’کیپٹن بھاؤ‘ (رام چندر شری پتی لاڈ)
مجاہد آزادی اور طوفان سینا کے سربراہ
۲۲ جون، ۱۹۲۲ – ۵ فروری، ۲۰۲۲
اور آخر میں، جس ملک کے لیے انہوں نے لڑائی لڑی تھی، اس نے ہی ان کی پرواہ نہیں کی اور انہیں اندیکھا کر دیا۔ لیکن، اُن ہزاروں لوگوں نے انہیں یاد رکھا، جو جانتے تھے کہ کس طرح انہوں نے ۱۹۴۰ کی دہائی میں اپنے کامریڈوں کے ساتھ مل کر دنیا کی سب سے طاقتور حکومت کے خلاف لڑائی چھیڑی تھی۔ رام چندر شری پتی لاڈ، عظیم انقلابی نانا پاٹل کی قیادت والی ’پرتی سرکار‘ نامی زیر زمین عارضی حکومت کا ایک اہم حصہ تھے، جس نے ۱۹۴۳ میں برطانوی حکومت سے ستارا کی آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔
لیکن کیپٹن بھاؤ (ان کا زیر زمین خفیہ نام) اور ان کے جانباز سپاہیوں کی یہ لڑائی وہیں نہیں رکی۔ اگلے تین سالوں، یعنی ۱۹۴۶ تک وہ انگریزوں کے لیے سر درد بنے رہے۔ پرتی سرکار کا تقریباً ۶۰۰ گاؤوں پر کنٹرول تھا، جہاں سے یہ لوگ اپنی متوازی حکومت چلا رہے تھے۔ یوں دیکھا جائے تو، گزشتہ ۵ فروری کو ان کی موت برطانوی راج کے خلاف کھڑی ہونے والی اس ’سرکار‘ کی بھی موت تھی۔
کیپٹن ’بھاؤ‘ (’بڑے بھائی‘) پرتی سرکار کی زیر زمین فوج – ’طوفان سینا‘ کے حملہ آور دستہ کے سربراہ تھے۔ اس دستہ اور اپنے ذاتی ہیرو جی ڈی باپو لاڈ کے ساتھ مل کر انہوں نے مہاراشٹر کے شینولی میں ۷ جون، ۱۹۴۳ کو برطانوی راج کے عہدیداروں کی تنخواہ لے کر جا رہی پونہ –میراج اسپیشل مال گاڑی پر حملہ بول دیا۔ اس لوٹ سے حاصل ہونے والی رقم کا استعمال انہوں نے بے روزگاری اور خشک سالی سے پریشان کسانوں اور مزدوروں کی مدد کرنے میں کیا۔
کئی دہائیوں کے بعد، جب پرتی سرکار اور انہیں گمنامی کی دنیا میں دھکیل دیا گیا تھا، پاری نے کیپٹن بھاؤ کو ڈھونڈ نکالا اور ہمیں اپنی کہانی سنانے کے لیے کہا۔ تبھی انہوں نے غیر انحصاریت اور آزادی کے درمیان کا فرق بتایا تھا۔ ہندوستان اب کسی پر منحصر نہیں ہے۔ لیکن بقول کیپٹن بھاؤ، آزادی پر کچھ ہی لوگوں کی اجارہ داری ہے۔ اور: ’’آج، پیسے والوں کا ہی راج ہے… ہماری آزادی کی یہ حالت ہو گئی ہے۔‘‘
نومبر ۲۰۱۸ میں، جب ایک لاکھ سے زیادہ کسانوں نے پارلیمنٹ کی جانب مارچ کیا، تو انہوں نے پاری کے بھرت پاٹل کے ذریعے اُن کسانوں کو ایک ویڈیو پیغام بھیجا تھا۔ تب ۹۶ سالہ اس پرانے جانباز نے کسانوں سے کہا تھا، ’’اگر میری صحت ٹھیک ہوتی، تو آج میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ مارچ کرتا۔‘‘
جون ۲۰۲۱ میں، میں نے فیصلہ کیا کہ ان سے ایک بار پھر ملاقات کروں اور وبائی مرض کے اس دور میں ان کی خیریت دریافت کروں۔ اپنی رفیق کار میدھا کالے کے ساتھ، میں انہیں یوم پیدائش کی مبارکباد دینے ان کے گھر گیا۔ پاری کی طرف سے، ہم ان کے لیے برتھ ڈے گفٹ بھی لے گئے تھے، جس میں ایک خوبصورت نہرو جیکٹ (جو انہیں ہمیشہ سے پسند تھا)، دستکاری سے تیار کردہ ہاتھ کی ایک چھڑی، اور ہمارے ذریعے ان کی پہلے کھینچی گئی تصویروں پر مشتمل ایک فوٹو ایلبم شامل تھا۔ انہیں کمزور دیکھ کر مجھے کافی صدمہ پہنچا۔ پچھلی بار جب میں ۲۰۱۸ میں ان سے ملا تھا، تب ان کی صحت قدرے بہتر تھی۔ لیکن، اب وہ ٹھیک سے بول بھی نہیں پا رہے تھے – ہاں، یہ تحفے انہیں بہت پسند آئے۔ انہوں نے جیکٹ فوراً ہی پہن لی – حالانکہ اُس وقت سانگلی میں کافی گرمی تھی۔ اور ہاتھ میں چھڑی پکڑ کر، انہوں نے فوٹو ایلبم میں بھی خود کو غور سے دیکھنے کی کوشش کی۔
تبھی ہمیں اس بات کا احساس ہوا کہ پچھلے سال انہوں نے، سات دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے شریک حیات رہ چکیں کلپنا لاڈ کو کھو دیا تھا۔ بڑھاپے میں اتنا بڑا صدمہ ان کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ رخصتی کے وقت ہمیں یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اب وہ بھی زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہ پائیں گے۔
دیپک لاڈ نے مجھے فون کرکے بتایا: ’’موت کے وقت وہ اسی نہرو جیکٹ کو پہنے ہوئے تھے۔‘‘ ہاتھ کی وہ خوبصورت چھڑی بھی ان کے بغل میں تھی۔ دیپک نے بتایا کہ سرکاری عہدیداروں نے بھاؤ کی آخری رسومات ریاستی اعزاز کے ساتھ ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اسے پورا نہیں کیا گیا۔ تاہم، بڑی تعداد میں لوگ اپنے کیپٹن کے آخری سفر کے وقت وہاں جمع ہو گئے تھے۔
پاری نے اپنے قیام کے ۸۵ مہینوں میں ۴۴ قومی اور عالمی ایوارڈ جیتے ہیں۔ لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ہمارے لیے اتنا معنی نہیں رکھتا جتنا کہ کیپٹن بھاؤ کے وہ الفاظ جو انہوں نے اپنے ہوم ٹاؤن، کُنڈل میں اپنے اوپر بنی پاری کی اس فلم کو دیکھنے کے بعد کہے تھے۔ سال ۲۰۱۷ میں دیپک لاڈ کے ذریعے انہوں نے ہمیں جو پیغام بھیجا تھا، وہ کچھ یوں ہے:
’’پرتی سرکار کی پوری تاریخ ایک طرح سے فراموش کر دی گئی تھی، لیکن پی سائی ناتھ اور پاری نے اسے دوبارہ زندہ کر دیا۔ ہماری تاریخ کا وہ سنہرا باب مٹا دیا گیا تھا۔ ہم نے خود انحصاری اور آزادی حاصل کرنے کے لیے لڑائی لڑی۔ پھر گزرتے وقت کے ساتھ ہماری قربانیوں کو لوگ بھول گئے۔ ہمیں فراموش کر دیا گیا تھا۔ سائی ناتھ میری اسٹوری کے لیے، پچھلے سال ہمارے گھر آئے تھے۔ وہ میرے ساتھ شینولی کی اُس جگہ پر گئے، اُن پٹریوں پر کھڑے ہوئے، جہاں انگریزوں کی ٹرین پر ہم نے حملہ کیا تھا۔‘‘
’’میرے اور میرے ساتھی کامریڈوں کے بارے میں بنی اس فلم اور مضمون کے ساتھ، سائی ناتھ اور پاری نے پرتی سرکار اور ہماری لڑائی کی یادوں کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے، انہوں نے ہمارا عز و وقار لوٹایا ہے۔ انہوں نے معاشرہ کے شعور میں پھر سے ہماری جگہ بنائی ہے۔ یہی ہماری سچی کہانی تھی۔‘‘
’’میں اُس فلم کو دیکھ کر بہت جذباتی ہو گیا تھا۔ پہلے، میرے اپنے گاؤں کے زیادہ تر نوجوان ان قصوں کو نہیں جانتے تھے، انہیں معلوم نہیں تھا کہ میں کون ہوں یا میرا رول کیا تھا۔ لیکن آج، پاری پر اس فلم اور مضمون کے شائع ہونے کے بعد سے، نوجوان نسل بھی مجھے عزت کی نظر سے دیکھتی ہے اور جانتی ہے کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے ہندوستان کو آزادی دلانے میں رول نبھایا ہے۔ اس وجہ سے، میری زندگی کے آخری سالوں میں، ہمارا اعزاز واپس مل پایا۔‘‘
ان کی وفات کے ساتھ، ہندوستان نے تحریک آزادی کے سب سے بہترین سپاہیوں میں سے ایک کو کھو دیا ہے – جنہوں نے تمام خطرات کو جانتے ہوئے بھی بے لوث جذبے سے اس ملک کی آزادی کی لڑائی لڑی۔
سال ۲۰۱۷ میں، اس پہلے انٹرویو کے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد، بھرت پاٹل نے مجھے کُنڈل میں جاری کسانوں کی ہڑتال میں مارچ کرتے اس بزرگ آدمی کی ایک تصویر بھیجی تھی۔ اگلی بار جب میں نے انہیں دیکھا، تو میں نے کپیٹن بھاؤ سے پوچھا کہ وہ وہاں دھوپ میں کیا کر رہے تھے؟ وہ اب کون سی لڑائی لڑ رہے تھے؟ جدوجہد آزادی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا:
’’وہ لڑائی بھی کسانوں اور مزدوروں کے لیے ہی تھی، سائی ناتھ۔ اب بھی کسانوں اور مزدوروں کے لیے لڑ رہا ہوں۔‘‘
یہ بھی پڑھیں: کیپٹن بھاؤ اور ’طوفان سینا‘ اور پرتی سرکار کی آخری جے جے کار
مترجم: محمد قمر تبریز