محمد کھوکن یہ سمجھنے کے لیے مغزماری کر رہے ہیں کہ انہیں لاک ڈاؤن کی تیاری کے لیے وقت کیوں نہیں دیا گیا۔ برہت بنگلورو مہانگر پالیکے کے ساتھ کچرا اٹھانے والے کی شکل میں کام کر رہے محمد کھوکن کہتے ہیں کہ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ یہ اتنا لمبا چلے گا، تو وہ کھانا خریدنے کے لیے کچھ پیسے الگ بچاکر رکھ سکتے تھے۔
ان کا گھر بہت دور ہے – جنوبی دہلی کے کنارے واقع ’شہری‘ گاؤں، جسولا میں۔ وہ بنگلورو شہر کے شمالی حصہ، امرتاہلّی کے پڑوس میں واقع سوکھا کچرا پھینکنے کی جگہ پر رہتے ہیں، یہیں پر وہ کام بھی کرتے ہیں۔ ’’اگر ہمیں لاک ڈاؤن کے بارے میں پہلے سے معلوم ہوتا، تو میں کچھ پیسے اپنے پاس رکھ لیتا۔ میں اپنے ٹھیکہ دار کے پاس جاتا اور اسے اپنی مشکلات کے بارے میں بتاکر کچھ پیسے مانگ سکتا تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
اب چونکہ نہ تو کوئی آمدنی ہے اور نہ ہی کھانا، اس لیے محمد کھوکن کہتے ہیں کہ وہ دن میں صرف ایک بار ہی کھا رہے ہیں، ان پیکٹوں سے جو رضاکار تنظیموں کے ذریعے تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ ’’ہر کسی کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہو گیا ہے کیوں کہ لاک ڈاؤن اچانک شروع ہوا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
شہر کے اُس پار، جنوبی بنگلورو میں رہنے والے سندر راما سوامی بھی اس بات سے متفق ہیں کہ لاک ڈاؤن کی اطلاع بہت کم وقت کے لیے دی گئی تھی۔ ’’کاش ہم اس کے لیے تیار رہتے – ہم اپنے ساتھ کھانا بھی رکھ سکتے تھے۔ کھانا کے بغیر ہم گھر کے اندر کیسے رہ سکتے ہیں؟‘‘ ۴۰ سالہ سندر سوال کرتے ہیں، جو پیشہ ور پینٹر کے طور پر معاش کماتے ہیں۔
محمد کھوکن کا گھر بہت دور ہے – جنوبی دہلی کے کنارے جسولا گاؤں میں۔ بنگلورو میں وہ سوکھا کچرا پھینکنے کی جگہ پر رہتے ہیں اور یہیں پر کام کرتے ہیں
سندر، بن شنکری علاقہ کے پڑوس میں واقع پدمنابھ نگر کی دلت سنگھرش سمیتی کے صدر ہیں۔ ۱۰ برسوں سے اس علاقہ میں کام کرنے والے ایک کارکن کے طور پر، سندر کہتے ہیں کہ انہوں نے پہلے کبھی اس قسم کے مسئلہ کا سامنا نہیں کیا ہے۔ ’’کچھ لوگ تو اب دن میں صرف ایک بار ہی کھا رہے ہیں۔‘‘
سندر کا اندازہ ہے کہ بن شنکری کی یارب نگر کالونی کے تقریباً ۳۰۰ کنبے، جن میں سے تقریباً سبھی یومیہ مزدور ہیں، کھانا حاصل کرنے کے لیے اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل رہے ہیں – وہ ڈرتے ہیں کہ پولس انہیں مارے گی۔ لیکن ان کے پاس زیادہ متبادل نہیں ہے، سندر بتاتے ہیں جو کہ اس علاقہ میں کھانے کے پیکٹ بانٹنے والی رضا کار تنظیموں کی مدد کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’جب کھانا نہیں ہوگا، تو وہ کیا کریں گے؟ وہ سڑکوں پر آ جائیں گے۔‘‘
سندر بتاتے ہیں کہ یارب نگر میں رہنے والے کنبوں کے لیے سماجی دوری پر عمل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ ’’اگر ہم سڑکوں پر نہ نکلیں، تو ہمیں پتہ کیسے چلے گا کہ لوگ ہماری مدد کے لیے پہنچیں گے یا ہمیں کھانا دیں گے؟ سماجی دوری کی تعمیل کرنے پر یہ بہت مشکل ہے۔ کھانا حاصل کرنے کے لیے آپ کو وہاں رہنا ہی پڑتا ہے، ورنہ لوگوں کو تشویش رہتی ہے کہ وہ چھوٹ جائیں گے۔‘‘
لاک ڈاؤن کی پیشگی اطلاع چندن پرجاپتی اور منجے پرجاپتی کو اترپردیش کے مہاراج گنج ضلع کے اپنے گھر جانے کی اجازت دے سکتی تھی۔ وہ دونوں شمالی بنگلورو میں بڑھئی کا کام کرتے ہیں، اور چاہتے تھے کہ خدمات کے بند ہونے سے پہلے انہیں یہاں سے جانے کی اجازت دے دی گئی ہوتی۔ ’’کم از کم اپنے کھیتوں پر کام کرکے ہم اپنا پیٹ تو بھر سکتے تھے،‘‘ تین سال پہلے بنگلورو آئے منجے کہتے ہیں۔
چندن اور منجے دونوں لاک ڈاؤن کے ضابطوں کی تعمیل کر رہے ہیں، لیکن وہ کھانے کو لے کر فکرمند ہیں۔ ’’ہم نے جو پیسہ بچایا تھا، اب وہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ ہمارا ٹھیکہ دار فون نہیں اٹھا رہا ہے، اس لیے ہم جانتے ہیں کہ وہ ہماری مدد نہیں کرے گا،‘‘ منجے کہتے ہیں۔
چندن اور منجے کے راشن کارڈ مہاراج گنج میں رجسٹرڈ ہیں، اس لیے وہ ان کا استعمال بنگلورو میں سبسڈی والے غذائی اجناس خریدنے کے لیے نہیں کر سکتے۔ آنے والے دنوں کے بارے میں فکرمند ہوکر، چندن کہتے ہیں، ’’ہم سن رہے ہیں کہ یہ لاک ڈاؤن لمبے وقت تک چل سکتا ہے۔ ہم فکرمند ہیں۔ ہم اس طرح سے کیسے رہ سکتے ہیں؟‘‘
یارب نگر میں، سندر کہتے ہیں کہ جن کنبوں کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے، انہیں مقامی تنظیم کے ذریعے سوکھے راشن کٹ حاصل کرنے میں ترجیح دی جائے گی۔
ہماری واپسی کے وقت، سندر کہتے ہیں: ’’یہاں آنے والے زیادہ تر لوگ ہمیں کھانا دیتے وقت ہماری تصویریں لیتے ہیں۔ ویسا نہیں کرنے کے لیے آپ کا شکریہ۔‘‘
رپورٹر، کچرا اٹھانے والوں کے حقوق پر کام کرنے والے ایک ادارہ، ہسیرو ڈالا کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں جس نے ان انٹرویوز میں ان کی مدد کی۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)