وردھا ضلع کے ۲۳ سالہ ڈیئری کسان، پرفل کالوکر کہتے ہیں، ’’میں نہیں جانتا‘‘ کہ کورونا وائرس ان کے گاؤں تک پہنچے گا یا نہیں۔ ’’لیکن اس کے اقتصادی اثرات یہاں پہلے سے ہی نظر آنے لگے ہیں۔‘‘
۲۵ مارچ کو کووڈ- ۱۹ شروع ہونے کے بعد سے، پرفل کے گاؤں چندانی میں دودھ کا یومیہ ذخیرہ ۵۰۰ لیٹر سے نیچے گر کر صفر پر آ گیا ہے، وہ بتاتے ہیں... آروی تعلقہ کے اس گاؤں میں تقریباً ۵۲۰ لوگ رہتے ہیں، اور زیادہ تر کنبوں کا تعلق نند گَولی برادری سے ہے۔
نند گولیوں کا تعلق نیم مویشی پرور برادری سے ہے، جو وردھا ضلع میں بور ٹائیگر ریزرو کے ارد گرد ۴۰-۵۰ گاؤوں میں رہتے ہیں۔ انہیں گَوَلی بھی کہا جاتا ہے، جو روایتی طور پر دیسی نسل کی گَولاؤ گائے پالتے ہیں اور وردھا میں گائے کا دودھ، دہی، مکھن، گھی اور کھووا کے بنیادی سپلائر ہیں۔ ’’نند گولیوں نے دودھ کی فروخت میں کم از کم ۲۵ ہزار لیٹر کی گراوٹ دیکھی ہے،‘‘ کالوکر، لاک ڈاؤن کے پہلے ۱۵ دنوں کے اندر وردھا میں اس برادری کو ہوئے نقصان کا اندازہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں۔
دودھ اور دودھ سے بننے والی اشیاء – سبھی خراب ہونے والی چیزوں – کی مانگ میں بھاری گراوٹ نے ڈیئری کے شعبہ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ دودھ کا استعمال صرف گھروں میں ہی کم نہیں ہوا ہے، بلکہ ہوٹلوں، ڈھابوں اور مٹھائی کی دکانوں کے بند ہو جانے سے بھی ڈیئری مصنوعات کی مانگ میں بھاری گراوٹ آئی ہے۔ نیشنل ڈیئری ڈیولپمنٹ بورڈ کی معاون کمپنی، مدر ڈیئری سمیت بڑی ڈیئریوں نے بھی دودھ خریدنا بند کر دیا ہے۔
کالوکر کہتے ہیں کہ اقتصادی نقصان شاید طویل عرصے تک بنا رہے گا – ان کا اندازہ ہے کہ اس شعبہ کی لمبی سپلائی کڑیوں میں شامل ہر ایک کی یومیہ آمدنی ہزاروں روپے ہے۔ پرفل اپنی نند گولی برادری میں واحد پی ایچ ڈی امیدوار ہیں، جو ناگپور یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے کے لیے وردھا کی کپاس پر مبنی اقتصادیات پر تحقیق کر رہے ہیں۔
ڈیئری شعبہ ہزاروں چھوٹے اور دودھ کا کاروبار کرنے والے غریب کسانوں، روایتی طور پر مویشی رکھنے والوں اور نند گولیوں جیسے مویشی پروروں کا ذریعہ معاش ہے۔ ان میں سے کئی طویل عرصے سے مشرقی مہاراشٹر کے ودربھ علاقے میں زرعی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ اب ان کا مستقبل مزید غیر یقینی ہونے والا ہے، جب ان میں سے کچھ لوگ اپنا واحد ذریعہ معاش کھو دیں گے۔
ان کا یہ مسئلہ دودھ کی فروخت میں گراوٹ سے بھی آگے تک پھیلا ہوا ہے۔ ’’ہمارے لیے اپنے جانوروں کا دودھ نکالنا ضروری ہے، ورنہ ان کے اندر تھکّے بننے لگیں گے اور وہ آئندہ دودھ نہیں دے پائیں گے،‘‘ پرفل کے چچا، پشپ راج کالوکر کہتے ہیں۔ ’’لیکن اتنے دودھ کا ہم کیا کریں؟ ہم کھووا یا مکھن نہیں بنا سکتے کیوں کہ بازار بند ہیں۔‘‘
لاک ڈاؤن کے دوران باقی بچے دودھ کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے، اور چونکہ زیادہ تر نجی گاہکوں نے اپنے ذریعے خریدے جانے والی دودھ کی مقدار کم کر دی ہے، اس لیے مہاراشٹر کی مہا وکاس آگھاڑی سرکار نے ۳۰ مارچ کو ریاست میں کوآپریٹو ڈیئریوں کی تنظیم، مہانند کے توسط سے ان کسانوں سے دودھ خریدنے کا فیصلہ کیا۔
سرکار کا منصوبہ ہے کہ تین مہینے – اپریل سے جون ۲۰۲۰ تک – روزانہ ۱۰ لاکھ لیٹر گائے کا دودھ خریدا جائے اور اس سے دودھ کا پاؤڈر بنایا جائے۔ مہانند کے توسط سے مہاراشٹر میں خرید ۴ اپریل کو شروع ہوئی۔ ریاست کے مویشی پروری کے وزیر سنیل کیدار نے پاری کو بتایا، ’’ہم نے اس ناگہانی اخراجات کے لیے ۱۸۷ کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ اگر مرکزی حکومت تعاون کرتی ہے، تو ہم دودھ کی خرید میں اضافہ کر سکتے ہیں۔‘‘
مہانند کے علاوہ، کئی بڑی کوآپریٹو ڈیئریوں جیسے گوکل اور وارنا نے بھی دودھ کی خرید میں اضافہ کیا ہے – جن میں سے کچھ کو پروسیس کرکے پاؤڈر بنایا جائے گا – تاکہ ڈیئری کسانوں کو نقصان نہ ہو۔ حالانکہ، جو ڈیئری کسان مہانند سے جڑے ہوئے نہیں ہیں، ان کے لیے یہ مسئلہ ابھی بھی بنا ہوا ہے، جیسے کہ وردھا کے نند گولی، کیوں کہ اس ضلع میں مہانند کا کوئی آپریشن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، نند گولی کبھی کوآپریٹو ڈیئریوں یا بڑی پرائیویٹ ڈیئریوں کے رکن نہیں رہے ہیں؛ وہ عام طور پر خوردہ بازاروں میں دودھ بیچتے ہیں، جو اب بند ہیں۔
شمالی اور مغربی مہاراشٹر کے برعکس، مشرقی مہاراشٹر کا ودربھ علاقہ دودھ کی پیداوار کا مرکز نہیں ہے۔ لیکن یہ علاقہ کئی مویشی پروروں کا گھر ہے، ان میں سے زیادہ تر مویشی پرور ہیں جن کا بنیادی ذریعہ معاش ڈیئری ہے۔
ان میں سے ایک، خانہ بدوش قبیلہ کے طور پر درج فہرست، نند گولی ہیں جو وردھا کے میدانی علاقوں میں رہتے ہیں اور امراوتی ضلع کے میلگھاٹ کی پہاڑیوں میں بھی آباد ہیں۔ پھر بھرواڑ ہیں، جو آبائی طور سے گجرات کے کچھ علاقے سے ہیں؛ گڑھ چرولی ضلع کے گولکر، جو بھینس پالتے ہیں؛ اور گوواری ہیں، جو پورے ودربھ میں پھیلے گاؤوں میں مویشی پروری کرتے ہیں۔ متھرا لمہان، جو زیادہ تر یوتمال ضلع کے عمرکھیڑ تعلقہ تک ہی محدود ہیں، عمرڈا نسل کو پالتے ہیں، جو اپنے طاقتور بیلوں کے لیے مشہور ہے۔
اکولا، بلڈانہ اور واشم ضلعوں میں بھیڑ بکریوں کو پالنے والی دھنگر برادری، اور چندرپور اور گڑھ چرولی ضلعے کے کُرمار، جو تہذیبی طور پر کرناٹک کے کروبا جیسے ہیں، وہ بھی ودربھ میں اپنے مویشیوں کو چراتے ہیں۔ کچھ مویشی پرور نیم خانہ بدوش ہیں، اور وہ اپنے مویشیوں کو چرانے کے لیے گھاس کے میدانوں اور جنگلات پر منحصر ہیں۔
۲۰۱۱ کے بعد سے، جب بور ٹائیگر ریزرو کے ارد گرد کے جنگلاتی علاقوں میں مویشیوں کے چرانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، ودربھ کی مویشی پرور برادریاں چراگاہوں اور فصل کے باقی حصوں پر منحصر رہنے لگے، سجل کلکرنی بتاتے ہیں۔ وہ ریویٹلائزنگ رین فیڈ ایگریکلچر نیٹ ورک کے ناگپور میں مقیم ایک فیلو ہیں، جو مویشی پروری کا مطالعہ کر رہے ہیں اور ودربھ کے مویشی پروروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔
لاک ڈاؤن کے دوران چارے کی دستیابی اور سپلائی میں بھی رخنہ پڑا ہے۔ کچھ نند گولی اپنے مویشیوں کے ساتھ ۳۰-۴۰ کلومیٹر دور کے گاؤوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ گھاس کے میدان یا کھیتوں میں ربیع کی فصلوں کے باقی حصے تلاش کرنے کے لیے لاک ڈاؤن سے پہلے نکلے تھے۔
لاک ڈاؤن کے دوران چارے کی دستیابی اور سپلائی میں بھی رخنہ پڑا ہے۔ کچھ نند گولی اپنے مویشیوں کے ساتھ ۳۰-۴۰ کلومیٹر دور کے گاؤوں میں پھنسے ہوئے ہیں
’’ان کی آمدنی – دودھ یا گوشت سے – کافی حد تک مقامی بازاروں اور انفرادی خریداروں پر منحصر ہوتی ہے،‘‘ کلکرنی بتاتے ہیں۔ ’’ان برادریوں کے لوگوں کو دودھ بیچنے یا مویشیوں کا چارہ خریدنے کے لیے گاؤوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔‘‘
بری طرح متاثر ہونے والوں میں گیر گائے پالنے والے بھرواڑ بھی ہیں جن کی بستیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ ’’یہ ہمارے لیے بہت مشکل دور ہے،‘‘ رام جی بھائی جوگرانا، ایک کمیونٹی لیڈر، مجھے فون پر بتاتے ہیں۔ ’’میں اپنے مویشیوں کے ساتھ جنگل میں رہ رہا ہوں،‘‘ وہ جھاڑی دار جنگلوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں جہاں ان کے ریوڑ چرتے ہیں۔
جوگرانا اور ۲۰ بھرواڑ کنبوں کا ایک گروہ ناگپور شہر سے تقریباً ۴۵ کلومیٹر دور، سون کھامب گاؤں کے باہری علاقے میں واقع بستی میں رہتا ہے۔ رام جی بھائی کا اندازہ ہے کہ وہ ایک ساتھ، روزانہ ۳۵۰۰ لیٹر دودھ کی پیداوار کرتے ہیں۔ بھرواڑوں کے پاس روایتی طور پر اپنی زمین نہیں ہے، نہ ہی ان کے پاس آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران، یہ لوگ گاؤوں والوں کو دودھ مفت میں تقسیم کرتے رہے ہیں۔ لیکن انہیں باقی بچے دودھ کو یا تو پھینکنے کے لیے مجبور کر دیا گیا ہے یا بچھڑوں کو پلانے کے لیے۔ ’’کسی بھی ڈیئری، یا خوردہ دکانوں، یا مٹھائی کی دکانوں سے کوئی خرید نہیں ہو رہی ہے،‘‘ رام جی بھائی کہتے ہیں۔
وہ اپنی برادری میں زمین کا ایک ٹکڑا خرید کر اس پر اپنا گھر بنانے والے پہلے شخص تھے۔ وہ اپنے گاؤں کی مدر ڈیئری اکائی کو دودھ سپلائی کرتے ہیں، اور ناگپور کے گاہکوں کو بھی براہ راست دودھ بیچتے ہیں۔ ’’اس میں کوئی رخنہ نہیں پڑا ہے، لیکن یہ ہماری فروخت کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
’’ہم دنشا اور ہلدی رام کی پرائیویٹ ڈیئریوں، اور [ناگپور میں اور اس کے آس پاس] خوردہ فروشوں جیسے ہوٹلوں، چائے بیچنے والوں اور مٹھائی کی دکانوں کو دودھ سپلائی کرتے ہیں،‘‘ رام جی بھائی کہتے ہیں۔
رام جی بھائی کا اندازہ ہے کہ اکیلے ناگپور ضلع میں بھرواڑوں کی تقریباً ۶۰ بستیاں ہیں۔ ’’ایک ساتھ، ہم تقریباً ۲۰ ہزار گایوں سے روزانہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ لیٹر دودھ کی سپلائی کرتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’آج یہ صفر ہے۔‘‘
ایک لیٹر گائے کے دودھ سے برادری کو ۳۰-۴۰ روپے ملتے ہیں، جو دودھ کے معیار پر منحصر ہے۔ برادری کا نقصان صرف قلیل مدتی پیسے کا نہیں ہے – یہ ایک طویل مدتی بحران بھی ہے کیوں کہ دودھ دینے والی کئی گائیں دودھ کی پیداوار نہیں کرنے سے ’سوکھ‘ ہو جائیں گی، وہ کہتے ہیں۔
’’چارے کی سپلائی بھی کافی کم ہو گئی ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ کب بحال ہوگی،‘‘ رام جی بھائی کہتے ہیں۔ دودھ کی معیاری پیداوار کے لیے سبز گھاس کے علاوہ جانوروں کو مختلف قسم کے تغذئی کھانے کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جیسے کہ کھَلی۔
رام جی بھائی نے ہمیں بھرواڑ برادری کے ارکان کے ذریعے ڈبوں میں بھرے دودھ کو سڑکوں پر اور نہر میں بہاتے ہوئے حالیہ ویڈیو ( پاری کے ذریعے غیر تصدیق شدہ) دکھائے۔ ’’مجھے مختلف بستیوں میں رہنے والی برادریوں کے لوگوں سے روزانہ اس قسم کے ویڈیو موصول ہو رہے ہیں۔‘‘
برادری کا نقصان صرف قلیل مدتی پیسے کا نہیں ہے – یہ ایک طویل مدتی بحران بھی ہے کیوں کہ دودھ دینے والی کئی گائیں دودھ کی پیداوار نہیں کرنے سے ’سوکھ‘ ہو جائیں گی
ایک ویڈیو میں، شمالی مہاراشٹر کے دھُلے ضلع کے دونڈائیچا-وروَڑے قصبہ کے باہری علاقے میں ایک ڈیئری کسان لاک ڈاؤن میں ہونے والے ناگہانی مالی خسارہ کی بات کر رہا ہے، کیوں کہ اس کا ڈیئری کاروبار بند ہونے کی حالت میں آ گیا ہے۔
دیگر کو اپنے مہاجرتی راستوں میں مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ’’ہم نے اس سال مہاجرت نہیں کرنے کا فیصلہ کیا،‘‘ ۲۰ سالہ راہل مافا جوگرانا کہتے ہیں۔ لیکن انہوں نے جہاں ناگپور ضلع کے تحصیل شہر، کلمیشور میں ہی ٹھہرنے کا فیصلہ کیا، وہیں ان کا چھوٹا بھائی گنیش ناگپور سے تقریباً ۶۰ کلومیٹر دور، رام ٹیک میں چارہ اور پانی کی تلاش میں اپنی گایوں کے ساتھ چل رہا ہے۔
گنیش گایوں کو کھلانے کے لیے گوبھی سے بھرا ایک ٹریکٹر لانے میں کامیاب رہے کیوں کہ گاؤوں میں کسان، جانوروں کو اپنے کھیتوں میں چرنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ مارچ کے وسط میں، انہوں نے بھوسا جمع کر لیا تھا، جو لاک ڈاؤن کے بعد کچھ ہفتے تک چلا۔ اب، دودھ والی گاڑی کا ایک ڈرائیور رام ٹیک کے آس پاس، جہاں گنیش مویشیوں کے ساتھ رکتے ہیں، وہاں بازار سے مویشیوں کے لیے چارے لاتا ہے۔
۲۳ سالہ بھرواڑ، وکرم جوگرانا بھی اپنے مویشیوں کے ساتھ باہر ہیں۔ ہم جب ان سے بات کی تھی، تو وہ شمالی ناگپور ضلع کے پارسیونی علاقے میں تھے، جہاں گاؤں والے انہیں اپنے کھیتوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ عام طور پر وہ اجازت دے دیتے تھے، ان کے طویل، ہم زیستانہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ’’گائے کا گوبر کھیتوں کے لیے کھاد ہوتا ہے، جب کہ ہماری گائیں ان کے کھیتوں پر خشک ڈنٹھل کھاتی ہیں۔‘‘
وکرم کلمیشور میں اپنی فیملی کے لگاتار رابطہ میں نہیں رہ پائے کیوں کہ وہ اپنے موبائل فون کو اکثر چارج نہیں کر سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ ہمارے لیے سب سے مشکل دور ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز