جب وہ بات کرتی ہیں، تو ان کی پیشانی پر گہری جھریاں دکھائی دینے لگتی ہیں، جو ان کے بیمار چہرے کے زرد رنگ کو مزید واضح کر دیتی ہیں۔ وہ جھک کر اور لنگڑاتی ہوئی چلتی ہیں اور ہر چند سو قدم چلنے کے بعد رک کر اکھڑی ہوئی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کے چہرے پر لٹکے ہوئے سفید ہوتے بال ہوا کے ہلکے جھونکے سے اڑنے لگتے ہیں۔
اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ اندراوتی جادھو ابھی صرف ۳۱ سال کی ہیں۔
مہاراشٹر میں ناگپور شہر کے باہری علاقے میں آباد ایک جھگی میں رہنے والی اندراوتی کرونک آبسٹرکٹیو پلمونری ڈیزیز (سی او پی ڈی) کی مریض ہیں اور اپنی اس بیماری کی خطرناک حالت میں پہنچ چکی ہیں۔ اس بیماری میں پھیپھڑوں میں ہوا کی آمد کم ہو جاتی ہے، سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے اور مریض کو مسلسل کھانسی کے دورے پڑتے ہیں۔ سینے میں پرانا بلغم جمع ہونے کی وجہ سے آخرکار یہ پھیپھڑوں کو خراب کر دیتا ہے۔ اسے عموماً ’سگریٹ نوشی کرنے والوں‘ کا مرض بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، کم اور اوسط آمدنی والے ممالک میں سی او پی ڈی کے ۳۰ سے ۴۰ فیصد معاملے سگریٹ نوشی کے متعلق ہوتے ہیں۔
اندراوتی نے زندگی میں کبھی سگریٹ یا بیڑی کو چھوا تک نہیں، لیکن ان کا بایاں پھیپھڑا بری طرح خراب ہو چکا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ گھریلو ہوا کی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ لکڑی یا کوئلے سے جلنے والے چولہے پر کھانا پکانا ہے۔
اندراوتی کے پاس کھانا پکانے کے لیے صاف ایندھن (جس سے گھر میں دھواں/آلودگی نہ پھیلتی ہو) کبھی نہیں رہا۔ وہ کہتی ہیں، ’’کھانا پکانے یا پانی گرم کرنے کے لیے ہم ہمیشہ لکڑی یا کوئلے سے جلنے والے کھلے چولہے کا ہی استعمال کرتے ہیں۔ چولیور جیوڑ بنوون ماجھی پھُپّوسا نیکامی جھالی آہیت [کھلے چولہے پر کھانا پکانے سے میرے پھیپھڑے بیکار ہو چکے ہیں]،‘‘ وہ ڈاکٹروں سے سنی بات کو ہی دہراتی ہیں۔ بائیوماس (نامیاتی ایندھن) سے جلنے والے چولہے سے اٹھنے والے دھوئیں نے ان کے پھیپھڑوں کو خراب کر دیا ہے۔
سال ۲۰۱۹ میں لینسٹ کے ایک مطالعہ کے ایک اندازہ کے مطابق، ہر سال تقریباً چھ لاکھ ہندوستانی ہوائی آلودگی کے سبب بے وقت موت کے شکار ہو جاتے ہیں، اور گھریلو ہوائی آلودگی پوری فضا کی ہوا کو آلودہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
چکھلی جھگی بستی کے پانگل محلہ میں اپنے ایک کمرے کی جھونپڑی کے باہر پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھیں اندراوتی کے چہرے پر صحت کے بارے میں بتاتے ہوئے تشویش کی لکیریں کھنچ جاتی ہیں۔
اگر وہ ٹھیک ہونا چاہتی ہیں، تو ان کو اپنی سرجری کرانی ہوگی، لیکن یہ جوکھم سے بھرا فیصلہ ہے۔ ان کے شوہر اکثر نشہ میں رہتے ہیں اور ہر ۱۵-۱۰ دنوں کے وقفہ پر ہی گھر میں نظر آتے ہیں۔
اندراوتی کو سب سے زیادہ فکر اپنے دو بچوں – کارتک (۱۳) اور انو (۱۲) – کی رہتی ہے۔ وہ لمبی سانس لیتی ہوئی کہتی ہیں، ’’میں نہیں جانتی میرے شوہر کیا کام کرتے ہیں، اور جب وہ گھر پر نہیں ہوتے، تو کہاں کھاتے اور سوتے ہیں۔ میرے اندر اب یہ دیکھنے کی بھی طاقت نہیں کہ میرے دونوں بچے اسکول جاتے ہیں یا نہیں۔ میں نے اس لیے بھی اپنی سرجری ٹال دی ہے کہ مجھے کچھ ہو گیا، تو میرے دونوں بچے پوری طرح سے یتیم ہو جائیں گے۔‘‘
اندرانی کچرا بیننے کا کام کرتی تھیں۔ وہ کوڑوں کے انبار سے دوبارہ استعمال میں آنے لائق چیزوں کو ری سائیکلنگ کے لیے اکٹھا کرتی تھیں اور انہیں فروخت کر کے مہینہ میں تقریباً ۲۵۰۰ روپے کما لیتی تھیں۔ سال بھر سے کچھ پہلے صحت میں گراوٹ آنے کے بعد وہ اس آمدنی سے بھی محروم ہو گئیں۔
وہ کہتی ہیں، ’’میں مالی طور پر گیس سیلنڈر کا خرچ اٹھانے کے قابل نہیں ہوں۔‘‘ عام طور پر استعمال میں آنے والی لیکویفائیڈ پٹرولیم گیس (ایل پی جی) کا گھریلو سیلنڈر بھروانے میں ۱۰۰۰ روپے کا خرچ آتا ہے۔ ’’اگر میں اپنی آدھی کمائی سیلنڈر بھروانے میں ہی خرچ کر دوں، تو اپنا گھر کیسے چلاؤں گی؟‘‘
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کی ۲۰۲۱ کی رپورٹ کے مطابق، ترقی پذیر ایشیائی ممالک دنیا کی کل آبادی کا ۶۰ فیصد حصہ ہیں، جنہیں اقتصادی اسباب سے کھانا پکانے کے صاف ایندھن تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
دوسرے لفظوں میں کہیں، تو ایشیا میں ۵ء۱ ارب لوگ بائیو ماس جلانے کی وجہ سے گھریلو ہوا میں موجود زہریلے اور آلودہ عناصر کے سیدھے رابطہ میں ہیں، اور اس وجہ سے سی او پی ڈی، پھیپھڑوں کے کینسر، تپ دق اور سانس سے متعلق دیگر مسائل کے آسان نشانے پر ہیں۔
*****
وسطی ہندوستان کے ناگپور شہر کے باہری علاقے میں آباد چکھلی جھگی بستی اس مسلسل بحران کا صرف ایک چھوٹا منظر پیش کرتی ہے۔ یہاں کی تقریباً سبھی عورتیں آنکھوں میں جلن اور بہتے پانی، سانس کی تکلیف اور کھانسی کی پریشانی کا لگاتار سامنا کر رہی ہیں۔
جھونپڑی اور سیمنٹ، ٹن کی چادروں اور اینٹوں کے بنے نیم پختہ کمروں کی اس بستی کے ہر گھر میں آپ کو ’سی‘ سائز میں رکھی کچھ اینٹیں نظر آ جائیں گی، جن کا استعمال ایک چولہے کے طور پر کیا جاتا ہے۔ باہر کھلے میں جلاون کے لیے کام آنے والی سوکھی لکڑیوں اور جھاڑیوں کا ڈھیر رکھا ہوتا ہے۔
سب سے مشکل کام ان چولہوں کو مٹی کے تیل اور ماچس کی مدد سے جلانا ہوتا ہے، کیوں کہ آگ کو اچھی طرح سے سلگانے کے لیے چولہے کو ایک پائپ کی مدد سے کچھ منٹوں تک لگاتار پھونکتے رہنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے صحت مند پھیپھڑے کی ضرورت پڑتی ہے۔
اندراوتی اب خود اپنا چولہا نہیں جلا پاتی ہیں۔ ان کے پھیپھڑوں میں اب اتنی طاقت نہیں بچی ہے کہ وہ پتلی پائپ میں تھوڑی دیر تک بھی پھونک مار سکیں۔ انہیں عوامی تقسیم کے نظام (پی ڈی ایس) کے تحت مفت میں راشن ملتا ہے۔ وہ ان ۸۰ کروڑ غریب ہندوستانیوں میں شامل ہیں جو اس اسکیم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بہرحال، کھانا پکانے کے لیے اندراوتی کو اپنے کسی پڑوسی کی مدد سے چولہا جلانا پڑتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’کئی بار میرے بھائی اپنے گھروں میں ہماری فیملی کے لیے بھی کھانا بنوا کر ہمیں دے دیتے ہیں۔‘‘
ایشیا میں ۵ء۱ ارب لوگ نامیاتی ایندھن جلانے کی وجہ سے گھریلو ہوا میں موجود زہریلے اور آلودہ عناصر کے سیدھے رابطہ میں ہیں، اور اس وجہ سے سی او پی ڈی، پھیپھڑوں کے کینسر، تپ دق اور سانس سے متعلق دیگر مسائل کے آسان نشانے پر ہیں۔
ناگپور شہر کے پلمونولوجسٹ ڈاکٹر سمیر اربت کہتے ہیں کہ چولہے کو پھونکنے کا عمل سی پی او ڈی اور دیگر سانس سے متعلق بیماریوں کی بنیادی وجہ ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’دراصل، زور سے پائپ میں پھونک مارنے کے فوراً بعد، پھر سے پھونک مارنے کے لیے منہ سے سانس کھینچتی پڑتی ہے۔ اس وجہ سے پائپ کے دوسرے سرے پر جمع سیاہی اور کاربن سانس کے ذریعے پھیپھڑے میں آسانی سے پہنچ جاتا ہے۔‘‘
ڈبلیو ایچ او نے ۲۰۰۴ میں ہی اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ ۲۰۳۰ تک سی او پی ڈی عالمی سطح پر موت کی تیسری سب سے بڑی وجہ بن جائے گا۔ لیکن، یہ بیماری ۲۰۱۹ میں ہی اس خطرناک عدد کو پار کر گئی۔
ڈاکٹر اربت کہتے ہیں، ’’ہوائی آلودگی کی شکل میں ہم پہلے سے ہی ایک وبائی مرض سے لڑ رہے ہیں۔ گزشتہ ۱۰ برسوں میں سامنے آئے سی او پی ڈی کے آدھے معاملے ان مریضوں سے متعلق ہیں جو سگریٹ نوشی نہیں کرتے۔ جھگیوں میں گھریلو آلودگی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے اور اس آلودگی کی وجہ کھانا پکانے کے لیے جلاون کی لکڑیوں کا استعمال ہے۔ ان تنگ جھگیوں میں بنے گھروں میں ہوا کے آنے جانے کا مناسب انتظام نہیں ہوتا ہے۔ اس کا سب سے برا اثر عورتوں پر پڑ رہا ہے، کیوں کہ فیملی کے لیے کھانا بنانے کی ذمہ داری ان کی ہی ہے۔‘‘
شکنتلا لونڈھے (۶۵)، جو بولنے سے قاصر ہیں، بتاتی ہیں کہ وہ دن میں دو سے تین گھنٹے چولہے پر کھانے پکانے میں گزارتی ہیں، اور انہیں اس سے نکلنے والے دھوئیں میں سانس لینی پڑتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے اپنے اور اپنے شوہر کے لیے دن میں دو بار کھانا بنانا پڑتا ہے۔ غسل کرنے کے لیے پانی گرم کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے پاس گیس کنکشن نہیں ہے۔‘‘
شکنتلا کے بیٹے کی موت لمبی بیماری کے بعد ۱۵ سال پہلے ہو گئی تھی۔ ان کی بہو اس کے کچھ دنوں بعد ہی گھر سے باہر نکلیں، اور دوبارہ نہیں لوٹیں۔
شکنتلا کا ۱۸ سالہ پوتا سُمِت ڈرم واشر (ڈرم کی صفائی کرنے والا) کے طور پر کام کرتا ہے اور ہفتہ میں ۱۸۰۰ روپے کماتا ہے۔ لیکن وہ اپنی دادی کو ایک پیسہ بھی نہیں دیتا۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب مجھے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، تب میں سڑکوں پر لوگوں سے بھیک مانگتی ہوں۔ ایسے میں گیس کنکشن کہاں سے لگواؤں۔‘‘
ان کے کچھ مددگار پڑوسی انہیں لکڑیوں کے چیرے ہوئے ٹکڑے جلاون میں استعمال کرنے کے لیے دے دیتے ہیں۔ وہ لکڑیاں ان پڑوسیوں کے ذریعے آس پڑوس کے گاؤوں سے سر پر لاد کر لائی گئی ہوتی ہیں اور انہیں لانے میں ایک گھنٹہ سے زیادہ کا وقت لگتا ہے۔
شکنتلا ہر بار جب چولہے کو سلگاتی ہیں، تو دھوئیں کی وجہ سے ان کا سر چکرانے لگتا ہے اور وہ غنودگی محسوس کرتی ہیں، لیکن انہوں نے کبھی بھی اس کے مستقل علاج کے بارے میں نہیں سوچا۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں ڈاکٹر کے پاس جاتی ہوں، وہ مجھے کچھ گولیاں دے دیتے ہیں، اور میں کچھ وقت کے لیے بہتر محسوس کرنے لگتی ہوں۔‘‘
اگست ۲۰۲۲ میں بچوں کے صاف ہوا میں سانس لینے کے حق کے لیے جدوجہد کرنے والی کل ہند تنظیم ’واریئر مامز‘، ناگپور کے ایک غیر منافع بخش ادارہ ’مرکز برائے پائیدار ترقی‘ اور ناگپور میونسپل کارپوریشن نے مشترکہ طور پر ایک سروے اور ہیلتھ کیمپ لگا کر چکھلی میں پیک ایکسپیریٹری فلو ریٹس (پی ایف آر) کی جانچ کی، جو پھیپھڑوں کی صحت اور حالت کو بتاتی ہے۔
جانچ میں ۳۵۰ یا اس سے زیادہ کا اسکور ایک صحت مند پھیپھڑے کو ظاہر کرتا ہے۔ چکھلی کی ۴۱ میں سے ۳۴ عورتوں کی جانچ کے بعد ان کا اسکور ۳۵۰ سے کم پایا گیا۔ ان میں گیارہ عورتیں تو ۲۰۰ ریٹس کی حد بھی پار نہیں کر پائیں۔ ظاہر ہے ، چکھلی کی عورتوں کے پھیپھڑوں کی حالت بہت اچھی نہیں تھی۔
شکنتلا کا اسکور صرف ۱۵۰ تھا، جو کہ اصولی اسکور کے نصف سے بھی کم ہے۔
اس سروے میں ناگپور شہر کی جھگی بستیوں کے ۱۵۰۰ کنبوں کو شامل کیا گیا تھا۔ ان جھگیوں میں رہنے والے ۴۳ فیصد کنبے لکڑی کی جلاون والے چولہے کا استعمال کرتے تھے۔ ان میں سے بہت سے کنبے ایسے تھے جو اپنے بچوں کو اس زہریلے دھوئیں سے بچانے کے لیے کھلے میں کھانا پکاتے تھے۔ ایسے میں ان چولہوں سے نکلے دھوئیں سے پوری بستی کی ہوا آلودہ ہوئی، کیوں کہ زیادہ تر جھونپڑیاں ایک دوسرے سے سٹی ہوئی ہیں۔
غریب ہندوستانیوں کی کھانا پکانے کے لیے صاف ایندھن تک رسائی کی کمی سے ماحولیاتی اور صحت سے متعلق مسائل سے نمٹنے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی نے مئی ۲۰۱۶ میں پردھان منتری اُجّولا یوجنا (پی ایم یو وائی) کی شروعات کی تھی، جس کے تحت خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے کنبوں کو ایل پی جی سیلنڈر دیے گئے تھے۔ پروجیکٹ کی ویب سائٹ کے مطابق، اسکیم کا مقصد ۸ کروڑ کنبوں کو کھانا پکانے کا صاف ایندھن مہیا کرانا تھا، اور اس ہدف کو ستمبر ۲۰۱۹ تک حاصل کیا جانا تھا۔
اس کے بعد بھی نیشنل فیملی ہیلتھ سروے۔۵ (۲۱-۲۰۱۹) میں یہ پایا گیا کہ ۴۱ فیصد سے زیادہ غریب ہندوستانی خاندانوں کے پاس اب بھی کھانا پکانے کے لیے صاف ایندھن کی کمی ہے۔
اس کے علاوہ، جن کے پاس یہ دستیاب ہیں وہ بھی ایل پی جی ایندھن کو پہلے متبادل کے طور پر نہیں استعمال کر رہے ہیں۔ مہاراشٹر میں ۲ء۱۴ کلو کے ایک سیلنڈر کی قیمت ۱۱۰۰ سے لے کر ۱۱۲۰ روپے کے درمیان ہے، اور ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق، پی ایم یو وائی اسکیم کے ۳۴ء۹ کروڑ مستفیدین میں سے کچھ فیصد لوگ ہی مالی طور پر اس سیلنڈر کو بھروانے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
چکھلی کی ۵۵ سالہ پاروَتی کاکڈے، جنہیں سرکاری اسکیم کے تحت ایل پی جی کنکشن ملا ہے، اس کی وجہ کو تفصیل سے سمجھاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اگر میں چولہے کا استعمال پوری طرح سے بند کر دوں، تو مجھے ہر مہینے ایک سیلنڈر کی ضرورت پڑے گی۔ میں یہ خرچ نہیں اٹھا سکتی۔ اس لیے میں اسے کھینچ کر تقریباً چھ مہینے تک چلانے کی کوشش کرتی ہوں، اور صرف تب ہی استعمال کرتی ہوں جب مہمان آ گئے ہوں یا موسلا دھار بارش ہو رہی ہو۔‘‘
مانسون کے دنوں میں بھیگی ہوئی جلاون کی لکڑیاں سلگانے کے لیے پائپ سے لمبے وقت تک پھونکے جانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جیسے ہی لکڑیاں سلگنے لگتی ہیں، ان کے پوتے اپنی آنکھیں مسلنے لگتے ہیں اور رونے لگتے ہیں۔ پاروتی سانس سے متعلق بیماریوں کے خطروں سے باخبر ہیں، لیکن ان کے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔
پاروتی کہتی ہیں، ’’اس معاملے میں، میں کچھ نہیں کر سکتی۔ ہم بمشکل دو وقت کی روٹی کا انتظام کر پانے والے لوگ ہیں۔‘‘
پاروتی کے داماد بلی رام (۳۵) فیملی کے اکیلے کمانے والے رکن ہیں۔ کچرا چن کر وہ مہینہ میں بہت مشکل سے ۲۵۰۰ روپے ہی کما پاتے ہیں۔ فیملی کا کھانا پکانے کے لیے عموماً لکڑی کے چولہے کا استعمال ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کی پوری فیملی بھی استھما (دمہ)، کمزور پھیپھڑے، قوت مزاحمت کے نقصان اور سانس کے انفیکشن جیسی بیماریوں کو دعوت دے رہی ہے۔
ڈاکٹر اربت کہتے ہیں، ’’پھیپھڑے کی کوئی بھی پرانی بیماری آخرکار پٹھوں کی کمزوری اور ان کے خراب ہونے کا سبب بنتی ہے۔ وقت سے پہلے بڑھاپا آ جانے کی یہ ایک بڑی وجہ ہے۔ مریضوں کا بدن سکڑنے لگتا ہے…سانس لینے میں دقت ہونے کے سبب وہ گھر سے باہر نکلنا کم پسند کرتے ہیں۔ ان وجوہات سے ان میں خود اعتمادی کی کمی اور افسردگی جیسی علامتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر اربت کا یہ تبصرہ اندراوتی کی حالت کی بالکل صحیح ترجمانی کرتا ہے۔
ان کی گفتگو کے لہجہ میں ایک غیر یقینی کی کیفیت دکھائی دیتی ہے اور وہ کسی سے بھی آنکھیں ملا کر بات کرنے سے کتراتی ہیں۔ ان کے بھائی اور بھابھیاں ریاست سے باہر کسی شادی کی تقریب میں شامل ہونے کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ لیکن انہوں نے خود یہیں رکنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ دوسروں کو ان کی دیکھ بھال میں نہ لگے رہنا پڑے۔ ’’کسی نے بھی مجھ سے براہ راست تو کچھ نہیں کہا، لیکن کوئی میرے جیسے کسی انسان کے لیے ٹکٹ پر پیسے کیوں برباد کرے گا؟‘‘ یہ سوال کرتے ہوئے ان کے چہرے پر ایک اداس سی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ ’’میں کسی کام کی نہیں ہوں۔‘‘
پارتھ ایم این ایک آزاد صحافی ہیں جو ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن کے گرانٹ کے ذریعہ صحت عامہ اور شہری آزادی کے موضوعات پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورٹ کے مواد پر کسی طرح کا ادارتی کنٹرول استعمال نہیں کیا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز