’’اس سال کافی بارش ہوئی۔ اس لیے مجھے لگا کہ چشمے کا پانی لمبے وقت تک ٹھہرے گا۔ میں نے اپنے شوہر سے گاؤں میں ہی رکنے کے لیے کہا۔ ہم کچھ زیادہ سبزیاں اُگا سکتے تھے۔ مزدوری کرنے کے لیے مہاجرت کرنے سے بہتر ہے خود اپنے کھیت پر کام کرنا۔ لیکن دیکھو، کیا ہوا،‘‘ میری کاکی (چچی)، جے شری پارید، بادل سے بھرے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے مجھ سے کہہ رہی تھیں۔ یہ نومبر ۲۰۱۹ کی بات ہے۔ ’’سردی آ چکی ہے، لیکن ہواؤں میں خنکی نہیں ہے۔ مانسون ختم ہو چکا ہے، لیکن آسمان ابھی تک صاف نہیں ہوا ہے۔ اور میری میتھی سوکھنے والی ہے، پالک کا بھی یہی حال ہے۔ سرسوں کل تک ٹھیک تھی، لیکن آج اس میں بھی کیڑے لگ چکے ہیں۔ ہم کیا کریں؟‘‘ کاکی مجھ سے بات کرتے ہوئے مرجھائے ہوئے پودوں کو باہر نکالنے میں مصروف تھیں۔
’’موسم بدل گیا ہے۔ ہمیں اچھی دھوپ والے زیادہ دن نہیں ملتے۔ اسی کی وجہ سے یہ سب [مرجھانا] ہوا ہے۔ ان کیمیاؤں کو بیچنے والا دکاندار بھی یہی کہتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا، میرے حامی بھرنے کا انتظار کرتے ہوئے۔ انہیں فکر لاحق تھی کہ یہ بیماری ان کے پورے کھیت میں پھیل جائے گی اور تمام سبزیاں سوکھ جائیں گی۔ ’’کیچڑ بھرے کھیت کے اس ٹکڑے سے سبزیاں بیچ کر میں ۲۰۰-۲۵۰ روپے کما سکتی تھی۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر پھوٹتے ہی مرجھا گئیں۔ اب جو بڑھ رہی ہیں، وہ بھی مرجھاتی جا رہی ہیں۔ مجھے بہت تناؤ ہے، کیوں کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں اس سے کتنا کما پاؤں گی۔ گھیوڑا اور وال میں پھول آ رہے تھے، لیکن اچانک سبھی پھول مرجھا کر گر گئے۔ سیم میں بھی کیڑے لگ چکے ہیں،‘‘ کاکی نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔
وہ ان سبزیوں کو سر پر رکھ کر دو کلومیٹر دور، گنیش پوری لے جاتی ہیں اور وہاں سڑک کے کنارے بیٹھ کر بیچتی ہیں، یا کبھی کبھی بس سے وسئی کے بازاروں میں لے جاتی ہیں؛ اس سے میرے چچا اور چچی کی کمائی ہر ہفتے زیادہ سے زیادہ تقریباً ۱۰۰۰ روپے تک ہو جاتی ہے۔ یہ ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔
نمباولی گاؤں میں گریل پاڑہ کے پاس ایک پہاڑی ڈھلان پر، میری ۴۰ سالہ کاکی اور ۴۳ سالہ چچا، رام چندر کے پاس ایک ایکڑ زمین ہے۔ مہاراشٹر کے پالگھر ضلع کے واڈا تعلقہ میں تقریباً ۸۵ گھروں کی اس بستی میں میری چچی اور چچا کی طرح ہی، زیادہ تر کنبے آدیواسی ہیں؛ ان کا تعلق وارلی برادری سے ہے۔ ان میں سے زیادہ تر قریب کے اینٹ بھٹوں پر، تعمیراتی مقامات پر یا وسئی اور بھیونڈی کے کارخانوں میں کام کرتے ہیں، اور زمین کے چھوٹے ٹکڑوں پر کھیتی کرتے ہیں۔
پہاڑی پر ہماری بھی کچھ زمین ہے، ایک ایکڑ۔ مانسون میں، ہماری فیملی ایک ساتھ دھان کی کھیتی کرتی ہے۔ اسے ہم بازار میں نہیں بیچتے، بلکہ خود اپنے کھانے کے لیے رکھ لیتے ہیں۔ ہم ککڑی، تورئی، کروندے، لمبی پھلیاں، جوار، تل، نائیجر کے بیج اور رتالو جیسی دیگر فصلیں بھی اُگاتے ہیں۔ پہاڑی پر مختلف قسم کے درخت ہیں، جن میں جامن، آلَو ، کوشِمب اور تورن شامل ہیں، ان سبھی میں جنگلی پھل اور بیر لگتے ہیں۔ بارش کے دوران یہاں بہت ساری جنگلی سبزیاں بھی اُگتی ہیں۔
ہمارے کھیت سے ہوکر ایک چشمہ بہتا ہے۔ مانسون ختم ہونے کے بعد، کاکا اور کاکی اس چشمے کے اپنے کھیت والے ایک حصہ میں جمع پانی کا استعمال کرکے سبزیاں اُگاتے ہیں۔ یہ جب خشک ہو جاتا ہے، تو وہ گڑھا کھود کر کچھ پانی اکٹھا کرنے کے لیے پھاوڑا اور کُدال سے ۵-۶ فٹ گہری کھدائی کرتے ہیں، اس کے لیے وہ دونوں چار دنوں تک روزانہ کچھ گھنٹوں تک اس پر کام کرتے ہیں۔
’’ہم ایک جے سی بی کرایے پر لیکر [مشین دو گھنٹے چلانے کے لیے ۱۸۰۰ روپے کا کرایہ دیکر] ایک بڑا گڑھا کھودنا چاہتے تھے۔ لیکن محکمہ جنگلات اس کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ زمین کا استعمال صرف کھیتی کے لیے کیا جا سکتا ہے نہ کہ کنوؤں کی کھدائی کرنے یا گھر بنانے کے لیے۔ ہم نے مقامی محکمہ جنگلات کے دفتر کے دو چکّر لگائے، لیکن چیف آفیسر سے ملاقات نہیں کر سکے۔ ہماری ملاقات ایک دوسرے افسر سے ہوئی، جنہوں نے ہمیں اپنے ہاتھوں سے کھدائی کرنے کے لیے کہا۔ اس میں لمبا وقت لگے گا۔ ہمیں کھیت کے دیگر سبھی کام بھی کرنے ہوتے ہیں،‘‘ کاکا کہتے ہیں۔
انہوں نے اور کاکی نے مٹی سے بھرے پلاسٹک کے بوروں کا استعمال کرکے، ایک پشتہ بناکر پانی کی دھار کو روکنے اور اسے جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ ’’ہم نے جب اکتوبر میں اس آبی ذخیرہ کی تعمیر کی، تو ہمیں لگا کہ پانی لمبے وقت تک رہے گا۔ لیکن دیکھو، یہ اب تقریباً ختم ہو چکا ہے،‘‘ کاکا کہتے ہیں۔ پہلے، کاکا-کاکی مختلف برتنوں میں پانی بھر کر اسے پہاڑی کی ڈھلان پر واقع اپنے کھیت پر لے جاتے تھے؛ کچھ ماہ قبل، ایک مقامی این جی او نے انہیں پیر کے پیڈل سے چلنے والی ایک مشین دی، جو پانی کو پہاڑی کے اوپر کھینچتی ہے۔ اس نے کچھ حد تک ان کی محنت کو کم کر دیا ہے، لیکن پانی کی کمی ابھی بھی بنی ہوئی ہے۔
’’ہمیں زمین کے اس ٹکڑے پر گھر بنانے کی بھی اجازت نہیں ملی ہے،‘‘ کاکا نے اپنی بات کو آگے جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’جلد ہی، ایک ہائی وے [ممبئی-وڈودرا ایکسپریس ہائی وے] ہمارے گاؤں سے ہوکر گزرے گا اور ہمارے گھر کو توڑ دیا جائے گا [اس بستی کے سبھی کنبوں کو گھر خالی کرنے کا نوٹس ۲۰۱۸ میں ہی دے دیا گیا تھا]۔ ہماری نقل مکانی کر دی جائے گی۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ کہاں۔ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، یہیں ہے۔ اس لیے میں یہاں اپنا گھر پھر سے بنانا چاہتا تھا۔ میں نے افسر سے درخواست کی تھی۔ لیکن انہوں نے منع کر دیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ رہنے کے لیے ایک جھونپڑی بنا لو۔‘‘
کاکا اور کاکی کو کھیتی کرنے کے لیے ایک مستقل آبی ذخیرہ کی ضرورت ہے۔ اگر انہیں پانی مل سکا اور اس کی کمی میں گراوٹ آئی، تو انہیں دوبارہ ہجرت کرنے کے لیے مجبور نہیں ہونا پڑے گا
حالانکہ کاکا کو حق جنگلات قانون کے تحت ۲۰۱۱ میں ایک ایکڑ زمین کا مالکانہ حق ملا تھا، لیکن انہیں اور ان کی فیملی کو جنگلاتی زمین میں رہائش کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے، جب کہ اس قانون میں اس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اور انہیں اور کاکی کو کھیتی کرنے کے لیے ایک مستحکم آبی ذخیرہ کی ضرورت ہے۔ اگر انہیں وہ مل سکا، اگر پانی کی قلت میں اضافہ نہیں ہوا، تو وہ دوبارہ ہجرت کرنے کے لیے مجبور نہیں ہوں گے۔
کام میں مصروف رہتے ہوئے کاکا نے، ہمارے گاؤں کے قریب اینٹ کے بھٹّوں پر کئی برسوں تک کام کرنے کے بارے میں مجھے بتایا۔ کاکی کبھی اسکول نہیں گئیں، ان کی تعلیم صفر تھی۔ کاکا ۱۰ویں کلاس پاس نہیں کر پائے تھے۔ ایسا اس لیے ہوا کیوں کہ امتحان شروع ہونے سے ٹھیک پہلے ایک سانڈ نے کاکا کو مارکر زخمی کر دیا تھا۔ وہ کئی دنوں تک بستر پر ہی پڑے رہے۔ وہ نہ تو بیٹھ سکتے تھے اور نہ ہی اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکتے تھے۔ اور اسی لیے وہ بورڈ کے امتحان میں شریک نہیں ہو سکے۔ تعلیم حاصل کرنے کا ان کا خواب ادھورا رہ گیا۔
کاکا کی ۲۲ سال کی عمر میں شادی – کاکی تب ۱۹ سال کی تھیں، اور ان کا تعلق وسئی تعلقہ کی تھالیاچ پاڑہ بستی سے تھا – کے کچھ وقت بعد ان کی پہلی بچی، ارچنا بہت بیمار ہو گئی۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ بیماری کیا ہوتی ہے اور انہوں نے ہر قسم کی دوا آزمائی، لیکن کچھ بھی کام نہیں آیا۔ آخر میں، انہوں نے ایک بھگت (مقامی روایتی طبیب) سے صلاح لی۔ وہ مجھے بتاتے ہیں کہ اس نے اسے ٹھیک کر دیا۔ بھگت نے انہیں ایک بکری کی قربانی دینے کو کہا۔ لیکن پیسہ کہاں تھا؟ کاکا نے کہا کہ انہوں نے رات دن اس کے بارے میں سوچا۔ آخر میں، انہوں نے ایک رشتہ دار سے مانگا۔ اس نے انہیں جانور کی بَلی دینے (قربانی) کے لیے ۱۲۰۰ روپے دیے۔ جب پیسہ لوٹانے کا وقت آیا، تو اس نے مانگنا شروع کر دیا۔ کاکا اور کاکی فکرمند رہنے لگے کہ اس قرض کو کیسے ادا کیا جائے، ان کے پاس اتنا بھی پیسہ نہیں تھا۔ تبھی انہوں نے اینٹ بھٹّہ مالک سے پیشگی رقم لی، اپنے رشتہ دار کا قرض ادا کیا، اور بھٹّے پر کام کرنے چلے گئے۔
’’میری زندگی میں یہ پہلی بار تھا جب میں اینٹ بھٹّے پر گئی، ان حالات کے سبب،‘‘ کاکی نے کہا۔ یہ ۲۰۱۱ کی بات تھی۔ ’’میں نے بھٹّے پر کئی برسوں تک کام کیا۔ لیکن اب میں اسے برداشت نہیں کر سکتی۔ میری پیٹھ میں درد ہوتا ہے۔ میری پیٹھ کے نچلے حصے میں درد ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں اب وہ کام کر سکتی ہوں۔‘‘
کاکا-کاکی کے تین بچے ہیں۔ بڑی بیٹی، ۲۰ سالہ ارچنا نے ۱۲ویں کلاس کا بورڈ کا امتحان دیا ہے اور سلائی و ٹیلرنگ سیکھا ہے، ۱۸ سالہ یوگیتا ابھی ۱۲ویں کلاس میں ہے، اور ان کا بیٹا، ۱۶ سالہ روہت ۱۰ویں کلاس میں ہے۔ یہ دونوں آدیواسی آشرم شالاؤں (ہاسٹل) میں ہیں۔ کاکا اور کاکی اپنے کھیت میں کام کرکے اپنی فیملی کا پیٹ بھرتے ہیں۔ انہوں نے مشکل زندگی بسر کی ہے – اور ان کے بچوں کو اسی طرح اپنے دن نہیں گزارنے پڑیں، یہی ان کا خواب ہے۔
تعلیم کے بغیر، کاکا کو محنت کشی کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں ملا۔ اور ان کے پاس ایسا کوئی ہنر نہیں ہے جس سے وہ اپنی آمدنی حاصل کر سکیں۔ ایف آر اے کے تحت انہیں زمین کا جو ٹکڑا ملا ہے، وہی اس فیملی کا کل اثاثہ ہے۔ پانی کی مستحکم سپلائی سے، وہ شاید اپنی زمین کو درست کر سکیں، اور مناسب کام اور آمدنی سے پرسکون زندگی بسر کر سکیں۔ یہی وہ امید کرتے ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)