’’میں جب ان بڑے بڑے دختوں کو ٹوٹا اور جڑ سے اکھڑا ہوا دیکھتا ہوں، تو مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنے بچے کھو دیے ہیں،‘‘ ایک ۴۰ سالہ مالی، مدن بیدیہ کہتے ہیں۔ ’’میں زندگی بھر انہی پیڑ پودوں کے ساتھ رہا ہوں،‘‘ یہ بتاتے ہوئے، وہ آس پاس ہوئی بربادی کے سبب واضح طور پر غمگین نظر آ رہے ہیں۔ ’’یہ صرف درخت نہیں تھے، بلکہ بہت سی چڑیوں اور تتلیوں کے گھر بھی تھے۔ یہ ہمیں دھوپ میں سایہ دیتے تھے اور بارش میں چھاتا بن جاتے تھے۔‘‘ بیدیہ کی نرسری کولکاتا کے مشرقی میونسپل بائی پاس پر شہید اسمرتی کالونی، جہاں ان کی رہائش گاہ ہے، کے پاس ہے اور اس کو بھی بھاری نقصان پہنچا ہے۔
کولکاتا میونسپل کارپوریشن کا اندازہ ہے کہ امفن نے ۲۰ مئی کو شہر کے تقریباً ۵۰۰۰ بڑے درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر چاروں طرف پھیلا دیا۔ امفن، جسے ’انتہائی خطرناک سمندری طوفان‘ کی زمرہ میں رکھا گیا ہے، ۱۴۰-۱۵۰ کلومیٹر کی ہوا کی رفتار اور ۱۶۵ کلومیٹر کے جھونکے کے ساتھ مغربی بنگال کے ساحلی علاقوں سے ٹکرایا تھا۔ ہندوستانی محکمہ موسمیات، علی پور کا کہنا ہے کہ یہ طوفان صرف ۲۴ گھنٹے میں ۲۳۶ ملی میٹر بارش لے کر آیا تھا۔
امفن نے دیہی علاقوں میں، خاص طور سے سندر بن جیسے علاقوں میں جو تباہی مچائی ہے، اس وقت اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ کولکاتا کے ساتھ ساتھ جنوبی اور شمالی ۲۴ پرگنہ میں بھی بہت بربادی ہوئی ہے۔ ریاست بھر میں مرنے والوں کی تعداد کم از کم ۸۰ سے اوپر ہے، جس میں کولکاتا کے ۱۹ لوگ بھی شامل ہیں۔
ابھی بھی کئی علاقے پہنچ سے باہر ہیں، اور ٹرانسپورٹ نیٹ ورک اور سڑک کے راستوں کو جو نقصان پہنچا ہے، وہ کووڈ- ۱۹ کے دوران لگے لاک ڈاؤن کے ساتھ مل کر اور بھی خطرناک ہو گیا ہے – جس سے ان علاقوں تک پہنچنا ناممکن ہو گیا ہے۔ لیکن، لاک ڈاؤن سے پیدا ہوئی پیچیدگیاں ان سب سے کہیں زیادہ ہیں۔ مرمت کے کام کرنا انتہائی مشکل ہے، کیوں کہ جو مزدور یہ کام کرتے، لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ لوگ پہلے ہی اس شہر کو چھوڑ کر مغربی بنگال اور دوسری ریاستوں میں واقع اپنے گاؤوں واپس لوٹ چکے ہیں۔
کولکاتا کی تاریخی کالج اسٹریٹ – جس کا نام یہاں واقع کئی سارے کالجوں اور تعلیمی اداروں کی وجہ سے پڑا ہے – پر اگلی صبح گرے ہوئے درختوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں کتابیں اور صفحات پانی میں تیر رہے تھے۔ بوئی پاڑہ کے نام سے مشہور، یہاں پر ہندوستان کا سب سے بڑا کتابوں کا بازار ہے، جو تقریباً ۱ء۵ کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ عام طور پر پوری طرح بھری ہوئی چھوٹی چھوٹی کتابوں کی دکانوں میں پیچھے کی دیواروں بھی کتابوں سے بھری رہتی ہیں۔ اب یہ دیواریں نظر آنے لگی ہیں – اور کئی ساری دیواریں بری رح سے ٹوٹ چکی ہیں۔ اخباروں میں شائع خبروں کے مطابق، اس طوفان نے تقریباً ۵۰-۶۰ لاک روپے کی کتابوں کا نقصان کیا ہے۔
اس سڑک پر واقع کئی ساری چھوٹی دکانوں اور ٹن کی چھتوں والی دکانیں برباد ہو گئی تھیں اور دوسری جگہوں پر کئی سارے گھر ڈھے گئے تھے، مواصلاتی نظام کام نہیں کر رہے تھے اور بجلی کے کھمبے پانی سے بھڑی سڑکوں پر ٹوٹ کر گر گئے تھے، جس سے لوگوں کی کرنٹ لگنے سے موت ہو رہی تھی۔ حالانکہ، شہر کا واحد بجلی سپلائر، کلکتہ الیکٹرک سپلائی کارپوریشن بنا رکے شہر میں بجلی بحالی کے لیے کام کر رہا ہے، لیکن ابھی بھی کچھ علاقوں میں بجلی آنا باقی ہے۔ پھر بھی، جہاں زیادہ تر علاقے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ہیں، وہیں بجلی اور پانی کی قلت کی وجہ سے احتجاجی مظاہرے بھی ہونے لگے ہیں۔
’’موبائل کنیکشن بھی کل شام کو ہی بحال ہوا ہے،‘‘ ۳۵ سالہ سوما داس، جو جنوبی کولکاتا کے نریندر پور علاقے میں ایک باورچی ہیں، بتاتی ہیں۔ ’’ہم اس کا کیا کریں جب ہم فون بھی چارج نہیں کر سکتے؟ ہم نے اس دن بارش کا پانی جمع کیا تھا۔ اب ہم اسی پانی کو ابال کر پی رہے ہیں۔ ہمارے علاقے کی ساری پانی کی لائنیں آلودہ ہیں۔‘‘
چونکہ ان کے ۳۸ سالہ شوہر ستیہ جیت مونڈل، جو کہ ایک مستری ہیں، کووڈ- ۱۹ لاک ڈاؤن کے سبب پہلے سے ہی کچھ کام نہیں کر رہے تھے اور مشکل سے ہی کچھ روپے آ رہے تھے، ایسے میں سوما کو نہیں معلوم کہ وہ اپنی ۱۴ سالہ بیٹی اور اپنی بیمار ماں کو کھانا کیسے کھلا پائیں گی۔ وہ جن چار گھروں میں کام کرتی ہیں، ان میں سے صرف دو ہی گھروں سے انہیں لاک ڈاؤن کے دوران تنخواہ ملی ہے۔
شہید اسمرتی کالونی میں، اکھڑے ہوئے درختوں کا سروے کرتے ہوئے بیدیہ بتاتے ہیں، ’’یہ سب ہماری غلطی ہے۔ شہر میں مشکل سے ہی کہیں مٹی بچی ہے۔ سب جگہ بس کنکریٹ ہے۔ جڑیں کیسے بچیں گی؟‘‘
مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز