مہاراشٹر کے کولہاپور ضلع کے کاپشی گاؤں میں پہیہ اب بھی گھوم رہا ہے، لیکن اس کی رفتار کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ یہ پہیہ ہے کمہار کا چاک۔ اس علاقہ میں، جہاں کمہاروں نے اپنی دستکاری کو ہنر کی شکل عطا کی، وہیں خود کو کاریگر بھی سمجھنے لگے۔ کگل بلاک کے مشکل سے ۶ ہزار لوگوں کی آبادی والے اس گاؤں میں، ’’سال ۱۹۶۴ میں ۱۸۰ کاریگر تھے۔ آج، اس پیشہ میں صرف چار لوگ بچے ہیں،‘‘ وشنو کمہار بتاتے ہیں، جن کا ہاتھ آپ اس تصویر اور خاکہ میں دیکھ رہے ہیں۔
وشنو کا تعلق، کولہاپوری کوزہ گری کے ہنر کو زندہ رکھنے والی فیملی کی ۱۳ویں نسل سے ہے۔ خود ان کی فیملی کو اس پیشہ میں کبھی نقصان نہیں ہوا ہے۔ لیکن ’’کاریگروں کی تعداد تیزی سے گھٹی ہے،‘‘ یہ کہنا ہے اس شخص کا جس نے اپنے پیچھے کوزہ گری کے ڈھائی لاکھ گھنٹے دیکھے ہیں۔ اس زوال کی ایک بڑی وجہ تو یہی ہے کہ لوگوں نے مٹی کے برتن بنانا اس لیے چھوڑ دیا، کیوں کہ اس سے ان کا گزارہ نہیں چل پا رہا تھا، اس کے علاوہ زوال کے دوسرے اسباب بھی ہیں۔ کئی جگہوں پر کوزہ گری میں مشین کے استعمال نے کمہار کے چاک کو حاشیہ پر ڈال دیا ہے۔ نوجوان نسل اب دوسرے پیشوں میں ہاتھ آزمانا چاہتی ہے۔ موجودہ کوزہ گر بوڑھے ہو چکے ہیں – اور ان میں سے زیادہ تر پیٹھ درد میں مبتلا ہیں۔
’’میرا بیٹا چینی کی فیکٹری میں کام کرتا ہے اور بہت معمولی مدد پہنچا سکتا ہے۔ اس نے یہ ہنر بہت زیادہ نہیں سیکھا ہے،‘‘ وشنو بتاتے ہیں۔ ’’اس لیے میں اپنی بہو، یعنی اس کی بیوی کو یہ ہنر سکھا رہا ہوں، تاکہ وہ اسے آگے جاری رکھ سکے۔‘‘
تصویر اور خاکہ: سنکیت جین
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)