جمعرات، ستمبر ۲۰۱۷ کی صبح کے تقریباً ۱۰ بجے ہیں۔ لالتی دیوی پاسوان اور شوبا بھارتی اترپردیش کے سون بھدر ضلع کے رابرٹس گنج شہر میں ضلع مجسٹریٹ کے دفتر کے باہر ایک پلاسٹک بنچ پر انتظار کر رہی ہیں۔ یہ خواتین خاموش ہیں۔ ایسا وہ پہلے بھی کئی بار کر چکی ہیں۔
لالتی دیوی اور ان کے شوہر شیام لال کے خلاف ۲۰ سے زیادہ مجرمانہ معاملے درج ہیں۔ وہ ڈی ایم کو یہ بتانے کے لیے آئی ہیں کہ گاؤں کے کچھ لوگ ان کے بارے میں افواہیں پھیلا رہے ہیں – ان کی معتبریت اور ان کے یونین کے کام کو کمزور کرنے کے لیے – انھیں ڈائن، چڑیل بتا کر ان کی زندگی کو اور بھی مشکل بنا رہے ہیں۔ ’’ڈی ایم سے ملنا ضروری ہے۔ انھیں ہماری آوازیں سننی ہوں گی اور ہمیں دیکھنا ہوگا، تاکہ ہم چیزوں کو بدلنے کے لیے قانون کا استعمال کر سکیں،‘‘ لالتی، جو ۶۰ کی عمر میں ہیں، کہتی ہیں۔
’’میں انصاف کی منتظر ہوں،‘‘ شوبا کہتی ہیں، جو ۵۰ کی عمر میں ہیں۔ ’’میں معاوضہ کے لیے درخواست کرنے آئی ہوں۔ مقامی حکومت کو [عصمت دری کی شکار خواتین کو] یہ مدد دینی ہے، لیکن ڈی ایم نے میری فائل آگے نہیں بڑھائی۔‘‘ شوبا اور ان کے شوہر پر محکمہ جنگلات نے غیر قانونی طریقے سے درختوں کو کاٹنے کا الزام لگایا ہے، اور ان کے نام دیگر گروپ کے معاملوں میں بھی شامل ہیں، اکثر ان کاموں کے لیے جن کا حصہ ہونے سے وہ منع کرتے ہیں۔
دلت برادری کی یہ دونوں خواتین، پورے صبرو تحمل کے ساتھ ڈی ایم پرمود اپادھیائے کے دفتر میں جانے کے لیے ایک گھنٹہ سے انتظار کر رہی ہیں۔ ان کے ساتھ آل انڈیا یونین آف فاریسٹ ورکنگ پیوپل (اے آئی یو ایف ڈبلیو پی) کی جنرل سکریٹری روما ملک، اور یونین کے رابرٹس گنج دفتر کے دیگر لوگ ہیں۔ ملک سون بھدر ضلع میں ۱۸ سال سے کام کر رہی ہیں۔ ’’پولس کی بربریت کے کئی معاملے ہیں، جن پر ہم انتظامیہ سے بات کرنا چاہتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
اے آئی یو ایف ڈبلیو پی (بنیادی طور سے ۱۹۹۶ میں قائم، نیشنل فورم آف فاریسٹ پیوپل اینڈ فاریسٹ ورکرس) کا قیام ۲۰۱۳ میں عمل میں آیا تھا۔ اتراکھنڈ، بہار، جھارکھنڈ اور مدھیہ پردیش سمیت تقریباً ۱۵ ریاستوں میں، اس کے ایک لاکھ ۵۰ ہزار ارکان ہیں۔ اترپردیش میں، یہ یونین تقریباً ۱۰ ہزار ممبران کے ساتھ ۱۸ ضلعوں میں کام کرتی ہے۔ اس کی تقریباً ۶۰ فیصد لیڈر خواتین ہیں اور ان کا بنیادی مطالبہ، گرام سبھاؤں کے حق کو تسلیم کرکے اور جنگلات میں رہنے والی برادریوں کو خود مختاری کا متبادل فراہم کرتے ہوئے، حق جنگلات قانون (ایف آر اے) کو نافذ کرنا ہے۔
یونین کے دیگر ممبران کے ساتھ، لالتی اور شوبا بھی برسوں سے ایف آر اے کے تحت زمین کے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں۔ اس کے لیے، وہ کئی بار جیل جا چکی ہیں۔ ایف آر اے قانون ۲۰۰۶ میں بنایا گیا تھا، جو جنگلات میں رہنے والی برادریوں کے خلاف دہائیوں کی ’تاریخی نا انصافی‘ کو تسلیم کرتا ہے۔ اس قانون کا مقصد، دیگر حل کے علاوہ، جنگل میں رہنے والی برادریوں کے ذریعے ’قبضہ‘ اور جلانے کی لکڑی، پھل یا پھول جمع کرنے جیسی معاش کی روایتی سرگرمیوں کو غیر مجرمانہ بنانا ہے۔
یونین کے دیگر ممبران کے ساتھ، لالتی اور شوبا بھی برسوں سے حق جنگلات قانون کے تحت زمین کے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں۔ اس کے لیے، وہ کئی بار جیل جا چکی ہیں۔ ایف آر اے قانون ۲۰۰۶ میں بنایا گیا تھا، جو جنگلات میں رہنے والی برادریوں کے خلاف دہائیوں کی ’تاریخی نا انصافی‘ کو تسلیم کرتا ہے
تھوڑی دیر بعد، ڈی ایم دفتر کے باہر انتظار کر رہی خواتین کو اندر آنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ اندر پہنچنے پر، اپادھیائے پوچھتے ہیں، ’’کیا آپ لوگ غیر قانونی طور پر وہاں رہ رہے ہیں؟‘‘ وہ صرف روما ملک کو مخاطب کرتے ہیں، کوئی بھروسہ نہیں دلاتے، اور پانچ منٹ میں انھیں باہر بھیج دیتے ہیں۔ ’’سون بھدر میں قانون اور نظم و نسق کے لیے ڈی ایم ذمہ دار ہیں،‘‘ روما بعد میں کہتی ہیں۔ ’’اگر کوئی ظلم ہو رہا ہے، تو آپ کو کہیں نہ کہیں اسے دیکھنا ہی ہوگا... حق جنگلات قانون موجود ہونے کے باوجود، افسر اسے نافذ نہیں کرنا چاہتے۔‘‘
یوپی کا دوسرا سب سے بڑا ضلع، سون بھدر، تھرمل پاور پلانٹ اور چونا پتھر کی کانکنی کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ ریاست کے سب سے آلودہ حصوں میں سے بھی ایک ہے، دہلی واقع سنٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ کے ذریعے ۲۰۱۲ کی رپورٹ میں ایسا کہا گیا ہے، جس کا عنوان ہے – اترپردیش کے سون بھدر ضلع میں پارہ سے آلودگی اور صحت پر اس کا اثر۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہاں کے کچھ آبی ذرائع میں پارہ کی سطح انسانی استعمال یا زرعی استعمال کے لیے خطرناک ہے – لیکن یہ ایک اور کہانی ہے۔
لالتی کی کہانی
جنگل کے ایشوز پر مبنی رابرٹس گنج کی میٹنگ میں حصہ لینے کے بعد، لالتی دیوی ۲۰۰۴ میں یونین میں شامل ہوئیں۔ ان کے گاؤں رام گڑھ میں، لالتی کی فیملی نے اپنی زمین کو ہڑپنے کی کوشش کرنے والے زمینداروں کی مخالفت کی تھی، اس لیے انھوں نے اپنے بھتیجہ سے جب یونین کے بارے میں سنا، تو انھیں دلچسپی ہوئی۔ تین سال بعد، انھوں نے اور شیام لال نے ہرّا-برولا گاؤں میں زمین پر دوبارہ دعویٰ کرنے کے لیے ایک تحریک کی قیادت کی – تقریباً ۱۵۰ دلت اور آدیواسی خاندانوں نے ۱۳۵ ایکڑ جنگلاتی زمین پر قبضہ کرکے اسے کھیت میں بدل دیا۔
’’ہمارے دادا-دادی کسی بھی وقت جنگل میں جانے میں اہل تھے،‘‘ شیام لال بتاتے ہیں۔ ’’ہمارے لیے، یہ ایک جرم بن گیا۔‘‘ انھیں دوبارہ دعویٰ کا منصوبہ بنانے میں دو سال لگے – زمین کے نقشے کا مطالبہ کرنے، لوگوں کو منظم کرنے، زمین کو صاف کرنے اور درخت لگانے میں۔
لالتی اُن دنوں کو یاد کرتی ہیں: ’’ہم روز صبح ۵ بجے اٹھتے تھے تاکہ وارڈن ہمیں گن سکیں، اس کے بعد ہم جھاڑو پونچھا کرتے تھے۔ پھر غسل کرتے اور روٹی، دال یا سبزی کھاتے تھے، اس کے بعد وہ ہمیں واپس اندر بند کر دیتے۔‘‘ وہ تھوڑا رکتی ہیں۔ ’’مجھے میرے بچوں کی یاد ستاتی۔ میں روتی تھی، لیکن ہم جیل میں ہر اتوار کو ان سے ملتے۔ ہمیں مضبوط رہنا تھا – ہم اتنے بڑے نظام کے خلاف کام کر رہے ہیں۔‘‘ لالتی اور شیام لال کے پانچ بچے اب بڑے ہو چکے ہیں؛ وہ کھیتی اور یومیہ مزدوری کرتے ہیں۔
لالتی دیوی اور شیام لال کو ۲۰۱۰ میں، اوبرا شہر (ان کے گاؤں سے تقریباً ۵۰ کلومیٹر دور) کی پولس نے روک لیا، جب وہ زمینی اصلاح کی مانگ والی ایک ریلی سے واپس آ رہے تھے۔ ’’پولس ہمیں جانتی تھی۔ انھوں نے ہمیں پولس اسٹیشن جانے پر مجبور کرنے کی کوشش کی، لیکن ہم نے انکار کر دیا۔ پھر ہمارے ہاتھ ہماری پیٹھ کے پیچھے باندھ دیے گئے۔ انھوں نے میرے بال کھینچے، ہمیں بری طرح پیٹا گیا – یہ بہت ڈراؤنا تھا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
’’انھوں نے ہمیں گرفتار کر لیا، اور پولس کی گاڑی میں مرزاپور جیل لے گئے۔ میں اتنی زخمی ہو گئی تھی کہ جیل میں بیمار رہی۔ میں خود سے کھانے یا غسل کرنے کے قابل نہیں تھی۔ جیل میں کوئی تبدیلی نہیں – وہی کھانا، وہی برتاؤ، لیکن اس بار میرے اندر لڑنے کا حوصلہ نہیں تھا۔ میں بچ گئی، کیوں کہ ایک دیگر خاتون نے مریض کی طرح میرا علاج کیا اور میری دیکھ بھال کی۔‘‘
لالتی اور شیام لال نے ہرّا-برولا گاؤں میں زمین پر دوبارہ دعویٰ کرنے کے لیے ایک تحریک کی قیادت کی – ’ہمارے دادا-دادی کسی بھی وقت جنگل میں جانے میں اہل تھے،‘ شیام لال بتاتے ہیں۔ ’ہمارے لیے، یہ ایک جرم بن گیا‘
رابرٹس گنج میں عدالت کے ذریعے لالتی کو ہر بار رہا کر دیا جاتا ہے، اور وہ یونین کے وکیل ونود پاٹھک کی مدد سے، اپنا مقدمہ ابھی بھی لڑ رہی ہیں۔ ان میں مجرمانہ زیادتی اور فساد کے معاملے بھی شامل ہیں۔ ’’ہم اپنے وکیل کو دیکھنے، عدالت میں پیش ہونے، میٹنگوں میں جانے، ڈی ایم سے ملنے کی کوشش میں کافی وقت گزارتے ہیں۔ ہمارے خلاف بہت سارے جھوٹے معاملے ہیں، کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہم جو کر رہے ہیں وہ کاغذی کام ہے۔ ہمارا سارا پیسہ اور توانائی اسی میں چلی گئی ہے۔ ہمارے پاس عام زندگی بسر کرنے کے لیے وقت نہیں ہے، یا تو پیسہ کمائیں – یا بس جئیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ لالتی اور شیام لال کے بیٹے ان کی اقتصادی مدد کرتے ہیں اور لالتی کو یونین کا کام کرنے کے لیے ایک معمولی رقم ملتی ہے۔
یہ سب انھیں روک نہیں پایا۔ ’’میں کبھی کبھی تھک جاتی ہوں۔ میں جاننتا چاہتی ہوں کہ ہمیں سکون کب ملے گا، ہم یہ سب اپنے بچوں کے لیے کر رہے ہیں۔ ہم جیل جانے سے نہیں ڈرتے۔ ہمیں لے جاؤ۔ یہ ہماری زمین لینے سے بہتر ہے۔‘‘
شوبا کی کہانی
زمین کے حق کی تحریکوں میں خواتین اکثر سب سے آگے رہتی ہیں، لیکن انھیں عام طور پر قبول نہیں کیا جاتا۔ دی ہندو سنٹر فار پالیٹکس اینڈ پبلک پالیسی کی ۲۰۱۶ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کمزور برادریوں میں اس قسم کی تحریکوں کی قیادت کرنے والی خواتین کو تشدد اور جیل جانے کا سب سے زیادہ خطرہ رہتا ہے – خاص کر جو جدوجہد میں آواز بنتی ہیں، جیسے کہ لالتی اور شوبا۔
شوبا اور ان کے شوہر رام غریب بھارتی، لالتی کے گاؤں سے بس کے ذریعہ تقریباً دو گھنٹے کی دوری پر واقع رابرٹس گنج تعلقہ کے چوپن بلاک کے باڈی گاؤں میں، چار بیگھہ زمین (تقریباً ایک ایکڑ) کے لیے ۲۰ سال سے لڑائی لڑ رہے ہیں۔ چوپن چونا پتھر، سنگ مرمر اور خام لوہا جیسی معدنیات سے مالامال ہے۔
برسوں پہلے، باڈی کے ارد گرد پتھر توڑنے والے کے طور پر کام کرتے ہوئے، انھوں نے دھیرے دھیرے زمین کا ایک چھوٹا ٹکڑا صاف کرنا شروع کیا۔ اس سے روایتی زمیندار طبقہ ناراض ہو گیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ زمین چھوڑ کر وہ چلے کیوں نہیں گئے، تو شوبا جواب دیتی ہیں، ’’لیکن کہاں جائیں؟ ہر جگہ کا یہی حال ہے۔‘‘
شوبا بتاتی ہیں کہ ۲۰۰۶ میں، زمیندار طبقہ کے ایک شخص نے ان کو اپنی دکان پر بلایا۔ وہاں اس نے انھیں مارا اور ان کا جنسی استحصال کیا۔ ’’یہ مرنے سے بھی بدتر ہے،‘‘ وہ حملے کو یاد کرتے ہوئے، دھیرے سے کہتی ہیں۔ ’’میرے شوہر اس کا قتل کر دینا چاہتے تھے، لیکن مجھے انصاف چاہیے تھا۔ مجھے اپنی بچہ دانی کی سرجری کروانی پڑی۔‘‘
واقعہ کے فوراً بعد، شوبا دو کلومیٹر دور، چوپن پولس اسٹیشن گئیں۔ لیکن پولس نے معاملہ درج نہیں کیا۔ پولس رپورٹ درج کرانے میں انھیں تقریباً دو سال لگے۔ ’’میں کہاں نہیں گئی، الہ آباد گئی، مختلف وزارتوں میں گئی، دہلی گئی۔ اخیر میں ایک وکیل، ونود پاٹھک سے ملی، جنہوں نے اس معاملے کو لیا، اور ان کے توسط سے میں روما دی سے ملی۔‘‘
’’ہم امید کر رہے ہیں کہ اب ٹرائل شروع ہوگا،‘‘ پاٹھک کہتے ہیں۔ ’’کبھی کبھی اگر کاغذی کارروائی کرنے میں دیر ہوتی ہے، تو جج کے دل میں شک پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ ملزم جیل گیا تھا [ضمانت ملنے سے پہلے، تقریباً ۲۰ دنوں کے لیے]۔ ہم اسے ہمیشہ کے لیے وہاں دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
شوبا ۲۰۱۰ میں یونین میں شامل ہوئیں، اور دیگر بے زمین خواتین سے ملنے لگیں، راشن کارڈ کے بارے میں، پولس کی بربریت کے بارے میں انھیں بتانے لگیں۔ انھوں نے لگاتار میٹنگیں کیں، ایک ساتھ کام کیا اور زمین کے نقشے اور عدالت کے ریکارڈ کو دیکھا۔ کچھ دنوں بعد، انھوں نے فیصلہ کیا – ۱۵۰ بیگھہ کھیت (تقریباً ۳۸ ایکڑ)، اور پوری طرح سے ۵۰۰ بیگھہ (۱۲۴ ایکڑ)، جس میں جنگل بھی شامل ہیں، جو باڈی سے زیادہ دور نہیں ہیں۔ انھوں نے اسے درگا ٹولہ کہا۔ ’’ایسا اس لیے کیوں کہ ہم دُرگا ماتا کی پوجا کرتے ہیں۔ اور اس لیے کہ سبھی خواتین کو یاد ہے کہ ان میں درگا کی شکتی ہے!‘‘ شوبا کہتی ہیں۔
’’ہمیں خود کو منظم کرنے میں دو سال لگے، لیکن خواتین ایک ساتھ آئیں۔ ہم ساتھ رہے۔ ہم نے جنگل صاف کیے، درخت خریدے، پودھے لگائے اور دھیرے دھیرے گھر بنائے۔ اب ہم وہاں کھیتی کرتے ہیں۔‘‘
’’درگا ٹولہ اور ہرّا-برولا واحد واقعات نہیں ہیں،‘‘ روما کہتی ہیں۔ ’’ہم نے سون بھدر ضلع میں تقریباً ۲۰ برسوں تک جنگلات اور زمین کے ایشوز پر کام کیا ہے، برادریوں کو متحد کرنے کی کوشش کی ہے۔ لوگوں نے زمین پر پھر سے دعویٰ کرنا شروع کیا اور اس طرح سے تحریک میں تیزی آئی۔ کھیتوں پر کام کرکے لوگوں کو کھانے تک کے لیے نہیں مل رہا تھا۔ ہم ابھی بھی محکمہ جنگلات اور پولس سے لڑ رہے ہیں۔‘‘
درگا ٹولہ کی کامیابی کے بعد، ۶ فروری ۲۰۱۵ کو، شوبا کے گھر پر حملہ ہوا۔ صبح میں تقریباً ۱۱ بجے، درجنوں لوگوں نے ان کے دروازے کو توڑنے کی کوشش کی، آخرکار مبینہ طور پر گھر میں آگ لگا دی۔ اندر، شوبا، ان کی تین بیٹیاں اور ۱۸ دیگر خواتین تھیں۔ جب وہ باہر بھاگیں، تو وہاں پہلے سے موجود پولس نے سبھی خواتین کو گرفتار کر لیا اور بس سے ۱۱۰ کلومیٹر دور، مرزاپور کے ضلع جیل لے گئی۔ ’’ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں،‘‘ شوبا کہتی ہیں۔
مرزاپور جیل میں ۳۰ خواتین کے لیے صرف ایک بیرک ہے، لیکن جب شوبا وہاں پہنچیں، تب اس میں تقریباً ۱۰۰ خواتین کو رکھا گیا تھا۔ ۲۰۱۷ کی ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کی رپورٹ، جسٹس انڈر ٹرائل، کے مطابق پورے اترپردیش کی ۶۲ جیلوں میں تقریباً ۶۳ ہزار انڈر ٹرائل ہیں – اور ان میں قیدیوں کے رہنے کی شرح ۱۶۸ فیصد ہے۔ عدالت میں ان کی ابھی تک ابتدائی سماعت بھی نہیں شروع ہو سکی ہے۔
’’وہ ہمارے فون لے گئے۔ وہ ہمارے پیسے لے گئے [جو کچھ بھی ہم لے کر گئے تھے]،‘‘ شوبا کہتی ہیں۔ ’’ہمیں باتھ روم کے بغل میں سونا پڑا۔ ٹھنڈ تھی، کمبل پھٹے ہوئے تھے۔ ہماری پلیٹیں گوبر سے بنائی گئی تھیں۔ دو دن تک ہم نے اسے چلنے دیا، اس کے بعد ہم نے مخالفت شروع کر دی۔ ہم نے دو دنوں تک بھوک ہڑتال کی جب تک کہ ہمارے مطالبات – بہتر سونے کی جگہ، کمبل، بہتر کھانا – پورے نہیں ہو گئے۔‘‘
جیل سے تقریباً ۸۰ کلومیٹر دور، سون بھدر میں ڈی ایم کے دفتر پر سنگھ کے ذریعہ دھرنا دینے کے بعد، ۲۰ فروری ۲۰۱۵ کو ان خواتین کو رہا کیا گیا۔
’’ہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی،‘‘ شوبا کہتی ہیں۔ ’’ہم اپنے حقوق کے لیے گئے تھے۔ ہم نے چوری نہیں کی، ہم نے کچھ بھی غلط نہیں کیا، اس لیے مجھے جیل جانے پر برا نہیں لگتا۔‘‘
ان کی لڑائی جاری ہے۔ مشترکہ وسائل پر حقوق (ایف آر اے کے تحت) کا دعویٰ کرنے کے لیے، ۲۳ مارچ ۲۰۱۸ کو، شوبا اور لالتی نے سون بھدر کے ۲۰ گاؤوں کے تقریباً ۲۵۰۰ لوگوں کے ساتھ، ڈی ایم دفتر تک مارچ کیا۔ انھوں نے مختلف دستاویز جمع کیے تھے جیسے گرام سبھا کے حلف نامے، جنگل، ندی، اور پہاڑیوں کا روایتی طور پر استعمال کرنے والی برادری کے ذریعے بنائے نقشے، اور محکمہ جنگلات کے ’ایکشن پلان‘ کے مطابق حقوق کی فہرست۔ وہ جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔
یہ مضمون نیشنل فاؤنڈیشن آف انڈیا میڈیا ایوارڈس پروگرام کے حصہ کے طور پر لکھا گیا تھا؛ مضمون نگار نے ۲۰۱۷ میں یہ فیلوشپ حاصل کی تھی۔
(مترجم: محمد قمر تبریز)