لیے بیتاب ہیں۔ لوگ بھیا لال کے کانوں میں اپنی باتیں کہتے ہیں اور وہ اپنی مٹھی میں اناج بھر لیتے ہیں۔ وہ اس اناج کو متاثرہ شخص کے سامنے فرش پر پھینکتے جاتے ہیں، اناج کے دانوں کی تعداد میں ہی عقیدت مندوں کی خوشیوں اور تکلیفوں کا راز پوشیدہ ہے۔

عقیدت مند اگربتی کی بجھی ہوئی راکھ کو جمع کرتے ہیں۔ یہ ان کے لیے مقدس ہے، اس لیے وہ راکھ کو نگل جاتے ہیں۔ یہی ان کی تکلیفوں اور پریشانیوں کا علاج ہے۔ مرہی ماتا کے پرساد کو لوگ بہت طاقتور مانتے ہیں۔ ’’جہاں تک میں سمجھتا ہوں، یہ آج تک ناکام نہیں ہوا،‘‘ پنڈا مسکراتے ہوئے بتاتے ہیں۔

لوگ بتاتے ہیں کہ یہ علاج آٹھ دنوں تک چلتا رہتا ہے۔ اس کے بعد بقول بھیا لال، ’’آپ اپنی استعداد اور عقیدت کے مطابق دیوی کو ناریل، یا اٹھوائی [گیہوں کے آٹے کی بنی چھوٹی پوڑیاں]، کنیا بھوجن یا بھاگوت کا چڑھاوا چڑھا سکتے ہیں۔ یہ پوری طرح عقیدت مندوں پر منحصر ہے۔‘‘

دیکھیں: مرہی ماتا کا مندر

’ہم اپنی زمین کھو رہے ہیں، یہ بات ہر آدمی کو بری لگ رہی ہے۔ لیکن اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ ہم اس مقدس جگہ کو بھی کھو دیں گے۔ اگر کام کی تلاش میں گاؤں کے لوگ ایسے ہی باہر جا کر آباد ہوتے رہیں گے، تو ہمارے لوگوں کا کیا حشر ہوگا، کسے معلوم‘

مقامی لوگ کہتے ہیں کہ اس علاقہ میں ٹائیفائڈ کا بہت ڈر ہے، جسے یہاں باباجو کی بیماری کے نام سے بھی جانتے ہیں، جو ایک غیبی طاقت ہے۔ پوری ریاست میں خواتین کی صحت اور بچوں کی شرح اموات کی حالت قابل دید ہے۔ قومی خاندانی صحت سروے ۵ ، ۲۱-۲۰۱۹ کے مطابق، ہر ۱۰۰۰ پیدائشوں پر ۴۱ اموات کے ساتھ پورے ملک میں مدھیہ پردیش میں بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔

پنّا ٹائیگر ریزرو کے اندر کے اور ارد گرد کے گاؤوں بنیادی طبی سہولیات سے تقریباً محروم ہیں۔ سب سے قریبی سرکاری اسپتال پنّا شہر میں ہے، جو تقریباً ۴۵ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ اس کے علاوہ واحد پرائمری ہیلتھ سنٹر (پی ایچ سی) تقریباً ۲۲ کلومیٹر دور امان گنج میں ہے۔

’’یہاں لوگ ڈاکٹروں کے پاس یا اسپتال جانے اور ان کے ذریعہ بتائی گئی دوائیں لینے سے ہچکچاتے ہیں،‘‘ پنّا میں طبی خدمات کے شعبہ میں پچھلے سات سالوں سے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’کوشیکا‘ سے وابستہ دیو شری سومانی کہتی ہیں۔ ’’انہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہماری سب سے بڑی چنوتی ہے۔ ہمیں ان کے عقائد اور روایتی طبی روایات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’یہاں گاؤں کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ سبھی بیماریاں بنیادی طور پر کسی غیبی طاقت یا متوفی اجداد کے غصے کی علامت ہیں۔‘‘

یہاں تک کہ ایلوپیتھک دواؤں کی حدود کے اندر بھی ان کا علاج ان کی ذات پر مبنی پہچان کے سبب متاثر ہوتا ہے، کیوں کہ ان علاجوں کے تئیں وہ کہیں زیادہ شکوک میں مبتلا ہوتے ہیں، دیو شری بتاتی ہیں۔

PHOTO • Priti David
PHOTO • Sarbajaya Bhattacharya

بائیںَ: پوجا کی تیاری کرتے بھیا لال۔ دائیں: مندر کے اندر عقیدت مند اور ان کے پیچھے موسیقاروں کا گروپ

*****

اس علاقہ میں مجوزہ کین بیتوا ندی جوڑو منصوبہ (کے بی آر ایل پی) کے سبب پنّا اور چھترپور کے متعدد گاؤں ہمیشہ کے لیے پانی میں ڈوب جائیں گے۔ حالانکہ، اس منصوبہ کی تیاری دہائیوں سے ہے، لیکن مقامی باشندوں کو اب بھی ٹھیک سے نہیں معلوم ہے کہ انہیں یہاں سے کہاں اور کب جانا ہے۔ ’’کھیتی بند ہے اب،‘‘ لوگ کہتے ہیں۔ ان کا اشارہ صاف ہے کہ ان کی نقل مکانی میں زیادہ وقت نہیں ہے۔ (پڑھیں: پنّا کے آدیواسیوں کا تاریک مستقبل )

انہیں بس یہ معلوم ہے کہ ’’ہم اپنی بھگوتی کو اپنے ساتھ لیتے جائیں گے،‘‘ بھیا لال پختہ لہجہ میں کہتے ہیں۔ ’’سب کو اس کا دکھ ہے کہ ہم اپنی زمینیں گنوا رہے ہیں، لیکن اس مقدس جگہ کو کھو دینے کا دکھ ہمیں سب سے زیادہ ہے۔ اگر لوگ کام کی تلاش میں باہر چلے جائیں گے، تو ہمارے لوگوں کا کیا ہوگا۔ گاؤں ڈوب جائیں گے۔ اگر ہمیں آباد ہونے کے لیے دوسری جگہ دی جاتی، جہاں بھگوتی کو دوبارہ نصب کیا جا سکتا، تو ہماری حفاظت ہو پاتی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

سنتوش کمار، مجھگاواں سے آئے ہیں جو ۱۰ کلومیٹر دور ہے۔ وہ تقریباً ۴۰ سالوں سے باقاعدگی سے اس مندر میں آتے رہے ہیں۔ ’’تسلی ملتی ہے،‘‘ ۵۸ سالہ سنتوش کہتے ہیں۔

’’اب چونکہ ہمیں یہاں سے جانا ہوگا، بمشکل دو سال بعد دیوی شاید یہاں نہیں ملیں گی، اس لیے میں یہاں آیا ہوں،‘‘ سنتوش کہتے ہیں، جو اپنے پانچ چھ ایکڑ کھیت میں مسور، چنا اور گیہوں اُگاتے ہیں۔

PHOTO • Sarbajaya Bhattacharya
PHOTO • Priti David

بائیں: سنتوش کمار (دائیں) کہتے ہیں کہ مندر آ کر ان کو تسکین ملتی ہے۔ دائیں: مدھو بائی (بینگنی ساڑی میں) کو بھی یہی محسوس ہوتا ہے: ’آرام ملتا ہے،‘ وہ کہتی ہیں

بھیا لال ٹھیک سے نہیں جانتے کہ ان کا ۲۰ سال کا بیٹا دیوی کی خدمت کی اس روایت کو آگے بڑھائے گا کہ نہیں، ’’وہ تو ان کے اوپر ہے،‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔ ان کا بیٹا ان کی پانچ ایکڑ زمین پر گیہوں اور سرسوں کی کھیتی کرتا ہے۔ وہ کچھ پیداوار فروخت کر دیتے ہیں اور بچی ہوئی فصل اپنے استعمال کے لیے رکھتے ہیں۔

’’آرام ملتا ہے،‘‘ امان گنج میں کھیتی کرنے والی مدھو بائی کہتی ہیں۔ ’’درشن کے لیے آئے ہیں،‘‘ میدان میں دوسری عورتوں کے ساتھ بیٹھی ۴۰ سال کی مدھو کہتی ہیں۔ پیچھے سے گانے اور آلات موسیقی کی سریلی آواز لگاتار آتی رہتی ہے۔

جب وہ بات چیت کر رہی ہیں، اس وقت ڈھول اور ہارمونیم کی آواز بلند ہوتی جا رہی ہے۔ آہستہ آہستہ موسیقی اتنی تیز بجنے لگتی ہے کہ ایک دوسرے کو سن پانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ’’درشن کر کے آتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں اور کھڑی ہو کر اپنی ساڑی کی سلوٹیں دور کرنے لگتی ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Sarbajaya Bhattacharya

सर्वजया भट्टाचार्य, पारी के लिए बतौर सीनियर असिस्टेंट एडिटर काम करती हैं. वह एक अनुभवी बांग्ला अनुवादक हैं. कोलकाता की रहने वाली सर्वजया शहर के इतिहास और यात्रा साहित्य में दिलचस्पी रखती हैं.

की अन्य स्टोरी Sarbajaya Bhattacharya
Editor : Priti David

प्रीति डेविड, पारी की कार्यकारी संपादक हैं. वह मुख्यतः जंगलों, आदिवासियों और आजीविकाओं पर लिखती हैं. वह पारी के एजुकेशन सेक्शन का नेतृत्व भी करती हैं. वह स्कूलों और कॉलेजों के साथ जुड़कर, ग्रामीण इलाक़ों के मुद्दों को कक्षाओं और पाठ्यक्रम में जगह दिलाने की दिशा में काम करती हैं.

की अन्य स्टोरी Priti David
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पीपुल्स आर्काइव ऑफ़ रुरल इंडिया के ट्रांसलेशन्स एडिटर, उर्दू, हैं। वह दिल्ली स्थित एक पत्रकार हैं।

की अन्य स्टोरी Qamar Siddique