ملک کا کوئی بھی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کے پاس اتنا گہرا کنیکشن ہے، جتنا کہ تمل ناڈو کی اس چھوٹی سی جگہ پر ہے۔ یہاں کی مشینوں نے ہندوستان کے زیادہ تر صوبوں میں (اور کئی افریقی ممالک میں بھی) گہرے کنویں کھودے ہیں۔ تیروچین گوڈے ملک کی بورویل راجدھانی ہے اور یہاں سے ہزاروں مشینیں اور آپریٹرس کسی بھی دن ۱۴۰۰ فیٹ گہرائی تک جاتے ہیں، سال کے زیادہ تر مہینوں میں۔ مہاراشٹر جیسے صوبوں میں مانسون نے ان کے کام کو روک دیا ہے، جہاں حالیہ برسوں میں انھوں نے کافی بڑے پیمانے پر کاروبار کیا۔ لیکن، ملک کے بعض حصے ایسے بھی ہیں، جہاں یہ پانی کے لیے اب بھی کھدائی کرنے میں مصروف ہیں۔
مہاراشٹر میں پانی کا بحران، جسے صرف گرمی کے موسم میں اجاگر کیا جاتا ہے، وہاں اس سال (۲۰۱۳) کے پہلے تین مہینوں میں صرف مراٹھواڑہ علاقے میں ہزاروں بورویل (کنویں) کھودے گئے۔ ٹرک پر لدا ہوا بورویل رِگ (جس سے کنویں کھودے جاتے ہیں) کھیتوں میں ہر جگہ موجود تھا۔ اور دیہی ضلعوں میں خود بورویل، اگر پانی نہیں تو، قرض کا سب سے بڑا سبب تھا۔ ہم نے سڑکوں پر آتے جاتے جتنے بھی رِگ دیکھے، وہ سب کے سب تمل ناڈو سے لائے گئے تھے۔ (بعض آندھرا پردیش کے بھی تھے۔) مہاراشٹر کے ایک سینئر ماہر ارضیات نے اُس وقت دی ہندو اخبار کو بتایا تھا، ’’ان میں سے زیادہ تر صرف ایک قصبہ سے لائے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اور وہ قصبہ تھا تیرو چین گوڈے، جو کہ تمل ناڈو کے نامکّل ضلع میں ہے۔
شری بالا موروگن بورویلس کے سی ویّاپوری نے تیرو چین گوڈے میں مجھے بتایا کہ ’’میں نے اس سال چار مہینوں تک مہاراشٹر کے ناندیڑ کے قریب ایک گاؤں میں قیام کیا۔‘‘ وہ ایک متحرک، محنتی رِگ آپریٹر ہیں۔ اِن چار مہینوں میں، اس واحد آپریٹر نے مہاراشٹر میں تقریباً ۵۰۰ کنووں کی کھدائی کی، زیادہ تر پانی کی قلت والے مراٹھواڑہ میں۔ وہ کہتے ہیں، ’’آپ ایک دن میں ۱۳۰۰ فیٹ تک کی کھدائی کر سکتے ہیں۔ اگر مٹی ڈھیلی ہو، تو کھودنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کنویں کی گہرائی ۳۰۰ فیٹ کے اندر ہو، تو آپ ایک دن میں چار کنویں کھود سکتے ہیں۔ لیکن، اگر مٹی سخت ہوئی، تو آپ ایک دن میں ایک ہزار فیٹ سے زیادہ کی کھدائی نہیں کر سکتے۔‘‘
ہندوستان کے خشک صوبوں میں ہر سال چند ہزار رِگس سفر کرتے ہیں اور سینچائی کے لیے پہلے سے کم موجود زیر زمین پانی کو نکالنے کے لیے ایک ہزار فیٹ سے زیادہ گہرائی تک کھدائی کرتے ہیں
رِگ لدے ہوئے ہر ٹرک کے ساتھ ایک دوسری بڑی گاڑی ہوتی ہے، جو اپنے ساتھ آلات اور آدمیوں کو لے کر چلتی ہے۔ پوری ٹیم میں ۲۰ لوگ تک ہو سکتے ہیں۔ ایک منیجر، دو ڈرِیلر، دو معاون، دو ڈرائیور، ایک کھانا پکانے والا اور ۱۲ مزدور۔ ان کامگاروں نے پورے ہندوستان کو تیرو چین گوڈے تک پہنچایا ہے۔ تمل ناڈو کے رِگ آپریٹرس کے ایجنٹ اور بروکر ہر صوبے میں ہیں۔ کامگار زیادہ تر بہار، اڑیسہ، جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ کے ہیں۔ ان میں سے کچھ ہی تمل ناڈو کے ہیں۔ ان کی روزانہ کی مزدوری ۲۰۰ روپے اور تین وقت کا کھانا ہے، جو سال میں کئی مہینوں تک چل سکتا ہے۔
یہ مشکل کام ہے، اور قیمت الگ الگ ہے، جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کام کتنا مشکل ہے۔ آندھر کے کچھ سخت مٹی والے علاقوں میں آپ ایک گھنٹہ میں ۸۰ فیٹ سے زیادہ کی کھدائی نہیں کر سکتے۔ وہاں کھدائی کی قیمت ۷۵ روپے فی فٹ ہے۔ یعنی ایک دن میں ایک ہزار فیٹ کی کھدائی کی قیمت ہوئی ۷۵ ہزار روپے۔ جہاں مٹی نرم ہو، وہاں ویّا پوری کے مطابق، ایک گھنٹہ میں آپ ۱۲۰ فیٹ تک کھدائی کر سکتے ہیں، اسی لیے وہاں کھدائی کی قیمت بھی گھٹ کر ۵۶ روپے ایک فٹ کے حساب سے ہو جاتی ہے۔ لیکن، تب بھی آپ ۱۳۰۰ فیٹ تک کی کھدائی کر سکتے ہیں، یعنی تقریباً ۷۳ ہزار روپے روزانہ۔ اگر آپ ۲۰۰ دنوں کی نوکری پر ہیں (حالانکہ اکثر اس سے زیادہ ہوتا ہے)، تب بھی کل لاگت ڈیڑھ کروڑ روپے کی آئے گی۔
تیروچین گوڈے قصبہ اور تعلقہ میں کل کتنے رِگس ہیں؟ پانچ ہزار سے زیادہ نہیں، بتاتے ہیں ٹی ٹی پرنتھامن، ڈرِلنگ کی ایک بڑی کمپنی، پی آر ڈی کے منیجنگ ڈائرکٹر۔ تیروچین گوڈے لاری اونرس ایسو سی ایشن کے صدر اور خود رِگ کے ایک مالک، این پی ویلو کا اندازہ ہے کہ یہ تعداد تقریباً ۷ ہزار ہے۔ دوسرے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ تعداد ۲۰ ہزار تک ہو سکتی ہے۔ مختلف سطحوں پر یہ تینوں تعداد صحیح ہو سکتی ہے۔ ایک بڑے صنعت کار کے مطابق، ’’یہاں بڑی تعداد میں رِگس اور ان کے مالکان ہیں۔ لیکن بہت سے رِگس دوسرے صوبوں میں رجسٹرڈ ہیں، شاید ٹیکس بچانے کے مقصد سے۔‘‘
دریں اثنا، یہ آپریٹرس راجستھان کے دیہاتوں جیسے دور دراز علاقوں سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ ایک نے تو جموں تک میں کنویں کی کھدائی کی ہے۔ ایک سال میں دو یا تین مہینے کا وقفہ ہوتا ہے، جب اِن رِگس کی سروِسنگ کی جاتی ہے۔ زیادہ تر برسات کے دنوں میں۔
ویلو بتاتے ہیں کہ الگ الگ صوبوں میں کنووں کی اوسط گہرائی الگ الگ ہوتی ہے۔ ’’کرناٹک میں اوسطاً یہ گہرائی تقریباً ۱۴۰۰ فیٹ ہے۔ تمل ناڈو میں بھی اس سے کم نہیں ہے۔ اس کی شروعات ۱۹۷۰ کی دہائی میں قحط پڑنے کی وجہ سے ہوئی۔‘‘ اس شعبہ میں موقع کو بھانپتے ہوئے، کسانوں کے بہت سے گروہ اور کامگاروں نے کنویں کھودنے، اس کے وسائل جمع کرنے اور چند رِگس خریدنے شروع کر دیے۔ (آج بھی، یہاں کے ایک تہائی رِگس کے مالک کسانوں کے یہی گروہ ہیں۔)
ویلو کہتے ہیں، ’’اُس وقت، جس گہرائی پر ہمیں پانی مل جاتا تھا، وہ ۱۰۰ سے ۲۰۰ فیٹ سے زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ ۳۰۰ فیٹ۔ کنووں کی گہرائی میں سب سے زیادہ اضافہ گزشتہ پانچ سالوں میں ہوا ہے۔‘‘
اس قصبہ کے رِگ آپریٹرس کی کہانی دوہری مشکل پیدا کرنے والی ہے۔ انھوں نے تیروچین گوڈے اور آس پاس کے علاقوں کے لیے نوکری اور خوشحالی لے کر آئے ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو کبھی ناخواندہ کامگار تھے، لیکن ۱۹۷۰ کی دہائی کے آخری دنوں میں وہ سب ایک ساتھ جمع ہوئے اور اپنے رِگ خریدے اور اس طرح غریبی سے باہر نکل آئے۔ (تمل ناڈو کے اس پورے علاقے، بشمول کوئمبٹور، کرور اور تیروپور کی کہانی کافی اثر انگریز ہے، جہاں پر بالکل نچلی سطح سے اٹھ کر لوگ بڑے کاروباری بن گئے۔) رِگ آپریٹرس ملک بھر کے کسانوں کی حقیقی مانگوں کو بھی پورا کرتے ہیں۔ ایسی مانگ جو مایوسی سے بھری ہوئی ہے۔
لیکن، اس عمل میں زیر زمین پانی کی سپلائی کو لے کر سنگین خدشات بھی پوشیدہ ہیں۔ پانی کے اس قدرتی ذخیرہ کا حد سے زیادہ غلط استعمال ملک بھی میں پانی کی سطح کو کم کرتا جا رہا ہے۔ مراٹھواڑہ کے عثمان آباد کے کلکٹر نے بتایا کہ اس مارچ (۲۰۱۳) ان کے ضلع میں پانی کی سطح (جہاں پر رِگس سرگرم ہیں) پچھلے پانچ سال کے اوسط سے پانچ میٹر نیچے تھی۔ اگر صرف تمل ناڈو کے ایک حصہ کے ۱۰ ہزار رِگس پورے ہندوستان میں اوسطاً روزانہ ایک ہزار فیٹ کی کھدائی کر رہے ہیں، تو کل کھدائی ہو گئی ۱۰ ملین (ایک کروڑ) فیٹ۔ اگر ایک سال کے ۲۰۰ دنوں کا حساب لگایا جائے، تو کل کھدائی ہو گئی ۲ ارب فیٹ۔ یہ کھدائی تو بہت زیادہ ہے۔ اگر ان میں سے اکثر کنویں ناکام بھی ہو جاتے ہوں، تب بھی زمین کے نیچے سے بھاری مقدار میں پانی باہر نکالا جا رہا ہے۔
تیروچین گوڈے کے رِگ آپریٹروں نے ترقی کا یہ راستہ ملک کے لیے نہیں چُنا اور اس کے لیے انھیں قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ انھوں نے زمین کے نیچے موجود پانی کو بلا روک ٹوک نکالنے کا طریقہ ایجاد نہیں کیا۔ اور بھلے ہی یہ بڑی طاقت ہیں، لیکن ملک میں اور بھی آپریٹرس ہیں۔ رِگس کے دوسرے استعمال بھی ہوتے ہیں، لیکن بڑی مانگ کنویں کھودنے کی ہے۔ اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا، تو یہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ (ہندوستان میں زیر زمین پانی کا دو تہائی حصہ سینچائی کے لیے ہے، جب کہ چار پانچواں پینے کا پانی ہے۔) اس عمل کا اشد ضروری سوشل کنٹرول پانی کی موجودہ حالت میں ممکن نہیں ہے۔
خود آپ کے پڑوس میں اتنی زیادہ مشینیں کام پرکیوں لگی ہوئی ہیں؟ میں نے جب یہ سوال تیروچین گوڈے کے ایک تجربہ کار سے کیا، تو ان کا جواب تھا، ’’یہاں پر اب بہت زیادہ پانی نہیں بچا ہے۔ ہم قریب کے ایروڈ قصبہ میں ۱۴۰۰ فیٹ گہرا کھود رہے ہیں۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)