/media/uploads/Articles/Namita Waikar/Migrants in Gurgaon - women at work/sitadevi-1.jpg

’’رام سوروپ ہم میں سب سے امیر آدمی ہے؛ اس کے پاس کچھ زمین ہے۔‘‘ دوسرے اسے چِڑھاتے ہیں اور ہنستے ہیں۔ زرعی مزدوروں کے اس گروپ میں، صرف ایک آدمی ہے، رام سوروپ، جس کے پاس ایک ایکڑ زمین ہے۔ ان کے والد کے پاس دو ایکڑ زمین تھی، جو رام سوروپ اور ان کے بھائی کے درمیان تقسیم ہو گئی اور اس طرح وہ زمین کے مالک بن گئے۔

کل ۱۵۰ مزدوروں کے اس گروپ کو ایک لیبر کانٹریکٹر کے ذریعہ ہریانہ کے فتح آباد ضلع کے گاؤوں سے لایا گیا ہے، تاکہ وہ گڑگاؤں شہر کے مضافات میں زمین کے ایک پروجیکٹ پر کام کر سکیں۔ زمین کے اس حصے کی جانب جاتے ہوئے وزیر کہتے ہیں، ’’یہ لوگ میرے ضلع، فتح آباد سے ہیں، اسی لیے میں انھیں جانتا ہوں۔ پہلے میں بھی ان کے جیسا ہی تھا۔ بیس سال پہلے، میں بھی اپنے گاؤں، بھٹو سے کام کی تلاش میں شہر آیا تھا۔‘‘ لیکن، زمین کے اس حصے تک پہنچنے سے پہلے ہی، ہماری نظر دو خواتین مزدوروں پر پڑتی ہے۔ ہم اُن عورتوں سے بات کرنے کے لیے رکتے ہیں۔ وہ کہاں جا رہی ہیں؟


/static/media/uploads/Articles/Namita Waikar/Migrants in Gurgaon - women at work/sitadevi-friend-1.jpg


’’ہم تعمیراتی جگہوں پر کام کرتے ہیں۔ اپنے سروں پر اینٹیں، یا ریت کے بورے ڈھوتے ہیں۔ پچھلے دو مہینوں سے میں گڑگاؤں میں کام کر رہی ہوں۔ میں دوسہ، راجستھان کی رہنے والی ہوں۔ میری فیملی وہاں ہے۔ میں تین مہینے بعد، دیوالی کے موقع پر گھر جاؤں گی۔ لیکن، ابھی مجھے کام پر جانا پڑے گا، ورنہ مجھے دیر ہو جائے گی،‘‘ تعمیراتی مقام کی جانب تیزی سے جاتی ہوئی سیتا دیوی کہتی ہیں۔

وزیر، جو اَب گڑگاؤں میں ایک کار ڈرائیور ہیں، ہمیں گھٹا گاؤں لے کر جاتے ہیں، جو یہاں سے ۳ کلومیٹر دور ہے، جہاں لینڈ ڈیولپمنٹ کا کام چل رہا ہے۔ ہائی وے پر ٹریکٹر پاس سے گزرتے ہیں، جن میں بیٹھ کر عورتیں، مرد اور بچے عمارت کی تعمیر کے مقام پر جا رہے ہیں۔ گھٹا گاؤں کے لوگوں کے لیے یہ گرم اور حبس والی صبح ہے۔ اس کی تنگ گلیوں کے دونوں جانب ایک یا دو منزلہ مکان بنے ہوئے ہیں۔ دور سے آپ گڑگاؤں کی بلند و بالا عمارتوں کو دیکھ سکتے ہیں، جو کہ سیتا دیوی جیسے لوگوں کی کڑی محنت کا نتیجہ ہیں۔


/static/media/uploads/Articles/Namita Waikar/Migrants in Gurgaon - women at work/labour-material.jpg


’’ان گھروں کے مالک مقامی لوگ ہیں،‘‘ وزیر کہتے ہیں۔ ’’انھوں نے اپنی زمینیں لینڈ ڈیولپمنٹ اور لینڈ انویسٹمنٹ پروجیکٹوں کے لیے ریاستی حکومت کو بیچ دی۔ وہاں سے انھیں جو پیسہ ملا، اس سے انھوں نے یہ چھوٹے گھر تعمیر کیے۔ وہ کچھ کمرے باہری لوگوں کو کرایے پر دے دیتے ہیں۔‘‘ یعنی، اوپری منزلوں پر بنے کمرے یا باکس جیسے کمرے، جیسے کہ جھگی جھونپڑیوں میں ہوتے ہیں، جو ان کے مکانوں کے باہر بنے ہوئے ہیں، انھیں کرایے پر دیا گیا ہے۔ تو، انِ کمروں میں کون رہتا ہے؟

’’راجستھان اور ہریانہ کے دوسرے حصوں سے آئے ہوئے مہاجر مزدور۔ وہ یہاں پر ہر قسم کے نچلے کام کرتے ہیں۔ جھاڑو لگانا، گھروں میں کام کرنا، تعمیراتی جگہوں پر مزدوری کرنا۔‘‘ کمرے کرایے پر دینا مقامی لوگوں کے لیے آمدنی کا ذریعہ ہے۔

دور سے آتی ہوئی ایک عورت نظر آتی ہے، جس کے سر پر گھاس کا ایک بڑا گٹھر ہے، جسے وہ اپنے ہاتھ سے پکڑے ہوئی ہے، تاکہ وہ گرے نہیں۔ ہم اس سے بات کرنے کے لیے رُکتے ہیں۔ اس کے بھورے بال اُس دوپٹّے سے باہر نکل رہے ہیں، جسے اس نے اپنے سر پر اوڑھ رکھا ہے۔ پسینہ اس کی اُس بنیان سے بہہ کر نیچے جا رہا ہے، جسے عام طور پر مرد پہنتے ہیں۔

گلوڑی گوجر، گھٹا گاؤں میں رہتی ہیں، ہمارے پیچھے کے ایک گھر میں۔ ’’میری فیملی مجھ سے کہتی ہے کہ میں کام نہ کروں۔ لیکن میں بچپن سے کام کر رہی ہوں اور اس لیے آئندہ بھی کرتے رہنا چاہتی ہوں۔ ہمارے لیے کیا کام باقی رہ گیا ہے؟ ہم نے اپنے کھیت بیچ دیے، اس لیے کھیتی کا کوئی کام نہیں ہے۔ اس لیے میں صبح میں گھاس جمع کرتی ہوں، تاکہ اپنی دو گایوں کو کھلا سکوں۔ ان سے ہمیں کافی دودھ مل جاتا ہے، لہٰذا ہمیں بازار سے خریدنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘‘


/static/media/uploads/Articles/Namita Waikar/Migrants in Gurgaon - women at work/gilaudi2.jpg


وزیر بنڈل کو اٹھاتے ہیں اور اسے دھول بھری سڑک کے کنارے بنی پتھر کی دیوار کے اوپر رکھ دیتے ہیں۔ وہ اپنی تصویر کھنچوانے کے لیے راضی ہو جاتی ہیں، لیکن کہتی ہیں کہ انھیں ان لوگوں سے بات کرنے سے تشویش ہو رہی ہے، جنھیں وہ جانتی نہیں ہیں۔ وزیر ان کو بھروسہ دلاتے ہیں کہ ہم لوگ سرکاری اہل کار نہیں ہیں۔ یہ ان کی تشویش کو دور کرنے کے لیے ہے اور وہ بات کرنے لگتی ہیں۔


/static/media/uploads/Articles/Namita Waikar/Migrants in Gurgaon - women at work/blue-board.jpg


تھوڑا آگے لینڈ ڈیولپمنٹ کی جگہ ہے، جو کانٹے دار تار سے گھیری ہوئی ہے۔ ایک نیلے بورڈ پر لکھا ہوا ہے: ایم سی جی بلاک۔ ایف زیر نگرانی اے ای (ہارٹ) ایم سی جی ۔ میونسپل کارپوریشن گڑگاؤں۔ ڈیولپمنٹ کے بعد انھیں پلاٹس میں تقسیم کرکے بیچ دیا جائے گا۔ اسی طرح کے کام کے لیے مختلف جگہوں پر ۱۵۰ مزدوروں کو لگایا گیا ہے۔ جس وقت عورتیں بات کر رہی ہیں، کچھ مرد ان باتوں کو سن رہے ہیں اور کچھ حقہ پی رہے ہیں۔ ’’ہم زمین کھودتے ہیں، بیکار جھاڑیوں کو اُکھاڑتے ہیں۔ ہم نے زمین کو مسطح کر دیا ہے اور یہ درخت لگائے ہیں۔ اب ہم انھیں روزانہ دو وقت پانی دیتے ہیں،‘‘ اَکّا والی گاؤں کی رہنے والی دھرم بائی بتاتی ہیں۔


/static/media/uploads/Articles/Namita Waikar/Migrants in Gurgaon - women at work/krish-2.jpg


دو سال کا کرش، اس گروپ کا واحد بچہ ہے۔ لڑکے کی ماں، جیوتی زیادہ بڑی نہیں، بلکہ نوجوان دکھائی دے رہی ہے۔ یہ لوگ تھوڑی دیر کے لیے آرام کر رہے ہیں، دوسری عورتیں بچے کے کھلونوں پر ہنس رہی ہیں، کیوں کہ وہ فوٹو کھنچوانے کے لیے تیار ہے۔ ببلی بائی نام کی دوسری عورت ہنسی کے درمیان مداخلت کرتے ہوئے کہتی ہے، ’’آپ کو ہماری فوٹو اس وقت کھینچنی چاہیے، جب ہم کام کر رہے ہوں۔‘‘ وہ کرشن کی جوان دادی ہے۔


/static/media/uploads/Articles/Namita Waikar/Migrants in Gurgaon - women at work/bablibai-2.jpg


دوسری نوجوان عورت کہتی ہے کہ اسے اپنے اُن دو بچوں کی یاد آ رہی ہے، جنھیں اس نے گاؤں میں ہی چھوڑ دیا ہے۔ ’’میری ساس اور سسر ان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں،‘‘ وہ ہمیں بتاتی ہے۔ گاؤوں میں بھی کام ہوتے ہیں، لیکن فیملی کے ہر فرد کے لیے نہیں۔ ہر فیملی میں سے کچھ لوگ گھر پر ہی ٹھہرتے ہیں، جب کہ دوسرے ترقی کرتے شہری علاقوں کی طرف کام کی تلاش میں ہجرت کرتے ہیں۔


/static/media/uploads/Articles/Namita Waikar/Migrants in Gurgaon - women at work/lachhobai.jpg


’’یہاں پر ہمارے پاس کم از کم کام تو ہے،‘‘ لچھو بائی کہتی ہے، جس نے دوسری بڑی عمر کی عورتوں کی طرح ہی اپنے بڑے بیٹوں کو گاؤں میں ہی چھوڑ دیا ہے۔ ’’وہ وہاں کام کرتے ہیں، ہم یہاں۔ ہم کام کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔‘‘

وہ اب کہاں رہتی ہیں؟ لچھو بائی چھوٹی، بانس کی جھونپڑی کی طرف اشارہ کرتی ہے، جس پر پلاسٹک شیٹ کی چھت ہے۔ لیکن وہاں کھانے پکانے کا انتظام نہیں ہے۔ ’’ٹھیکہ دار ہمیں پیک کیا ہوا کھانا دیتا ہے، دن میں دو بار۔ روٹی، دال اور سبزیاں،‘‘ وہ بتاتی ہے۔ شاید اس لیے، تاکہ وہ اپنا زیادہ تر وقت کام پر لگائیں یا پھر اس لیے کہ وہ یہاں رہائش نہ اختیار کرلیں اور بانس کی اس جھونپڑی کو شہر کے قریب اپنا مستقل گھر نہ بنالیں۔


/static/media/uploads/Articles/Namita Waikar/Migrants in Gurgaon - women at work/livingquarters1.jpg


ان کے آرام کا وقت ختم ہو چکا ہے اور عورتیں ایک گول، سیمنٹ کے بنے ہوئے واٹر ٹینک سے ہرے رنگ کے پانی دینے والے پلاسٹک کے ڈبوں کو بھرنے کے لیے کھڑی ہو جاتی ہیں۔ واٹر ٹینکر میں جوہر، یعنی مصنوعی تالاب سے پانی بھرا جاتا ہے، جب کہ اس مصنوعی تالاب کو بور ویل سے بھرا جاتا ہے۔ یہ تالاب عام طور سے گاؤں کے مویشیوں کو پانی پلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔


/static/media/uploads/Articles/Namita Waikar/Migrants in Gurgaon - women at work/fillingwater3.jpg


یہ تمام عورتیں اور مرد فتح آباد ضلع کے مختلف گاؤوں کے مہاجر، بے زمین کسان مزدور ہیں۔ ان میں سے کچھ دوہنہ تحصیل کے اَکّاوالی اور بھٹّو گاؤوں کے ہیں۔ کچھ رَتیا تحصیل کے جلوپور گاؤں کے۔


/static/media/uploads/Articles/Namita Waikar/Migrants in Gurgaon - women at work/nandkishore.jpg


جس وقت یہ سبھی کام پر لگے ہوئے ہیں، ان کا ٹھیکہ دار بانس کی ایک چٹائی پر سوتی چادر بچھاکر بیٹھا ہوا ہے، حقہ اس کے بغل میں ہے، جس پر پیتل کی پالش سورج کی روشنی میں چمک رہی ہے۔ اس کا نام نند کشور ہے، جو حصار ضلع کی بربالا تحصیل کے کھرکاڈا گاؤں کا رہنے والا ہے۔

یہ مہاجر راجپوت ہیں، جو راجستھان کی مقامی زبان، راجپوتانہ میں بات کرتے ہیں۔ ہریانہ کا فتح آباد ضلع تبھی سے ان کا گھر ہے، جب ملک کی تقسیم کے وقت ہند۔پاک سرحد پر واقع بیکانیر ضلع سے ان کے کنبے ہجرت کرکے یہاں آ گئے۔ آج، وہ چھوٹے اور بغیر دروازوں والے کمروں میں رہتے ہیں، جہاں کھانا پکانے کا کوئی انتظام نہیں ہے، یہ کمرے گڑگاؤں کے مضافات میں واقع گھٹا گاؤں میں ہیں، جہاں یہ زمینوں کو مسطح کرنے اور ٹاور کی تعمیر کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جب ان سے آئندہ کل کے بارے میں پوچھا جاتا ہے، تو وہ جواب دیتے ہیں، ’’ہم لوگ یا تو اپنے گاؤوں لوٹ جائیں گے یا پھر یہیں پر کوئی دوسرا کام تلاش کر لیں گے، کنسٹرکشن سائٹوں پر یا پھر گھریلو نوکر کے طور پر۔‘‘

کسی کو بھی مستقبل کا صحیح علم نہیں ہے۔


/static/media/uploads/Articles/Namita Waikar/Migrants in Gurgaon - women at work/women-group2.jpg


(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)


नमिता वाईकर एक लेखक, अनुवादक, और पारी की मैनेजिंग एडिटर हैं. उन्होंने साल 2018 में ‘द लॉन्ग मार्च’ नामक उपन्यास भी लिखा है.

की अन्य स्टोरी नमिता वायकर
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पीपुल्स आर्काइव ऑफ़ रुरल इंडिया के ट्रांसलेशन्स एडिटर, उर्दू, हैं। वह दिल्ली स्थित एक पत्रकार हैं।

की अन्य स्टोरी Qamar Siddique