’’پچھلے ایک سال میں، میں نے ۲۷ لوگوں کی آخری رسومات دیکھی ہیں،‘‘ اوڈیشہ کے گنجم ضلع کے ایک کرگھا ماسٹر، ۴۵ سالہ پرمود بِسویی، جو سورت میں کام کرتے ہیں، کہتے ہیں۔ مزدوروں کے اہل خانہ اکثر اتنے غریب ہوتے ہیں کہ آخری رسومات میں شریک ہونے کے لیے [گجرات تک سفر کرکے] نہیں آ سکتے۔‘‘
بِکاش گوڈا کے والد اور بھائی حالانکہ ان کے ساتھ ہی تھے، جب ان کی موت ہوئی۔ بِکاش (۱۶) کو کرگھے کے کام کی خطرناک دنیا میں داخل ہوئے ابھی ۲۴ گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے۔ اس نوجوان کو سورت کے وید روڈ پر واقع پاور لوم کارخانہ میں کام کرنے کے لیے، گنجم کے لانڈا جَولی گاؤں میں اپنے گھر سے ۱۶۰۰ کلومیٹر سے زیادہ دور کا سفر کرنا پڑا تھا۔ اس سال ۲۵ اپریل کو، اس نے جیسے ہی مشین کے اسٹارٹر کو دبایا، ہائی وولٹیج بجلی کا زوردار جھٹکا لگا – جس سے وہیں اس کی موت ہو گئی۔ اس کے والد اور دو بڑے بھائی پاس میں ہی کرگھے پر کام کر رہے تھے۔
’’ہر کوئی جانتا تھا کہ مشین خراب ہے۔ پہلے ہمیں بھی معمولی جھٹکا لگ چکا تھا... لیکن ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ میرے بیٹے کی جان لے لے گا،‘‘ اس کے والد چرن گوڈا کہتے ہیں، جو سورت میں تقریباً تین عشرے سے کام کر رہے ہیں۔ ’’ہمارے گھر کی حالت بہت خراب ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو بھی یہاں لانے سے ہم فیملی کے لیے کچھ پیسے بچا سکیں گے۔‘‘
دو ہفتے بعد، ۱۰ مئی کو، ساچن (سورت مہا نگر ایریا میں) واقع گجرات انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی ایک کرگھا اکائی میں، راجیش اگروال کو مشین نے اپنے اندر کھینچ لیا۔ مہاراشٹر کے اس نوجوان مہاجر کی موت موقع پر ہی ہو گئی تھی۔ ’’مشین پرانی تھی۔ بجلی جب تک نہیں جاتی، تب تک یہ نہیں رکتی تھی،‘‘ حادثہ کے بعد باہر جمع ہونے والی بھیڑ میں سے ایک ساتھی ملازم نے بتایا۔ ’’ہو سکتا ہے کہ اس نے دھاگہ ٹھیک کرنے کے لیے اپنا ہاتھ اندر ڈالا ہو... اور اندر کھینچ لیا گیا ہو۔‘‘ تبھی سے وہ اکائی بند کر دی گئی ہے۔
بجلی کا جھٹکا لگنے سے موت اور جلنا، سانس لینے میں دقت اور گرنا، انگلیوں کا کٹ جانا اور جسمانی اعضا کا کچل جانا، اور موت – مزدوروں اور مالکوں کا کہنا ہے کہ سورت کی پاورلوم اکائیوں میں ’’تقریباً ہر روز‘‘ بڑی تعداد میں ایسے حادثات ہوتے ہیں، لیکن نہ تو یہ رپورٹ کیے جاتے ہیں اور نہ ہی کوئی معاوضہ دیا جاتا ہے۔
پولی ایسٹر کے دھاگے سے لٹکے
شمالی سورت کے مینا نگر علاقہ میں تقریباً ۱۰۰۰ مربع فٹ میں پھیلی ایک اکائی میں، ۱۰۰ سے زیادہ کرگھا مشینیں ایک دوسرے سے سٹی چلتی رہتی ہیں۔ آنے جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے، اور صبح ۷ بجے سے شام کے ۷ بجے تک یا شام کے ۷ بجے سے اگلے دن صبح ۷ بجے تک، ۱۲ گھنٹے چلنے والے ہر شفٹ میں کام کرنے والے ۸۰ سے ۱۰۰ مزدوروں کو، اس پوری مدت میں اپنے بازو پھیلانے تک کی جگہ نہیں ملتی۔ تاربند کئی ٹیلی ویژن کیمروں سے ان کی ہر حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔ سب سے قریبی عوامی بیت الخلاء کچھ بلاک دور ہے۔ مئی میں باہر کا درجہ حرارت ۴۱ ڈگری سیلسیس ہے، لیکن پینے کے پانی کا کوئی انتظام نہیں ہے، اور مردوں کو پاس کی چائے کی دکانوں سے لانا پڑتا ہے۔ کوئی کھڑکی بھی نہیں ہے۔
مزدور اپنے پیروں اور ٹانگوں کو تیز رفتار سے لگاتار چلاتے رہتے ہیں، تاکہ دھاگے سے تیز بُنائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ کرگھا ماسٹر بسویی کہتے ہیں، ’’یہاں ہر منٹ معنی رکھتا ہے ... بلکہ ہر سیکنڈ۔‘‘ مزدوروں کو ٹکڑے کی بنیاد پر ادائیگی کی جاتی ہے – ہر ایک میٹر کے ۱ء۱۰ روپے سے ۱ء۵۰ روپے تک۔ اس لیے، بسویی کہتے ہیں، ’’وہ کوئی بھی وقت برباد نہیں کر سکتے یا آرام نہیں کر سکتے ہیں۔‘‘ سال بھر میں ان کی صرف ایک بار تب چھٹی ہوتی ہے، جب ’’بجلی کٹ گئی ہو‘‘۔ مہینے میں تقریباً ۳۶۰ گھنٹے کام کرنے کے بعد، ایک مزدور ۷۰۰۰ روپے سے ۱۲۰۰۰ روپے تک کماتا ہے، جس میں سے کم از کم ۳۵۰۰ روپے کرایہ اور کھانے پر خرچ ہوتے ہیں۔
مہینہ بھر کے اِن ۳۶۰ گھنٹوں میں، سورت کے کرگھا مزدور ہندوستان میں استعمال ہونے والے پولی ایسٹر کا تقریباً ۹۰ فیصد تیار کرتے ہیں – روزانہ تقریباً ۳۰ ملین میٹر کچے کپڑے اور ۲۵ ملین میٹر پروسیسڈ کپڑے تیار ہوتے ہیں، یہ بات اگست ۲۰۱۷ میں وڈودرا واقع غیر سرکاری تنظیم پیپلز ٹریننگ اینڈ ریسرچ سنٹر (پی ٹی آر سی) کے ذریعہ ’سورت کی کپڑا صنعت میں مزدوروں کے حالات‘ عنوان سے تیار کی گئی رپورٹ میں کہی گئی ہے۔
وہ سورت اور اس کے آس پاس کے علاقے – پنڈیسرا، اُدھنا، لِمبایت، بھیستن، ساچن، کٹرگام، وید روڈ اور انجنی میں پھیلے کارخانوں کے کرگھوں پر کام کرتے ہیں۔ گجرات، راجستھان اور مہاراشٹر میں مہاجر مزدوروں کے ساتھ کام کرنے والی تنظیم، آجیویکا بیورو کا اندازہ ہے کہ اس شہر میں تقریباً ۱۵ لاکھ کرگھا مشینیں ہیں۔
ان کرگھوں میں مزدوروں کو بڑی تعداد میں چھوٹے، بڑے اور مہلک زخم آتے ہیں – ان میں سے بہت سے مزدور گنجم سے یہاں آئے ہیں۔ پی ٹی آر سی کے مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ سورت کی رجسٹرڈ کپڑا پروسیسنگ اکائیوں میں ۲۰۱۲ سے ۲۰۱۵ کے درمیان ۸۴ جان لیو حادثات ہوئے جن میں کل ۱۱۴ مزدوروں کی موت ہوئی۔ اسی مدت کے دوران ۳۷۵ مزدور بری طرح زخمی ہوئے۔ یہ ڈیٹا گجرات کے محکمہ صنعتی تحفظ اور صحت سے حق اطلاع قانون کے تحت حاصل کی گئی معلومات پر مبنی ہے۔ اس شہر میں کئی غیر رجسٹرڈ پاورلوم کارخانے بھی ہیں، اور ہو سکتا ہے کہ اموات اور حادثات کی تعداد کو کم کرکے شمار کیا گیا ہو۔
ان میں سے کسی کے بھی بارے میں کوئی تفصیلی سرکاری ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔
زیادہ تر کرگھے دکان اور اسٹیبلشمنٹ ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں، نہ کہ فیکٹریز ایکٹ کے تحت جو کم از کم یہ لازمی بناتا ہے کہ اگر حادثہ یا موت ہو جائے تو مزدوروں یا ان کے کنبوں کو معاوضہ دینا ہوگا، پی ٹی آر سی کے ڈائرکٹر جگدیش پٹیل بتاتے ہیں۔
مزدوروں کو کوئی قرارنامہ نہیں ملتا ہے۔ بھرتی زبانی ہوتی ہے۔ ’’وہ جب بھی تہوار یا شادی کے موسم میں چھٹی لے کر گھر جاتے ہیں، تو انھیں اس بات کا بھروسہ نہیں رہتا کہ واپس لوٹنے پر نوکری رہے گی ہی۔ وہ اتنی آسانی سے بدل دیے جاتے ہیں،‘‘ جنوری ۲۰۱۶ میں قائم سورت اور آس پاس کے علاقوں میں کرگھا اور کپڑا صنعت میں کام کرنے والے مزدوروں کی تنظیم، پرواسی شرمک سرکشا منچ (پی ایس ایس ایم) کے ایک رکن، پرہلاد سوائیں کہتے ہیں۔ ’’اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ ہم جب واپس آئیں، تو ہماری نوکری باقی رہے گی۔ مزدور جتنے دنوں تک چھٹی پر رہتے ہیں اتنے دنوں کی انھیں مزدوری نہیں ملتی،‘‘ گنجم کے بڈکھنڈی گاؤں کے ۳۶ سالہ ایک مہاجر مزدور، سیمانچل ساہو کہتے ہیں۔
تول مول کی طاقت نہ ہونے کے سبب، مہاجر کرگھا مزدوروں کے حادثہ اور موت کے معاملوں کی سنوائی بہت کم ہوتی ہے، سورت میونسپل کونسل میں اسسٹنٹ سینٹری انسپکٹر، جے کے گامِت کہتے ہیں۔ ’’مزدوروں کی فیملی کافی دور اپنے گاؤوں میں ہوتی ہے اور شہر میں ان کے دوست بھی کرگھوں میں کام کر رہے مزدور ہیں۔ ان کے پاس پولس اسٹیشن تک جانے یا معاملے کی کارروائی پر نظر رکھنے کی فرصت نہیں ہوتی،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’زخم اور اموات کی تعداد کا کوئی سرکاری دستاویز نہیں ہے۔ معاملہ فوراً ہی بند کر دیا جاتا ہے۔‘‘
عام طور پر، اگر کرگھے میں موت ہوئی ہے، تو پولس میں معاملہ درج ہوتا ہے۔ لیکن یہ ایک قانونی اور طبی دستور ہے، اور گرفتاریاں بہت ہی کم ہوتی ہیں۔ معاوضے کا دعویٰ کرنے کے لیے، فیملی کو محکمہ محنت سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ اگر یہ دعویٰ زخم کے لیے ہے، تو مزدور کی نوکری داؤ پر لگ سکتی ہے کیوں کہ اس سے آجر ناراض ہو جائے گا۔ زیادہ تر لوگ معاملے کا نمٹارہ عدالت کے باہر ہی کر لینا چاہتے ہیں۔
تو نوجوان بِکاش گوڈا کی موت کے چار دن بعد، ۲۹ اپریل کو ان کے آجر نے فیملی کو معاوضہ کے طور پر ۲ء۱۰ لاکھ روپے دیے اور صاف کہا کہ کوئی اور دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ عام طور پر، آجر زیادہ سے زیادہ ۵۰ ہزار روپے ہی ادا کرتے ہیں، تاکہ وہ معاملے کو بند کر سکیں – اور اس کارروائی میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔ مذکورہ معاملے میں، چونکہ پی ایس ایس ایم اور آجیویکا بیورو نے مداخلت کی تھی، اس لیے معاوضہ کی رقم میں اضافہ اور اسے تیزی سے جاری کر دیا گیا۔
تین نوکریاں داؤ پر تھیں، اس لیے فیملی راضی ہو گئی۔
گنجم سے گجرات تک
سورت اڑیہ کلیان سنگھ کے رکن، راجیش کمار پادھی کا اندازہ ہے کہ گنجم کے کم از کم ۸ لاکھ مزدور سورت میں رہتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً ۷۰ فیصد شہر کے پاورلوم سیکٹر میں کام کرتے ہیں۔ ’’اوڈیشہ اور سورت کے درمیان مہاجر گلیارہ تقریباً ۴۰ سال پہلے کھلا تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ پی ٹی آر سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’گنجم کو اوڈیشہ میں حالانکہ ایک ترقی یافتہ ضلع مانا جاتا ہے، لیکن قدرتی وسائل کا کم ہونا، زرعی زمین میں کمی اور لگاتار سیلاب اور خشک سالی نے مہاجرت میں اضافہ کیا ہے۔‘‘
لیکن گنجم کے مہاجرین کو سورت کی دوسری بڑی صنعت – ہیرا – میں بھرتی نہیں کیا جاتا ہے، جگدیش پٹیل بتاتے ہیں۔ ’’یہ نوکریاں عام طور پر مقامی گجراتی مزدوروں کے لیے ریزرو ہیں کیوں کہ آجر صرف ’اپنے بھروسہ مند‘ لوگوں کو ہی بھرتی کرتے ہیں۔ گنجم کے مزدور کرگھا اکائیوں میں نچلے سرے پر ہی بنے ہوئے ہیں اور سالوں سے مشین چلانے کا کام روزانہ اسی طرح سے کرتے آ رہے ہیں۔
پھر بھی، ان مزدوروں کا کہنا ہے کہ یہاں کی حالت ان کے گھر سے بہتر ہے۔ سیمانچل ساہو، یہ بھی پی ایس ایس ایم کے ایک رکن ہیں، کہتے ہیں، ’’گنجم میں حالات بہت چنوتی بھرے ہیں۔ شروع میں ہو سکتا ہے کہ کچھ ہی مزدوروں نے مہاجرت کی ہو، لیکن اس کے بعد اب یہ بڑے گروہوں میں آ رہے ہیں، کچھ اپنے اہل خانہ اور پڑوسیوں کے ساتھ۔‘‘
پاورلوم سیکٹر میں کام کرنے والے زیادہ تر مہاجر مرد ہیں۔ گنجم کی عورتیں سورت میں کم ہی ہیں، اور وہ عام طور پر کڑھائی یا کپڑا کاٹنے والی اکائیوں میں کام کرتی ہیں، یا پھر ٹکڑے کے حساب سے اجرت پر گھر سے کام کرتی ہیں۔ کچھ عورتیں اپنے شوہر کے سورت شہر میں اچھی طرح بس جانے کے بعد آتی ہیں۔ لیکن، زیادہ تر مرد مزدور اپنی فیملی سے دور رہتے ہیں اور سال یا دو سال میں ایک بار کچھ ہفتوں کے لیے اپنے گھر جاتے ہیں۔ (اس کے بارے میں مزید اس سلسلہ کی اگلی اسٹوری میں۔)
مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کیوٹ ذات کے دلتوں کی ہے، جو اپنے گاؤوں میں مچھواروں یا کشتی بانوں کا کام کرتے ہیں۔ ساہو جیسے کچھ مزدور اوبی سی برادریوں سے ہیں۔ ان میں سے زیادہ کے پاس کوئی زمین نہیں ہے۔ ’’آمدنی کا بنیادی ذریعہ کاشت کاری ہے، جو زیادہ تر موسم اور سیلاب کے حالات پر منحصر ہے۔ کوئی اور موقع نہیں ہے،‘‘ سوائیں کہتے ہیں۔ اسی کی وجہ سے زیادہ تر لوگ سورت چلے گئے۔ وہ کم از کم کچھ تو کما کر گھر بھیج رہے ہیں، بھلے ہی یہ ان کی مجموعی صحت کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
ان کی اس بیچارگی نے کارخانوں میں ان کے اعلیٰ سطحی استحصال کو آسان بنایا ہے۔ ’’زخمی ہوئے یا مارے گئے ہر ایک مزدور کی جگہ، ہر روز شہر میں کئی اورنوجوان اور پریشان مزدور آتے ہیں،‘‘ گنجم کے برہم پور شہر کے ۳۸ سالہ کرگھا مزدور، رشی کیش راؤت نے بتایا جن کی تین انگلیاں فروری ۲۰۱۷ میں، بجلی کے کھمبے کے ایک حادثہ میں کٹ گئی تھیں۔ ’’مالکوں کو بھی یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ کوئی بھی زخم یا حادثہ ان کے گھر کے حالات سے زیادہ خراب نہیں ہو سکتا۔‘‘ راؤت اب سورت میں سیکورٹی گارڈ کا کام کرتے ہیں، انھیں اس بات کی بہت کم امید ہے کہ کٹی انگلیوں کا انھیں کوئی معاوضہ ملے گا، کیوں کہ یہ حادثہ سورت کے پانڈیسر صنعتی علاقہ میں ان کے ایک کمرہ والے گھر میں ہوا تھا۔
روزانہ کی جدوجہد، ہمیشہ کے لیے اثر
سخت کام اور کم مزدوری کے علاوہ، کارخانوں میں لگاتار شور ہونے کی وجہ سے پاورلوم میں کام کرنے والے مزدور بڑی تعداد میں بہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ آجیویکا بیورو کے مرکزی کوآرڈی نیٹر سنجے پٹیل کہتے ہیں، ’’کرگھا اکائی کے اندر آواز کی اوسط سطح ۱۱۰ ڈیسیبل سے زیادہ ہوتی ہے۔‘‘ اس سال جنوری میں، اس تنظیم نے مختلف اکائیوں میں ٹھیکہ پر کام کر رہے ۶۵ کرگھا مزدوروں کا آڈیومیٹری معائنہ کیا۔ ویلور کے کرشچین میڈیکل کالج اور اسپتال کے ذریعہ تصدیق شدہ نتیجہ بتاتا ہے کہ ۹۵ فیصد مزدوروں میں مختلف سطح کا بہرا پن تھا۔ ’’ایسے میں جب کہ مزدوروں میں بہراپن تیزی سے عام ہوتا جا رہا ہے، پھر بھی اس کا ان کی یومیہ جسمانی مزدوری کے راستے میں رکاوٹ نہ بننا، اس کا تو یہی مطلب ہوا کہ مالکوں کے ذریعے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا ہے۔ انھیں پہننے کے لیے کوئی تحفظاتی سامانی نہیں دیا جاتا ہے... اور مزدور سوال نہیں کر سکتے،‘‘ پٹیل کہتے ہیں۔
اکائی کے اندر مشینری کی ’ترتیب‘ مزدوروں کی پریشانیوں کو بڑھاتی ہے۔ انجنی انڈسٹریل ایریا کے ایک پاور لوم مالک، جن کے کرگھا میں تقریباً ۸۰ مزدور کام کرتے ہےیں، مجھے بتاتے ہیں کہ ’’گنجم کے لوگوں‘‘ کو چین، جرمنی اور کوریا سے منگائی گئی اعلیٰ معیاری مشینوں پر کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ’’ان مزدوروں کو صرف مقامی سطح پر بنائی گئی مشینوں کا استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ یہ [کام کرنے میں] سخت ہیں اور زیادہ شور کرتی ہیں۔‘‘ اسی شور کے سبب انھیں کھٹ کھٹ مشین کہا جاتا ہے، یہ مہنگی مشینوں جیسا ہی کام کرتی ہیں، لیکن مقامی بازاروں میں بیچے جانے والے کم معیار کے کپڑے تیار کرتی ہیں۔ اعلیٰ معیاری مشینوں کے ذریعہ تیار مال ایکسپورٹ کیا جاتا ہے یا بڑے شہروں میں بھیجا جاتا ہے۔
’’مالک عام طور پر مشینوں پر سینسر جیسے سیکورٹی آلات پر خرچ نہیں کرنا چاہتے۔ یہ مہنگے آتے ہیں، اور یہ صنعت گزشتہ چار سالوں سے اچھی کمائی نہیں کر رہی ہے،‘‘ انجنی انڈسٹریل ایریا کے بی-۴ سیکٹر میں لوم ایمپلائرس ایسوسی ایشن کے بانی رکن، نتن بھیانی کہتے ہیں۔
حالانکہ بھیانی کا ماننا ہے کہ زیادہ تر معاملوں میں مزدور خود حادثات اور زخموں کے لیے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ’’وہ نشے میں آتے ہیں اور کام پر توجہ مرکوز نہیں کرتے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’آجر رات میں مزدوروں کی نگرانی کرنے کے لیے اکائیوں میں نہیں رہتے۔ اسی وقت ایسے زیادہ تر حادثات ہوتے ہیں۔‘‘
جن لوگوں کے جسم کا کوئی عضو کٹ جاتا ہے اور دیگر زخم آتے ہیں، وہ اس کے بعد بھی انہی مشینوں پر لگاتار کام کرتے رہتے ہیں – کچھ تو دہائیوں تک – اور انھیں کوئی نیا ہنر سیکھنے یا پروموشن کا کبھی کوئی موقع نہیں ملتا۔ ’’اس صنعت میں اونچائی پر پہنچنا آسان نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ۶۵ سال کے مزدور بھی اسی مشین پر کام کرتے رہتے ہیں، اور مزدور جلدی بوڑھے ہو جاتے ہیں...‘‘ ۴۰ سالہ شمبھوناتھ ساہو کہتے ہیں، جو پھلواڈی میں مزدوروں کا میس چلاتے ہیں، اور گنجم کے پولاسر شہر سے یہاں آئے ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)