’’میری فیملی نے میرے لیے ایک ایسا گھر تلاش کیا جس میں ایک علیحدہ کمرہ اور اس میں داخل ہونے کے لیے ایک الگ دروازہ تھا تاکہ میں خود کو دوسروں سے الگ رکھ سکوں،‘‘ ایس این گوپالا دیوی بتاتی ہیں۔ یہ مئی ۲۰۲۰ کی بات ہے، جب چند کنبوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے گھر کے بقیہ افراد کو بچانے کے لیے اس قسم کا قدم اٹھائیں گے – ساتھ ہی انتہائی خطرہ والے ان کے پیشہ سے متعلق اپنے اہل خانہ کے بوجھ کو کم کریں گے۔
پچاس سالہ گوپالا دیوی ایک نرس ہیں۔ وہ انتہائی تربیت یافتہ پیشہ ور ہیں جن کے پاس ۲۹ سال کا تجربہ ہے اور انہوں نے کورونا وائرس وبائی مرض کے دوران زیادہ تر وقت چنئی کے راجیو گاندھی گورنمنٹ جنرل ہاسپٹل کے کووڈ وارڈ میں کام کیا۔ اس کے علاوہ، وہ مختصر وقت کے لیے، اسی شہر میں پڑوس میں واقع پُلیئن تھوپ کے اسپیشل کووڈ کیئر سینٹر کی انچارج بھی رہیں۔
اب، جب کہ لاک ڈاؤن کو مرحلہ وار طریقے سے ہٹایا جا رہا ہے اور کئی سرگرمیاں آہستہ آہستہ معمول پر آنے لگی ہیں، تب بھی گوپالا دیوی کو کووڈ- ۱۹ وارڈ میں کام کرنے کے دوران اکثر کوارنٹائن ہونا (علیحدگی میں وقت گزارنا) پڑے گا۔ ’’میرے لیے، لاک ڈاؤن جاری ہے،‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’نرسوں کے لیے، یہ کبھی ختم نہیں ہونے والا ہے۔‘‘
اور بھی کئی نرسوں نے اس رپورٹر سے یہی کہا کہ ’’ہمارے لیے لاک ڈاؤن – اور کام ہمیشہ رہتا ہے۔‘‘
’’ستمبر میں میری بیٹی کی شادی تھی اور میں نے اس سے صرف ایک دن پہلے چھٹی لی،‘‘ گوپالا دیوی بتاتی ہیں۔ ’’شادی کی مکمل ذمہ داری میرے شوہر اُدے کمار نے اپنے کندھوں پر لے لی تھی۔‘‘ کمار چنئی کے ہی ایک دیگر اسپتال، شنکر نیترالیہ کے اکاؤنٹس سیکشن میں کام کرتے ہیں۔ اور، وہ کہتی ہیں، ’’وہ میرے پیشہ کی مجبوریوں کو سمجھتے ہیں۔‘‘
اُسی اسپتال میں ۳۹ سالہ تھمیژ سیلوی بھی کام کرتی ہیں، جنہیں بغیر چھٹی لیے، کووڈ وارڈ میں کام کرنے کی وجہ سے ایک ایوارڈ مل چکا ہے۔ ’’کوارنٹائن کے دنوں کے علاوہ، میں نے کبھی چھٹی نہیں لی تھی۔ چھٹی کے دن بھی میں کام کرتی تھی کیوں کہ میں مسئلہ کی سنگینی کو سمجھتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
’’اپنے چھوٹے بیٹے، شائن اولیور کو کئی دنوں تک تنہا چھوڑ دینے کا درد کافی گہرا ہے۔ کئی دفعہ مجھے شرمندگی محسوس ہوتی ہے، لیکن میرا ماننا ہے کہ اس وبائی مرض کے دوران یہ ضروری ہے کہ ہم سب سے آگے رہیں۔ جب یہ پتا چلتا ہے کہ ہمارے مریض اپنے گھر والوں کے پاس واپس جا رہے ہیں، تو اس وقت جو خوشی حاصل ہوتی ہے وہ خود ہماری اپنی تکلیفوں کو دور کر دیتی ہے۔ لیکن میرے شوہر جو ہمارے ۱۴ سال کے بیٹے کا خیال رکھتے ہیں اور اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کر رہے ہیں، اور میرے رول کو بھی سمجھتے ہیں، ان کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو پاتا۔‘‘
لیکن ہر کوئی اتنا سمجھدار نہیں تھا، کیوں کہ کام کے بعد اپنی رہائشی عمارتوں میں لوٹنے والی نرسوں کو بڑی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔
’’میں جب بھی کوارنٹائن سے واپس آتی تھی، تو دیکھتی کہ لوگ میرے ذریعہ طے کردہ راستے پر ہلدی اور نیم کا پانی چھڑک رہے ہیں۔ میں ان کے ڈر کو سمجھ سکتی تھی، لیکن یہ تکلیف کا باعث تھا،‘‘ نشا (بدلا ہوا نام) کہتی ہیں۔
نشا، چنئی کے ایک سرکاری اسپتال میں ’انسٹی ٹیوٹ آف گائنی کولوجی‘ میں اسٹاف نرس ہیں۔ وہ کورونا وائرس کے ٹیسٹ میں پازیٹو پائی جانے والی حاملہ خواتین کی دیکھ بھال پر مامور تھیں۔ ’’یہ کافی تناؤ بھرا تھا کیوں کہ ہمیں ماؤں کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کی بھی حفاظت کرنی پڑتی تھی۔‘‘ ابھی حال ہی میں، نشا کا ٹیسٹ بھی پازیٹو آیا تھا۔ تین ماہ قبل، ان کے شوہر کووڈ- ۱۹ سے متاثر ہوگئے تھے لیکن بعد میں ٹھیک ہو گئے۔ ’’گزشتہ آٹھ مہینوں میں ہمارے اسپتال کی کم از کم ۶۰ نرسیں کورونا وائرس کی زد میں آ چکی ہیں،‘‘ نشا بتاتی ہیں۔
’’رسوائی پر قابو پانا وائرس پر قابو پانے سے کہیں زیادہ مشکل ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
نشا کی پانچ رکنی فیملی – جس میں ان کے شوہر، دو بچے اور ساس شامل ہیں – کو چنئی میں ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں منتقل ہونا پڑا کیوں کہ ان کے پڑوسی خوف اور دشمنی سے انہیں کہیں ٹھہرنے نہیں دیتے تھے۔
اور کووڈ- ۱۹ وارڈ میں کام کرنے کے بعد ہر بار جب نشا کو کوارنٹائن ہونا پڑتا تھا، تو انہیں اپنے ایک سال کے دودھ پیتے بچے سے کئی دنوں تک دور رہنا پڑتا تھا۔ ’’میں جب کووڈ- ۱۹ سے متاثرہ ماؤں کی زچگی میں مدد کر رہی ہوتی تھی، تب میری ساس بچے کا خیال رکھتی تھیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’تب بھی عجیب لگتا تھا اور آج بھی لگتا ہے۔‘‘
انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کی رہنما ہدایات دودھ پلانے والی ماؤں اور وبائی امراض میں مبتلا افراد کو کووڈ وارڈ میں کام کرنے سے مستثنیٰ قرار دیتی ہیں۔ لیکن پوری ریاست میں نرسوں کی شدید قلت کے سبب نشا جیسی دیگر نرسوں کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ جنوبی تمل ناڈو کے ویرودھو نگر ضلع کی رہنے والی نشا کہتی ہیں کہ چنئی میں ان کا کوئی رشتہ دار نہیں ہے، جس کے پاس وہ جائیں۔ ’’میں تو کہوں گی کہ یہ میری زندگی کا مشکل ترین وقت تھا۔‘‘
حال ہی میں بطور نرس کام شروع کرنے والی، ۲۱ سالہ شَیلا بھی اس سے اتفاق کرتی ہیں۔ اکتوبر ۲۰۲۰ میں، انہوں نے چنئی کے کووڈ- ۱۹ کیئر سینٹر میں دو مہینے کے ٹھیکہ پر بطور عارضی نرس نوکری شروع کی تھی۔ ان کے کام میں شامل تھا: وبائی مرض سے متاثرہ علاقوں میں گھر گھر جاکر لعاب کی جانچ کرنا، اور ٹھیک سے ماسک پہننے اور دیگر حفاظتی طریقے اپنانے کے بارے میں لوگوں میں بیداری پیدا کرنا۔
’’کئی جگہوں پر، لوگوں نے جانچ کرانے سے منع کر دیا اور ہم سے بحث کرنے لگے،‘‘ شَیلا کہتی ہیں۔ اس کے علاوہ سماج میں رسوائی بھی ہو رہی تھی۔ ’’میں ٹیسٹ کرنے کے لیے ایک گھر میں گئی تھی، جہاں پہنچنے کے بعد ہمیں پتا چلا کہ لعاب کی جانچ کرنے والی نئی کِٹ کو کاٹ کر کھولنے کے لیے ہم قینچی لے جانا بھول گئے تھے۔ ہم نے لوگوں سے قینچی مانگی اور انہوں نے ہمیں بہت ہی خراب قینچی پکڑا دی۔ اس سے پیک کو کاٹ کر کھولنا مشکل ہو رہا تھا۔ ہم نے جب کسی طرح اپنا کام پورا کر لیا اور قینچی انہیں لوٹانے لگے، تو انہوں نے اسے لینے سے منع کر دیا اور ہم سے اسے پھینک دینے کے لیے کہا۔‘‘
چنئی کی گرمی اور رطوبت میں ۷ سے ۸ گھنٹے تک پی پی ای کٹ پہننا بھی ایک بڑی مصیبت تھا۔ اس کے علاوہ، وہ بتاتی ہیں، ’’ہمیں کھانا اور پانی کے بغیر کام کرنا پڑتا تھا، لوگوں کے گھروں میں ہم بیت الخلاء کا بھی استعمال نہیں کر سکتے تھے۔‘‘
پھر بھی، انہیں اس کام پر فخر تھا۔ ’’میرے والد کا خواب تھا کہ میں ایک ڈاکٹر بنوں۔ لہٰذا، میں نے جب پہلی بار نرس کی یونیفارم اور پی پی ای کٹ پہنی، تو مجھے احساس ہوا کہ اتنی تکلیفوں کے باوجود میں ان کے خواب کو پورا کرنے کے قریب ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ شَیلا کے والد ہاتھ سے گندگی صاف کرنے کا کام کرتے تھے اور ایک سیپٹک ٹینک کی صفائی کے دوران اُن کا انتقال ہو گیا تھا۔
خطرہ اور رسوائی کے علاوہ، نرسیں تیسرے محاذ پر بھی لڑ رہی ہیں۔ کام کی خراب حالت اور بہت کم تنخواہ۔ شَیلا نے اُن دو مہینوں میں سے ہر ایک میں کل ۱۴ ہزار روپے کمائے۔ نشا ۱۰ سال تک بطور نرس کام کرنے کے بعد، جس میں ایک سرکاری ادارہ میں ٹھیکہ پر چھ سال تک کام کرنا بھی شامل ہے، ۱۵ ہزار روپے تنخواہ پاتی ہیں۔ تین دہائیوں تک کام کرنے کے بعد، گوپالا دیوی کی مجموعی تنخواہ ۴۵ ہزار روپے ہے – جو کسی قومی بینک میں بطور کلرک (منشی) کام شروع کرنے والے ملازم کی تنخواہ سے زیادہ نہیں ہے۔
پورے تمل ناڈو میں سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں میں کام کرنے والی نرسوں کے بارے میں کوئی سرکاری اعدادوشمار تو موجود نہیں ہے، لیکن طبی کارکنان کے مطابق یہ تعداد ۳۰ ہزار سے ۸۰ ہزار کے درمیان ہے۔ نرسوں کی پریشانیوں کو تسلیم کرتے ہوئے، تمل ناڈو میں انڈین میڈیکل کونسل (آئی ایم سی) کے صدر، ڈاکٹر سی این راجا کہتے ہیں کہ آئی ایم سی نے اُن کے لیے کاؤنسلنگ کا انتظام کرنے کی کوشش کی تھی۔ ’’خاص کر اُن کے لیے جو آئی سی یو میں کام کرتی ہیں۔ وہ اس بات کو پوری طرح جانتے ہوئے بھی اپنی ڈیوٹی کرنے آتی ہیں کہ انہیں کافی خطرہ ہے، اور میرا ماننا ہے کہ ہمیں ان کا پورا خیال رکھنا چاہیے۔‘‘
لیکن نرسوں کا کہنا ہے کہ ان کا پورا خیال نہیں رکھا جاتا۔
’’اس ریاست میں ۱۵ ہزار سے زیادہ عارضی نرسیں ہیں،‘‘ کلّا کوریچی ضلع کے ایک مرد نرس اور تمل ناڈو گورنمنٹ نرسز ایسوسی ایشن کے صدر، کے شکتی ویل کہتے ہیں۔ ’’ہماری ایک بڑی مانگ ہے مناسب تنخواہ۔ انڈین نرسنگ کونسل کے معیاروں کے مطابق نہ تو تقرری کی جاتی ہے اور نہ ہی پروموشن۔‘‘
’’۱۸ ہزار عارضی نرسوں میں سے صرف ۴۵۰۰ کو مستقل کیا گیا ہے،‘‘ ہیلتھ ورکرز فیڈریشن کی جنرل سکریٹری، ڈاکٹر اے آر شانتی کہتی ہیں۔ یہ فیڈریشن تمل ناڈو میں حفظانِ صحت کے ملازمین کی ایک مشترکہ تنظیم ہے۔ ’’بقیہ نرسیں بھی اتنا ہی کام کرتی ہیں جتنی کہ مستقل نرسیں، لیکن انہیں ہر مہینے صرف ۱۴ ہزار روپے ملتے ہیں۔ وہ مستقل نرسوں کی طرح چھٹّی نہیں لے سکتیں۔ اگر انہوں نے ناگہانی حالات کی وجہ سے بھی چھٹی لی، تو انہیں اس دن کے پیسے نہیں ملتے۔‘‘
اور یہ حالت اچھے دنوں کی ہے۔
سرکاری اور پرائیویٹ، دونوں اسپتالوں میں کام کر چکی تجربہ کار نرس، گوپالا دیوی کہتی ہیں کہ تقریباً ایک سال سے، کووڈ- ۱۹ نے ایسی حالت پیدا کر دی ہے، جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ’’ہندوستان کا پہلا ایچ آئی وی کیس چنئی کے مدراس میڈیکل کالج [جو راجیو گاندھی اسپتال سے ملحق ہے] میں [۱۹۸۶ میں] آیا تھا،‘‘ وہ یاد کرتی ہیں۔ ’’لیکن ایچ آئی وی کے مریضوں کا علاج کرتے وقت بھی ہم اتنے ڈرے ہوئے نہیں تھے۔ ہمیں کبھی بھی خود کو پوری طرح ڈھانکنا نہیں پڑتا تھا۔ کووڈ- ۱۹ کہیں زیادہ غیر متوقع ہے اور اس کے لیے کافی ہمت کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘
وبائی مرض سے لڑائی نے زندگی کو تہ و بالا کر دیا ہے، وہ کہتی ہیں۔ ’’لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب پوری دنیا بند تھی، تب ہم کووڈ- ۱۹ وارڈ میں ماضی سے کہیں زیادہ مصروف تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ جیسے ہیں ویسے ہی وارڈ میں داخل ہو جائیں۔ اگر میری ڈیوٹی صبح ۷ بجے کی ہے، تو مجھے ۶ بجے سے ہی تیار ہونا پڑتا ہے۔ پی پی ای سوٹ پہننا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ وارڈ سے باہر نکلنے سے پہلے تک میرا پیٹ بھرا رہے گا – میں پی پی ای سوٹ میں نہ تو پانی پی سکتی ہوں اور نہ ہی کچھ کھا سکتی ہوں – کام وہیں سے شروع ہو جاتا ہے۔‘‘
’’یہ اس طرح ہوتا ہے،‘‘ نشا بتاتی ہیں۔ ’’آپ کووڈ وارڈ میں سات دن کام کرتے ہیں اور سات دنوں کے لیے خود کو الگ کر لیتے ہیں۔ ہمارے وارڈ میں تقریباً ۶۰-۷۰ نرسیں باری باری سے کام کرتی ہیں۔ مریضوں کی تعداد کی بنیاد پر، ۳ سے ۶ نرسیں ایک ہفتہ تک لگاتار کام کرتی ہیں۔ [اس کا مطلب یہ ہے کہ ۳ سے ۶ دوسری نرسیں اتنے ہی دنوں تک کوارنٹائن میں رہیں گی]۔ ہم میں سے تقریباً ہرایک کو ۵۰ دنوں میں ایک بار کووڈ ڈیوٹی پر رکھا جائے گا۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ نرس کے سات دنوں کے کیلنڈر میں دو ہفتے کووڈ- ۱۹ کے خلاف لڑائی کے سب سے خطرناک حصہ کے طور پر گزارے جاتے ہیں۔ نرسوں کی کمی اور ایمرجنسی اس بوجھ کو مزید خطرناک بنا سکتی ہے۔ کووڈ ڈیوٹی کرنے والی نرسوں کو سرکار کی طرف سے کوارنٹائن کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
کام کرنے کی مدت تکنیکی طور پر چھ گھنٹے ہے، لیکن زیادہ تر نرسیں اس سے دو گنا زیادہ مدت تک کام کرتی ہیں۔ ’’رات کی شفٹ لامحالہ ۱۲ گھنٹے کی ہوتی ہے – شام ۷ بجے سے صبح ۷ بجے تک۔ لیکن دوسری شفٹ میں بھی، ہمارا کام چھ گھنٹے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ اکثر، کوئی بھی شفٹ کم از کم ایک یا دو گھنٹے زیادہ تک کھنچ جاتی ہے،‘‘ نشا کہتی ہیں۔
تقرری کا ناقص طریقہ ہر ایک کا بوجھ بڑھاتا ہے۔
بقول ڈاکٹر شانتی: ’’نئی نرسوں کی تقرری کرنے کی بجائے، نئے [کووڈ] مراکز انہیں دوسرے اسپتالوں سے منگوا رہے ہیں۔ ایسے میں، آپ کو بہت زیادہ سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایک شفٹ میں چھ نرسوں کی ضرورت ہے، تو بہت سے اسپتالوں کو صرف دو سے کام چلانا پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ، کووڈ آئی سی یو میں ایک مریض پر ایک نرس کا ہونا لازمی ہے، لیکن چنئی کو چھوڑ کر کسی بھی ضلع میں کسی بھی اسپتال میں اس پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ ٹیسٹ میں یا بیڈ حاصل کرنے میں دیری سے متعلق آپ جو بھی شکایتیں سن رہے ہیں، وہ خاص کر اسی کی وجہ سے ہے۔‘‘
جون ۲۰۲۰ میں، ریاستی حکومت نے خصوصی طور پر کووڈ ڈیوٹی کے لیے چار ضلعوں – چنئی، چینگل پٹّو، کانچی پورم اور تیروولّووَر – کے لیے ۱۴ ہزار کی ماہانہ تنخواہ پر ۲۰۰۰ نرسوں کی تقرری کی تھی۔ یہ تعداد کسی بھی طرح کافی نہیں ہے، ڈاکٹر شانتی کہتی ہیں۔
نرسوں نے ۲۹ جنوری کو پوری ریاست میں دن بھر احتجاج کیا تھا۔ ان کے مطالبات میں شامل تھا: تنخواہوں کو مرکزی حکومت کے ساتھ کام کرنے والی نرسوں کے برابر کرنا؛ بحران کے دوران کووڈ وارڈوں میں کام کر رہی نرسوں کے لیے بونس؛ اپنی ڈیوٹی انجام دیتے وقت جن نرسوں کی موت ہوئی ان کے اہل خانہ کو معاوضہ۔
صحت کارکنان دیگر وارڈوں میں کام کرنے والی نرسوں کے بارے میں بھی اُتنے ہی پریشان ہیں۔ ’’کمی بیشی ممکن ہے، لیکن غیر کووڈ وارڈوں میں کام کرنے والوں کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ میرے خیال سے کووڈ ڈیوٹی پر کام کرنے والی نرسیں نسبتاً بہتر حالت میں ہیں کیوں کہ انہیں پی پی ای سوٹ اور این ۹۵ ماسک ملتے ہیں – وہ ان کا مطالبہ کر سکتی ہیں، یہ ان کا حق ہے۔ لیکن دوسری نرسیں ایسا نہیں کر سکتیں،‘‘ ڈاکٹر شانتی کہتی ہیں۔
کئی لوگ ۵۵ سالہ اینٹونِیَمّل امیرتا سیلوی کی مثال دیتے ہیں، جو رام ناتھ پورم ضلع میں منڈپم کیمپ میں بطور نرسنگ سپرنٹنڈنٹ کام کر رہی تھیں، جہاں پر کووڈ کے مریضوں کا علاج کیا جا رہا تھا۔ کووڈ- ۱۹ نے ۱۰ اکتوبر کو امیرتا سیلوی کی جان لے لی، جو امراض قلب میں مبتلا تھیں۔ ’’طبیعت ہلکی ناساز ہونے پر بھی وہ اپنا کام کرتی رہتی تھی،‘‘ ان کے شوہر اے گیان راج کہتے ہیں۔ ’’اس نے سوچا کہ یہ عام بخار ہے، لیکن اس کا کووڈ- ۱۹ ٹیسٹ پازیٹو نکلا – اور اس کے بعد، کچھ نہیں کیا جا سکا۔‘‘ امیرتا سیلوی کا تبادلہ ایک سال پہلے ہی مدورئی جنرل ہاسپٹل سے منڈپم کیمپ کر دیا گیا تھا۔
اور ہمیشہ سماج میں رسوائی بھی ہوتی ہے – جو دلت نرسوں کے لیے دوہرا بوجھ ہے۔
ایوارڈ یافتہ تھمیژ سیلوی (سب سے اوپر کور فوٹو میں) اس معاملے میں اجنبی نہیں ہیں۔ ان کا تعلق ایک دلت فیملی سے ہے اور رانی پیٹ (سابقہ ویلور) ضلع کے والجاہ پیٹ تعلقہ کے لالا پیٹ گاؤں میں رہتی ہیں۔ اس فیملی نے ہمیشہ تفریق کا سامنا کیا ہے۔
اور اب سماجی رسوائی کی ایک نئی سطح – نرس ہوکر کووڈ- ۱۹ سے لڑنا۔ ’’کوارنٹائن کے بعد تھیلے کے ساتھ گھر لوٹتے وقت،‘‘ تھمیژ سیلوی کہتی ہیں، ’’میں جیسے ہی اپنی گلی میں داخل ہوتی ہوں، جان پہچان والے چہرے بھی مجھے دیکھ کر اپنا دروازہ بند کر لیتے ہیں۔ مجھے برا لگتا ہے، لیکن میں بھی سمجھنے کو کوشش کرتی ہوں، ظاہر ہے اپنی حفاظت کو لیکر فکرمند ہیں۔‘‘
مشہور تمل شاعرہ اور تھمیژ سیلوی کی بہن، سُکیرتا رانی بتاتی ہیں کہ ان کی تین بہنوں نے نرسنگ کو آخر اپنا کریئر کیوں چُنا: ’’یہ صرف ہماری بات نہیں ہے، دلت گھرانوں کے کئی لوگوں نے نرس بننا پسند کیا ہے۔ میری سب سے بڑی بہن جب نرس بنیں، تو جو لوگ پہلے ہمارے گھر آنے سے جھجکتے تھے، وہ بھی مدد مانگنے کے لیے آنے لگے۔ اوٗ ر کے بہت سے لوگ چیری میں ہمارے گھر کی طرف اشارہ کرکے کہتے تھے کہ وہ اپنے بچوں کو اسی طرح تعلیم دینا چاہتے ہیں جیسا کہ میرے والد شنموگم نے دیا۔ [تمل ناڈو کے گاؤوں روایتی طور پر اوٗر اور چیری میں بٹے ہوتے ہیں، اوٗر میں بڑی ذات کے لوگ رہتے ہیں جب کہ چیری میں دلت رہتے ہیں]۔ میں خود ایک اسکول ٹیچر ہوں، اور ایک دوسرا بھائی بھی ٹیچر ہے۔ میری بہنیں نرس ہیں۔
’’ایک بھائی کو چھوڑ کر جو انجینئر ہے، بقیہ ہم تمام لوگ اس معاشرہ کو درست کرنے والی ڈیوٹی پر مامور ہیں۔ ہمارے پس منظر کے لحاظ سے، یہ ہمارے لیے انتہائی فخر کی بات ہے۔ میری سب سے بڑی بہن نے جب نرس کا یونیفارم پہنا، تو اس سے انہیں کافی رتبہ اور عزت ملی۔ لیکن یہ ان کے نرس بننے کے متعدد اسباب میں سے صرف ایک سبب تھا۔ اصلیت یہ ہے کہ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی طرح، ہم پورے معاشرہ کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
بھلے وہ اُن تشویش ناک لمحوں میں شامل ہو جب سسٹر تھمیژ سیلوی وارڈ میں ڈیوٹی کے بعد کووڈ- ۱۹ پازیٹو پائی گئی تھیں۔ ’’میں زیادہ فکرمند تھی کہ وہ اپنی ڈیوٹی نہیں کر پائیں گی،‘‘ سُکیرتا رانی مسکراتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’لیکن، شروع میں ہم دو چار بار فکرمند ہوئے، اب ہمیں اس کی عادت پڑ گئی ہے۔‘‘
’’کووڈ ڈیوٹی کرنا آگے میں قدم رکھنے جیسا ہے، اس کی تباہ کاریوں کو جانتے ہوئے،‘‘ گوپالا دیوی کہتی ہیں۔ ’’لیکن جب ہم نے نرسنگ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، تب ہمارے انتخاب کے لحاظ سے یہ فطری عمل ہے۔ ہم اسی طرح سماج کی خدمت کرتے ہیں۔‘‘
کویتا مرلی دھرن ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن سے آزاد صحافت کے لیے حاصل ہونے والی مالی امداد کے ذریعہ عوامی صحت اور شہریوں کی آزادی پر رپورٹ کرتی ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورتاژ کے مواد پر کسی قسم کا ایڈیٹوریل کنٹرول نہیں کیا ہے۔
کور فوٹو: ایم پلانی کمار
مترجم: محمد قمر تبریز