’’وہ دیکھئے! سبزیوں کی بوری کے ذریعہ چلائی جا رہی کرشمائی بائک جا رہی ہے!‘‘ یہ آواز نوجوان مرد ہر بار لگاتے ہیں، جب چندرا اپنی موپیڈ پر میلاکاڈو گاؤں کے اپنے کھیت سے سبزیاں لے کر ۱۵ کلومیٹر دور واقع سِوا گنگئی کے بازار میں بیچنے لے جاتی ہے۔ ’’ایسا اس لیے، کیوں کہ جب میں بوریوں کے ساتھ جاتی ہوں، کچھ میرے آگے اور کچھ پیچھے، تو وہ بائک کو چلانے والی کو نہیں دیکھ پاتے،‘‘ تمل ناڈو کی یہ چھوٹی کسان تفصیل بتاتے ہوئے کہتی ہے۔
موپیڈ کے ٹھیک دائیں جانب اپنے دالان میں جوٹ کے پلنگ پر بیٹھی ہوئی چندرا سبرامنین واقعی میں چھوٹی لگتی ہے۔ وہ پتلی دُبلی ہے اور ۱۸ سال کی لگتی ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ ۲۸ سال کی ہے، دو بچوں کی ماں، اور ایک کاروباری کسان، جسے ان بوڑھی عورتوں سے نفرت ہے، جو بیوہ ہونے کی وجہ سے اس سے ہمدردی جتاتی ہیں۔ ’’وہ سبھی، خود میری ماں، اس بات کو لے کر حیران و پریشان ہیں کہ میرا کیا ہوگا۔ ہاں، میرے شوہر کا انتقال تبھی ہو گیا تھا جب میں ۲۴ سال کی تھی، لیکن میں اسے بھلا کر آگے بڑھنا چاہتی ہوں۔ میں ان سے کہتی رہتی ہوں کہ وہ مجھے افسردہ نہ کریں۔‘‘
چندرا کچھ بھی کر سکتی ہے لیکن افسردہ نہیں ہو سکتی۔ وہ آسانی سے ہنستی ہے، خاص کر خود اپنے اوپر۔ اس کا مزاح غربت میں گزارے گئے بچپن کی یاد کو ہلکا کر دیتا ہے۔ ’’ایک رات میرے والد نے ہم سب کو جگا دیا۔ اس وقت میں ۱۰ سال کی بھی نہیں ہوئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ چاند پورا اور سفید ہے اور ہم لوگ اس کی روشنی میں فصل کاٹ سکتے ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے کہ شاید صبح ہونے والی ہے، میرا بھائی، بہن اور میں اپنے والدین کے ساتھ چل پڑے۔ دھان کی پوری کٹائی کرنے میں ہم کو چار گھنٹے لگ گئے۔ اس کے بعد انھوں نے کہا کہ اسکول کا ٹائم ہونے سے پہلے ہم تھوڑی دیر سو سکتے ہیں۔ اس وقت رات کے تین بج رہے تھے۔ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں؟ وہ ہم لوگوں کو رات میں ۱۱ بجے لے کر گئے تھے!‘‘ چندرا اپنے بچوں کے ساتھ ایسا کبھی نہیں کرے گی۔ وہ بن شوہر کی ماں ہے، وہ اپنے ۸ سالہ بیٹے دھنُش کمار اور ۵ سالہ بیٹی اِنیا کو پڑھانے کے لیے پوری طرح کمربستہ ہے۔ وہ پاس کے ایک پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکول میں پڑھتے ہیں۔ اور انھیں کے لیے چندرا نے کسان بننا پسند کیا ہے۔
’’۱۶ سال کی عمر میں میری شادی اپنے ماما کے بیٹے سے ہوگئی تھی۔ میں اپنے شوہر سبرامنین کے ساتھ تیروپور میں رہتی تھی۔ وہ کپڑے کی ایک کمپنی میں ٹیلر تھے۔ میں بھی وہاں کام کرتی تھی۔ چار سال پہلے، میرے والد کی ایک سڑک حادثہ میں موت ہو گئی۔ میرے شوہر بری طرح ہل گئے۔ چالیس دنوں کے بعد انھوں نے خود کو پھانسی لگا لی۔ ان کے لیے میرے والد سب کچھ تھے۔۔۔‘‘
چندرا اپنے گاؤں واپس آگئی اپنی ماں کے ساتھ رہنے کے لیے۔ وہ ٹیلرنگ کا کام یا پڑھائی دوبارہ شروع کرنے سے ہچکچا رہی تھی۔ اس کے مطابق، دونوں ہی مشکل ہوتا۔ نوکری کا مطلب ہوتا، گھنٹوں بچوں سے دور رہنا۔ اگر وہ بہتر زندگی کے لیے ڈگری کا راستہ چنتی تو، اس کے لیے پہلے اسے ۱۲ویں کلاس کا امتحان پاس کرنا پڑتا۔ ’’گریجویٹ ہونے تک، میرے بچوں کے پاس کون ہوتا؟ میری ماں کافی مددگار ہیں، لیکن پھر بھی۔۔۔۔‘‘
لیکن وہ ایسا اس لیے نہیں کہتی، بلکہ چندرا کے لیے کھیتی میں وقت کی آسانی ہوتی ہے۔ وہ نائٹی پہن کر اپنے گھر کے پیچھے ہی موجود اپنے کھیتوں میں کام کرنا پسند کرتی ہے۔ اس کی ۵۵ سالہ ماں چِنّاپونّو اَروموگم نے اپنے شوہر کی موت کے بعد فیملی کی ۱۲ ایکڑ زمین کو اپنے تین بچوں میں بانٹ دیا تھا۔ اب، ماں اور بیٹی اپنے کھیتوں پر سبزیاں، دھان، گنّے اور مکئی اگاتی ہیں۔ پچھلے سال چنّا پونّو نے چندرا کے لیے ایک نیا گھر بھی بنایا تھا۔ یہ چھوٹا لیکن مضبوط ہے، لیکن اس میں ٹوائلیٹ (بیت الخلا) نہیں ہے۔ ’’اِنیا کے بڑا ہونے سے پہلے میں یہ بنا لوں گی،‘‘ چندرا وعدہ کرتی ہے۔
ان تمام بڑے اخراجات اور بچوں کی اسکول فیس اور یونیفارم کے لیے چندرا سالانہ گنّے کی فصل پر انحصار کرتی ہے۔ دھان سے ملنے والی سہ ماہی آمدنی اور سبزیاں بیچ کر وہ روزانہ جو چند سو پیسے کمالیتی ہے، اس سے اپنا گھر چلاتی ہے۔ اس کے لیے، وہ روزانہ تقریباً ۱۶ گھنٹے کام کرتی ہے۔ گھر کا کام کرنے، کھانا پکانے اور بچوں کا لنچ پیک کرنے کے لیے وہ صبح میں چار بجے جاگ جاتی ہے۔
اس کے بعد وہ کھیت جاکر بیگن، بھنڈی اور کدو توڑتی ہے۔ اس کے بعد، وہ دھنُش اور اِنیا کو تیار کرکے اسکول لے جاتی ہے۔ ’’انھوں نے اصرار کیا کہ والدین اچھے کپڑوں میں ملبوس ہوکر اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے آئیں۔ لہٰذا، میں اپنی نائٹی کے اوپر ساڑی باندھ لیتی ہوں اور انھیں چھوڑنے جاتی ہوں،‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہے۔ پھر وہ واپس آکر دوپہر کے کھانے تک کھیتوں میں کام کرتی رہتی ہے۔ ’’میں آدھا گھنٹہ آرام کرتی ہوں۔ لیکن کھیت پر ہمیشہ کام رہتا ہے۔ ہمیشہ۔‘‘
بازار کے دنوں میں، چندرا اپنی موپیڈ پر سبزیوں سے بھری بوریاں لاد لیتی ہے اور انھیں لے کر سِوا گنگئی جاتی ہے۔ ’’میں جب چھوٹی تھی، تو اکیلے کہیں نہیں جاتی تھی۔ میں ڈرتی تھی۔ اب، میں دن میں چار بار شہر جاتی ہوں۔‘‘
چندرا بیج، کھاد اور کیڑے مار دوا خریدنے کے لیے سوا گنگئی جاتی ہے۔ ’’کل، اِنیا نے اپنے اسکول میں کرسمس پروگرام کے لیے نئی ڈریس کا مطالبہ کیا۔ اور یہ اسے ابھی چاہیے!‘‘ وہ مشفقانہ طور پر مسکراتی ہے۔ اس کے روزانہ کا خرچ، جس میں کھیتی میں مدد کے لیے مزدور کو کام پر رکھنے کا پیسہ، خاص کر دھان کے موسم میں، بھی شامل ہے، سبزیوں سے ہونے والی آمدنی سے پورا ہوتا ہے۔ ’’کچھ ہفتے، میں ۴۰۰۰ روپے کماتی ہوں۔ قیمت گھٹنے پر، کمائی اس کی آدھی بھی نہیں ہوتی۔‘‘ چھوٹی کسان اپنی پیداوار کو خود ہی خردہ کے طور پر بیچنے میں گھنٹوں لگا دیتی ہے۔ اس کی وجہ سے اسے ہر کلو پر ۲۰ روپے مزید مل جاتے ہیں، جو کہ تھوک میں بیچنے پر اسے نہیں ملتے۔
وہ شام میں جلدی واپس آجاتی ہے، اس وقت تک اس کے بچے بھی اسکول سے گھر آ چکے ہوتے ہیں۔ اور کھیتوں میں کچھ دیر کھیلنے کے بعد، تب تک وہ کام کرتی رہتی ہے، یہ بچے اس کے ساتھ گھر واپس آ جاتے ہیں۔ دھنُش اور اِنیا اپنا ہوم ورک کرتے ہیں، تھوڑی دیر ٹی وی دیکھتے ہیں اور اپنے کتے کے بچوں اور امریکی چوہوں (گنی پگ) کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ ’’میری ماں سوچتی ہیں کہ امریکی چوہے بیکار ہیں۔ وہ مجھے ڈانتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں نے ان چوہوں کی جگہ بکریاں کیوں نہیں پالیں،‘‘ چندرا دانت پیستے ہوئے کہتی ہے، موٹے والے کو پنجڑے سے باہر نکالتی ہے اور اس کو تھپتھپاتی ہے۔ ’’لیکن پچھلے ہفتہ، جب میں بازار سے ان کے لیے گاجر خرید رہی تھی، تو کسی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا یہ بیچنے کے لیے ہیں۔‘‘ وہ سوچتی ہے کہ وہ اسے بھی منافع پر بیچ سکتی ہے۔
وہ یقیناً چندرا ہی ہوگی: بری سے بری چیز کو اچھی چیز بناتے ہوئے، ہوشیار اور عقل مند۔ ناریل کے درختوں کی ایک قطار سے گزرتے ہوئے، وہ مجھ سے حسرت سے کہتی ہے کہ اس نے اس پر چڑھنا بند کر دیا ہے۔ ’’میں کیسے چڑھ سکتی ہوں؟ اب میں ایک آٹھ سالہ بیٹے کی ماں ہوں۔‘‘ اگلے ہی منٹ، وہ دوسرے صوبوں کے مہاجرین، چنئی کے سیلاب اور کسانوں سے کس بری طرح پیش آیا جاتا ہے، جیسے موضوعات پر بات کرنے لگتی ہے۔ ’’جب میں کسی دفتر یا بینک میں جاتی ہوں اور اپنا تعارف کراتی ہوں، تو وہ مجھے ایک کونے میں انتظار کرنے کے لیے کہتے ہیں۔‘‘ ان کے لیے کرسی کہاں ہے، جو آپ کے لیے کھانا اُگاتے ہیں؟ چندرا سوال کرتی ہے۔
چھوٹی کسان، بڑا دل، کرشمائی بائک سلائڈ شو دیکھیں
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)
ڈاکٹر محمد قمر تبریز ایک انعام یافتہ، دہلی میں مقیم اردو صحافی ہیں، جو راشٹریہ سہارا، چوتھی دنیا اور اودھ نامہ جیسے اخبارات سے جڑے رہے ہیں۔ انہوں نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تاریخ میں گریجویشن اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے تبریز اب تک دو کتابیں اور سینکڑوں مضامین لکھنے کے علاوہ متعدد کتابوں کے انگریزی اور ہندی سے اردو میں ترجمے کر چکے ہیں۔ آپ ان سے یہاں رابطہ کر سکتے ہیں: @Tabrez_Alig
اَپرنا کارتی کیئن کل وقتی ماں، جز وقتی قلم کار اور پاری کے لیے بطور رضاکار کام کر رہی ہیں۔ آپ اُن سے یہاں رابطہ کر سکتے ہیں : @AparnaKarthi
Dr. M.Q. Tabrez is an award-winning Delhi-based Urdu journalist who has been associated with newspapers like Rashtria Sahara, Chauthi Duniya and Avadhnama. He has worked with the news agency ANI. A history graduate from Aligarh Muslim University and a PhD from JNU, Tabrez has authored two books, hundreds of articles, and also translated many books from English and Hindi to Urdu. You can contact him at: @Tabrez_Alig